(سوال نمبر ١٣٦)
طلاق، طلاق، طلاق ۔
سوال ۔اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی كو طلاق دیا، دوں تین لوگوں کے بیچ میں کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق طلاق جب لوگ آتے ہیں تو وہ انکار کرتا ہے، اب وہ اپنی بیوی کو اپنے گھر پہلے کی طرح ہی رکھ رہا ہے، تو ایسی صورت حال میں اسکے گھر دعوت میں جانا کیسا ہے اور جو مسلمان بھائی جائیں گے دعوت میں اُن پر کیا حُکم نافذ ہوگا۔؟
سائل:- محمد وسیم ضلع لکھیم پور کا رہنے والا ہوں یوپی ہندوستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
الجواب بعونه تعالى عز وجل.
صورت مستفسره میں ،
میں تجھے طلاق دیتا ہوں، طلاق طلاق طلاق،اگر زید نے عام حالت میں بقائم ہوش و حواس مذکورہ الفاظ بولا ہے، دو تین لوگوں کے سامنے اب اگر زید اپنے قول سے منکر ہے تو زید کی بات قابل قبول نہیں ہو گی ،پس ان الفاظ سے زید کی زوجہ پر تین طلاق واقع ہو چکی ہے، اور وہ زید پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، اب رجوع جائز نہیں، بدون حلالہ، اب میاں بیوی جیسا تعلق قائم رکھنا حرام ہے، نکاح بھی حرام ہے ۔عدت کے بعد، عورت کہیں اور نکاح کریں، بعد النکاح حقوق زوجیت کی ادائیگی کے بعد شوہر ثانی طلاق دے دے ،یا اس کا انتقال ہو جائے، تو عدت مکمل ہونے کے بعد شوہر اول سے شرعی گواہوں کے حاضری میں جدید مہر کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں ۔اگر زید ایسا نہ کریں تو سب مسلمان ان دونوں سے قطع تعلق کرلے۔انھیں بائیکاٹ کریں کہ دونوں کو گناہ کبیرہ سے بچایا جائے، ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیں ان کے گھر دعوت نہ کھا ئیں ۔جو لوگ جان بوجھ کر ان دونوں سے تعلق رکھیں گے وہ سب عاصم ہوں گے، کہ ان دونوں کے لئے یہی تعذیر ہے، (فتاوی فیض الرسول ج ٢ ص ١٠١ )
جیسا کہ حدیث پاک میں ہے
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ قَالَ : " لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ ". (الصحيح البخاري رقم الحديث ٥٢٦١،كتاب الطلاق )
فتاویٰ شامی میں ہے
كرر لفظ الطلاق وقع الكل،الدر المختار وحاشية ابن (عابدين (رد المحتار) - 1575/4257 البرقي )
کما فی الفتاوی الہندیہ
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير (الفتاوى الهندية البرقیہ )
فإذا طلقها ثلاثا كانت البينونة كبرى، ولم يحل له العود إليها حتى تنقضي عدتها وتتزوج من غيره، ويدخل بها، ثم تبين منه بموت أو فرقة، وتنقضي عدتها، فإن حصل ذلك حل له العود إليها بعقد جديد (1) ، وذلك لقوله سبحانه: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره فإن طلقها فلا جناح عليهما أن يتراجعا إن ظنا أن يقيما حدود الله وتلك حدود الله يبينها لقوم يعلمون} (2) .
البينونة الكبرى والصغرى:
38 - البينونة عند إطلاقها تنصرف(1) ابن عابدين 3 / 293، والدسوقي 2 / 385، ومغني المحتاج 3 / 396، والمغني 7 / 417.( 2) الآية / 230 من سورة البقرة.الموسوعة الفقهية - 18087/31949
المطلقة ثلاثا (المبتوتة أو البائن بينونة كبرى) بالنسبة لمن طلقها: فمن طلق زوجته ثلاث طلقات، فلا يحل له أن يعقد عليها مرة أخرى، إلا إذا تزوجت بزوج آخر ودخل بها، وانقضت عدتها منه، بأن طلقها باختياره أو مات عنها، فتعود إلى الزوج الأول بزوجية جديدة، ويملك عليها ثلاث طلقات جديدة.
رواه أبو داود عن سهل بن سعد، وروى الدارقطني ذلك عن سهل بن سعد وابن عباس وعلي وابن مسعود (نيل الأوطار: 271/ 6)(الفقه الإسلامي و أدلته - 6423/7722)
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم ،البرقي دار الإفتاء سني شرعي بورڈ آف نیپال ۔۔
٢٦/٩/٢٠٢٠
طلاق، طلاق، طلاق ۔
سوال ۔اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی كو طلاق دیا، دوں تین لوگوں کے بیچ میں کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق طلاق جب لوگ آتے ہیں تو وہ انکار کرتا ہے، اب وہ اپنی بیوی کو اپنے گھر پہلے کی طرح ہی رکھ رہا ہے، تو ایسی صورت حال میں اسکے گھر دعوت میں جانا کیسا ہے اور جو مسلمان بھائی جائیں گے دعوت میں اُن پر کیا حُکم نافذ ہوگا۔؟
سائل:- محمد وسیم ضلع لکھیم پور کا رہنے والا ہوں یوپی ہندوستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
الجواب بعونه تعالى عز وجل.
صورت مستفسره میں ،
میں تجھے طلاق دیتا ہوں، طلاق طلاق طلاق،اگر زید نے عام حالت میں بقائم ہوش و حواس مذکورہ الفاظ بولا ہے، دو تین لوگوں کے سامنے اب اگر زید اپنے قول سے منکر ہے تو زید کی بات قابل قبول نہیں ہو گی ،پس ان الفاظ سے زید کی زوجہ پر تین طلاق واقع ہو چکی ہے، اور وہ زید پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، اب رجوع جائز نہیں، بدون حلالہ، اب میاں بیوی جیسا تعلق قائم رکھنا حرام ہے، نکاح بھی حرام ہے ۔عدت کے بعد، عورت کہیں اور نکاح کریں، بعد النکاح حقوق زوجیت کی ادائیگی کے بعد شوہر ثانی طلاق دے دے ،یا اس کا انتقال ہو جائے، تو عدت مکمل ہونے کے بعد شوہر اول سے شرعی گواہوں کے حاضری میں جدید مہر کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں ۔اگر زید ایسا نہ کریں تو سب مسلمان ان دونوں سے قطع تعلق کرلے۔انھیں بائیکاٹ کریں کہ دونوں کو گناہ کبیرہ سے بچایا جائے، ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیں ان کے گھر دعوت نہ کھا ئیں ۔جو لوگ جان بوجھ کر ان دونوں سے تعلق رکھیں گے وہ سب عاصم ہوں گے، کہ ان دونوں کے لئے یہی تعذیر ہے، (فتاوی فیض الرسول ج ٢ ص ١٠١ )
جیسا کہ حدیث پاک میں ہے
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ قَالَ : " لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ ". (الصحيح البخاري رقم الحديث ٥٢٦١،كتاب الطلاق )
فتاویٰ شامی میں ہے
كرر لفظ الطلاق وقع الكل،الدر المختار وحاشية ابن (عابدين (رد المحتار) - 1575/4257 البرقي )
کما فی الفتاوی الہندیہ
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير (الفتاوى الهندية البرقیہ )
فإذا طلقها ثلاثا كانت البينونة كبرى، ولم يحل له العود إليها حتى تنقضي عدتها وتتزوج من غيره، ويدخل بها، ثم تبين منه بموت أو فرقة، وتنقضي عدتها، فإن حصل ذلك حل له العود إليها بعقد جديد (1) ، وذلك لقوله سبحانه: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره فإن طلقها فلا جناح عليهما أن يتراجعا إن ظنا أن يقيما حدود الله وتلك حدود الله يبينها لقوم يعلمون} (2) .
البينونة الكبرى والصغرى:
38 - البينونة عند إطلاقها تنصرف(1) ابن عابدين 3 / 293، والدسوقي 2 / 385، ومغني المحتاج 3 / 396، والمغني 7 / 417.( 2) الآية / 230 من سورة البقرة.الموسوعة الفقهية - 18087/31949
المطلقة ثلاثا (المبتوتة أو البائن بينونة كبرى) بالنسبة لمن طلقها: فمن طلق زوجته ثلاث طلقات، فلا يحل له أن يعقد عليها مرة أخرى، إلا إذا تزوجت بزوج آخر ودخل بها، وانقضت عدتها منه، بأن طلقها باختياره أو مات عنها، فتعود إلى الزوج الأول بزوجية جديدة، ويملك عليها ثلاث طلقات جديدة.
رواه أبو داود عن سهل بن سعد، وروى الدارقطني ذلك عن سهل بن سعد وابن عباس وعلي وابن مسعود (نيل الأوطار: 271/ 6)(الفقه الإسلامي و أدلته - 6423/7722)
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم ،البرقي دار الإفتاء سني شرعي بورڈ آف نیپال ۔۔
٢٦/٩/٢٠٢٠