علما میں علاقائیت کا تعصب زہرِ ہلاہل سے کم نہیں
══════ ༺❀༻ ══════
ازقلم : ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
──────⊹⊱✫⊰⊹─────
اسلام ایک آفاقی تعلیمات رکھنے والا دین ہے جو وحدتِ اُمت ، مساواتِ انسانی اور اخوتِ ایمانی کا درس دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے ۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
"بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔" (الحجرات: ۱۰)
مگر صد افسوس! آج امتِ مسلمہ کی صفوں میں وہ چیزیں در آئیں جو اخوت کے اس رشتہ محبت کو کمزور کر رہی ہیں ۔ ان میں ایک خطرناک بیماری " علما میں علاقائیت کا تعصب " بھی ہے ۔ جو بظاہر ایک معمولی سا اختلاف دکھائی دیتا ہے ، مگر درحقیقت یہ اتحاد و اصلاح کی جڑوں میں دیمک کی طرح سرایت کر رہا ہے ۔
علاقائیت کا زہر یہ امت کے اتحاد کے لیے بڑا چیلنج ہے ۔ جبکہ اسلام نے ہمیں قبیلہ ، علاقہ یا زبان کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا ۔ ارشادِ باری ہے ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔" (الحجرات: ۱۳)
یہ آیتِ کریمہ اعلان کر رہی ہے کہ قوموں اور صوبوں کی تقسیم شناخت کے لیے ہے ، برتری کے لیے نہیں ۔ مگر افسوس! ہمارے علمی حلقوں میں بھی بعض اوقات “یہ یوپی کے عالم ہیں، یہ بہار کے ہیں، یہ بنگال کے ہیں” جیسی غیر اسلامی تقسیمیں سننے میں آتی ہیں۔ یہ رویہ اس امت کے لیے زہرِ ہلاہل ہے، جس کی بنیاد "لا إله إلا الله" پر رکھی گئی ہے۔
بہار کشن گنج کی کانفرنس ایک مثبت مقصد کا منفی تاثر کی مثال بنی جو قابلِ افسوس ہے ۔ کیونکہ حال ہی میں بہار کی سرزمین کشن گنج پر ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی صاحب کی قیادت میں ایک قابلِ قدر علمی و تعلیمی اجتماع منعقد ہوا — “امام احمد رضا تعلیمی و تعمیری کنونشن”۔
اس عنوان سے یہ امید بندھی تھی کہ گفتگو کا محور تعلیم، تعمیرِ ملت اور فکری بیداری ہوگی۔
مگر افسوس کہ بعض خطابات میں علاقائی تعصب اور صوبائی تقابل کے جملے سننے کو ملے، جس نے دلوں کو زخمی اور فضا کو مکدر کر دیا۔یہ اس قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ، جس کے اسلاف نے علم و دین کے لیے سرحدوں سے بالاتر ہوکر کام کیا۔
ہمارے اسلاف نے ہمیشہ اتحاد و اتفاق کی دعوت دی جو قابل تقلید عمل ہے ، تاریخِ اہلِ سنت گواہ ہے کہ بہار اور یوپی کے علما نے ہمیشہ ایک دوسرے سے استفادہ کیا ، ایک دوسرے کے علوم سے فیض اٹھایا۔
بریلی شریف کے امام احمد رضا خاں قادری فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جس علمی تحریک کی بنیاد رکھی ، اسے بہار کے علما نے اپنے خونِ جگر سے سینچا۔
جیسے پٹنہ، گیا، دربھنگہ، مظفرپور، سیتامڑھی اور کشن گنج کے علما نے بریلی، مرادآباد، لکھنؤ اور اعظم گڑھ سے علمی تربیت حاصل کی۔
مدارسِ عربیہ میں آج جو نصاب ، نظام اور فکری استحکام موجود ہے ، وہ اسی باہمی تعاون کا ثمرہ ہے ۔
کیا یہ مناسب ہے کہ آج ہم انہی رشتوں پر خود ہی ضرب لگائیں؟
اسلام کا آفاقی پیغام مساوات و محبت کا درس ہے اور یہی اسلام کا جوہر عدل اور مساوات ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “ تم سب آدم کی اولاد ہو ، اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔” (مسند احمد)
اسی طرح علما کی شان یہ نہیں کہ وہ اپنے مسلکی بھائیوں میں تفریق کریں، بلکہ یہ کہ وہ دلوں کو جوڑیں ، زخموں پر مرہم رکھیں ، امت کو فکری اور روحانی وحدت کی راہ دکھائیں ۔ علما اُمت کے راہنما اور وارثانِ انبیا ہیں ۔ اگر وہ خود تعصب میں مبتلا ہو جائیں ، تو عوام کا حال کیا ہوگا ۔ ؟
ہمارے مواعظ ، ہمارے اجتماعات ، ہمارے مناظرے سب کا مقصد اتحادِ ملت اور اصلاحِ معاشرہ ہونا چاہیے، نہ کہ تفریق و تعصب۔ اس لیے ضروری ہے کہ :
1. ہم علاقائی ، لسانی یا صوبائی بنیاد پر کسی کو کمتر نہ
سمجھیں۔
2. ہر عالم و داعی امت کی خیر خواہی کے جذبے سے بولے۔
3. ہر اجتماع کا مقصد علم ، تربیت ، اور اصلاحِ فکر ہو۔
4. اگر کوئی لغزش ہو جائے تو اسے وسعتِ ظرف سے اصلاح کی نیت سے دیکھا جائے ، انتقام سے نہیں۔
ہماری جماعت میں ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی ایک علمی سرمایہ ہیں جن کی قدر ہونی چاہئے تاکہ وہ دین و سنت اور مسلک کا کام دلجمعی سے جاری رکھ سکیں !
یہ کہنا بھی انصاف کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی صاحب ایک معتبر ، باصلاحیت اور علمی شخصیت ہیں۔
رضویات پر ان کی ڈاکٹریٹ ( تحقیق ) یقیناً ایک گرانقدر خدمت ہے۔ ایسے علما پر لازم ہے کہ وہ اپنی علمی وجاہت کو اتحاد و محبت کے لیے استعمال کریں ، نہ کہ تقسیم کے لیے ۔
دل کی پکار : امتِ مسلمہ آج فکری خلفشار ، سیاسی انتشار اور معاشرتی ابتری کا شکار ہے ۔اگر علما بھی گروہ بندی اور علاقائی تفریق میں مبتلا ہو جائیں ، تو پھر روشنی کہاں سے آئے گی؟
ہمیں چاہیے کہ اپنے منبر و محراب سے یہ پیغام عام کریں ! ہم سب کے پیشوا مجددِ مآۃ حاضرہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اب کوئی بہار کے ہوں یا یوپی کے ان سے ہمارا رشتہ علم و عشقِ رسول سے ہے، نہ کہ علاقے سے۔
دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں اخوت و مساوات کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور ہمارے علما و قائدین کو ایسی زبان و فکر عطا فرمائے جو امت کو جوڑنے والی ہو، توڑنے والی نہیں۔
آمین ! بجاہ سید المرسلین
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
ترسیل: ثنائی دارالبنات کڑوس بھیونڈی مہاراشٹرا
اسلام ایک آفاقی تعلیمات رکھنے والا دین ہے جو وحدتِ اُمت ، مساواتِ انسانی اور اخوتِ ایمانی کا درس دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے ۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
"بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔" (الحجرات: ۱۰)
مگر صد افسوس! آج امتِ مسلمہ کی صفوں میں وہ چیزیں در آئیں جو اخوت کے اس رشتہ محبت کو کمزور کر رہی ہیں ۔ ان میں ایک خطرناک بیماری " علما میں علاقائیت کا تعصب " بھی ہے ۔ جو بظاہر ایک معمولی سا اختلاف دکھائی دیتا ہے ، مگر درحقیقت یہ اتحاد و اصلاح کی جڑوں میں دیمک کی طرح سرایت کر رہا ہے ۔
علاقائیت کا زہر یہ امت کے اتحاد کے لیے بڑا چیلنج ہے ۔ جبکہ اسلام نے ہمیں قبیلہ ، علاقہ یا زبان کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا ۔ ارشادِ باری ہے ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔" (الحجرات: ۱۳)
یہ آیتِ کریمہ اعلان کر رہی ہے کہ قوموں اور صوبوں کی تقسیم شناخت کے لیے ہے ، برتری کے لیے نہیں ۔ مگر افسوس! ہمارے علمی حلقوں میں بھی بعض اوقات “یہ یوپی کے عالم ہیں، یہ بہار کے ہیں، یہ بنگال کے ہیں” جیسی غیر اسلامی تقسیمیں سننے میں آتی ہیں۔ یہ رویہ اس امت کے لیے زہرِ ہلاہل ہے، جس کی بنیاد "لا إله إلا الله" پر رکھی گئی ہے۔
بہار کشن گنج کی کانفرنس ایک مثبت مقصد کا منفی تاثر کی مثال بنی جو قابلِ افسوس ہے ۔ کیونکہ حال ہی میں بہار کی سرزمین کشن گنج پر ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی صاحب کی قیادت میں ایک قابلِ قدر علمی و تعلیمی اجتماع منعقد ہوا — “امام احمد رضا تعلیمی و تعمیری کنونشن”۔
اس عنوان سے یہ امید بندھی تھی کہ گفتگو کا محور تعلیم، تعمیرِ ملت اور فکری بیداری ہوگی۔
مگر افسوس کہ بعض خطابات میں علاقائی تعصب اور صوبائی تقابل کے جملے سننے کو ملے، جس نے دلوں کو زخمی اور فضا کو مکدر کر دیا۔یہ اس قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ، جس کے اسلاف نے علم و دین کے لیے سرحدوں سے بالاتر ہوکر کام کیا۔
ہمارے اسلاف نے ہمیشہ اتحاد و اتفاق کی دعوت دی جو قابل تقلید عمل ہے ، تاریخِ اہلِ سنت گواہ ہے کہ بہار اور یوپی کے علما نے ہمیشہ ایک دوسرے سے استفادہ کیا ، ایک دوسرے کے علوم سے فیض اٹھایا۔
بریلی شریف کے امام احمد رضا خاں قادری فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جس علمی تحریک کی بنیاد رکھی ، اسے بہار کے علما نے اپنے خونِ جگر سے سینچا۔
جیسے پٹنہ، گیا، دربھنگہ، مظفرپور، سیتامڑھی اور کشن گنج کے علما نے بریلی، مرادآباد، لکھنؤ اور اعظم گڑھ سے علمی تربیت حاصل کی۔
مدارسِ عربیہ میں آج جو نصاب ، نظام اور فکری استحکام موجود ہے ، وہ اسی باہمی تعاون کا ثمرہ ہے ۔
کیا یہ مناسب ہے کہ آج ہم انہی رشتوں پر خود ہی ضرب لگائیں؟
اسلام کا آفاقی پیغام مساوات و محبت کا درس ہے اور یہی اسلام کا جوہر عدل اور مساوات ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “ تم سب آدم کی اولاد ہو ، اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔” (مسند احمد)
اسی طرح علما کی شان یہ نہیں کہ وہ اپنے مسلکی بھائیوں میں تفریق کریں، بلکہ یہ کہ وہ دلوں کو جوڑیں ، زخموں پر مرہم رکھیں ، امت کو فکری اور روحانی وحدت کی راہ دکھائیں ۔ علما اُمت کے راہنما اور وارثانِ انبیا ہیں ۔ اگر وہ خود تعصب میں مبتلا ہو جائیں ، تو عوام کا حال کیا ہوگا ۔ ؟
ہمارے مواعظ ، ہمارے اجتماعات ، ہمارے مناظرے سب کا مقصد اتحادِ ملت اور اصلاحِ معاشرہ ہونا چاہیے، نہ کہ تفریق و تعصب۔ اس لیے ضروری ہے کہ :
1. ہم علاقائی ، لسانی یا صوبائی بنیاد پر کسی کو کمتر نہ
سمجھیں۔
2. ہر عالم و داعی امت کی خیر خواہی کے جذبے سے بولے۔
3. ہر اجتماع کا مقصد علم ، تربیت ، اور اصلاحِ فکر ہو۔
4. اگر کوئی لغزش ہو جائے تو اسے وسعتِ ظرف سے اصلاح کی نیت سے دیکھا جائے ، انتقام سے نہیں۔
ہماری جماعت میں ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی ایک علمی سرمایہ ہیں جن کی قدر ہونی چاہئے تاکہ وہ دین و سنت اور مسلک کا کام دلجمعی سے جاری رکھ سکیں !
یہ کہنا بھی انصاف کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی صاحب ایک معتبر ، باصلاحیت اور علمی شخصیت ہیں۔
رضویات پر ان کی ڈاکٹریٹ ( تحقیق ) یقیناً ایک گرانقدر خدمت ہے۔ ایسے علما پر لازم ہے کہ وہ اپنی علمی وجاہت کو اتحاد و محبت کے لیے استعمال کریں ، نہ کہ تقسیم کے لیے ۔
دل کی پکار : امتِ مسلمہ آج فکری خلفشار ، سیاسی انتشار اور معاشرتی ابتری کا شکار ہے ۔اگر علما بھی گروہ بندی اور علاقائی تفریق میں مبتلا ہو جائیں ، تو پھر روشنی کہاں سے آئے گی؟
ہمیں چاہیے کہ اپنے منبر و محراب سے یہ پیغام عام کریں ! ہم سب کے پیشوا مجددِ مآۃ حاضرہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اب کوئی بہار کے ہوں یا یوپی کے ان سے ہمارا رشتہ علم و عشقِ رسول سے ہے، نہ کہ علاقے سے۔
دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں اخوت و مساوات کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور ہمارے علما و قائدین کو ایسی زبان و فکر عطا فرمائے جو امت کو جوڑنے والی ہو، توڑنے والی نہیں۔
آمین ! بجاہ سید المرسلین
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
ترسیل: ثنائی دارالبنات کڑوس بھیونڈی مہاراشٹرا