(سوال نمبر ١٣٩) (قسط ٤)
فروعی اختلافات جو امت کے لئے رحمت ہے عوام الناس میں پہچ کر زحمت بن کے رہ گئی اور اس کے ذمےدار شدت پسند علماء ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آقا علیہ السلام اور مذاہب اربعہ کے اقوال دو طرح کے ہیں، صوری اور ضروری، صوری تو قول منقول ہے، اور ضروری وہ ہے جس کو قائل نے ضراحتا بیان نہ کی ہو خاص طور پر، اسے عموم کے ضمن میں بیان کردی ہو، جو بدیہی طور پر اس بات کا حکم لگائے،کہ قائل اگر اس میں کلام کرتے تو ضرور ایسا ہی فرماتے، اور بسا اوقات حکم ضروری، حکم صوری کے مخالف ہوتا ہے، ایسے وقت میں حکم ضروری کو اہمیت دی جاتی ہے، حتی کہ صوری کو اختیار کرنا قائل کی مخالفت سمجھا جاتا ہے، اور حکم ضروری کی طرف عدول قائل کی اتباع، جیسے زید ایک نیک انسان ہے اس لئے عمر نے خادموں کو زید کی تعظیم کا حکم دیا اور تاکید بھی کی اور پہلے یہ بھی کہا تھا کہ فاسق کی تعظیم سے بچنا، پھر ایک زمانہ بعد زید فاسق معلن ہو گیا، اب ابھی اگر خادم ،عمر کی بات مان کر زید کی تعظیم کریں تو خادم ضرور نافرمان گردانے جائیں گے، اور خادم کا زید کی تعظیم نہ کرنا اطاعت عمر ہوگا، اسی طرح ائمہ مذاہب کے اقوال بھی اسباب تغیر کے سبب تبدیل ہوجاتی ہے، لہذا جب کسی مسئلہ میں امام سے کوئی نص ہو، پھر اسباب تغیر میں سے کوئی سبب پیدا ہوجائے تو ہم یقینا یہ اعتقاد رکھیں کہ اگر یہ سبب امام کے زمانے میں ہوتے تو ضرور ان کا قول زمانے کے تقاضے کے موافق ہوتا، اس کے خلاف اور اس کے رد میں نہیں ہوتا ۔ایسے وقت میں ان سے غیر منقول قول ضروری پر عمل حقیقت میں امام کے قول پر عمل ہے، اور امام کے قول منقول پر جمے رہنا در حقیقت ان کی مخالفت اور انکی مذہب سے نا اشنائی ہے ۔(اقتباس فتاوی رضویہ ج ١ص ٣٨٥.رساله اجلي الاعلام، رضا اكيڈمی ممبئی، بحوالہ مجلس شرعی ج ١ص ٤٦٤.)
پر موجودہ دور میں کچھ متشدد قسم کے علماء و فضلاء مقتضاء حال سے کوسوں دور اپنی بات پہ جمے رہتے ہیں، اور سمجھتے ہیں ۔کہ یہی شریعت ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ہماری شریعت اتنی وسیع ہے کہ اس میں ہر زمانے کے احکامات و اسرار و رموز پنہا ہیں بس اہل علم اور اہل بصیرت کی ضرورت ہے کہ فروعی مسائل میں امت مسلمہ پر کس طرح اسانی ہو غور و خوض کریں اور امت کو صعب و مشقت سے بچائیں ۔موجودہ دور میں گروپ بندیاں عروج پر ہیں ائے دن علماء میں فروعی مسائل کے تحت اختلاف ہوتے رہتے ہیں، ابھی حال ہی میں جمعہ کا مسئلہ لے لیں کچھ شدت پسند اپنی شدت پسندی میں کمال کردیئے اس بابت کئی اہل علم کا کئی عالم سے تنازع بھی عروج پر جا پہنچے اور پھر معاملہ کہاں جا پہنچا یہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے، علماء کی رنجش اور اور فروعی مسائل میں آپسی تنازع کو دیکھ کر عوام الناس تذبذب کا شکار ہیں کہ ہم کیا کریں کس علماء کی بات مانیں کس کو غلط کہیں اور کس کو سہی کہیں فروعی اختلافات جو امت کے لئے رحمت ہے عوام الناس میں پہچ کر زحمت بن کے رہ گئی اور اس کے ذمےدار شدت پسند علماء ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ دین سے دور ہو رہے ہیں کیونکہ علماء اہلسنت آپس میں لڑتے جا رہے ہیں علامہ جلالی صاحب کی مثال ہمارے سامنے یے اور تصویر کشی پر ائے دن بحث و مباحثہ ہوتے رہتے ہیں ۔ ایسی صورت میں آج کے نوجوان صحیح راستے کی کیسے شناخت کریں جبکہ علماء حقائق کو جانتے ہوئے بھی تقسیم ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں قرآن وحدیث کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا اور ایمانداری کے ساتھ ان علماء کرام کا دامن پکڑ نا ہوگا اور انہی کی سپورٹ کرنی ہو گی جو اسلام کو قرآن وحدیث صحابہ کرام، اہل بیت اطہار، ائمہ فقہ اور محدثین اور صوفیاء کرام رضی رضی اللہ عنہم اجمعین کے مشن کے مطابق پھیلا رہیں ہیں۔ یعنی علماء ربانی کی پیروی کرنی ہو گی، ان کا ساتھ دینا ہو گا اور علماء سو کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی یعنی جو لوگ دین کے نام پر اپنی اپنی دکانداریاں چمکاتے ہیں اور غلط لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔اور حق بیانی کی جگہ پیٹھ دیکھا دیتے ہیں،چونکہ مجھے بھی اس قسم کے حضرات کرام سے سامنہ ہوا ہے بس ہمیں حقیقت کو پہچاننا ہے اور حقیقت پسند علماء کا ساتھ دینا ہے اس روش پر چلتے ہوئے تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ سرها: خادم :البرقي دار الإفتاء سني شرعي بورڈ آف نیپالل ثلاثاء ٢٩ سبتمبر ٢٠٢٠١٢صفر ١٤٤٢،