بریلی میں پولیس اور ریاستی ظلم و ستم
----------------------
✍️ اورنگزیب عالم رضوی مصباحی گڑھوا
ظلم و ستم اور طاقت کے ناجائز استعمال کی خبریں دنیا بھر میں تشویش کا باعث رہتی ہیں۔ ہندستان میں جہاں آئینی حقوق اور شہری آزادیوں پر روک ٹوک عام ہوچکی ہیں وہیں دن بدن پولیس کے ظلم و تشدد اور مرکزی حکومت کے نمائندے سیاسی مفاد کے لیے جانب دارانہ فیصلے لے رہے ہیں۔ جس سے شہریوں کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور ملک کا امن و امان برباد ہو رہا ہے۔
حال ہی میں “I Love Muhammad” کے پوسٹرز کو لیکر کانپور میں غیر قانونی گرفتاری ہوئی، اسی معاملے پر بریلی میں احتجاج ہوا، بلکہ پورے ملک میں اس غیر قانونی گرفتاری کے خلاف احتجاج ہوا یاد رہے کہ یہ احتجاج غیر قانونی کارروائی کے خلاف ہے اور ہر جگہ پر امن طریقے سے ہوا، مگر اس کے باوجود بریلی میں پولیس نے نہ صرف احتجاج کو روکا بلکہ ظالمانہ سلوک کیا اور لاٹھی چارج کرکے سیکڑوں لوگوں کو نیم مردہ کیا اور دو بچے ظلم کی تاب نہ لا کر اپنی جان گنوا بیٹھے اور شہید ہوئے۔
قانونی دفعات کے تحت بہت ساری ایف آئی آرز درج کی گئیں، جن میں کئی منگھڑت سنگین الزامات شامل ہیں۔
مقامی انتظامیہ نے کئی دکانیں سیل کیں، بعض املاک کو مسمار کرنے کو نوٹس جاری کیے گئے، اور انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس عمل کو “عوام کی حفاظت” اور “امن و امان برقرار رکھنے” کے لیے کیا گیا۔ مگر آپ بتائیں کہ عوام کی حفاظت کس سے کی جا رہی تھی آپسی تناؤ تھا ہی نہیں اور یہ احتجاج خود پر امن طریقے سے کیا جانا تھا جو کہ اس سے پہلے بھی گستاخی رسول کے خلاف کی جا چکی ہے، یہ احتجاج پولیس کی غیر قانونی گرفتاری اور کارروائی کے خلاف تھی بریلی پولیس نہیں بلکہ کانپور پولیس کے خلاف مگر حقیقت بات یہ ہے کہ ظالم اور جاہل ریاستی حکومت کے اشارے پر ظالم انتظامیہ نے غیر قانونی کارروائی کی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ اور اس کارروائی سے امن و امان تو کیا عوام مزید مشتعل ہو گئی ہے۔
یاد رہے یہاں طاقت کا ناجائز استعمال کیا گیا۔احتجاج پر پابندی لگا کر اظہار رائے پر پابندی لگائی گئی اور آئینی حقوق کی آزادی اور مذہبی آزادی چھینی گئی۔
اور بالخصوص مولانا توقیر رضا خان پر ظالمانہ کارروائی کی گئی اور انہیں پولیس کی منصوبہ بند سازش کے تحت جیل بھیجا گیا کیونکہ مولانا کے گرفتاری کے تقریباً تین دن بعد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کے مولانا موصوف کے گھر میں پیٹرول اور غیر قانونی ہتھیار پائے گئے اور یقینا یہ پولیس کے منصوبہ کے تحت پھنسایا گیا۔ ہاں ایک ویڈیو میں اندرا مارکیٹ کی چھت سے کچھ شرپسند لوگ پتھر بازی کر رہے ہیں جنہیں پولیس بالکل نظر انداز کر رہی ہے اور نہتھے اور بے قصور مسلمانوں پر تشدد کر رہی ہے۔
یوگی کی دو نظری
اور ایسا بھی نہیں جیسا یوپی کے وزیر اعلی یوگی دعویٰ کر رہے ہیں کہ سڑکوں پر جام اور بھیڑ کو وہ برداشت نہیں کرتے بلکہ کانوڑیوں کے لیے تو مہینوں راستے جام رہتے ہیں اور یہی پولیس اور یہی وزیر ان پر پھول برساتے ہیں، وہیں اگر یوگی کے گھر کے لوگ احتجاج نہیں بلکہ دہشت گردی بھی کرتے ہیں تو یہ ان پر بڑے مہربان نظر آتے ہیں اور نظر انداز کرتے ہیں پولیس بھی تماشائی بنی ہوتی ہے یا حمایتی رہتی ہے ابھی گزشتہ 12, اگست کی بات ہے کہ فتح پور میں نواب عبد الصمد کے مقبرے پر ہندو سنگٹھن نے لاٹھی ڈنڈے، راڈ سریہ اور دیگر خفیہ ہتھیاروں سے لیس حملہ کیے اور پولیس کی موجودگی میں قبر توڑی گئی اس پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا مگر یوگی حکومت اور پولیس انتظامیہ تماشائی بنی دیکھتی رہی بلکہ پولیس سے دھکا مکی بھی کی گئی بلکہ تھانے میں پولیس کو دھمکیاں بھی دی گئی تھی مگر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے بلکہ دنگائیوں کے نام بھی غائب ہو جاتے ہیں۔
یہ دوہرا معیار جس طرح اپنایا جا رہا ملک کی تحفظ و ترقی پر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
پولیس اور حکومت کے دوہرے معیار کے نقصان
عوام کا اعتماد دھیرے دھیرے پولیس انتظامیہ سے اٹھتا جا رہا ہے اور حکومت سے تو کب کا اٹھ چکا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق اور آزادی کی پامالی ہو رہی ہے۔
سماجی انتشار اور افتراق کے ساتھ خوف دہشت میں اضافہ ہوگا جس سے ملک کی ترقی ٹھپ ہو گی۔
برابری کی جد وجہد کو ہوا دی جا سکتی ہے۔
قانون کی اہمیت گھٹ جائے گی اور لوگ قانون ہاتھ میں لینے پر آمادہ ہوں گے۔
انسانی حقوق کی ملکی تنظیمیں اور غیر ملکی تنظیمیں، عالمی میڈیا ملک کو تنقید کا نشانہ بنائیں گی جس سے ملک کی ساخ برباد ہوگی۔
ملک خانہ جنگی میں گرفتار ہو جائے گا جس سے سیکڑوں ملک اور ان کی حکومتیں برباد ہو چکی ہیں۔
جب ملک خانہ جنگی میں ہوگا تو دشمن ممالک موقع پا کر فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ یاد رہے انگریز بھی خانہ جنگی ہی سے فائدہ اٹھا کر ہندوستان آئے تھے۔
اس لیے حکومت اور پولیس انتظامیہ اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کریں تاکہ ملک کی سالمیت برقرار رہے۔ اور جو منصوبہ بند سازش کے تحت گرفتاریاں ہوئیں ہیں انہیں رہا کیا جائے بالخصوص کانپور کے لوگوں کو اور مولانا توقیر سمیت بریلی کے دیگر مسلمانوں کو رہا کیا جائے۔
✍️ اورنگزیب عالم رضوی مصباحی گڑھوا
ظلم و ستم اور طاقت کے ناجائز استعمال کی خبریں دنیا بھر میں تشویش کا باعث رہتی ہیں۔ ہندستان میں جہاں آئینی حقوق اور شہری آزادیوں پر روک ٹوک عام ہوچکی ہیں وہیں دن بدن پولیس کے ظلم و تشدد اور مرکزی حکومت کے نمائندے سیاسی مفاد کے لیے جانب دارانہ فیصلے لے رہے ہیں۔ جس سے شہریوں کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور ملک کا امن و امان برباد ہو رہا ہے۔
حال ہی میں “I Love Muhammad” کے پوسٹرز کو لیکر کانپور میں غیر قانونی گرفتاری ہوئی، اسی معاملے پر بریلی میں احتجاج ہوا، بلکہ پورے ملک میں اس غیر قانونی گرفتاری کے خلاف احتجاج ہوا یاد رہے کہ یہ احتجاج غیر قانونی کارروائی کے خلاف ہے اور ہر جگہ پر امن طریقے سے ہوا، مگر اس کے باوجود بریلی میں پولیس نے نہ صرف احتجاج کو روکا بلکہ ظالمانہ سلوک کیا اور لاٹھی چارج کرکے سیکڑوں لوگوں کو نیم مردہ کیا اور دو بچے ظلم کی تاب نہ لا کر اپنی جان گنوا بیٹھے اور شہید ہوئے۔
قانونی دفعات کے تحت بہت ساری ایف آئی آرز درج کی گئیں، جن میں کئی منگھڑت سنگین الزامات شامل ہیں۔
مقامی انتظامیہ نے کئی دکانیں سیل کیں، بعض املاک کو مسمار کرنے کو نوٹس جاری کیے گئے، اور انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس عمل کو “عوام کی حفاظت” اور “امن و امان برقرار رکھنے” کے لیے کیا گیا۔ مگر آپ بتائیں کہ عوام کی حفاظت کس سے کی جا رہی تھی آپسی تناؤ تھا ہی نہیں اور یہ احتجاج خود پر امن طریقے سے کیا جانا تھا جو کہ اس سے پہلے بھی گستاخی رسول کے خلاف کی جا چکی ہے، یہ احتجاج پولیس کی غیر قانونی گرفتاری اور کارروائی کے خلاف تھی بریلی پولیس نہیں بلکہ کانپور پولیس کے خلاف مگر حقیقت بات یہ ہے کہ ظالم اور جاہل ریاستی حکومت کے اشارے پر ظالم انتظامیہ نے غیر قانونی کارروائی کی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ اور اس کارروائی سے امن و امان تو کیا عوام مزید مشتعل ہو گئی ہے۔
یاد رہے یہاں طاقت کا ناجائز استعمال کیا گیا۔احتجاج پر پابندی لگا کر اظہار رائے پر پابندی لگائی گئی اور آئینی حقوق کی آزادی اور مذہبی آزادی چھینی گئی۔
اور بالخصوص مولانا توقیر رضا خان پر ظالمانہ کارروائی کی گئی اور انہیں پولیس کی منصوبہ بند سازش کے تحت جیل بھیجا گیا کیونکہ مولانا کے گرفتاری کے تقریباً تین دن بعد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کے مولانا موصوف کے گھر میں پیٹرول اور غیر قانونی ہتھیار پائے گئے اور یقینا یہ پولیس کے منصوبہ کے تحت پھنسایا گیا۔ ہاں ایک ویڈیو میں اندرا مارکیٹ کی چھت سے کچھ شرپسند لوگ پتھر بازی کر رہے ہیں جنہیں پولیس بالکل نظر انداز کر رہی ہے اور نہتھے اور بے قصور مسلمانوں پر تشدد کر رہی ہے۔
یوگی کی دو نظری
اور ایسا بھی نہیں جیسا یوپی کے وزیر اعلی یوگی دعویٰ کر رہے ہیں کہ سڑکوں پر جام اور بھیڑ کو وہ برداشت نہیں کرتے بلکہ کانوڑیوں کے لیے تو مہینوں راستے جام رہتے ہیں اور یہی پولیس اور یہی وزیر ان پر پھول برساتے ہیں، وہیں اگر یوگی کے گھر کے لوگ احتجاج نہیں بلکہ دہشت گردی بھی کرتے ہیں تو یہ ان پر بڑے مہربان نظر آتے ہیں اور نظر انداز کرتے ہیں پولیس بھی تماشائی بنی ہوتی ہے یا حمایتی رہتی ہے ابھی گزشتہ 12, اگست کی بات ہے کہ فتح پور میں نواب عبد الصمد کے مقبرے پر ہندو سنگٹھن نے لاٹھی ڈنڈے، راڈ سریہ اور دیگر خفیہ ہتھیاروں سے لیس حملہ کیے اور پولیس کی موجودگی میں قبر توڑی گئی اس پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا مگر یوگی حکومت اور پولیس انتظامیہ تماشائی بنی دیکھتی رہی بلکہ پولیس سے دھکا مکی بھی کی گئی بلکہ تھانے میں پولیس کو دھمکیاں بھی دی گئی تھی مگر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے بلکہ دنگائیوں کے نام بھی غائب ہو جاتے ہیں۔
یہ دوہرا معیار جس طرح اپنایا جا رہا ملک کی تحفظ و ترقی پر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
پولیس اور حکومت کے دوہرے معیار کے نقصان
عوام کا اعتماد دھیرے دھیرے پولیس انتظامیہ سے اٹھتا جا رہا ہے اور حکومت سے تو کب کا اٹھ چکا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق اور آزادی کی پامالی ہو رہی ہے۔
سماجی انتشار اور افتراق کے ساتھ خوف دہشت میں اضافہ ہوگا جس سے ملک کی ترقی ٹھپ ہو گی۔
برابری کی جد وجہد کو ہوا دی جا سکتی ہے۔
قانون کی اہمیت گھٹ جائے گی اور لوگ قانون ہاتھ میں لینے پر آمادہ ہوں گے۔
انسانی حقوق کی ملکی تنظیمیں اور غیر ملکی تنظیمیں، عالمی میڈیا ملک کو تنقید کا نشانہ بنائیں گی جس سے ملک کی ساخ برباد ہوگی۔
ملک خانہ جنگی میں گرفتار ہو جائے گا جس سے سیکڑوں ملک اور ان کی حکومتیں برباد ہو چکی ہیں۔
جب ملک خانہ جنگی میں ہوگا تو دشمن ممالک موقع پا کر فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ یاد رہے انگریز بھی خانہ جنگی ہی سے فائدہ اٹھا کر ہندوستان آئے تھے۔
اس لیے حکومت اور پولیس انتظامیہ اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کریں تاکہ ملک کی سالمیت برقرار رہے۔ اور جو منصوبہ بند سازش کے تحت گرفتاریاں ہوئیں ہیں انہیں رہا کیا جائے بالخصوص کانپور کے لوگوں کو اور مولانا توقیر سمیت بریلی کے دیگر مسلمانوں کو رہا کیا جائے۔