I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شرعی نقطہ نظر سے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ I Love Mohammad کا استعمال شرعی نقطہ نظر سے کیسا ہے اور اس تعلق سے علمائے اسلام و فقہائے عظام کیا آرا رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل و مبرہن حوالہ جات کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں !
المستفتی: نواجوانانِ اہلِ سنت میراروڈ ممبئی
الجواب بعون الملک الوھاب
1. محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا وجوب
قرآن و حدیث سے ثابت اس کا منکر کافر و مرتد ۔ اللہ سبحانہ تعالٰی نے رسولِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اصلِ ایمان قرار دیا ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْ... اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا﴾
(التوبہ: 24)
ترجمہ: اگر تمہارے باپ، بیٹے... اور تمہاری پسندیدہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو (عذاب کا).
رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"
(صحیح بخاری، حدیث: 15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
ان نصوص سے واضح ہوا کہ محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا اظہار ایمان کا تقاضا ہے۔
2. "I Love Mohammad" کے الفاظ کی شرعی حیثیت
لفظ "I Love" انگریزی زبان میں اظہارِ محبت کے لیے مستعمل ہے۔ اس لفظ میں خود کوئی شرعی قباحت نہیں، کیونکہ شریعت نے زبان یا لفظ کو نہیں بلکہ معنی و مقصد کو دیکھا ہے۔
لفظ "Mohammad" ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا بابرکت نام ہے، اور اس کے ساتھ "Love" کا اضافہ دراصل محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کی ایک صورت ہے۔
3. فقہاء و علماء کی آراء
(الف) اصولِ فقہ کا مسلم قاعدہ ہے جسے فقہائے کرام نے بیان فرمایا ہے:
"الأصل في العادات الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم"
(اشباہ و نظائر للسيوطي، ص 60)
یعنی معاملات و عادات میں اصل حکم اباحت (جائز ہونا) ہے جب تک کہ کوئی دلیل حرمت پر قائم نہ ہو۔
چونکہ "I Love Mohammad" میں نہ تو کوئی شرک، نہ گستاخی اور نہ ہی خلافِ شریعت معنی ہے، لہٰذا یہ جائز ہے۔
(ب) علمائے اہلسنت کے ارشادات:
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جو چیز تعظیمِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور محبتِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر دلالت کرے اور اس میں خلافِ شرع کوئی امر نہ ہو تو وہ جائز بلکہ باعثِ برکت ہے۔"
(فتاویٰ رضویہ، ج 24، ص 478)
معاصر علماء اہل سنت نے بھی واضح کیا ہے کہ جدید زبانوں میں محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا اظہار (مثلاً "I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ") شرعاً درست ہے، بشرطیکہ اس میں گستاخانہ یا بے ادبی کا کوئی پہلو نہ نکلتا ہو۔
4. نامِ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم لکھتے ، یا بولتے وقت آداب اور احتیاط کا دامن چھوٹنے نہ پاۓ کہ
زبان دھولو گلابِ جل سے یا عطر ریزی کرو کنول سے
یہ سارے آداب پھر بھی کم ہے نبی کے ذکر و بیاں سے پہلے
( ڈاکٹر وصی واجدی نیپالی )
1. نامِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صلوٰۃ و سلام: بہتر یہ ہے کہ " I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم " لکھتے وقت ساتھ میں " صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم " بھی لکھا جائے تاکہ ادب و تعظیم مکمل ہو۔
2. یہ الفاظ محض دکھاوا نہ ہوں بلکہ دل کی گہرائی سے محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا اعلان ہو اور قلبی اخلاص پر مبنی ہو
3. ناجائز مقامات پر استعمال نہ ہو: جیسے فیشن، کھیل یا مذاق کی صورت میں ( ٹی شرٹ پر بے ادبی سے لکھنا ، ناپاک جگہ لے جانا وغیرہ ) یہ ناجائز ہوگا۔
5. مذکورہ مسئلہ کا خلاصہ و حکم صاف و صریح یہ ہے کہ
"I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم" کا استعمال شرعاً جائز اور مباح ہے بلکہ محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کے باعث ، باعثِ ثواب ہے، بس تعظیم و ادب ملحوظ رہے ، ساتھ میں " صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم " لکھا جائے ،
اور اس کا استعمال بے ادبی یا مذاق کے طور پر نہ کیا جائے۔
لہٰذا جملہ عوام و نواجوانانِ اہلِ سنت کو چاہیے کہ " I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم " جیسے جملوں کے ذریعے محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو عام کریں، مگر ساتھ ہی آداب و احترام کا خیال بھی ضرور رکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
مصادر و مراجع
قرآن: سورۃ التوبہ، آیت 24
بخاری شریف، حدیث: 15
فتاویٰ رضویہ، ج 24، ص 478
السیوطی، الأشباه والنظائر
کتبہ
فقیر محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدرافتاء: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
مورخہ 12/ ربیع الآخر 1447 ھ
مطابق 5/ اکتوبر 2025 ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ I Love Mohammad کا استعمال شرعی نقطہ نظر سے کیسا ہے اور اس تعلق سے علمائے اسلام و فقہائے عظام کیا آرا رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل و مبرہن حوالہ جات کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں !
المستفتی: نواجوانانِ اہلِ سنت میراروڈ ممبئی
الجواب بعون الملک الوھاب
1. محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا وجوب
قرآن و حدیث سے ثابت اس کا منکر کافر و مرتد ۔ اللہ سبحانہ تعالٰی نے رسولِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اصلِ ایمان قرار دیا ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْ... اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا﴾
(التوبہ: 24)
ترجمہ: اگر تمہارے باپ، بیٹے... اور تمہاری پسندیدہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو (عذاب کا).
رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"
(صحیح بخاری، حدیث: 15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
ان نصوص سے واضح ہوا کہ محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا اظہار ایمان کا تقاضا ہے۔
2. "I Love Mohammad" کے الفاظ کی شرعی حیثیت
لفظ "I Love" انگریزی زبان میں اظہارِ محبت کے لیے مستعمل ہے۔ اس لفظ میں خود کوئی شرعی قباحت نہیں، کیونکہ شریعت نے زبان یا لفظ کو نہیں بلکہ معنی و مقصد کو دیکھا ہے۔
لفظ "Mohammad" ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا بابرکت نام ہے، اور اس کے ساتھ "Love" کا اضافہ دراصل محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کی ایک صورت ہے۔
3. فقہاء و علماء کی آراء
(الف) اصولِ فقہ کا مسلم قاعدہ ہے جسے فقہائے کرام نے بیان فرمایا ہے:
"الأصل في العادات الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم"
(اشباہ و نظائر للسيوطي، ص 60)
یعنی معاملات و عادات میں اصل حکم اباحت (جائز ہونا) ہے جب تک کہ کوئی دلیل حرمت پر قائم نہ ہو۔
چونکہ "I Love Mohammad" میں نہ تو کوئی شرک، نہ گستاخی اور نہ ہی خلافِ شریعت معنی ہے، لہٰذا یہ جائز ہے۔
(ب) علمائے اہلسنت کے ارشادات:
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جو چیز تعظیمِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور محبتِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر دلالت کرے اور اس میں خلافِ شرع کوئی امر نہ ہو تو وہ جائز بلکہ باعثِ برکت ہے۔"
(فتاویٰ رضویہ، ج 24، ص 478)
معاصر علماء اہل سنت نے بھی واضح کیا ہے کہ جدید زبانوں میں محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا اظہار (مثلاً "I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ") شرعاً درست ہے، بشرطیکہ اس میں گستاخانہ یا بے ادبی کا کوئی پہلو نہ نکلتا ہو۔
4. نامِ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم لکھتے ، یا بولتے وقت آداب اور احتیاط کا دامن چھوٹنے نہ پاۓ کہ
زبان دھولو گلابِ جل سے یا عطر ریزی کرو کنول سے
یہ سارے آداب پھر بھی کم ہے نبی کے ذکر و بیاں سے پہلے
( ڈاکٹر وصی واجدی نیپالی )
1. نامِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صلوٰۃ و سلام: بہتر یہ ہے کہ " I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم " لکھتے وقت ساتھ میں " صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم " بھی لکھا جائے تاکہ ادب و تعظیم مکمل ہو۔
2. یہ الفاظ محض دکھاوا نہ ہوں بلکہ دل کی گہرائی سے محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا اعلان ہو اور قلبی اخلاص پر مبنی ہو
3. ناجائز مقامات پر استعمال نہ ہو: جیسے فیشن، کھیل یا مذاق کی صورت میں ( ٹی شرٹ پر بے ادبی سے لکھنا ، ناپاک جگہ لے جانا وغیرہ ) یہ ناجائز ہوگا۔
5. مذکورہ مسئلہ کا خلاصہ و حکم صاف و صریح یہ ہے کہ
"I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم" کا استعمال شرعاً جائز اور مباح ہے بلکہ محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کے باعث ، باعثِ ثواب ہے، بس تعظیم و ادب ملحوظ رہے ، ساتھ میں " صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم " لکھا جائے ،
اور اس کا استعمال بے ادبی یا مذاق کے طور پر نہ کیا جائے۔
لہٰذا جملہ عوام و نواجوانانِ اہلِ سنت کو چاہیے کہ " I Love Mohammad صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم " جیسے جملوں کے ذریعے محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو عام کریں، مگر ساتھ ہی آداب و احترام کا خیال بھی ضرور رکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
مصادر و مراجع
قرآن: سورۃ التوبہ، آیت 24
بخاری شریف، حدیث: 15
فتاویٰ رضویہ، ج 24، ص 478
السیوطی، الأشباه والنظائر
کتبہ
فقیر محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدرافتاء: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
مورخہ 12/ ربیع الآخر 1447 ھ
مطابق 5/ اکتوبر 2025 ء