(سوال نمبر ١٣٥) قسط ١
نئے زمانے میں نیا نکاح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح مسیار کیا ہے؟
نکاح مسیار کسے کہتے ہیں؟
نکاح مسیار کے احکام کیا ہیں؟
نکاح مسیار کے مقاصد کیا ہیں؟
نکاح مسیار کی صورت کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح مسیار کیا ہے؟ اور کسے کہتے ہیں؟
پہلے ہم اس پر نظر کرتے ہیں ۔
زواج المسيار هو : أن يعقد الرجل زواجه على امرأة عقدًا شرعيّاً مستوفي الأركان والشروط ، لكن تتنازل فيه المرأة عن بعض حقوقها كالسكن أو النفقة أو المبيت .
والأسباب التي أدت إلى ظهور هذا الزواج كثيرة ، منها :
ازدياد العنوسة في صفوف النساء بسبب انصراف الشباب عن الزواج لغلاء المهور وتكاليف الزواج ، أو بسبب كثرة الطلاق ، فلمثل هذه الأحوال ترضى بعض النساء بأن تكون زوجة ثانية أو ثالثة وتتنازل عن بعض حقوقها .
احتياج بعض النساء للبقاء في بيوت أهاليهن إما لكونها الراعية الوحيدة لبعض أهلها ، أو لكونها مصابة بإعاقة ولا يرغب أهلها بتحميل زوجها ما لا يطيق ، ويبقى على اتصال معها دون ملل أو تكلف ، أو لكونها عندها أولاد ، ولا تستطيع الانتقال بهم إلى بيت زوجها ونحو ذلك من الأسباب .
اس نکاح کو اکثر لوگ نہیں جانتے ہوں گے پر اہل علم اور عرب ممالک میں رہنے والے حضرات سے مخفی نہیں ہے
عرصہ دراز سے عالم عرب میں ایک نکاح کا طریقہ رائج ہے جو نکاح مسیار زواج مسیار جیسے نام سے معروف ہے۔ اس کی حمایت ومخالفت میں اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اور گرما گرم بحثیں ہوچکی ہیں۔
سار، يسر ،سيرا ،کے معنی ہیں چلنا، سفر کرنا۔
عرب کہتے ہیں سار الرجل يسير سيراً. وتسيراً ومسيرة وسيرورة إذا ذهب۔
و تقول العرب: سار الكلام أو المثل فهو سائر وسيَار إذا شاع وأنتشر وذاع. والمثل السائر الجاري الشائع بين الناس۔
پہلے ہم مسیار کے معانی کو دیکھتے ہیں
مسيار۔ مفعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی بہت زیادہ چلنا۔
عربی میں بہت زیادہ چلنے والے آدمی کو رجل مسيار و ‘رجل سيار کہتے ہیں۔(المفردات في غريب القران، الأصفهاني: أبو القاسم.ص,247۔لسان العرب،أبن منظور: ج2/ص,252۔ المعجم الوسيط، إبراهيم أنيس: ج1/ص,467)
مسیار بمعنی مسافرت یا آسانی سے بھی مشتق ہوسکتا ہے۔
مرد حالت مسافر وملازمت میں کسی غیر ملک میں کام کے سلسلے میں جائے پھر اسے وہاں نکاح کی حاجت ہو تو طلاق کی نیت سے نکاح کرلے یعنی دل میں یہ سوچے کہ جب میں سال دو سال بعد واپس آئوں گا تو طلاق دیدوں گا۔
عورت نان نفقہ کے حق اور ساتھ رہنے کے حق وغیرہ سے دستبردار ہوجائے۔ بیوی اپنے میکے ر ہے اورمرد کو جب موقع ملے بیوی سے اس کے میکے آکے یا کچھ وقت کے لئے ساتھ میں کہیں دوسری جگہ لے جاکر غالبا یہیں سے مسیار نام پڑا ہو حلال طریقے سے جنسی ضروریات پوری کرلے تو اسے نکاح مسیار اور عربی میں زواج مسیار کہتے ہیں۔
خلیج اور نجد کے بعض دیہی علاقوں میں صرف گزرنے اور معمولی مدت کے لئے ٹھہرنے کے لئے بھی مسیار کا اطلاق ہوتا ہے۔
چونکہ نکاح مسیار میں شوہر سسرال میں قلیل مدت کے لئے آتاجاتا ہے اسی لئے اسے مسیار کہتے ہیں نکاح مسیار خصوصاً عربوں میں رائج ایک قسم کا نکاح ہے جو عام نکاح کی طرح منعقد ہوتا ہے مگر اس میں مرد و عورت باہمی رضامندی سے اپنے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً عورت کے نان و نفقہ کا حق، ساتھ رہنے کا حق، باری کی راتوں کا حق، وغیرہ۔ عام طور پر اس میں وقت مقرر نہیں ہوتا مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ زیادہ تر یہ قلیل مدت کے بعد ختم ہو جاتا ہے اس لحاظ سے یہ نکاح متعہ سے شباہت رکھتا ہے مگر یہ نکاح متعہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگرچہ اس نکاح کے بعد مروّجہ شادی نہیں ہوتی اور مرد و عورت اکثر ساتھ بھی نہیں رہتے اور اپنی جنسی ضروریات کو بوقت ضرورت حلال طریقہ سے پورا کرتے ہیں لیکن اس میں مدت متعین نہیں کی جاتی اور اس کا خاتمہ طلاق پر ہوتا ہے۔
اس میں اصل مہر ہے عورت اپنی مرضی سے مہر طلب کر کے اتفاق کرتی ہے ۔باقی نکاح کی طرح مروجہ نکاح کے بنسبت کچھ کمی و بیشی کے ساتھ معاملات ہوتے ہیں ۔
مضمون ابھی باقی ہے ۔
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی جيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ نيبال
سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
٢٥/٩/٢٠٢٠