"مردود نرسنگھا کے خلاف قانونی کاروائی"
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
معلون و مردود "یتی نرسنگھا نند سرسوتی" ایک بدزبان,گستاخ خبیث شخص ہے یہ اکثر اپنے متنازع بیانات اور مسلم مخالف تبصروں کی وجہ سے خبروں میں بنا رہتا ہے,یہ کئی بار گستاخانہ بیانات اور نفرت پھیلانے والے کلمات بول چکا ہے اب اس کے ردعمل میں ملک میں قانونی چارہ جوئی یا احتجاج کیا جا سکتا ہے، یہ ملک کے مختلف مذہبی اور سماجی گروہوں کی جانب سے ہو ۔
یہ بھی واضح رہے کہ ملک لے آئین کے تحت، مذہبی آزادی کا حق موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں نفرت انگیز تقاریر، خاص طور پر جو کہ مذہبی جذبات کو مجروح کرتی ہیں، کے خلاف قوانین بھی ہیں جیسے:
1. آئی پی سی سیکشن 153A (دشمنی پھیلانا):
یہ دفعہ ان افراد پر لگائی جاتی ہے جو مذہب، نسل، زبان یا کسی اور بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دیتے ہیں یا عوامی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے تحت نفرت انگیز تقاریر اور تحریروں پر کارروائی کی جا سکتی ہے۔
2. آئی پی سی سیکشن 295A (مذہبی جذبات کو مجروح کرنا):
یہ دفعہ اس شخص پر لگائی جاتی ہے جو جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے کوئی گستاخانہ عمل کرے۔
اس کے تحت سخت سزائیں ہو سکتی ہیں، خاص طور پر اگر مذہبی توہین کی نیت ثابت ہو جائے۔
3. آئی پی سی سیکشن 505(2) (اشتعال انگیزی اور افواہیں پھیلانا):
یہ دفعہ ان بیانات، افواہوں یا رپورٹوں پر لگائی جاتی ہے جو عوام میں خوف و ہراس یا تشدد پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں، یا مختلف طبقات کے درمیان دشمنی کو فروغ دیتی ہیں۔
4. آئی پی سی سیکشن 298 (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے بات کرنا):
اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے کوئی بیان دیتا ہے، تو اس پر یہ دفعہ لگائی جا سکتی ہے۔
یتی نرسنگھا نند سرسوتی کے گستاخانہ بیانات ان دفعات کے دائرے میں آتے ہیں اس لئے ہم مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرا سکتے ہیں یا عدالت میں مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ پولیس کو شکایت کرنے پر ابتدائی تفتیش کرے گی اور اگر پولیس کے نزدیک الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔
ہم متعلقہ قوانین کے تحت قانونی کارروائی شروع کر سکتے ہیں، جیسے کہ شکایت درج کروانا، یا عدالت میں مقدمہ دائر کرنا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر عوامی دباؤ یا میڈیا کے ذریعے بھی قانونی کارروائی کی رفتار میں تیزی آ سکتی ہے۔
یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ سوشل میڈیا اور عوامی رائے کے دباؤ کی وجہ سے بھی حکومت یا پولیس ایسے معاملات میں کارروائی کرتی ہے، خاص طور پر جب اس کا تعلق بین المذاہب تناؤ سے ہو۔
معلون و مردود "یتی نرسنگھا نند سرسوتی" ایک بدزبان,گستاخ خبیث شخص ہے یہ اکثر اپنے متنازع بیانات اور مسلم مخالف تبصروں کی وجہ سے خبروں میں بنا رہتا ہے,یہ کئی بار گستاخانہ بیانات اور نفرت پھیلانے والے کلمات بول چکا ہے اب اس کے ردعمل میں ملک میں قانونی چارہ جوئی یا احتجاج کیا جا سکتا ہے، یہ ملک کے مختلف مذہبی اور سماجی گروہوں کی جانب سے ہو ۔
یہ بھی واضح رہے کہ ملک لے آئین کے تحت، مذہبی آزادی کا حق موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں نفرت انگیز تقاریر، خاص طور پر جو کہ مذہبی جذبات کو مجروح کرتی ہیں، کے خلاف قوانین بھی ہیں جیسے:
1. آئی پی سی سیکشن 153A (دشمنی پھیلانا):
یہ دفعہ ان افراد پر لگائی جاتی ہے جو مذہب، نسل، زبان یا کسی اور بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دیتے ہیں یا عوامی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے تحت نفرت انگیز تقاریر اور تحریروں پر کارروائی کی جا سکتی ہے۔
2. آئی پی سی سیکشن 295A (مذہبی جذبات کو مجروح کرنا):
یہ دفعہ اس شخص پر لگائی جاتی ہے جو جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے کوئی گستاخانہ عمل کرے۔
اس کے تحت سخت سزائیں ہو سکتی ہیں، خاص طور پر اگر مذہبی توہین کی نیت ثابت ہو جائے۔
3. آئی پی سی سیکشن 505(2) (اشتعال انگیزی اور افواہیں پھیلانا):
یہ دفعہ ان بیانات، افواہوں یا رپورٹوں پر لگائی جاتی ہے جو عوام میں خوف و ہراس یا تشدد پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں، یا مختلف طبقات کے درمیان دشمنی کو فروغ دیتی ہیں۔
4. آئی پی سی سیکشن 298 (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے بات کرنا):
اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے کوئی بیان دیتا ہے، تو اس پر یہ دفعہ لگائی جا سکتی ہے۔
یتی نرسنگھا نند سرسوتی کے گستاخانہ بیانات ان دفعات کے دائرے میں آتے ہیں اس لئے ہم مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرا سکتے ہیں یا عدالت میں مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ پولیس کو شکایت کرنے پر ابتدائی تفتیش کرے گی اور اگر پولیس کے نزدیک الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔
ہم متعلقہ قوانین کے تحت قانونی کارروائی شروع کر سکتے ہیں، جیسے کہ شکایت درج کروانا، یا عدالت میں مقدمہ دائر کرنا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر عوامی دباؤ یا میڈیا کے ذریعے بھی قانونی کارروائی کی رفتار میں تیزی آ سکتی ہے۔
یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ سوشل میڈیا اور عوامی رائے کے دباؤ کی وجہ سے بھی حکومت یا پولیس ایسے معاملات میں کارروائی کرتی ہے، خاص طور پر جب اس کا تعلق بین المذاہب تناؤ سے ہو۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍محمد عباس الازہری
✍محمد عباس الازہری