ایک ایسا مجرب عمل جس پر عمل کرنے سے عمر بھر دانت خراب نہ ہوگا
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں!وتر کی تینوں رکعتوں میں مخصوص سورتیں پڑھنے کے بارے میں دو قول ہے اول:- حدیث شریف میں ہے وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم رب الاعلی یا انا انزلنا، دوسری میں قل یا ایھا الکافرون اور تیسری میں قل ھو اللہ پڑھنا سنت ہے۔
دوسرا:- اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ پہلی میں اذا جاء نصر اللہ، دوسری میں تبت یدا ابی لہب اور تیسری میں قل ھو اللہ جو مسلسل پڑھے گا اس کے دانت میں بیماری نہیں ہوگی۔ سردست بعد تفصیل عرض یہ ہے کہ ایک طرف حدیث اور دوسری طرف امام اہل سنت کا قول اس تعارض کی تطبیق کیا ہوگی۔ کہ اگر اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے قول پر عمل کرتے ہیں تو بیماری سے نجات تو ہے لیکن سنت نبوی کا ترک کرنا لازم آرہا ہے۔اور ایک بات سطح ذہن پر گردش کر رہی ہے کہ سرکارِ اعلی حضرت نے سنت سے تعارض کا قول کیوں فرما دیا جب وہ ایک سچے عاشقِ رسول اور مقبول بارگاہِ خدا و رسول ہیں۔
حضرت مفتی صاحب قبلہ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ میری اس تشویش کو دور فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں
المستفتی: محمد فیضان رضا علیمی
استاد مدرسہ قادریہ سلیمیہ چاندپورہ ایسواپور ضلع چھپرہ بہار
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں!وتر کی تینوں رکعتوں میں مخصوص سورتیں پڑھنے کے بارے میں دو قول ہے اول:- حدیث شریف میں ہے وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم رب الاعلی یا انا انزلنا، دوسری میں قل یا ایھا الکافرون اور تیسری میں قل ھو اللہ پڑھنا سنت ہے۔
دوسرا:- اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ پہلی میں اذا جاء نصر اللہ، دوسری میں تبت یدا ابی لہب اور تیسری میں قل ھو اللہ جو مسلسل پڑھے گا اس کے دانت میں بیماری نہیں ہوگی۔ سردست بعد تفصیل عرض یہ ہے کہ ایک طرف حدیث اور دوسری طرف امام اہل سنت کا قول اس تعارض کی تطبیق کیا ہوگی۔ کہ اگر اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے قول پر عمل کرتے ہیں تو بیماری سے نجات تو ہے لیکن سنت نبوی کا ترک کرنا لازم آرہا ہے۔اور ایک بات سطح ذہن پر گردش کر رہی ہے کہ سرکارِ اعلی حضرت نے سنت سے تعارض کا قول کیوں فرما دیا جب وہ ایک سچے عاشقِ رسول اور مقبول بارگاہِ خدا و رسول ہیں۔
حضرت مفتی صاحب قبلہ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ میری اس تشویش کو دور فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں
المستفتی: محمد فیضان رضا علیمی
استاد مدرسہ قادریہ سلیمیہ چاندپورہ ایسواپور ضلع چھپرہ بہار
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب:-
حدیث اور سرکار سیدی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت حضور مجدداعظم امام احمد رضا کے قول میں ظاہرا کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ دونوں قول صحیح ہے ایک قول فعل سنت نبوی سے ہے دوسرا قول مشائخ کرام سے ہے جس کا فائدہ دانت خراب نہ ہونا ہے آپ جس پر عمل کریں دونوں جائز ہے
یہ صحیح ہے کہ نماز وتر کی تینوں رکعات میں وہ تینوں سورتیں پڑھنا سنت ہے
(1) جیسا کہ مسند امام اعظم میں ہے کہ
مسند امام اعظم میں ہے کہ عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا قالت ۔کان رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یؤتر بثلاث ۔یقراء فی الاولی :سبح اسم ربک الاعلی وفی الثانیۃ بقل یایھاالکفرون وفی الثالثۃ بقل ھو اللہ احد یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وتر تین رکعت ادا کرتے ۔پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص تلاوت فرماتے تھے ( شرح مسند امام اعظم ص 367)
اس سے واضح ہوا کہ نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ الاعلی ۔دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص کا انتخاب مسنون ہے یعنی نماز وتر کی رکعات ثلاثہ میں قراءت مسنونہ کا مسئلہ صراحت سے سامنے اجاتا ہے
(2) جیسا کہ ابن ماجہ شریف میں ہے
عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کان یؤتر سبح اسم ربک الاعلی عقل یا ایھا الکافرون و قل ھو اللہ احد یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وتر کی نماز میں سورۃ الاعلی ۔سورہ کافرون ۔اور سورہ اخلاص کی تلاوت کرتے تھے (شرح ابن ماجہ جلد دوم ص 467 باب ما جاء فیما یقراء فی الوتر حدیث نمبر 1172)
(3) طحاوی میں ہے کہ زبید حضرت سعید بن عبد الرحمن بن ابزی سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز وتر ادا کئے آپ نے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی دوسری میں قل یایھاالکفرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھی جب فارغ ہوئے تو تین بار سبحان الملک القدوس پڑھا تیسری بار بلند آواز بلند فرمائی ( طحاوی شریف جلد اول رقم الحدیث 1617 )
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر میں یہی تین سورتوں کا پڑھنا سنت ہے
*اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس سنت سے کیا مراد ہے یعنی کیا اسی تین سورتوں کا وتر میں پڑھنا ضروری ہے*.؟
اس سے مراد ہے کہ وتر میں ان تین سورتوں کا پڑھنا بہتر ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ
وتر میں اخیر رکعت میں قل ھو اللہ احد شریف پڑھنا ماثور ہے مگر ضرور نہیں ۔جو چایے پڑھے ۔بہتر یہ ہے کہ پہلی میں سبح اسم ربک الاعلی یا انا انزلناہ اور دوسری میں کفرون تیسری میں اخلاص (فتاوی رضویہ جلد جدید ہفتم ص 448)
اس سے واضح ہوا کہ وتر میں ان تین سورتوں کا پڑھنا بہتر ہے ضروری نہیں ہے
سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد
فرماتے ہیں کہ سنت فجر میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے مروی وماثور سنت وہی ہے کہ پہلی رکعت میں قل یایھاالکفرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص اور الم نشرح اور الم ترکیف پڑھنا مشائخ سے بطور عمل مروی ہے کہ جس کا فائدہ دفع اعداء ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید ہفتم ص 448)
اس سے واضح ہوا کہ نماز فجر کی سنت میں سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھنا سنت ہے اور الم نشرح اور الم ترکیف پڑھنا مشائخ سے بطور عمل مروی ہے جس کا فائدہ دفع اعداء لہذا دونوں صورتیں درست ہے کیونکہ یہ وہ سنت نبوی نہیں ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے ہاں عمل کرنا بہتر ہے کہ وہی دو سورتیں پڑھیں جو سنت سے ثابت ہے لیکن اس پر بھی مواظبت اختیار نہ کریں تاکہ لوگ اسے واجب جاننے لگیں بس ثابت ہوا کہ وتر میں بہتر وہی ہے جو ماثور ہے مگر پہلی رکعت میں اذا جاء نصر اللہ ۔دوسری میں تبت یدا ابی لہب اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھنا بھی جائز ہے کہ مشائخ کرام سے بطور عمل مروی ہے جس کا فائدہ اس کے دانت میں عمر بھر درد نہ ہوگا اور مشائخ کرام کے اقوال پر بھی عمل کرنے کا حکم ہے اور وہ تجربہ کرکے بیان کرتے ہیں لہذا اس کو بھی پڑھنا جائز ہے
ایک مثال سمجھے کہ وتر کے تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنا سنت ہے مگر یہ کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
،نماز وتر کی تیسری رکعت میں سورہء فاتحہ کے ساتھ سورہ اخلاص ہی پڑھنا کوئی قید نہیں اختیار ہے جو سورۃ چاہے پڑھے یا چھوٹی ایتیں یا بڑی ایک آیت ( فتاوی رضویہ جلد جدید ہفتم ص 484)
اس سے معلوم ہوا کہ وتر کی تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنا سنت ہونے کے باوجود سورہ اخلاص ہی پڑھنا ضروری ہے کہ کوئی بات نہیں ہے
ایک اور مثال سے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کہ نماز تراویح میں ایک ختم پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے مگر ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھے تو بھی جائز ہے سوال یہ اٹھتا ہے کہ سنت مؤکدہ کا خلاف کرنا جائز کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن علماء فرماتے ہیں کہ یہ جائز ہے پھر علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی الم ترکیف سے شروع کیا پھر اس کا تکرار کیا تو یہ طریقہ بھی احسن ہے کیونکہ رکعات کہ گنتی میں غلطی نہ ہوگی فتاوی رضویہ میں ہے کہ
تراویح میں پورا کلام اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے یہ ص 458 ہر ہے پھر ص 459 پر ہے کہ تراویح میں بعد سورہ فاتحہ سورہ اخلاص پڑھنا بلا کراہت جائز ہے اگرچہ سورہ فیل سے آخر تک تکرار کا طریقہ بہتر ہے کہ اس میں رکعات کی گنتی یاد رکھنی نہیں پڑتی ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید ہفتم ص 459)
دیکھا آپ نے کہ تراویح میں ایک ختم قرآن پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے اس کے باوجود بھی علماء فرماتے ہیں کہ احسن طریقہ یہ ہے کہ الم ترکیف سے پڑھا جائے کیونکہ اس طریقہ میں رکعات کی گنتی میں غلطی نہ ہوگی یہاں یہ عذر ہے کہ رکعات کی گنتی میں غلطی نہ ہوگی اس لئے الم ترکیف سے پڑھنا احسن طریقہ ہے
ردالمحتار میں ہے کہ
فی التجننیس واختار بعضھم سورۃ الاخلاص فی کل رکعۃ و بعضھم سورۃ الفیل ای البداءۃ منھا ثم یعیدھا وھذا احسن لئلا یشتغل قلبہ بعدد الرکعات یعنی تجنیس میں سے کہ بعض نے ہر رکعت میں سورۃ اخلاص کو مختار کہا بعض نے سورۃ فیل کو یعنی اس سے ابتداء ہو اور پھر تکرار کیا جائے اور سب سے بہتر ہے تاکہ دل تعداد رکعات کی طرف متوجہ نہ ہو (ردالمحتار مبحث التراویح جلد دوم ص 47)
اس سے معلوم ہوا کہ نماز تراویح میں بعض علماء کے نزدیک ہر پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور ہر دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنا مختار ہے اسی طرح بیسوں رکعات میں پڑھا جائے گا جبکہ ایک ختم پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے پھر سنت مؤکدہ کا خلاف عمل کرنا قول مختار کیسے کہلائے گا ؟ پھر ردالمحتار میں تجنیس سے ہے کہ بعض علماء نے فرمایا کہ الم ترکیف سے ابتداء ہو اور پھر تکرار کیا جائے یعنی الم ترکیف سے سورہ ناس تک دس رکعات میں ایک دورہ ہوگا پھر سے سورہ الم ترکیف سے تکرار کرے تاکہ بیس رکعات تراویح کی نماز مکمل ہوجایے اور اس صورت کو احسن کہا گیا یہ طریقہ بھی مسنون طریقہ کے خلاف ہے لیکن علماء نے قبول فرمایا اور برقرار رکھا اور اسی پر فتویٰ دیا جبکہ ایک ختم قرآن پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے کیا سنت مؤکدہ کے خلاف عمل احسن کہلائے گا ؟ بلکہ گناہ ہوگا لیکن علماء احسن فرماریے ہیں اسی لئے کہا گیا ہے کہ ہر مسئلہ کی دلیل ہمارے ائمہ کے ذمہ ہے ہمیں صرف ان کی اتباع کرنی ہے
مراقی الفلاح ص 249 میں ہے وسن ختم القرآن فیھا آی التراویح مرۃ فی الشھر علی الصحیح وان مل بہ ای بختم القرآن فی الشھر القوم قرا بقدر مالایودی الی تنفیر ھم فی المختار لان الافضل فی زماننا مالا یؤدی الی تنفیر الجماعۃ کذا فی الاختیار ۔وفی المحیط الافضل فی زماننا ان یقراء بما لاہودی الی تنفیر القوم عن الجماعۃ لان تکثیر القوم افضل من تطویل الجماعۃ بہ یفتی وقال الزاھدی یقراء کما فی المغرب سی یقصار المفصل بعد الفاتحۃ یعنی ماہ رمضان میں تراویح میں ایک ختم قرآن سنت ہے ۔اگر قوم اسے گراں محسوس کرے تو اسی حد تک ہڑھا جائے کہ ان کی تنفیر کا سبب نہ ہو یہی مذہب مختار ہے ۔کیونکہ ہمارے زمانہ میں افضل یہی ہے کہ لوگوں کو جماعت سے دور کرنے کا سبب نہ بنایا جائے ۔ایسا ہی الاختیار میں ہے ۔المحیط میں ہمارے زمانہ میں افضل یہ ہے کہ اتنا ہی پڑھا جائے کہ قوم کی تنفیر کا سبب نہ ہو ۔کیونکہ جماعت میں لوگوں زیادہ ہونا جماعت کو لمبا کرنے سے بہتر ہے اسی پر فتویٰ ہے ۔الزاہدی نے کہا ہے فاتحہ کے بعد قصار مفصل سے پڑھا جائے جیسا کہ مصرف عرب تنویر الابصار مع درمختار میں ہے کہ والسنۃ السور الثلاث یعنی (نماز وتر میں ) اور سنت تین سورتیں ہیں
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے
(والسنۃ السور الثلاث) ای (الاعلی) (والکافرون) والاخلاص لکن فی النھایۃ ان التعیین علی الدوام یفضی الی اعتقاد بعض الناس انہ واجب ۔وھو لایجوز فلو قرا بما ورد بہ الآثار احیانا بلا مواظبۃ یکون حسنا یعنی نماز وتر میں وی تین سورتیں یہ ہیں سورۃ الاعلی سورۃ الکافرون اور سورۃ اخلاص لیکن النہایہ میں ہے : ہمیشہ کے لئے انہیں متعین کرنا بعض لوگوں کے اعتقاد کہ یہ واجب ہے کی طرف لے جائے گا جبکہ یہ جائز نہیں۔اگر اس نے کبھی کبھی قراءت کی جیسے آثار وارد ہیں ۔(یعنی وہی تین سورتیں) مواظبت اختیار نہ کی تو یہ حسن ہوگا ( ردالمحتار جلد دوم ص 441 کتاب الصلاۃ باب الوتر والنوافل)
اس سے واضح ہوا کہ وتر میں ان تین سورتوں پر مواظبت جائز نہیں کہ بعض لوگ انہی تین سورتوں کا پڑھنا واجب سمجھنے لگیں گے سو یہ جائز نہیں ہے ہاں کبھی کبھی اس سنت پر بھی عمل کیا جائے
مروی ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی پڑھی اور دوسری میں ھل اتک حدیث الغاشیۃ پڑھی (سنن ابی داؤد شریف ۔کتاب الصلاۃ ۔باب یقراء بہ فی الجمعۃ جلد اول ص411 حدیث نمبر 950)
اس سے واضح ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن نماز یہی دو سورتیں پڑھی
اور تنویر الابصار مع درمختار میں ( ویکرہ التعیین ) کالسجدۃ (ھل اتی) لفجر کل جمعۃ بل یندب قراءتھما احیانا یعنی اور سورتوں کی تعیین کرنا مکروہ ہے جیسے ہر جمعہ کی فجر کے لئے سورۃ السجدۃ اور ھل اتی پڑھنا ۔بلکہ کبھی کبھی ان دونوں سورتوں کو جمعہ کی فجر میں پڑھنا مستحب ہے (تنویر الابصار مع درمختار کتاب الصلاۃ فصل فی القراۃ جلد دوم ص 265)
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے کہ (ویکرہ التعیین ) کا السجدۃ (ھل اتی) لفجر کل جمعۃ ۔یعنی اور سورتوں کی تعیین کرنا مکروہ ہے جیسے ہر جمعہ کی فجر کے لئے سورۃ السجدہ اور ھل اتی پڑھنا ۔بلکہ کبھی کبھی ان دونوں سورتوں کو جمعہ کی فجر میں پڑھنا مستحب ہے ( ردالمحتار علی الدر المختار شرح تنویر الابصار جلد دوم ص 265 باب کتاب الصلاۃ فصل القراۃ )
فیستحب ان یقراء فی ذلک احیانا تبرکا بالماثور یعنی
پس منقول سورتوں سے تبرک حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی ان کو پڑھنا مستحب ہے ہے (ص 265)
مناسب نہیں کہ ہمیشہ کوئی ایک متعین سورت پڑھے تاکہ بعض لوگ یہ گمان نہ کریں یہ واجب ہے
ردالمحتار میں ہے کہ
اما لو قراءۃ للتیسیر علیہ او تبرکا بقراءۃ علیہ الصلاۃ والسلام فلا کراھۃ لکن بشرط ان یقراء غیرھا احیانا لئلا ہظن الجاھل ان غیرھا لایجوز
رہا یہ کہ اگر آپنے اوپر آسانی کے لئے یہ سورتیں پڑھتا ہو ۔یا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت سے تبرک حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوتو کراہت نہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کبھی کبھی دوسری سورتیں بھی پڑھے تاکہ جاہل یہ گمان نہ کریں کہ اس کے علاؤہ جائز نہیں ہے (ردالمحتار علی الدر المختار شرح تنویر الابصار کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ فصل فی القراۃ ص 266)
الحاصل نماز وتر میں کبھی ماثورہ سورتیں پڑھیں اور کبھی مشائخ کرام سے جو مروی ہے وہ پڑھیں کسی ایک ترتیب کو ہمیشہ اختیار نہ کریں ہاں فائدہ حاصل کرنے کی نیت سے زیادہ تر وہی تین سورتیں پڑھیں جو مشائخ کرام سے منقول ہے
کبھی کبھی ماثورہ تینوں سورتوں کو پڑھیں اور زیادہ تر اذاجاء نصراللہ اور تبت یدا اور سورہ اخلاص پڑھیں کسی ایک پر ہمیشہ مداومت نہ کریں کہ جاہل واجب سمجھنے لگے گا جو مکروہ ہے ہاں جو تین سورتیں مشائخ کرام سے بطور عمل مروی ہے اس کو پڑھنے سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ دانت عمر بھر ہر تکلیف سے محفوظ رہتا ہے لہذا اس نیت سے آپ ہمیشہ پڑھ سکتے ہیں لیکن کبھی کبھی حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت سے تبرک حاصل کرنے کی نیت سے وہ تینوں سورتیں بھی پڑھ لیا کریں اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ کا بتلایا ہوا عمل مجربات سے ہے جیسا کہ ماہنامہ استقامت کا مفتی اعظم نمبر میں ایک عمل بنام دانت عمر بھر خراب نہ ہوں کے تحت لکھا ہوا ہے کہ اعلی حضرت عظیم البرکت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عطا کردہ مجرب عمل کہ عشاء کے وتر جب پڑھے جائیں تو پہلی رکعت میں بعد الحمد سورہ اذاجاء دوسری میں تبت یدا اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھنے سے دانت عمر بھر ہر تکلیف سے محفوظ رہتے ہیں ۔سیکڑوں احباب کا آزمودہ ہے (ماہنامہ استقامت کانپور مفتی اعظم نمبر ماہ رجب المرجب 1403 ھ مطابق مئی 1983 ء نویں سال کا چوتھا شمارہ ص 513)
ایک دفعہ حضور شمس الاولیاء حضرت علامہ مولانا محمد شمس الحق صاحب رضوی رحمتہ اللہ علیہ مجھ سے فرماریے تھے کہ وتر کی نماز میں سورہ نصراللہ اور سورہ تبت یدا اور سورہ اخلاص پڑھتا ہوں بحمدہ سبحانہ وتعالی اب تک دانت میں درد کبھی نہیں ہوا آپ وتر میں یہی تین سورتیں پڑھا کرتے تھے
سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان کا قول سنت سے تعارض کا قول نہیں ہے بلکہ آپ نے ان تینوں سورتوں کو وتر میں پڑھنا بہتر فرمایا یعنی اس سنت پر عمل کرنا بہتر ہے واجب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے
اور وہ صورت جس میں سورہ اذاجاء دوسری میں تبت یدا اور تیسری میں سورہ اخلاص پڑھنے کو اس لئے بتایا کہ اس عمل سے عمر بھر دانت خراب نہیں ہوتا ہے
اور حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وتر کی نماز ان تینوں سورتوں کو پڑھنا یعنی کوئی چیز آسانی کی وجہ سے متعین نہیں فرمائی تو خود اس کے لئے متعین کرنا مکروہ ہے کیونکہ غایۃ البیان میں وتر میں تین سورتوں کی قراءت پر مواظبت کی کراہت کی تصریح کی ہے کیونکہ جاہل اسے واجب سمجھنے لگے گا ورنہ مکروہ نہیں ہے ہاں اس نے کبھی کبھی قراءت کی جیسے آثار وارد ہیں ۔مواظبت اختیار کی تو یہ حسن ہوگا پس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت سے تبرک حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی ان سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے
ہاں حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز وتر میں ان تینوں سورتوں ہی کا پڑھنا متعین فرما دیتے تو دوسرا قول سنت کے خلاف ہوتا ہے مگر ایسا کوئی حکم ارشاد نہیں ہے
اگر بقول سائل کے اعلی حضرت کے قول کو سنت سے تعارض کہا جائے گا تو خود حدیث شریف میں تعارض پیدا ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ بدھ کے دن ناخن تراشنا شفا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ بدھ کے دن ناخن کانٹنا باعث مرض برص ہے العیاذ باللہ
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک ہی کام ایک ہی دن میں کرنے سے شفا یا باعث مرض کیسے ہوسکتا ہے! یا تو شفا ہوگا یا تو باعث مرض ہوگا بس علماء فرماتے ہیں کہ بدھ کہ دن ناخن نہ کاٹے کہ شفاء حاصل کرنے سے بہتر کہ مرض میں مبتلا ہونے سے بچا جائے
بس سرکار سیدی اعلی حضرت کے قول میں کوئی تعارض نہیں اگر کسی کے سمجھ میں تعارض آنا ہے وہ کبھی ماثورہ والی تینوں سورتیں پڑھیں اور کبھی کبھی اذاجاء نصراللہ و تبت یدا اور قل ھو اللہ احد پڑھا کریں تاکہ دل میں کوئی تشویش پیدا نہ ہو اور تمام شک وشبہ دور ہو جائے
ہاں حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز وتر میں ان تینوں سورتوں ہی کا پڑھنا متعین فرما دیتے تو دوسرا قول سنت کے خلاف ہوتا ہے اسی لئے اعلی حضرت عظیم البرکت نے اس صورت کو بہتر فرمایا اس سے واضح ہوا کہ یہ واجب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے جب سنت مؤکدہ نہیں تو مشائخ کے قول پر عمل کرنا مفید ہوگا کیونکہ اس صورت میں عمر بھر دانت نہ خراب ہونے کی بشارت ہے اور مجرب پایا بھی گیا
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
الجواب بعون الملک الوہاب:-
حدیث اور سرکار سیدی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت حضور مجدداعظم امام احمد رضا کے قول میں ظاہرا کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ دونوں قول صحیح ہے ایک قول فعل سنت نبوی سے ہے دوسرا قول مشائخ کرام سے ہے جس کا فائدہ دانت خراب نہ ہونا ہے آپ جس پر عمل کریں دونوں جائز ہے
یہ صحیح ہے کہ نماز وتر کی تینوں رکعات میں وہ تینوں سورتیں پڑھنا سنت ہے
(1) جیسا کہ مسند امام اعظم میں ہے کہ
مسند امام اعظم میں ہے کہ عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا قالت ۔کان رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یؤتر بثلاث ۔یقراء فی الاولی :سبح اسم ربک الاعلی وفی الثانیۃ بقل یایھاالکفرون وفی الثالثۃ بقل ھو اللہ احد یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وتر تین رکعت ادا کرتے ۔پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص تلاوت فرماتے تھے ( شرح مسند امام اعظم ص 367)
اس سے واضح ہوا کہ نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ الاعلی ۔دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص کا انتخاب مسنون ہے یعنی نماز وتر کی رکعات ثلاثہ میں قراءت مسنونہ کا مسئلہ صراحت سے سامنے اجاتا ہے
(2) جیسا کہ ابن ماجہ شریف میں ہے
عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کان یؤتر سبح اسم ربک الاعلی عقل یا ایھا الکافرون و قل ھو اللہ احد یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وتر کی نماز میں سورۃ الاعلی ۔سورہ کافرون ۔اور سورہ اخلاص کی تلاوت کرتے تھے (شرح ابن ماجہ جلد دوم ص 467 باب ما جاء فیما یقراء فی الوتر حدیث نمبر 1172)
(3) طحاوی میں ہے کہ زبید حضرت سعید بن عبد الرحمن بن ابزی سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز وتر ادا کئے آپ نے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی دوسری میں قل یایھاالکفرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھی جب فارغ ہوئے تو تین بار سبحان الملک القدوس پڑھا تیسری بار بلند آواز بلند فرمائی ( طحاوی شریف جلد اول رقم الحدیث 1617 )
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر میں یہی تین سورتوں کا پڑھنا سنت ہے
*اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس سنت سے کیا مراد ہے یعنی کیا اسی تین سورتوں کا وتر میں پڑھنا ضروری ہے*.؟
اس سے مراد ہے کہ وتر میں ان تین سورتوں کا پڑھنا بہتر ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ
وتر میں اخیر رکعت میں قل ھو اللہ احد شریف پڑھنا ماثور ہے مگر ضرور نہیں ۔جو چایے پڑھے ۔بہتر یہ ہے کہ پہلی میں سبح اسم ربک الاعلی یا انا انزلناہ اور دوسری میں کفرون تیسری میں اخلاص (فتاوی رضویہ جلد جدید ہفتم ص 448)
اس سے واضح ہوا کہ وتر میں ان تین سورتوں کا پڑھنا بہتر ہے ضروری نہیں ہے
سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد
فرماتے ہیں کہ سنت فجر میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے مروی وماثور سنت وہی ہے کہ پہلی رکعت میں قل یایھاالکفرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص اور الم نشرح اور الم ترکیف پڑھنا مشائخ سے بطور عمل مروی ہے کہ جس کا فائدہ دفع اعداء ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید ہفتم ص 448)
اس سے واضح ہوا کہ نماز فجر کی سنت میں سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھنا سنت ہے اور الم نشرح اور الم ترکیف پڑھنا مشائخ سے بطور عمل مروی ہے جس کا فائدہ دفع اعداء لہذا دونوں صورتیں درست ہے کیونکہ یہ وہ سنت نبوی نہیں ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے ہاں عمل کرنا بہتر ہے کہ وہی دو سورتیں پڑھیں جو سنت سے ثابت ہے لیکن اس پر بھی مواظبت اختیار نہ کریں تاکہ لوگ اسے واجب جاننے لگیں بس ثابت ہوا کہ وتر میں بہتر وہی ہے جو ماثور ہے مگر پہلی رکعت میں اذا جاء نصر اللہ ۔دوسری میں تبت یدا ابی لہب اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھنا بھی جائز ہے کہ مشائخ کرام سے بطور عمل مروی ہے جس کا فائدہ اس کے دانت میں عمر بھر درد نہ ہوگا اور مشائخ کرام کے اقوال پر بھی عمل کرنے کا حکم ہے اور وہ تجربہ کرکے بیان کرتے ہیں لہذا اس کو بھی پڑھنا جائز ہے
ایک مثال سمجھے کہ وتر کے تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنا سنت ہے مگر یہ کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
،نماز وتر کی تیسری رکعت میں سورہء فاتحہ کے ساتھ سورہ اخلاص ہی پڑھنا کوئی قید نہیں اختیار ہے جو سورۃ چاہے پڑھے یا چھوٹی ایتیں یا بڑی ایک آیت ( فتاوی رضویہ جلد جدید ہفتم ص 484)
اس سے معلوم ہوا کہ وتر کی تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنا سنت ہونے کے باوجود سورہ اخلاص ہی پڑھنا ضروری ہے کہ کوئی بات نہیں ہے
ایک اور مثال سے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کہ نماز تراویح میں ایک ختم پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے مگر ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھے تو بھی جائز ہے سوال یہ اٹھتا ہے کہ سنت مؤکدہ کا خلاف کرنا جائز کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن علماء فرماتے ہیں کہ یہ جائز ہے پھر علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی الم ترکیف سے شروع کیا پھر اس کا تکرار کیا تو یہ طریقہ بھی احسن ہے کیونکہ رکعات کہ گنتی میں غلطی نہ ہوگی فتاوی رضویہ میں ہے کہ
تراویح میں پورا کلام اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے یہ ص 458 ہر ہے پھر ص 459 پر ہے کہ تراویح میں بعد سورہ فاتحہ سورہ اخلاص پڑھنا بلا کراہت جائز ہے اگرچہ سورہ فیل سے آخر تک تکرار کا طریقہ بہتر ہے کہ اس میں رکعات کی گنتی یاد رکھنی نہیں پڑتی ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید ہفتم ص 459)
دیکھا آپ نے کہ تراویح میں ایک ختم قرآن پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے اس کے باوجود بھی علماء فرماتے ہیں کہ احسن طریقہ یہ ہے کہ الم ترکیف سے پڑھا جائے کیونکہ اس طریقہ میں رکعات کی گنتی میں غلطی نہ ہوگی یہاں یہ عذر ہے کہ رکعات کی گنتی میں غلطی نہ ہوگی اس لئے الم ترکیف سے پڑھنا احسن طریقہ ہے
ردالمحتار میں ہے کہ
فی التجننیس واختار بعضھم سورۃ الاخلاص فی کل رکعۃ و بعضھم سورۃ الفیل ای البداءۃ منھا ثم یعیدھا وھذا احسن لئلا یشتغل قلبہ بعدد الرکعات یعنی تجنیس میں سے کہ بعض نے ہر رکعت میں سورۃ اخلاص کو مختار کہا بعض نے سورۃ فیل کو یعنی اس سے ابتداء ہو اور پھر تکرار کیا جائے اور سب سے بہتر ہے تاکہ دل تعداد رکعات کی طرف متوجہ نہ ہو (ردالمحتار مبحث التراویح جلد دوم ص 47)
اس سے معلوم ہوا کہ نماز تراویح میں بعض علماء کے نزدیک ہر پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور ہر دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنا مختار ہے اسی طرح بیسوں رکعات میں پڑھا جائے گا جبکہ ایک ختم پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے پھر سنت مؤکدہ کا خلاف عمل کرنا قول مختار کیسے کہلائے گا ؟ پھر ردالمحتار میں تجنیس سے ہے کہ بعض علماء نے فرمایا کہ الم ترکیف سے ابتداء ہو اور پھر تکرار کیا جائے یعنی الم ترکیف سے سورہ ناس تک دس رکعات میں ایک دورہ ہوگا پھر سے سورہ الم ترکیف سے تکرار کرے تاکہ بیس رکعات تراویح کی نماز مکمل ہوجایے اور اس صورت کو احسن کہا گیا یہ طریقہ بھی مسنون طریقہ کے خلاف ہے لیکن علماء نے قبول فرمایا اور برقرار رکھا اور اسی پر فتویٰ دیا جبکہ ایک ختم قرآن پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے کیا سنت مؤکدہ کے خلاف عمل احسن کہلائے گا ؟ بلکہ گناہ ہوگا لیکن علماء احسن فرماریے ہیں اسی لئے کہا گیا ہے کہ ہر مسئلہ کی دلیل ہمارے ائمہ کے ذمہ ہے ہمیں صرف ان کی اتباع کرنی ہے
مراقی الفلاح ص 249 میں ہے وسن ختم القرآن فیھا آی التراویح مرۃ فی الشھر علی الصحیح وان مل بہ ای بختم القرآن فی الشھر القوم قرا بقدر مالایودی الی تنفیر ھم فی المختار لان الافضل فی زماننا مالا یؤدی الی تنفیر الجماعۃ کذا فی الاختیار ۔وفی المحیط الافضل فی زماننا ان یقراء بما لاہودی الی تنفیر القوم عن الجماعۃ لان تکثیر القوم افضل من تطویل الجماعۃ بہ یفتی وقال الزاھدی یقراء کما فی المغرب سی یقصار المفصل بعد الفاتحۃ یعنی ماہ رمضان میں تراویح میں ایک ختم قرآن سنت ہے ۔اگر قوم اسے گراں محسوس کرے تو اسی حد تک ہڑھا جائے کہ ان کی تنفیر کا سبب نہ ہو یہی مذہب مختار ہے ۔کیونکہ ہمارے زمانہ میں افضل یہی ہے کہ لوگوں کو جماعت سے دور کرنے کا سبب نہ بنایا جائے ۔ایسا ہی الاختیار میں ہے ۔المحیط میں ہمارے زمانہ میں افضل یہ ہے کہ اتنا ہی پڑھا جائے کہ قوم کی تنفیر کا سبب نہ ہو ۔کیونکہ جماعت میں لوگوں زیادہ ہونا جماعت کو لمبا کرنے سے بہتر ہے اسی پر فتویٰ ہے ۔الزاہدی نے کہا ہے فاتحہ کے بعد قصار مفصل سے پڑھا جائے جیسا کہ مصرف عرب تنویر الابصار مع درمختار میں ہے کہ والسنۃ السور الثلاث یعنی (نماز وتر میں ) اور سنت تین سورتیں ہیں
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے
(والسنۃ السور الثلاث) ای (الاعلی) (والکافرون) والاخلاص لکن فی النھایۃ ان التعیین علی الدوام یفضی الی اعتقاد بعض الناس انہ واجب ۔وھو لایجوز فلو قرا بما ورد بہ الآثار احیانا بلا مواظبۃ یکون حسنا یعنی نماز وتر میں وی تین سورتیں یہ ہیں سورۃ الاعلی سورۃ الکافرون اور سورۃ اخلاص لیکن النہایہ میں ہے : ہمیشہ کے لئے انہیں متعین کرنا بعض لوگوں کے اعتقاد کہ یہ واجب ہے کی طرف لے جائے گا جبکہ یہ جائز نہیں۔اگر اس نے کبھی کبھی قراءت کی جیسے آثار وارد ہیں ۔(یعنی وہی تین سورتیں) مواظبت اختیار نہ کی تو یہ حسن ہوگا ( ردالمحتار جلد دوم ص 441 کتاب الصلاۃ باب الوتر والنوافل)
اس سے واضح ہوا کہ وتر میں ان تین سورتوں پر مواظبت جائز نہیں کہ بعض لوگ انہی تین سورتوں کا پڑھنا واجب سمجھنے لگیں گے سو یہ جائز نہیں ہے ہاں کبھی کبھی اس سنت پر بھی عمل کیا جائے
مروی ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی پڑھی اور دوسری میں ھل اتک حدیث الغاشیۃ پڑھی (سنن ابی داؤد شریف ۔کتاب الصلاۃ ۔باب یقراء بہ فی الجمعۃ جلد اول ص411 حدیث نمبر 950)
اس سے واضح ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن نماز یہی دو سورتیں پڑھی
اور تنویر الابصار مع درمختار میں ( ویکرہ التعیین ) کالسجدۃ (ھل اتی) لفجر کل جمعۃ بل یندب قراءتھما احیانا یعنی اور سورتوں کی تعیین کرنا مکروہ ہے جیسے ہر جمعہ کی فجر کے لئے سورۃ السجدۃ اور ھل اتی پڑھنا ۔بلکہ کبھی کبھی ان دونوں سورتوں کو جمعہ کی فجر میں پڑھنا مستحب ہے (تنویر الابصار مع درمختار کتاب الصلاۃ فصل فی القراۃ جلد دوم ص 265)
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے کہ (ویکرہ التعیین ) کا السجدۃ (ھل اتی) لفجر کل جمعۃ ۔یعنی اور سورتوں کی تعیین کرنا مکروہ ہے جیسے ہر جمعہ کی فجر کے لئے سورۃ السجدہ اور ھل اتی پڑھنا ۔بلکہ کبھی کبھی ان دونوں سورتوں کو جمعہ کی فجر میں پڑھنا مستحب ہے ( ردالمحتار علی الدر المختار شرح تنویر الابصار جلد دوم ص 265 باب کتاب الصلاۃ فصل القراۃ )
فیستحب ان یقراء فی ذلک احیانا تبرکا بالماثور یعنی
پس منقول سورتوں سے تبرک حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی ان کو پڑھنا مستحب ہے ہے (ص 265)
مناسب نہیں کہ ہمیشہ کوئی ایک متعین سورت پڑھے تاکہ بعض لوگ یہ گمان نہ کریں یہ واجب ہے
ردالمحتار میں ہے کہ
اما لو قراءۃ للتیسیر علیہ او تبرکا بقراءۃ علیہ الصلاۃ والسلام فلا کراھۃ لکن بشرط ان یقراء غیرھا احیانا لئلا ہظن الجاھل ان غیرھا لایجوز
رہا یہ کہ اگر آپنے اوپر آسانی کے لئے یہ سورتیں پڑھتا ہو ۔یا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت سے تبرک حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوتو کراہت نہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کبھی کبھی دوسری سورتیں بھی پڑھے تاکہ جاہل یہ گمان نہ کریں کہ اس کے علاؤہ جائز نہیں ہے (ردالمحتار علی الدر المختار شرح تنویر الابصار کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ فصل فی القراۃ ص 266)
الحاصل نماز وتر میں کبھی ماثورہ سورتیں پڑھیں اور کبھی مشائخ کرام سے جو مروی ہے وہ پڑھیں کسی ایک ترتیب کو ہمیشہ اختیار نہ کریں ہاں فائدہ حاصل کرنے کی نیت سے زیادہ تر وہی تین سورتیں پڑھیں جو مشائخ کرام سے منقول ہے
کبھی کبھی ماثورہ تینوں سورتوں کو پڑھیں اور زیادہ تر اذاجاء نصراللہ اور تبت یدا اور سورہ اخلاص پڑھیں کسی ایک پر ہمیشہ مداومت نہ کریں کہ جاہل واجب سمجھنے لگے گا جو مکروہ ہے ہاں جو تین سورتیں مشائخ کرام سے بطور عمل مروی ہے اس کو پڑھنے سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ دانت عمر بھر ہر تکلیف سے محفوظ رہتا ہے لہذا اس نیت سے آپ ہمیشہ پڑھ سکتے ہیں لیکن کبھی کبھی حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت سے تبرک حاصل کرنے کی نیت سے وہ تینوں سورتیں بھی پڑھ لیا کریں اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ کا بتلایا ہوا عمل مجربات سے ہے جیسا کہ ماہنامہ استقامت کا مفتی اعظم نمبر میں ایک عمل بنام دانت عمر بھر خراب نہ ہوں کے تحت لکھا ہوا ہے کہ اعلی حضرت عظیم البرکت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عطا کردہ مجرب عمل کہ عشاء کے وتر جب پڑھے جائیں تو پہلی رکعت میں بعد الحمد سورہ اذاجاء دوسری میں تبت یدا اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھنے سے دانت عمر بھر ہر تکلیف سے محفوظ رہتے ہیں ۔سیکڑوں احباب کا آزمودہ ہے (ماہنامہ استقامت کانپور مفتی اعظم نمبر ماہ رجب المرجب 1403 ھ مطابق مئی 1983 ء نویں سال کا چوتھا شمارہ ص 513)
ایک دفعہ حضور شمس الاولیاء حضرت علامہ مولانا محمد شمس الحق صاحب رضوی رحمتہ اللہ علیہ مجھ سے فرماریے تھے کہ وتر کی نماز میں سورہ نصراللہ اور سورہ تبت یدا اور سورہ اخلاص پڑھتا ہوں بحمدہ سبحانہ وتعالی اب تک دانت میں درد کبھی نہیں ہوا آپ وتر میں یہی تین سورتیں پڑھا کرتے تھے
سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان کا قول سنت سے تعارض کا قول نہیں ہے بلکہ آپ نے ان تینوں سورتوں کو وتر میں پڑھنا بہتر فرمایا یعنی اس سنت پر عمل کرنا بہتر ہے واجب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے
اور وہ صورت جس میں سورہ اذاجاء دوسری میں تبت یدا اور تیسری میں سورہ اخلاص پڑھنے کو اس لئے بتایا کہ اس عمل سے عمر بھر دانت خراب نہیں ہوتا ہے
اور حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وتر کی نماز ان تینوں سورتوں کو پڑھنا یعنی کوئی چیز آسانی کی وجہ سے متعین نہیں فرمائی تو خود اس کے لئے متعین کرنا مکروہ ہے کیونکہ غایۃ البیان میں وتر میں تین سورتوں کی قراءت پر مواظبت کی کراہت کی تصریح کی ہے کیونکہ جاہل اسے واجب سمجھنے لگے گا ورنہ مکروہ نہیں ہے ہاں اس نے کبھی کبھی قراءت کی جیسے آثار وارد ہیں ۔مواظبت اختیار کی تو یہ حسن ہوگا پس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت سے تبرک حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی ان سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے
ہاں حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز وتر میں ان تینوں سورتوں ہی کا پڑھنا متعین فرما دیتے تو دوسرا قول سنت کے خلاف ہوتا ہے مگر ایسا کوئی حکم ارشاد نہیں ہے
اگر بقول سائل کے اعلی حضرت کے قول کو سنت سے تعارض کہا جائے گا تو خود حدیث شریف میں تعارض پیدا ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ بدھ کے دن ناخن تراشنا شفا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ بدھ کے دن ناخن کانٹنا باعث مرض برص ہے العیاذ باللہ
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک ہی کام ایک ہی دن میں کرنے سے شفا یا باعث مرض کیسے ہوسکتا ہے! یا تو شفا ہوگا یا تو باعث مرض ہوگا بس علماء فرماتے ہیں کہ بدھ کہ دن ناخن نہ کاٹے کہ شفاء حاصل کرنے سے بہتر کہ مرض میں مبتلا ہونے سے بچا جائے
بس سرکار سیدی اعلی حضرت کے قول میں کوئی تعارض نہیں اگر کسی کے سمجھ میں تعارض آنا ہے وہ کبھی ماثورہ والی تینوں سورتیں پڑھیں اور کبھی کبھی اذاجاء نصراللہ و تبت یدا اور قل ھو اللہ احد پڑھا کریں تاکہ دل میں کوئی تشویش پیدا نہ ہو اور تمام شک وشبہ دور ہو جائے
ہاں حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز وتر میں ان تینوں سورتوں ہی کا پڑھنا متعین فرما دیتے تو دوسرا قول سنت کے خلاف ہوتا ہے اسی لئے اعلی حضرت عظیم البرکت نے اس صورت کو بہتر فرمایا اس سے واضح ہوا کہ یہ واجب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے جب سنت مؤکدہ نہیں تو مشائخ کے قول پر عمل کرنا مفید ہوگا کیونکہ اس صورت میں عمر بھر دانت نہ خراب ہونے کی بشارت ہے اور مجرب پایا بھی گیا
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
یکم ربیع الثانی 1446
5 اکتوبر 2024
5 اکتوبر 2024