اسے بھی ہضم کیجیے (1) ۔ ایک مزے دار قصہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
(سلسلہ "کربلا سے متعلق کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک)
(سلسلہ "کربلا سے متعلق کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک)
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
جو لوگ امام مسلم بن عقیل کے بچوں کے جھوٹے قصے کو صرف "روضۃ الشھداء" نامی کتاب میں ہونے کی وجہ سے قبول کر لیتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اس قصے کو بھی ہضم کر کے دکھائیں:
روضۃ الشھداء مترجم کی دوسری جلد میں عنوان "غم اہل بیت کی ایک تصویر" کے تحت یہ قصہ درج ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ ایک بار میں حرم کی حاضری کے لیے اکیلا ہی صحرا سے گزر رہا تھا کہ اچانک میں نے بارہ تیرہ سال کے ایک شہزادے کو دیکھا کہ وہ تنہا چلا جا رہا ہے۔ اس شہزادے کے گیسو سیاہ اور چہرہ چاند کی طرح تھا۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! اس صحرا میں یہ کون شخص ہے۔
میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا تو انھوں نے جواب عطا فرمایا۔ میں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟
فرمایا: میں عبداللہ یعنی خدا کا بندہ ہوں۔
میں نے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟
فرمایا: من اللہ یعنی اللہ کی طرف سے آیا ہوں۔
میں نے کہا: آپ کو کہاں جانا ہے؟
فرمایا: الی اللہ یعنی خدا کی طرف جانا ہے۔
میں نے کہا: آپ کیا چاہتے ہیں؟
فرمایا: اللہ تعالی کی خوشنودی چاہتا ہوں۔
میں نے کہا: آپ کا زاد راہ اور سواری کہاں ہیں؟
فرمایا: میرا زاد راہ توشۂ تقوی ہے اور میری سواری میرے دونوں پاؤں ہیں۔
میں نے کہا: یہ خونخوار بیابان ہے اور آپ چھوٹی عمر کے ہیں، آپ کیا کریں گے؟
فرمایا: تو نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو کسی کی زیارت کی طرف متوجہ ہو اور وہ شخص اسے بے بہرہ اور محروم کر دے؟
میں نے کہا: اگرچہ آپ کی عمر چھوٹی ہے مگر بات بہت بڑی کی ہے۔ آپ کا نام کیا ہے؟
فرمایا: اے ابن مبارک! مصیبت زدگانِ رُوزگار کا کیا پوچھتے ہو اور ان کے نام سے کیا تلاش کرو گے؟
میں نے کہا: اگر آپ نام نہیں بتانا چاہتے تو خدا کے لیے یہی بتا دیں کہ آپ کس قوم اور کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں؟
انھوں نے دل پر درد سے آہ سرد کھینچی اور فرمایا: ہم مظلوم قوم سے ہیں، ہم بے وطن اور غریب الدیار قوم سے ہیں اور ہم اس قوم سے ہیں جس پر قہر و غضب توڑا گیا ہے۔
میں نے کہا: میں کچھ نہیں جان سکا، آپ اپنے بیان میں اضافہ فرمائیے۔
انھوں نے چند اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ ہے:
ہم آنے والوں کو حوض کوثر سے پانی پلانے والے ہیں اور نجات پانے والا شخص ہمارے وسیلے کے بغیر مراد کو نہیں پہنچے گا۔ جو شخص ہم سے دوستی رکھے گا ہرگز بے بہرہ نہیں رہے گا اور جو ہمارا حق غصب کرے گا قیامت کے دن ہمارے لیے اور اس کے لیے محکمہ جزا کی وعدہ گاہ ہوگی۔
انھوں نے یہ بات کی اور میری نگاہوں سے غائب ہو گئے۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن نہ جان سکا کہ وہ کون تھے۔ جب میں مکہ پہنچا تو ایک دن طواف میں لوگوں کا ایک گروہ دیکھا جس نے ایک شخص کو حلقے میں لے رکھا تھا اور بہت سے لوگ اس کے قدموں میں کھڑے تھے۔ میں جب سامنے گیا تو دیکھا کہ یہ وہی شہزادے ہیں جن سے میری ملاقات صحرا میں ہوئی تھی۔ لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو کر حلال و حرام کے مسائل پوچھ رہے تھے اور وہ فصیح زبان میں سب کو جواب دے رہے تھے۔ میں نے کہا: یہ کون ہیں؟
لوگوں نے کہا: افسوس کہ تو انھیں نہیں جانتا! یہ علی بن حسین، امام زین العابدین ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ بن مبارک نے آگے بڑھ کر امام کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیا اور روتے ہوئے کہا: اے رسول اللہ کے بیٹے! آپ نے مظلومی اہل بیت کے بارے میں جو فرمایا وہ درست ہے۔ اس امت میں کسی جماعت کو وہ مصیبت نہیں پہنچی جو اہل بیت کو پہنچی ہے۔
(روضۃ الشھداء اردو، ج2، ص64 تا 68)
قصہ آپ نے پڑھ لیا، اب ذرا دیکھیں کہ اس میں کیا مزے دار ہے۔ امام زین العابدین کی ولادت 38ھ میں ہوئی اور وصال 95ھ میں ہوا اور حضرت عبداللہ بن مبارک کی پیدائش 118ھ میں اور انتقال 181ھ میں ہوا۔ اب حساب لگایا جائے تو امام زین العابدین کی وفات کے 23 سال بعد حضرت عبداللہ بن مبارک کی پیدائش ہوتی ہے اور جب امام زین العابدین کی عمر بارہ تیرہ سال کی تھی تو اس وقت ابھی عبداللہ بن مبارک کی پیدائش کو 68 سال پڑے تھے۔ اس قصے میں امام زین العابدین کی ملاقات ایک ایسے شخص سے زبردستی کروائی جا رہی ہے جو 68 سال کے بعد پیدا ہوگا! مزے دار ہے یا نہیں؟
(انظر: میزان الکتب، ص221 تا 230)
چاہے یہ قصہ ہو یا امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا قصہ، سب جھوٹ ہے۔ یہ واقعات گھڑے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو سنا کر انھیں رونے دھونے پر مجبور کیا جائے اور اہل بیت پر ہوئے مظالم کو یاد کر کے لوگ ماتم کریں۔
ملا حسین واعظ کاشفی کوئی سنی نہیں تھا اور اس کی یہ کتاب روضۃ الشھداء ایک غیر معتبر کتاب ہے جس میں اہل بیت کی طرف جھوٹے قصے کہانیوں کو منسوب کیا گیا ہے۔ اگر پھر بھی کوئی ہضم کرنا چاہے تو ہمیں کوئی دقت نہیں ہے۔
جو لوگ امام مسلم بن عقیل کے بچوں کے جھوٹے قصے کو صرف "روضۃ الشھداء" نامی کتاب میں ہونے کی وجہ سے قبول کر لیتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اس قصے کو بھی ہضم کر کے دکھائیں:
روضۃ الشھداء مترجم کی دوسری جلد میں عنوان "غم اہل بیت کی ایک تصویر" کے تحت یہ قصہ درج ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ ایک بار میں حرم کی حاضری کے لیے اکیلا ہی صحرا سے گزر رہا تھا کہ اچانک میں نے بارہ تیرہ سال کے ایک شہزادے کو دیکھا کہ وہ تنہا چلا جا رہا ہے۔ اس شہزادے کے گیسو سیاہ اور چہرہ چاند کی طرح تھا۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! اس صحرا میں یہ کون شخص ہے۔
میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا تو انھوں نے جواب عطا فرمایا۔ میں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟
فرمایا: میں عبداللہ یعنی خدا کا بندہ ہوں۔
میں نے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟
فرمایا: من اللہ یعنی اللہ کی طرف سے آیا ہوں۔
میں نے کہا: آپ کو کہاں جانا ہے؟
فرمایا: الی اللہ یعنی خدا کی طرف جانا ہے۔
میں نے کہا: آپ کیا چاہتے ہیں؟
فرمایا: اللہ تعالی کی خوشنودی چاہتا ہوں۔
میں نے کہا: آپ کا زاد راہ اور سواری کہاں ہیں؟
فرمایا: میرا زاد راہ توشۂ تقوی ہے اور میری سواری میرے دونوں پاؤں ہیں۔
میں نے کہا: یہ خونخوار بیابان ہے اور آپ چھوٹی عمر کے ہیں، آپ کیا کریں گے؟
فرمایا: تو نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو کسی کی زیارت کی طرف متوجہ ہو اور وہ شخص اسے بے بہرہ اور محروم کر دے؟
میں نے کہا: اگرچہ آپ کی عمر چھوٹی ہے مگر بات بہت بڑی کی ہے۔ آپ کا نام کیا ہے؟
فرمایا: اے ابن مبارک! مصیبت زدگانِ رُوزگار کا کیا پوچھتے ہو اور ان کے نام سے کیا تلاش کرو گے؟
میں نے کہا: اگر آپ نام نہیں بتانا چاہتے تو خدا کے لیے یہی بتا دیں کہ آپ کس قوم اور کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں؟
انھوں نے دل پر درد سے آہ سرد کھینچی اور فرمایا: ہم مظلوم قوم سے ہیں، ہم بے وطن اور غریب الدیار قوم سے ہیں اور ہم اس قوم سے ہیں جس پر قہر و غضب توڑا گیا ہے۔
میں نے کہا: میں کچھ نہیں جان سکا، آپ اپنے بیان میں اضافہ فرمائیے۔
انھوں نے چند اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ ہے:
ہم آنے والوں کو حوض کوثر سے پانی پلانے والے ہیں اور نجات پانے والا شخص ہمارے وسیلے کے بغیر مراد کو نہیں پہنچے گا۔ جو شخص ہم سے دوستی رکھے گا ہرگز بے بہرہ نہیں رہے گا اور جو ہمارا حق غصب کرے گا قیامت کے دن ہمارے لیے اور اس کے لیے محکمہ جزا کی وعدہ گاہ ہوگی۔
انھوں نے یہ بات کی اور میری نگاہوں سے غائب ہو گئے۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن نہ جان سکا کہ وہ کون تھے۔ جب میں مکہ پہنچا تو ایک دن طواف میں لوگوں کا ایک گروہ دیکھا جس نے ایک شخص کو حلقے میں لے رکھا تھا اور بہت سے لوگ اس کے قدموں میں کھڑے تھے۔ میں جب سامنے گیا تو دیکھا کہ یہ وہی شہزادے ہیں جن سے میری ملاقات صحرا میں ہوئی تھی۔ لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو کر حلال و حرام کے مسائل پوچھ رہے تھے اور وہ فصیح زبان میں سب کو جواب دے رہے تھے۔ میں نے کہا: یہ کون ہیں؟
لوگوں نے کہا: افسوس کہ تو انھیں نہیں جانتا! یہ علی بن حسین، امام زین العابدین ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ بن مبارک نے آگے بڑھ کر امام کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیا اور روتے ہوئے کہا: اے رسول اللہ کے بیٹے! آپ نے مظلومی اہل بیت کے بارے میں جو فرمایا وہ درست ہے۔ اس امت میں کسی جماعت کو وہ مصیبت نہیں پہنچی جو اہل بیت کو پہنچی ہے۔
(روضۃ الشھداء اردو، ج2، ص64 تا 68)
قصہ آپ نے پڑھ لیا، اب ذرا دیکھیں کہ اس میں کیا مزے دار ہے۔ امام زین العابدین کی ولادت 38ھ میں ہوئی اور وصال 95ھ میں ہوا اور حضرت عبداللہ بن مبارک کی پیدائش 118ھ میں اور انتقال 181ھ میں ہوا۔ اب حساب لگایا جائے تو امام زین العابدین کی وفات کے 23 سال بعد حضرت عبداللہ بن مبارک کی پیدائش ہوتی ہے اور جب امام زین العابدین کی عمر بارہ تیرہ سال کی تھی تو اس وقت ابھی عبداللہ بن مبارک کی پیدائش کو 68 سال پڑے تھے۔ اس قصے میں امام زین العابدین کی ملاقات ایک ایسے شخص سے زبردستی کروائی جا رہی ہے جو 68 سال کے بعد پیدا ہوگا! مزے دار ہے یا نہیں؟
(انظر: میزان الکتب، ص221 تا 230)
چاہے یہ قصہ ہو یا امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا قصہ، سب جھوٹ ہے۔ یہ واقعات گھڑے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو سنا کر انھیں رونے دھونے پر مجبور کیا جائے اور اہل بیت پر ہوئے مظالم کو یاد کر کے لوگ ماتم کریں۔
ملا حسین واعظ کاشفی کوئی سنی نہیں تھا اور اس کی یہ کتاب روضۃ الشھداء ایک غیر معتبر کتاب ہے جس میں اہل بیت کی طرف جھوٹے قصے کہانیوں کو منسوب کیا گیا ہے۔ اگر پھر بھی کوئی ہضم کرنا چاہے تو ہمیں کوئی دقت نہیں ہے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- عبد مصطفی
کتبہ:- عبد مصطفی