واقعہ کربلا حقائق و دلائل کی روشنی میں سمجھیں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
محترم قارئینِ کرام :
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
محترم قارئینِ کرام :
آج کل کے یزیدی سادہ لوح مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ واقعہ کربلا دو شہزادوں کی جنگ تھی آیئے واقعہ کربلا کی حقیقت کو تعصب کی عینک اتار کر حقائق و دلائل کی روشنی میں سمجھیں :
عام نظریہ یہ ہے کہ کربلائے معلی میں امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزیدیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی جنگ ہی نہیں تھی کیونکہ جنگ کےلیے جس طرح کی سروسامانی ، قوت و طاقت اور فوج کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ ایک طرف تو تھی مگر امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف ان کے اہل و عیال کے علاوہ چند وفا پیشہ جاں نثار رفقاء تھے ، کیا کوئی شوق میں اپنی اہل وعیال کو قتل کے بھینٹ چڑھانا گوارا کرے گا ؟ در اصل کربلا کی تاریخ کا پورا پس منظر اس محور پر گردش کر رہا ہے کہ دورِ یزید پلید میں ایک ناقابلِ درست نظریہ (یعنی بیعتِ یزید) کو امام حسین رضی اللہ عنہ پر تھوپنے کی کوشش کی گئی اور امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس نظریہ کا سختی سے انکار کیا اور ہر موقع پر دانش مندی کا مظاہرہ کیا ۔ اس لیے کربلا کے حادثے کو فکر و نظر کی جنگ کا نتیجہ تو کہا جا سکتا ہے مگر اسے حقیقی جنگ نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ چنانچہ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور امارت میں والی مدینہ مروان بن حکم کو اہلِ مدینہ سے یزید کی ولی عہد کی بیعت لینے کا حکم دیا تو امام حسین ، عبداللہ بن زبیر ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے یزید کی ولی عہدی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس موقع پر عبدالرحمن بن ابی بکر نے مروان کو ایسا کرارا جواب دیا کہ بھاگ دوڑ تک نوبت پہنچ چکی تھی۔
(البدایۃ والنہایۃ جلد 8 صفحہ 48 دارالحدیث القاہرہ 1998)
جب مروان کی دال نہیں گلی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام ، مصر ، عراق اور دیگر شہروں میں یزید کی ولی عہدی کی زمین ہموار کرنے کے لئے امراء کو خفیہ احکام جاری فرمائے اور تقریباً ہر طرف سے زمین ہموار ہوچکی ۔ لے دے کر حجاز مقدس کی زمین بچی ہوئی تھی ، یہاں اسلام کی مقتدر ہستیاں تشریف فرما تھیں ۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود مدینہ آئے اور مدینہ کے باہر امام حسین ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن زبیر اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہم کو بلوایا ، لیکن امیر معاویہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سخت کلامی ہوگئی اور یزید کی ولی عہد کا معاملہ حل نہ ہو سکا اور یہ چاروں حضرات دل برداشتہ ہوکر مدینہ چھوڑ کر مکہ آگئے ۔ کچھ دنوں بعد پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مکہ آئے ۔ یہاں معاملہ بالکل برعکس نکلا ، حضرت امیر معاویہ نے ان چاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ انتہائی حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ۔ سب کو تنہائی میں بلاکر امیر معاویہ نے فرمایا تم بیعت کر لو ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تین تجویز رکھیں ، مگر کوئی بھی منظور نہ ہو سکی ۔ یہاں سے یہ بات بھی صاف طور پر واضح ہوگئی کہ یزید کی خلافت و امارت کے استصواب پر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اختلاف تھا ، اس لیے یزید پلید کی امارت متفق علیہ نہیں تھی ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا سیاسی اور دینی تدبر : ⏬
60 ھجری میں جب یزید تخت نشین ہوا تو اس نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان سے کہا ! انہیں بیعت پر مجبور کرو اور پوری سختی کرو ، ولید نے حکم پورا کیا مگر اسے اپنے منہ کی کھانی پڑی ۔ امام حسین نے دانش مندی اور سیاسی تدبر سے جواب دیا کہ میرے ایسے شخص کی بیعت کو کافی نہ سمجھو گے ، جب یہ معاملہ مجمع عام میں رکھو گے تو مجھ سے مطالبہ کرنا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا سیاسی اور دینی تدبر : ⏬
60 ھجری میں جب یزید تخت نشین ہوا تو اس نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان سے کہا ! انہیں بیعت پر مجبور کرو اور پوری سختی کرو ، ولید نے حکم پورا کیا مگر اسے اپنے منہ کی کھانی پڑی ۔ امام حسین نے دانش مندی اور سیاسی تدبر سے جواب دیا کہ میرے ایسے شخص کی بیعت کو کافی نہ سمجھو گے ، جب یہ معاملہ مجمع عام میں رکھو گے تو مجھ سے مطالبہ کرنا۔
(الطبری جلد 6 صفحہ 188)(الکامل جلد 3 صفحہ 264)(اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب جلد 8 صفحہ 326،چشتی)
دوسرے دن امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے مکہ تشریف لائے ، مکے میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا اثر و رسوخ ہونے کے باوجود لوگوں کا ہجوم آپ کے پاس اکھٹا ہوگیا ۔ حتی کہ لوگوں نے بیعت کےلیے پیشکش بھی کی مگر امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ کیونکہ وہ امت میں فساد نہیں چاہتے تھے ۔ اگر آپ بیعت کرلیتے تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی جانب سے ردِ عمل سامنے آسکتا تھا ۔ اس لیے آپ نے یہاں بھی حسن تدبیر سے کام لیا اور خاموشی میں بہتری سمجھی ۔ (البدایہ جلد 8 صفحہ 143)
دوسری جانب کوفے میں یزید کے خلاف بدامنی پھیل گئی ۔ اہل کوفہ کی جانب سے پیہم خطوط آنا شروع ہو گئے ۔ انہوں نے آپ کو اپنا قائد ، امام تسلیم کرنے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے یہاں کئی چیزیں تھیں ، ایک طرف قوم خود بخود ظالم و جابر حکمران کے ظلم و زیادتی سے تنگ آکر دوسری قیادت و خلافت کا مطالبہ کررہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف کوفیوں کی سابقہ بدعہدی اور بے وفائی کی داستان بھی امام کے پیش نظر تھی ۔ اور ان کی بے وفائی کی وجہ سے صحابہ کرام بھی شدت کے ساتھ منع کر رہے تھے ۔ اس دوراہے پر امام حسین نے جس دانش مندی ، دوربینی اور سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے ، دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو نہ سیاسی اقتدار کی خواہش تھی اور نہ خلافت و بیعت کا شوق تھا ، ورنہ آپ مکے ہی میں لوگوں کی پیشکش قبول کر چکے ہوتے مگر ایسا نہیں کیا ۔ لیکن جب آپ کو یقین ہو گیا کہ امت فساد کا شکار ہو چکی ہے ، ان پر ظلم و زیادتی کی ایسی انتہا ہو چکی ہے کہ اب وہ بہ زبان خود دوسری قیادت کا مطالبہ کر رہی ہے ، اس لیے اس وقت امت کو شر و فساد سے محفوظ کرنے کے لئے کھڑا ہونا گویا واجب ہو چکا تھا اور تیسری طرف یزید کا کیا عالم تھا ، مندرجہ ذیل تصریحات پڑھیے : ⏬
ظہر فسق یزید عندالکافۃ من اہل عصرہ …
دوسرے دن امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے مکہ تشریف لائے ، مکے میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا اثر و رسوخ ہونے کے باوجود لوگوں کا ہجوم آپ کے پاس اکھٹا ہوگیا ۔ حتی کہ لوگوں نے بیعت کےلیے پیشکش بھی کی مگر امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ کیونکہ وہ امت میں فساد نہیں چاہتے تھے ۔ اگر آپ بیعت کرلیتے تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی جانب سے ردِ عمل سامنے آسکتا تھا ۔ اس لیے آپ نے یہاں بھی حسن تدبیر سے کام لیا اور خاموشی میں بہتری سمجھی ۔ (البدایہ جلد 8 صفحہ 143)
دوسری جانب کوفے میں یزید کے خلاف بدامنی پھیل گئی ۔ اہل کوفہ کی جانب سے پیہم خطوط آنا شروع ہو گئے ۔ انہوں نے آپ کو اپنا قائد ، امام تسلیم کرنے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے یہاں کئی چیزیں تھیں ، ایک طرف قوم خود بخود ظالم و جابر حکمران کے ظلم و زیادتی سے تنگ آکر دوسری قیادت و خلافت کا مطالبہ کررہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف کوفیوں کی سابقہ بدعہدی اور بے وفائی کی داستان بھی امام کے پیش نظر تھی ۔ اور ان کی بے وفائی کی وجہ سے صحابہ کرام بھی شدت کے ساتھ منع کر رہے تھے ۔ اس دوراہے پر امام حسین نے جس دانش مندی ، دوربینی اور سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے ، دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو نہ سیاسی اقتدار کی خواہش تھی اور نہ خلافت و بیعت کا شوق تھا ، ورنہ آپ مکے ہی میں لوگوں کی پیشکش قبول کر چکے ہوتے مگر ایسا نہیں کیا ۔ لیکن جب آپ کو یقین ہو گیا کہ امت فساد کا شکار ہو چکی ہے ، ان پر ظلم و زیادتی کی ایسی انتہا ہو چکی ہے کہ اب وہ بہ زبان خود دوسری قیادت کا مطالبہ کر رہی ہے ، اس لیے اس وقت امت کو شر و فساد سے محفوظ کرنے کے لئے کھڑا ہونا گویا واجب ہو چکا تھا اور تیسری طرف یزید کا کیا عالم تھا ، مندرجہ ذیل تصریحات پڑھیے : ⏬
ظہر فسق یزید عندالکافۃ من اہل عصرہ …
(مقدمہ ابن خلدون صفحہ 180)
ترجمہ : یزید کا فسق وفجور تمام اہل زمانہ پر آشکارا ہو گیا ۔
یعنی مروی ہے کہ یزید سرور ونغمہ ، شراب نوشی اور سیروشکار کے لئے مشہور تھا ۔ نوعمر لڑکوں ، گانے والیوں اور کتوں کو اپنے گرد جمع رکھتا تھا ۔ لڑاکا مینڈھوں ، سانڈھوں اور بندروں کے درمیان لڑائی کا مقابلہ کرواتا تھا ۔ ہر دن صبح کے وقت مخمور رہتا تھا ۔ زین کسے ہوئے گھوڑوں پر بندروں کو اسی سے بندھوا دیتا تھا اور ادھر ادھر پھرواتا تھا ، بندروں اور نوخیز لڑکوں کو سونے کی ٹوپیاں پہناتا تھا ، گھوڑوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کرواتا تھا اور جب کوئی بندر مرجاتا تو اس کا سوگ مناتا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر)
ابن کثیر مزید لکھتے ہیں : یزید کے اندر شہوتوں کی طرف میلان بھی زیادہ تھا اور بعض نمازیں ترک کرنے اور اکثر اوقات انہیں نذر غفلت کردینے کا عادی تھا۔ایسی رستہ خیز اور قیامت آشوب دور میں امام حسین کے لئے امت کو ایسی قیادت فراہم کرنا واجب ہوگیا تھا جو یزیدی عہد حکومت کے مفاسد کی اصلاح اور ملت کی تطہیر کا فریضہ انجام دیتی اور سلطان جائر (یزید) کے سامنے کلمہ حق کی آواز بلند کرتی اور اس قیادت کی سب سے زیادہ اہلیت آپ کے اندر تھی ۔ ابن کثیر لکھتے ہیں : لانہ السید الکبیر، وابن بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فلیس علی وجہ الارض یومئذ احد یسامیہ ولایساویہ، ولکن الدولۃ الیزیدیۃ کانت کلھا تناوئہ ۔ (البدایۃ والنہایہ جلد 8 صفحہ 144،چشتی)
ابن خلدون رقم طراز ہیں : فاما الاہلیۃ فکانت کماظن وزیادۃ ۔ (ابن خلدون مقدمہ صفحہ 180)
ترجمہ : جہاں تک اہلیت و صلاحیت کا تعلق ہے تو وہ بلاشک و شبہ ان میں تھی جیسا کہ ان کا گمان بلکہ اس سے بھی زیادہ تھی ۔
خود امام حسین رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کے راستے سے کربلا کی طرف پلٹتے وقت جو تاریخی خطبہ دیا ہے، اقدام کا پس منظر سمجھنے کے لئے خطبے کا حرف حرف ضمانت ہے : لوگو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر لیا ہے ۔ پیمانہ الٰہی کو توڑ رہا ہے ، سنت نبوی کی مخالفت کر رہا ہے ، اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتا ہے ، ایسی صورت حال میں بھی وہ اپنے قول و عمل سے شر کو نہ مٹائے تو ﷲ کا حق ہے کہ وہ اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچادے۔
ترجمہ : یزید کا فسق وفجور تمام اہل زمانہ پر آشکارا ہو گیا ۔
یعنی مروی ہے کہ یزید سرور ونغمہ ، شراب نوشی اور سیروشکار کے لئے مشہور تھا ۔ نوعمر لڑکوں ، گانے والیوں اور کتوں کو اپنے گرد جمع رکھتا تھا ۔ لڑاکا مینڈھوں ، سانڈھوں اور بندروں کے درمیان لڑائی کا مقابلہ کرواتا تھا ۔ ہر دن صبح کے وقت مخمور رہتا تھا ۔ زین کسے ہوئے گھوڑوں پر بندروں کو اسی سے بندھوا دیتا تھا اور ادھر ادھر پھرواتا تھا ، بندروں اور نوخیز لڑکوں کو سونے کی ٹوپیاں پہناتا تھا ، گھوڑوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کرواتا تھا اور جب کوئی بندر مرجاتا تو اس کا سوگ مناتا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر)
ابن کثیر مزید لکھتے ہیں : یزید کے اندر شہوتوں کی طرف میلان بھی زیادہ تھا اور بعض نمازیں ترک کرنے اور اکثر اوقات انہیں نذر غفلت کردینے کا عادی تھا۔ایسی رستہ خیز اور قیامت آشوب دور میں امام حسین کے لئے امت کو ایسی قیادت فراہم کرنا واجب ہوگیا تھا جو یزیدی عہد حکومت کے مفاسد کی اصلاح اور ملت کی تطہیر کا فریضہ انجام دیتی اور سلطان جائر (یزید) کے سامنے کلمہ حق کی آواز بلند کرتی اور اس قیادت کی سب سے زیادہ اہلیت آپ کے اندر تھی ۔ ابن کثیر لکھتے ہیں : لانہ السید الکبیر، وابن بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فلیس علی وجہ الارض یومئذ احد یسامیہ ولایساویہ، ولکن الدولۃ الیزیدیۃ کانت کلھا تناوئہ ۔ (البدایۃ والنہایہ جلد 8 صفحہ 144،چشتی)
ابن خلدون رقم طراز ہیں : فاما الاہلیۃ فکانت کماظن وزیادۃ ۔ (ابن خلدون مقدمہ صفحہ 180)
ترجمہ : جہاں تک اہلیت و صلاحیت کا تعلق ہے تو وہ بلاشک و شبہ ان میں تھی جیسا کہ ان کا گمان بلکہ اس سے بھی زیادہ تھی ۔
خود امام حسین رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کے راستے سے کربلا کی طرف پلٹتے وقت جو تاریخی خطبہ دیا ہے، اقدام کا پس منظر سمجھنے کے لئے خطبے کا حرف حرف ضمانت ہے : لوگو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر لیا ہے ۔ پیمانہ الٰہی کو توڑ رہا ہے ، سنت نبوی کی مخالفت کر رہا ہے ، اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتا ہے ، ایسی صورت حال میں بھی وہ اپنے قول و عمل سے شر کو نہ مٹائے تو ﷲ کا حق ہے کہ وہ اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچادے۔
(ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد 4 صفحہ 40،چشتی)
خبردار ہو جاؤ ! ان لوگوں (یزیدیوں) نے اپنے اوپر شیطان کی پیروی لازم کرلی ہے ۔ خدا کی عبادت ترک کردی ہے ، ہر طرف فساد برپا کر دیا ہے ، شرعی حدود کو معطل کردیا ہے ، سرکاری مال اپنے مفاد پر خرچ کررہے ہیں اور ﷲ کے حرام کو حلال اور اس کے حلال کوحرام کردیا ہے اور سن لو ! ان مفاسد اور شر کو مٹانے کا میں سب سے زیادہ حق دار ہوں ۔ گویا امام حسین کے سامنے پہلے نکتے کے تحت دوسری قیادت فراہم کرنے کے سارے شرعی و عصری تقاضے فراہم ہو چکے تھے ، مگر دوسری طرف کوفے والوں کی بدعہدی بھی ایک زمینی حقیقت تھی، اسی وجہ سے صحابہ کرام منع بھی کر رہے تھے اور بہت سے ان میں مجتہد بھی تھے ۔ چنانچہ امام حسین نے اسی پورے معاملے کی انکوائری کرنے کے تجرباتی طور پر مسلم بن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ صحابہ کا گمان بھی غلط نہ ہو اور اقدام کے لئے اتمام حجت بھی ہوجائے ۔ چنانچہ امام مسلم بن عقیل کوفہ روانہ ہوگئے اور تقریبا 18 ہزار کوفیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ، اس کے بعد امام مسلم بن عقیل نے کوفہ والوں کی وفائی کا توثیق نامہ لکھ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو تشریف لانے کی دعوت دی۔
خبردار ہو جاؤ ! ان لوگوں (یزیدیوں) نے اپنے اوپر شیطان کی پیروی لازم کرلی ہے ۔ خدا کی عبادت ترک کردی ہے ، ہر طرف فساد برپا کر دیا ہے ، شرعی حدود کو معطل کردیا ہے ، سرکاری مال اپنے مفاد پر خرچ کررہے ہیں اور ﷲ کے حرام کو حلال اور اس کے حلال کوحرام کردیا ہے اور سن لو ! ان مفاسد اور شر کو مٹانے کا میں سب سے زیادہ حق دار ہوں ۔ گویا امام حسین کے سامنے پہلے نکتے کے تحت دوسری قیادت فراہم کرنے کے سارے شرعی و عصری تقاضے فراہم ہو چکے تھے ، مگر دوسری طرف کوفے والوں کی بدعہدی بھی ایک زمینی حقیقت تھی، اسی وجہ سے صحابہ کرام منع بھی کر رہے تھے اور بہت سے ان میں مجتہد بھی تھے ۔ چنانچہ امام حسین نے اسی پورے معاملے کی انکوائری کرنے کے تجرباتی طور پر مسلم بن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ صحابہ کا گمان بھی غلط نہ ہو اور اقدام کے لئے اتمام حجت بھی ہوجائے ۔ چنانچہ امام مسلم بن عقیل کوفہ روانہ ہوگئے اور تقریبا 18 ہزار کوفیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ، اس کے بعد امام مسلم بن عقیل نے کوفہ والوں کی وفائی کا توثیق نامہ لکھ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو تشریف لانے کی دعوت دی۔
(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 144،چشتی)
امام مسلم رضی اللہ عنہ کے خط سے گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ظاہری اطمینان بھی ہوگیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ نے تجرباتی طور پر اتمام حجت بھی کرلی ، اس لیے خط ملتے ہی آپ اہل و عیال کے ساتھ کوچ کر گئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اہلیت تو تھی ہی ساتھ ہی طاقت و شوکت بھی ان کے پاس تھی ، یہاں امام طبری نے ایک نہایت کچی بات کی ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس دنیاوی شوکت نہیں تھی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ سے شرعی لغزش تو نہیں ہوئی ، جہاں تک قوت و شوکت کا تعلق ہے ، تو اس کے سمجھنے میں غلطی ہوئی ، اللہ ان پر رحم فرمائے۔
امام مسلم رضی اللہ عنہ کے خط سے گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ظاہری اطمینان بھی ہوگیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ نے تجرباتی طور پر اتمام حجت بھی کرلی ، اس لیے خط ملتے ہی آپ اہل و عیال کے ساتھ کوچ کر گئے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اہلیت تو تھی ہی ساتھ ہی طاقت و شوکت بھی ان کے پاس تھی ، یہاں امام طبری نے ایک نہایت کچی بات کی ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس دنیاوی شوکت نہیں تھی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ سے شرعی لغزش تو نہیں ہوئی ، جہاں تک قوت و شوکت کا تعلق ہے ، تو اس کے سمجھنے میں غلطی ہوئی ، اللہ ان پر رحم فرمائے۔
(مقدمہ ابن خلدون صفحہ 181)
امام طبری کی بات کی ناپختگی کی وجہ یہ ہے کہ جن کوفیوں نے امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی انہوں نے تو دراصل امام حسین کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ پوری فوج امام کی فوج تھی ۔ امام کے حکم پر کچھ بھی کرسکتی تھی ، اس لیے امام کو دنیاوی شوکت بھی حاصل تھی ۔ ممکن ہے طبری کو یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی ہو کہ جس وقت امام حسین خروج کررہے تھے ، ان کے پاس کوئی دنیاوی شوکت و طاقت نہیں تھی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ امام کسی جنگ کے ارادے سے نکل ہی نہیں رہے تھے کہ ان کے پاس لشکر جرار ہونا ضروری تھا ورنہ ان کے ساتھ چند نفوس قدسیہ مع اہل خانہ نہیں ہوتے اور تاریخ یہ ثبوت پیش کرنے سے بھی قاصر ہے کہ انہوں نے مکے اور مدینے والوں میں کسی فرد کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی اور اگر مان لیا جائے کہ یزید کی طرف سے ان سے جنگ بھی ہو سکتی تھی ، تو امام حسین رضی اللہ عنہ کے 18 ہزار کوفی وفادار دفاع کرنے کےلیے کافی تھے ۔ گویا امام کو اپنی دنیاوی شوکت کا بھرپور اندازہ تھا ۔ یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جنگ کےلیے قائد کا بذات خود وہاں موجود ہونا ضروری نہیں ۔ صرف اس کا حکم ہونا ضروری ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری فوجی طاقت تو دراصل قائد کی ہی ہوتی ہے ۔ ان نکات کو پیش نظر رکھ کر امام طبری کے نظریے کا تجزیہ کیجیے اور بے لاگ ہو کر فیصلہ کیجیے ۔
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفے کےلیے نکلے تھے مگر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قادسیہ کے آگے مقام ذوحشم میں حر بن یزید نے امام رضی اللہ عنہ کو محاصرہ میں لے لیا اور کوفے کی بجائے کربلا تک پہنچادی
امام طبری کی بات کی ناپختگی کی وجہ یہ ہے کہ جن کوفیوں نے امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی انہوں نے تو دراصل امام حسین کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ پوری فوج امام کی فوج تھی ۔ امام کے حکم پر کچھ بھی کرسکتی تھی ، اس لیے امام کو دنیاوی شوکت بھی حاصل تھی ۔ ممکن ہے طبری کو یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی ہو کہ جس وقت امام حسین خروج کررہے تھے ، ان کے پاس کوئی دنیاوی شوکت و طاقت نہیں تھی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ امام کسی جنگ کے ارادے سے نکل ہی نہیں رہے تھے کہ ان کے پاس لشکر جرار ہونا ضروری تھا ورنہ ان کے ساتھ چند نفوس قدسیہ مع اہل خانہ نہیں ہوتے اور تاریخ یہ ثبوت پیش کرنے سے بھی قاصر ہے کہ انہوں نے مکے اور مدینے والوں میں کسی فرد کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی اور اگر مان لیا جائے کہ یزید کی طرف سے ان سے جنگ بھی ہو سکتی تھی ، تو امام حسین رضی اللہ عنہ کے 18 ہزار کوفی وفادار دفاع کرنے کےلیے کافی تھے ۔ گویا امام کو اپنی دنیاوی شوکت کا بھرپور اندازہ تھا ۔ یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جنگ کےلیے قائد کا بذات خود وہاں موجود ہونا ضروری نہیں ۔ صرف اس کا حکم ہونا ضروری ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری فوجی طاقت تو دراصل قائد کی ہی ہوتی ہے ۔ ان نکات کو پیش نظر رکھ کر امام طبری کے نظریے کا تجزیہ کیجیے اور بے لاگ ہو کر فیصلہ کیجیے ۔
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفے کےلیے نکلے تھے مگر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قادسیہ کے آگے مقام ذوحشم میں حر بن یزید نے امام رضی اللہ عنہ کو محاصرہ میں لے لیا اور کوفے کی بجائے کربلا تک پہنچادی
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 8 صفحہ 328)
مقام ذو حشم میں امام رضی اللہ عنہ نے حر وغیرہ کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ میں تمہارے دعوتی خطوط پر آیا ہوں ، مجھے تمہارے قول و قرار پر یقین ہے ، اس لیے اطاعت کرلو ، ورنہ میں جہاں سے آیا ہوں مجھے جانے دو ، لیکن مجھے بیعت یزید ہرگز قبول نہیں ۔
مقام ذو حشم میں امام رضی اللہ عنہ نے حر وغیرہ کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ میں تمہارے دعوتی خطوط پر آیا ہوں ، مجھے تمہارے قول و قرار پر یقین ہے ، اس لیے اطاعت کرلو ، ورنہ میں جہاں سے آیا ہوں مجھے جانے دو ، لیکن مجھے بیعت یزید ہرگز قبول نہیں ۔
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 8 صفحہ 328،چشتی)
اسی طرح کربلا تک لوگوں سے ملاقات رہی ، لوگوں نے سوالات کیے مگر امام رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا کہ میں تمہارے دعوتی خطوط کی بنیاد پر آیا ہوں ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ میدان کربلا پہنچے تو کوفے کا سارا نقشہ بدل چکا تھا ، جنہوں نے شیعانِ علی ہونے اور اپنی وفاداری کی قسمیں کھائی تھیں ، اب وہ اپنے قسموں کے پیمانے توڑ چکے تھے اور سامنے یزیدیوں کا ایک لشکر جرار موجود تھا ، عمر بن سعد کو ابن زیاد نے حکم دے دیا تھا کہ یا تو حسین سے بیعت کر لو یا انہیں قتل کردو ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو صرف کربلا ہی میں نہیں راستے ہی میں یقین ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے ہر موقع پر امت کو یزید کے ظلم و جور سے بچانے کے لئے ان کے عہد ناموں کی یاد دہانی کرائی اور عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تشریف لائے مگر قوم نے ساتھ نہ دیا ۔ جب کربلا میں یہ امر واضح ہوگیا کہ ان پر جنگ مسلط کی جا چکی ہے اور عمرو بن سعد جبراً بیعت لینا چاہتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اولا بیعت سے انکار کیا اور پھر اصول جنگ کے مطابق دو بنیادی تجویزیں پیش کیں :
اسی طرح کربلا تک لوگوں سے ملاقات رہی ، لوگوں نے سوالات کیے مگر امام رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا کہ میں تمہارے دعوتی خطوط کی بنیاد پر آیا ہوں ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ میدان کربلا پہنچے تو کوفے کا سارا نقشہ بدل چکا تھا ، جنہوں نے شیعانِ علی ہونے اور اپنی وفاداری کی قسمیں کھائی تھیں ، اب وہ اپنے قسموں کے پیمانے توڑ چکے تھے اور سامنے یزیدیوں کا ایک لشکر جرار موجود تھا ، عمر بن سعد کو ابن زیاد نے حکم دے دیا تھا کہ یا تو حسین سے بیعت کر لو یا انہیں قتل کردو ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو صرف کربلا ہی میں نہیں راستے ہی میں یقین ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے ہر موقع پر امت کو یزید کے ظلم و جور سے بچانے کے لئے ان کے عہد ناموں کی یاد دہانی کرائی اور عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تشریف لائے مگر قوم نے ساتھ نہ دیا ۔ جب کربلا میں یہ امر واضح ہوگیا کہ ان پر جنگ مسلط کی جا چکی ہے اور عمرو بن سعد جبراً بیعت لینا چاہتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اولا بیعت سے انکار کیا اور پھر اصول جنگ کے مطابق دو بنیادی تجویزیں پیش کیں :
(1) یا تو وہ جہاں سے آئے ہیں وہیں جانے دیا جائے۔
(2) یا انہیں چھوڑ دیا جائے کہ وہ وسیع و عریض زمین میں جہاں چاہیں نکل جائیں ۔
(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 166،چشتی)
مگر ان کی کوئی تجویز منظور نہیں کی گئی اور یہ جبر و اکراہ جنگ پر مجبور کیا گیا ۔
بعض مورخین نے یہاں امام حسین رضی اللہ عنہ کی تیسری تجویز یہ نقل کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے ، تاکہ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرلوں ، اس تجویز کی تردید و تضعیف کےلیے کربلا کے واقعات کے عینی شاہد ، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے رفیق سفر اور تمام مورخین کے مستند راوی عقبہ بن سمعان کا صرف یہ قول نقل کر دینا کافی ہے : لقد صحبت الحسین من مکۃ الی حین قتل ، وﷲ مامن کلمۃ قالہا فی موطن الاوقد سمعتہا ، وانہ لم یسال ان یذہب الی یزید فیضع یدہ الی یدہ ولا ان یذہب الی ثغرمن الشغور ، ولکن طلب منہم احد امرین ، امام ان یرجع من حیث جائ، وامام ان یدعوہ ، یذہب فی الارض العریضۃ حتی ینظر یایصیر امر الناس الیہ۔
مگر ان کی کوئی تجویز منظور نہیں کی گئی اور یہ جبر و اکراہ جنگ پر مجبور کیا گیا ۔
بعض مورخین نے یہاں امام حسین رضی اللہ عنہ کی تیسری تجویز یہ نقل کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے ، تاکہ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرلوں ، اس تجویز کی تردید و تضعیف کےلیے کربلا کے واقعات کے عینی شاہد ، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے رفیق سفر اور تمام مورخین کے مستند راوی عقبہ بن سمعان کا صرف یہ قول نقل کر دینا کافی ہے : لقد صحبت الحسین من مکۃ الی حین قتل ، وﷲ مامن کلمۃ قالہا فی موطن الاوقد سمعتہا ، وانہ لم یسال ان یذہب الی یزید فیضع یدہ الی یدہ ولا ان یذہب الی ثغرمن الشغور ، ولکن طلب منہم احد امرین ، امام ان یرجع من حیث جائ، وامام ان یدعوہ ، یذہب فی الارض العریضۃ حتی ینظر یایصیر امر الناس الیہ۔
(البدایۃ لابن کثیر جلد 8 صفحہ 166 دارالحدیث القاہرہ 1998،چشتی)
کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ امام رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ سے جن نظریے کی تردید کی ہو ، وہ کربلا میں جاکر اسی کو گلے لگا لیا ؟ اگر یہ تجویز سامنے آچکی تھی تو یزیدیوں کا جنگ کےلیے تیار ہونا ، چہ معنی دارد ؟ کیوں کہ وہ تو اسی کےلیے لڑنے آئے تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کے مطابق سن 60 ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ کا اوباش نوجوان یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا اور 61 ہجری کے ابتدائی دس دنوں میں سانحہ کربلا پیش آیا ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد یزید تخت نشین ہوا ۔ اس کےلیے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت کا تھا کیونکہ ان حضرات نے یزید کی ولی عہدی قبول نہ کی تھی اس سلسلے میں یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر بھیجی اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھیجا کہ : حضرت امام حسین ، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے میرے حق میں بیعت لو اور جب تک وہ میری بیعت نہ کریں انہیں ہرگز مت چھوڑو ۔ (تاریخ طبری صفحہ 113)
ولید بن عقبہ رحمدل اور خاندان نبوت کی تعظیم و توقیر کرنے والا شخص تھا۔ اس نے اس حکم کی تعمیل پر گھبراہٹ محسوس کی اور اپنے نائب مروان کو صورت حال سے آگاہ کیا ۔ مروان سنگدل اور سخت انسان تھا۔ اس نے کہا میرے خیال میں تم ان حضرات کو اسی وقت بلا بھیجو اور انہیں بیعت کرنے کیلئے کہو اگر وہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ انکار کی صورت میں تینوں کا سر قلم کر دو۔
کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ امام رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ سے جن نظریے کی تردید کی ہو ، وہ کربلا میں جاکر اسی کو گلے لگا لیا ؟ اگر یہ تجویز سامنے آچکی تھی تو یزیدیوں کا جنگ کےلیے تیار ہونا ، چہ معنی دارد ؟ کیوں کہ وہ تو اسی کےلیے لڑنے آئے تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کے مطابق سن 60 ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ کا اوباش نوجوان یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا اور 61 ہجری کے ابتدائی دس دنوں میں سانحہ کربلا پیش آیا ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد یزید تخت نشین ہوا ۔ اس کےلیے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت کا تھا کیونکہ ان حضرات نے یزید کی ولی عہدی قبول نہ کی تھی اس سلسلے میں یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر بھیجی اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھیجا کہ : حضرت امام حسین ، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے میرے حق میں بیعت لو اور جب تک وہ میری بیعت نہ کریں انہیں ہرگز مت چھوڑو ۔ (تاریخ طبری صفحہ 113)
ولید بن عقبہ رحمدل اور خاندان نبوت کی تعظیم و توقیر کرنے والا شخص تھا۔ اس نے اس حکم کی تعمیل پر گھبراہٹ محسوس کی اور اپنے نائب مروان کو صورت حال سے آگاہ کیا ۔ مروان سنگدل اور سخت انسان تھا۔ اس نے کہا میرے خیال میں تم ان حضرات کو اسی وقت بلا بھیجو اور انہیں بیعت کرنے کیلئے کہو اگر وہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ انکار کی صورت میں تینوں کا سر قلم کر دو۔
(کامل ابن اثیر جلد 4 صفحہ 15)(البدایہ والنھایہ جلد 8 صفحہ 1417)
حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی حفاظت کا سامان کر کے ولید کے پاس پہنچے ۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی اور پھر یزید کی بیعت کےلیے کہا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تعزیت کے بعد فرمایا : میرے جیسا بندہ اس طرح چھپ کر بیعت نہیں کر سکتا ، اور نہ ہی میرے لیے اس طرح چھپ کر بیعت کرنا مناسب ہے اگر آپ باہر نکل کر عام لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی بیعت کی دعوت دیں تو یہ الگ بات ہے ۔ ولید جو کہ صلح پسند آدمی تھا اس نے کہا اچھا ! آپ تشریف لے جائیں ، اس پر مروان نے ولید سے کہا اگر اس وقت تم نے ان کو جانے دیا اور بیعت نہ لی تو تم کبھی بھی ان پر قابو نہ پاسکوگے تاوقتیکہ بہت سے لوگ قتل ہو جائیں ان کو قید کرلو ، اگر یہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کا سر قلم کر دو ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہو گئے اور فرمایا : ابن الزرقا ! تو مجھے قتل کرے گا ؟ خدا کی قسم تو جھوٹا اور کمینہ ہے ۔ یہ کہہ کر آپ گھر تشریف لے آئے۔
حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی حفاظت کا سامان کر کے ولید کے پاس پہنچے ۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی اور پھر یزید کی بیعت کےلیے کہا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تعزیت کے بعد فرمایا : میرے جیسا بندہ اس طرح چھپ کر بیعت نہیں کر سکتا ، اور نہ ہی میرے لیے اس طرح چھپ کر بیعت کرنا مناسب ہے اگر آپ باہر نکل کر عام لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی بیعت کی دعوت دیں تو یہ الگ بات ہے ۔ ولید جو کہ صلح پسند آدمی تھا اس نے کہا اچھا ! آپ تشریف لے جائیں ، اس پر مروان نے ولید سے کہا اگر اس وقت تم نے ان کو جانے دیا اور بیعت نہ لی تو تم کبھی بھی ان پر قابو نہ پاسکوگے تاوقتیکہ بہت سے لوگ قتل ہو جائیں ان کو قید کرلو ، اگر یہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کا سر قلم کر دو ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہو گئے اور فرمایا : ابن الزرقا ! تو مجھے قتل کرے گا ؟ خدا کی قسم تو جھوٹا اور کمینہ ہے ۔ یہ کہہ کر آپ گھر تشریف لے آئے۔
(کامل ابن اثیر جلد 4 صفحہ 15 - 16،چشتی)
بعد ازاں کوفی شیعوں نے باہم مشاورت سے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی ۔ اہل کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو حالات سے آگاہی کے لئے کوفہ بھیجا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے پناہ عقیدت و محبت کو دیکھتے ہوئے امام عالی مقام کو لکھ بھیجا کہ آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں ، یہاں ہزاروں افراد آپ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ۔ چنانچہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم صمیم کر لیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ سے 8 ذی الحجہ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں صفاح کے مقام پر عرب کے مشہور شاعر فرذدق سے آپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی ۔ وہ کوفہ سے آ رہا تھا ۔ فرذدق نے آپ رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کیا اور دعا دیتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کی مراد پوری کرے اور آپ کو وہ چیز عطا فرمائے جس کے آپ طلبگار ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا : لوگوں کے دل تو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں ۔
فرزدق سے ملاقات کے بعد قافلہ حسینی کوفے کے حالات سے بے خبر کوفہ کی جانب رواں دواں تھا ۔ راستے میں ہر چراہ گاہ سے جس پر قافلے کا گزر ہوتا کچھ لوگ ہمراہ ہوجاتے۔ جب قافلہ حسینیہ ’’ثعلمیہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر ملی ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا سفر جاری رکھا اور جب آپ رضی اللہ عنہ ’’کوہ ذی حشم‘‘ کے مقام پر پہنچے تو حُر بن یزید جو کہ حکومت یزید کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرنے کےلیے بھیجا گیا تھا ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ پہنچ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا اور ابن زیاد کا حکم دیا کہ آپ کو لے کر اس کے پاس پہنچوں ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ 2 محرم الحرام 61 ہجری بروز جمعرات اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال سمیت خیمہ زن ہوگئے۔ حر نے آپ کے مقابل خیمے نصب کر لئے۔ حر کے دل میں اگرچہ اہل بیت نبوت کی عظمت تھی یہاں تک کہ اس نے اپنی نمازیں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی ادا کیں تھیں مگر وہ ابن زیاد کے حکم سے مجبور تھا ۔
جس مقام پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ خیمہ زن ہوئے اس دشت و بیابان کی اداس و مغموم فضا کو دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس مقام کا نام کہاں ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ اس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بس یہیں خیمے لگا لو، یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے ۔
سرزمین کربلا پہنچتے ہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آ رہے تھے جو انہوں نے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے تھے کہ میرا بیٹا ، میرا حسین سرزمین طف (کربلا) میں شہید کر دیا جائے گا ۔ اس لئے جب آپ کو علم ہوا کہ یہی سرزمین کربلا ہے تو آپ نے حتمی فیصلہ دیتے ہوئے اسی مقام پر ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا ۔ اس طرح قافلہ حسینی غریب الوطنی کے عالم میں کربلا کے میدان میں خیمہ زن ہوا ۔ دوسری طرف یزیدی حکومت ان نفوس قدسیہ پر قیامت برپا کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھی چنانچہ 3 محرم الحرام کو عمر بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کےلیے کوفہ سے کربلا پہنچا ۔
عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اہل کوفہ نے مجھے لکھا تھا کہ ان کے پاس آؤں ۔ اب اگر وہ مجھ سے بیزار ہیں تو میں واپس مکہ چلا جاتا ہوں ۔ جب ابن سعد کو یہ جواب ملا تو اس نے کہا کہ میری یہ تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی طرح مجھے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے بچا لے چنانچہ اس نے ابن زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی ان سے بیزاری پر واپس مکہ جانا چاہتے ہیں لیکن ابن زیاد نے جواب دیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو اور حسین رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ خود اور ان کے ساتھی یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں ۔ جب وہ بیعت کر لیں گے تو ہم سوچیں گے کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ اس پر عمر بن حجاج کی قیادت میں ابن سعد کے آدمیوں نے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے پر پانی بند کر دیا ۔
9 محرم الحرام 61ھ کو ابن سعد کا دستہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں کی طرف آیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان سے آنے کا ارادہ معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ امیر ابن زیاد کا حکم ہے کہ تم اس کی اطاعت قبول کر لو ورنہ ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہا : ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے دیں تاکہ اس آخری رات ہم اچھی طرح نماز پڑھ لیں ، دعا مانگ لیں اور توبہ استغفار کر لیں ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز ، تلاوت اور دعا و استغفار سے بڑا قلبی تعلق ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 175)
ابن سعد کے دستہ نے یہ بات مان لی اور قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ نے رات اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مناجات میں بسر کی ۔
رفقاء سے حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطاب
ابن سعد کے دستے واپس لوٹنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے نہایت فصیح و بلیغ خطاب فرمایا کہ : میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے گا ۔ اگر تم میں سے کوئی جانا چاہتا ہے تو رات کی تاریکی میں چلا جائے ۔ بے شک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں جب مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہیں ہو گی مگر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’ اے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے ، ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں ، ہاتھوں اور جسموں سے آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کریں گے ۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 176 - 177،چشتی)
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذبات سن کر انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور پھر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے آپ رضی اللہ عنہ کی معیت میں رات بھر نوافل ادا کئے اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگیں۔
بعد ازاں کوفی شیعوں نے باہم مشاورت سے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی ۔ اہل کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو حالات سے آگاہی کے لئے کوفہ بھیجا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے پناہ عقیدت و محبت کو دیکھتے ہوئے امام عالی مقام کو لکھ بھیجا کہ آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں ، یہاں ہزاروں افراد آپ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ۔ چنانچہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم صمیم کر لیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ سے 8 ذی الحجہ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں صفاح کے مقام پر عرب کے مشہور شاعر فرذدق سے آپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی ۔ وہ کوفہ سے آ رہا تھا ۔ فرذدق نے آپ رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کیا اور دعا دیتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کی مراد پوری کرے اور آپ کو وہ چیز عطا فرمائے جس کے آپ طلبگار ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا : لوگوں کے دل تو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں ۔
فرزدق سے ملاقات کے بعد قافلہ حسینی کوفے کے حالات سے بے خبر کوفہ کی جانب رواں دواں تھا ۔ راستے میں ہر چراہ گاہ سے جس پر قافلے کا گزر ہوتا کچھ لوگ ہمراہ ہوجاتے۔ جب قافلہ حسینیہ ’’ثعلمیہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر ملی ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا سفر جاری رکھا اور جب آپ رضی اللہ عنہ ’’کوہ ذی حشم‘‘ کے مقام پر پہنچے تو حُر بن یزید جو کہ حکومت یزید کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرنے کےلیے بھیجا گیا تھا ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ پہنچ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا اور ابن زیاد کا حکم دیا کہ آپ کو لے کر اس کے پاس پہنچوں ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ 2 محرم الحرام 61 ہجری بروز جمعرات اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال سمیت خیمہ زن ہوگئے۔ حر نے آپ کے مقابل خیمے نصب کر لئے۔ حر کے دل میں اگرچہ اہل بیت نبوت کی عظمت تھی یہاں تک کہ اس نے اپنی نمازیں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی ادا کیں تھیں مگر وہ ابن زیاد کے حکم سے مجبور تھا ۔
جس مقام پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ خیمہ زن ہوئے اس دشت و بیابان کی اداس و مغموم فضا کو دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس مقام کا نام کہاں ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ اس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بس یہیں خیمے لگا لو، یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے ۔
سرزمین کربلا پہنچتے ہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آ رہے تھے جو انہوں نے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے تھے کہ میرا بیٹا ، میرا حسین سرزمین طف (کربلا) میں شہید کر دیا جائے گا ۔ اس لئے جب آپ کو علم ہوا کہ یہی سرزمین کربلا ہے تو آپ نے حتمی فیصلہ دیتے ہوئے اسی مقام پر ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا ۔ اس طرح قافلہ حسینی غریب الوطنی کے عالم میں کربلا کے میدان میں خیمہ زن ہوا ۔ دوسری طرف یزیدی حکومت ان نفوس قدسیہ پر قیامت برپا کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھی چنانچہ 3 محرم الحرام کو عمر بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کےلیے کوفہ سے کربلا پہنچا ۔
عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اہل کوفہ نے مجھے لکھا تھا کہ ان کے پاس آؤں ۔ اب اگر وہ مجھ سے بیزار ہیں تو میں واپس مکہ چلا جاتا ہوں ۔ جب ابن سعد کو یہ جواب ملا تو اس نے کہا کہ میری یہ تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی طرح مجھے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے بچا لے چنانچہ اس نے ابن زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی ان سے بیزاری پر واپس مکہ جانا چاہتے ہیں لیکن ابن زیاد نے جواب دیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو اور حسین رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ خود اور ان کے ساتھی یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں ۔ جب وہ بیعت کر لیں گے تو ہم سوچیں گے کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ اس پر عمر بن حجاج کی قیادت میں ابن سعد کے آدمیوں نے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے پر پانی بند کر دیا ۔
9 محرم الحرام 61ھ کو ابن سعد کا دستہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں کی طرف آیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان سے آنے کا ارادہ معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ امیر ابن زیاد کا حکم ہے کہ تم اس کی اطاعت قبول کر لو ورنہ ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہا : ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے دیں تاکہ اس آخری رات ہم اچھی طرح نماز پڑھ لیں ، دعا مانگ لیں اور توبہ استغفار کر لیں ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز ، تلاوت اور دعا و استغفار سے بڑا قلبی تعلق ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 175)
ابن سعد کے دستہ نے یہ بات مان لی اور قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ نے رات اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مناجات میں بسر کی ۔
رفقاء سے حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطاب
ابن سعد کے دستے واپس لوٹنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے نہایت فصیح و بلیغ خطاب فرمایا کہ : میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے گا ۔ اگر تم میں سے کوئی جانا چاہتا ہے تو رات کی تاریکی میں چلا جائے ۔ بے شک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں جب مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہیں ہو گی مگر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’ اے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے ، ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں ، ہاتھوں اور جسموں سے آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کریں گے ۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 176 - 177،چشتی)
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذبات سن کر انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور پھر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے آپ رضی اللہ عنہ کی معیت میں رات بھر نوافل ادا کئے اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگیں۔
(البدایہ والنہایہ، 8 / 177،چشتی)(ابن اثیر، 4 / 59)
10 محرم الحرام 61 ھ کا خونی آفتاب اپنی پوری خون آشامیوں کے ساتھ طلوع ہوا حسینی فوج کے 72 سپہ سالاروں نے یزیدی فوج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یزیدی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ اس طرح مٹھی بھر جانثارانِ حسین رضی اللہ عنہ پروانہ وار شمع امامت پر قربان ہونے لگے۔ اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ علیل تھے۔ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سے اجازت طلب کی مگر آپ رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ایک تو آپ رضی اللہ عنہ علیل ہیں اور دوسرے آپ رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے، ہر پھول مرجھا چکا ہے، اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا، مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو میرے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کیسے چلے گی۔ تجھے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کی بقاء کے لئے زندہ رہنا ہے‘‘ پھر آپ کو کچھ نصیحتیں کیں اور یوں فرزند صاحب ذوالفقار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے۔ مقابلے میں آپ رضی اللہ عنہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے رہے۔ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچ گیا۔ حیدر کرار کا یہ فرزند جس طرف تلوار لے کر نکلتا یزیدی لشکر خوفزدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا۔
اسی معرکہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ کو بہت پیاس لگی، آپ رضی اللہ عنہ نے پانی کے لئے دریائے فرات کا رخ کیا مگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا، اچانک ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک پر لگا اور آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تیر کھینچ کر نکالا پھر ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے تو دونوں چلو خون سے بھر گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا خون آسمان کی طرف اچھال دیا اور ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا : ’’الٰہی میرا شکوہ تجھی سے ہے، دیکھ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے ساتھ کیا برتاؤ ہو رہا ہے ۔ (الطبری جلد 6 صفحہ 33،چشتی)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن کا طویل حصہ میدان کربلا میں تنہا دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور دشمنوں میں سے ہر کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کو دوسرے شخص پر ٹالتا رہا کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی بھی اپنے ذمہ نہ لینا چاہتا تھا۔ آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہا : ’’تمہارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟ آپ رضی اللہ عنہ ہر طرف سے نرغہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو ؟ وﷲ ! میرے بعد کسی بندے کے قتل پر ﷲ تعالیٰ اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر ۔(ابن اثیر جلد 4 صفحہ 78)
شمر لعین کے اکسانے پر یزیدی لشکر آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا، زرعہ بن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ لڑکھڑا گئے۔ اس پر سب حملہ آور پیچھے ہٹے پھر سنان بن ابی عمرو بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ گر پڑے۔ سنان نے سواری سے اتر کر آپ رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کر کے خونی یزید کے حوالے کر دیا۔(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 188،چشتی)
یوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشۂ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کر دی اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کے لئے اگر سر تن سے جدا بھی ہوتا ہے تو پرواہ نہ کی جائے اور قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔
اس سانحہ کو قید زمین و مکاں نہیں
اک درس دائمی ہے شہادت حسین (رضی اللہ عنہ) کی
یہ رنگ وہ نہیں جو مٹانے سے مٹ سکے
لکھی گئی ہے خون سے امامت حسین (رضی اللہ عنہ) کی
آج جہاں ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ سیرتِ حسین رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہوں۔ اپنے ظاہر و باطن کو ان کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ باہمی رنجشوں اور فرقہ واریت کو چھوڑ کر محبت و عمل کا نشان، دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار اور اسلام کی خاطر مر مٹنے والے بن جائیں تاکہ روز حشر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور کہہ سکیں کہ اے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں دین کی سربلندی کی خاطر قربان کی ہیں ۔
سو جان سے فدا تھے نبی (ﷺ) کیوں حسین (رضی اللہ عنہ) پر
عقدہ کھلا یہ معرکۂ کربلا کے بعد
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور شہداءِ کربلا رضی اللہ عنہم کا خون ایک شیشی میں جمع کیا ہوا تھا ۔ (فتاویٰ علمیّہ جلد دوم صفحہ 269 یہ حدیث صحیح راوی ثقہ ہیں حافظ زبیر علی زئی محدث و محقق غیر مقلد وہابی حضرات)
اہلحدیث حضرات کے محقق لکھتے ہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم نے دے دی تھی اور بوقتِ شہادت امام آپ صلی الله عليه وآله وسلم کربلا میں موجود تھے آپ صلی الله عليه وآله وسلم کو صدمہ ہوا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 104 تحقیق حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث وہابی)
اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدمہ ، پریشانی اور تکلیف ہوئی ۔
یزید کے وکیلو ذرا سوچو کیا منہ دکھاؤ گے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ کہو گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاندان کو تکلیفیں پہچانے والے یزید پلید کی حمایت میں زندگی گزار دی ؟
عن ام سلمة قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔
غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)
60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں ۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جا سکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جد و جہد آزادی انہی نابغانِ عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی ، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا ۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفرِ صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبد اللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ جلد 2 صفحہ 12،چشتی)
حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے ۔ ابو عبد اللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا ۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری جلد 2 صفحہ 126)(سر الشهادتين صفحہ 13)
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا روز تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں ۔ (البدایۃ والنھایۃ)
ابن ابی الدنیا نے عبداللہ بن محمد بن ہانی ابو عبد الرحمن نحوی سے، انہوں نے مہدی بن سلیمان سے اور انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس سو کر اٹھے تو “انا للہ و انا الیہ راجعون ” کہا اور کہنے لگے اللہ کی قسم امام حسین شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اصحاب نے پوچھا کہ اے ابن عباس ! کیوں کر؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خون کی ایک شیشی لیے ہوئے خواب میں دیکھا ہے ۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے بعد میری امت کے اشقیاء نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ نے شہید کر دیا ہے ۔ اور یہ اس کا اور اس کے اصحاب کا خون ہے جسے میں اللہ تعالی کے حضور پیش کروں گا ۔ چنانچہ وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی ۔ اس کے بعد چوبیس دن بعد مدینہ شریف میں یہ خبر آئی کہ امام حسین کو اسی دن اور اسی وقت میں شہید کیا گیا ۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ دونوں پیغمبر امام حسینؑ کے روضہ پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ شیخ ابو نصر نے بالاسناد حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؑ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر انور پر ستر ہزار فرشتے اترے اور قیامت تک آپ کے کے لیے اشکباری کرتے رہیں گے ۔ (البدایۃ والنھایۃ)
عن ام سلمه قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)۔(کنز العمال، 12 : 126، حدیث : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے ۔
عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا ۔ (المعجم الکبير جلد 3 صفحہ 107 حدیث نمبر 2814)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں ؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔ ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، حدیث : 2819،چشتی)
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام
محترم قارئینِ کرام : سید الشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کی ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے ۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کےلیے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کےلیے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو ۔ اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں ۔ اگر ایمانی طاقت کار فرما ہو تو اس کے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ۔ لندن کے مشہور مفکر '' لارڈ ہیڈلے '' کے بقول '' اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کار فرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں رحم و کرم ، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آ ہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے ۔
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے محبتِ اہلبیت و امام حسین رضی اللہ عنہم کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم انے پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے ۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے ، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔
یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی ، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں ۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا ، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں ، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں ، میں حکمران بھی ہوں ، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں ۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے ، ابولہبی ہے ۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے ، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے ، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے ۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے ۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے ۔ بیت المال میں خیانت کرنا ، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔ (چشتی)
آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ : میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں ۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے ، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے ۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے ، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔
حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو ۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال ، جان ، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔ خصوصا آج جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں ، بچوں ، ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ان کے حو میں آواز بلند کریں ۔
پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو ، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو ، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو ۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت امام حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا ، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی ، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے ۔ جو ظالم ہو کر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہو جاتا ہے ۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے ۔
حضرت سیّدنا اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کےلیے مشعلِ راہ و ہدایت ہے ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ : ⬇
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے : ⬇
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق ہے اور یزید باطل ہے اور دین کی بقا کےلیے ہر دور میں شبیری کردار درکارہے کہ مرورِ وقت کے باوجود خونِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرخی اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس عظیم الشان قربانی سے اس داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی جو سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام سے شروع ہوئی تھی اور حق وباطل ، کفر واسلام ، نیکی و بدی اورخیر وشر کے درمیان تمیز ہو گئی اور حد فاصل قائم ہوگئی ۔ یزیدیت مذموم ٹھہری اور یزید کا نام قیامت تک کےلیے گالی بن کر رہ گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے ، حق پر چلنے اور ہمیں پیغامِ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔
10 محرم الحرام 61 ھ کا خونی آفتاب اپنی پوری خون آشامیوں کے ساتھ طلوع ہوا حسینی فوج کے 72 سپہ سالاروں نے یزیدی فوج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یزیدی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ اس طرح مٹھی بھر جانثارانِ حسین رضی اللہ عنہ پروانہ وار شمع امامت پر قربان ہونے لگے۔ اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ علیل تھے۔ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سے اجازت طلب کی مگر آپ رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ایک تو آپ رضی اللہ عنہ علیل ہیں اور دوسرے آپ رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے، ہر پھول مرجھا چکا ہے، اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا، مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو میرے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کیسے چلے گی۔ تجھے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کی بقاء کے لئے زندہ رہنا ہے‘‘ پھر آپ کو کچھ نصیحتیں کیں اور یوں فرزند صاحب ذوالفقار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے۔ مقابلے میں آپ رضی اللہ عنہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے رہے۔ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچ گیا۔ حیدر کرار کا یہ فرزند جس طرف تلوار لے کر نکلتا یزیدی لشکر خوفزدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا۔
اسی معرکہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ کو بہت پیاس لگی، آپ رضی اللہ عنہ نے پانی کے لئے دریائے فرات کا رخ کیا مگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا، اچانک ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک پر لگا اور آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تیر کھینچ کر نکالا پھر ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے تو دونوں چلو خون سے بھر گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا خون آسمان کی طرف اچھال دیا اور ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا : ’’الٰہی میرا شکوہ تجھی سے ہے، دیکھ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے ساتھ کیا برتاؤ ہو رہا ہے ۔ (الطبری جلد 6 صفحہ 33،چشتی)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن کا طویل حصہ میدان کربلا میں تنہا دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور دشمنوں میں سے ہر کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کو دوسرے شخص پر ٹالتا رہا کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی بھی اپنے ذمہ نہ لینا چاہتا تھا۔ آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہا : ’’تمہارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟ آپ رضی اللہ عنہ ہر طرف سے نرغہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو ؟ وﷲ ! میرے بعد کسی بندے کے قتل پر ﷲ تعالیٰ اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر ۔(ابن اثیر جلد 4 صفحہ 78)
شمر لعین کے اکسانے پر یزیدی لشکر آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا، زرعہ بن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ لڑکھڑا گئے۔ اس پر سب حملہ آور پیچھے ہٹے پھر سنان بن ابی عمرو بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ گر پڑے۔ سنان نے سواری سے اتر کر آپ رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کر کے خونی یزید کے حوالے کر دیا۔(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 188،چشتی)
یوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشۂ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کر دی اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کے لئے اگر سر تن سے جدا بھی ہوتا ہے تو پرواہ نہ کی جائے اور قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔
اس سانحہ کو قید زمین و مکاں نہیں
اک درس دائمی ہے شہادت حسین (رضی اللہ عنہ) کی
یہ رنگ وہ نہیں جو مٹانے سے مٹ سکے
لکھی گئی ہے خون سے امامت حسین (رضی اللہ عنہ) کی
آج جہاں ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ سیرتِ حسین رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہوں۔ اپنے ظاہر و باطن کو ان کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ باہمی رنجشوں اور فرقہ واریت کو چھوڑ کر محبت و عمل کا نشان، دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار اور اسلام کی خاطر مر مٹنے والے بن جائیں تاکہ روز حشر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور کہہ سکیں کہ اے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں دین کی سربلندی کی خاطر قربان کی ہیں ۔
سو جان سے فدا تھے نبی (ﷺ) کیوں حسین (رضی اللہ عنہ) پر
عقدہ کھلا یہ معرکۂ کربلا کے بعد
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور شہداءِ کربلا رضی اللہ عنہم کا خون ایک شیشی میں جمع کیا ہوا تھا ۔ (فتاویٰ علمیّہ جلد دوم صفحہ 269 یہ حدیث صحیح راوی ثقہ ہیں حافظ زبیر علی زئی محدث و محقق غیر مقلد وہابی حضرات)
اہلحدیث حضرات کے محقق لکھتے ہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم نے دے دی تھی اور بوقتِ شہادت امام آپ صلی الله عليه وآله وسلم کربلا میں موجود تھے آپ صلی الله عليه وآله وسلم کو صدمہ ہوا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 104 تحقیق حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث وہابی)
اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدمہ ، پریشانی اور تکلیف ہوئی ۔
یزید کے وکیلو ذرا سوچو کیا منہ دکھاؤ گے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ کہو گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاندان کو تکلیفیں پہچانے والے یزید پلید کی حمایت میں زندگی گزار دی ؟
عن ام سلمة قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔
غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)
60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں ۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جا سکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جد و جہد آزادی انہی نابغانِ عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی ، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا ۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفرِ صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبد اللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ جلد 2 صفحہ 12،چشتی)
حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے ۔ ابو عبد اللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا ۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری جلد 2 صفحہ 126)(سر الشهادتين صفحہ 13)
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا روز تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں ۔ (البدایۃ والنھایۃ)
ابن ابی الدنیا نے عبداللہ بن محمد بن ہانی ابو عبد الرحمن نحوی سے، انہوں نے مہدی بن سلیمان سے اور انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس سو کر اٹھے تو “انا للہ و انا الیہ راجعون ” کہا اور کہنے لگے اللہ کی قسم امام حسین شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اصحاب نے پوچھا کہ اے ابن عباس ! کیوں کر؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خون کی ایک شیشی لیے ہوئے خواب میں دیکھا ہے ۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے بعد میری امت کے اشقیاء نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ نے شہید کر دیا ہے ۔ اور یہ اس کا اور اس کے اصحاب کا خون ہے جسے میں اللہ تعالی کے حضور پیش کروں گا ۔ چنانچہ وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی ۔ اس کے بعد چوبیس دن بعد مدینہ شریف میں یہ خبر آئی کہ امام حسین کو اسی دن اور اسی وقت میں شہید کیا گیا ۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ دونوں پیغمبر امام حسینؑ کے روضہ پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ شیخ ابو نصر نے بالاسناد حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؑ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر انور پر ستر ہزار فرشتے اترے اور قیامت تک آپ کے کے لیے اشکباری کرتے رہیں گے ۔ (البدایۃ والنھایۃ)
عن ام سلمه قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)۔(کنز العمال، 12 : 126، حدیث : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے ۔
عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا ۔ (المعجم الکبير جلد 3 صفحہ 107 حدیث نمبر 2814)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں ؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔ ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، حدیث : 2819،چشتی)
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام
محترم قارئینِ کرام : سید الشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کی ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے ۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کےلیے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کےلیے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو ۔ اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں ۔ اگر ایمانی طاقت کار فرما ہو تو اس کے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ۔ لندن کے مشہور مفکر '' لارڈ ہیڈلے '' کے بقول '' اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کار فرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں رحم و کرم ، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آ ہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے ۔
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے محبتِ اہلبیت و امام حسین رضی اللہ عنہم کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم انے پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے ۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے ، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔
یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی ، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں ۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا ، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں ، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں ، میں حکمران بھی ہوں ، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں ۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے ، ابولہبی ہے ۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے ، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے ، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے ۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے ۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے ۔ بیت المال میں خیانت کرنا ، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔ (چشتی)
آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ : میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں ۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے ، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے ۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے ، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔
حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو ۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال ، جان ، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔ خصوصا آج جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں ، بچوں ، ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ان کے حو میں آواز بلند کریں ۔
پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو ، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو ، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو ۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت امام حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا ، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی ، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے ۔ جو ظالم ہو کر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہو جاتا ہے ۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے ۔
حضرت سیّدنا اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کےلیے مشعلِ راہ و ہدایت ہے ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ : ⬇
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے : ⬇
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق ہے اور یزید باطل ہے اور دین کی بقا کےلیے ہر دور میں شبیری کردار درکارہے کہ مرورِ وقت کے باوجود خونِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرخی اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس عظیم الشان قربانی سے اس داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی جو سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام سے شروع ہوئی تھی اور حق وباطل ، کفر واسلام ، نیکی و بدی اورخیر وشر کے درمیان تمیز ہو گئی اور حد فاصل قائم ہوگئی ۔ یزیدیت مذموم ٹھہری اور یزید کا نام قیامت تک کےلیے گالی بن کر رہ گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے ، حق پر چلنے اور ہمیں پیغامِ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوران حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی