Type Here to Get Search Results !

فقیہِ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللّٰه علیہ


فقیہِ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللّٰه علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اسم گرامی: جلال الدین احمد۔
لقب: فقیہِ ملت۔
سلسلہ نسب:
مفتی جلال الدین احمد بن جان محمد بن عبدالرحیم بن غلام رسول بن ضیاء الدین بن محمد سالک بن محمد صادق بن عبدالقادر بن مراد علی۔ رحمہم اللہ۔
ولادت باسعادت:
آپ کی ولادت 1352ھ بمطابق 1933ء کو ضلع "بستی" کی مشہور آبادی اوجھا گنج میں ہوئی، جو شہر بستی سے بیس کلو میٹر مغرب فیض آباد روڈ سے دو میل جنوب میں واقع ہے۔
تحصیلِ علم :
 سات سال کی عمر میں مولانا حافظ زکریا سے ناظرہ قرآنِ مجید مکمل کیا اور پھر حفظ کا شوق ہوا تو تین سال میں قرآن ِ مجید ساڑھے دس سال کی چھوٹی سی عمر میں حفظ مکمل کر لیا۔ پیر زادہ مولانا عبدالباری صاحب اور مولانا عبدالرؤف صاحب سے فارسی کی چھوٹی بڑی بارہ کتب پڑھیں اور عربی کی ابتدائی تعلیم بھی انہیں سے حاصل کی۔ مزید حصولِ علم کے لیۓ "مدرسہ اسلامیہ شمس العلوم" میں رئیس المتکلمین ملک التحریر حضرت علامہ ارشد القادری صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں 24 شعبان المعظم 1317ھ بمطابق 19 مئی 1952ء کو سندِ فراغت حاصل فرمائی۔ 
آپ فرماتے ہیں:
وقت کی قدر کی، اسے ضائع نہ کیا۔ درسی کتابوں کی شروح و حواشی سے گہرا مطالعہ کرنے کے بعد پڑھایا، اساتذہ اور والدین کو خوش رکھا، ان کی خدمتیں کیں، ان سے دعائیں لیں اور یقین ہوگیا کہ حقیقت میں علم حاصل کرنے کا وقت فراغت کے بعد ہے اور زمانۂ طالبِ علمی میں صرف علم حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے تو خدا تعالیٰ نے مجھے اس منزل پر پہنچا دیا جس کا کبھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ فللہ الحمد۔
شرفِ بیعت:
آپ کو زمانۂ طالب علمی سے ہی صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی قدس سرہ العزیز سے گہری عقیدت تھی اور جب یہ معلوم ہوا کہ آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان کے خلیفہ ہیں تو آپ کی عقیدت اور زیادہ ہوگئی، چنانچہ 29 جمادی الاول 1378ھ بمطابق 1948ء کو صدر الشریعہ سے مرید ہوکر سلسلہ قادریہ رضویہ میں داخل ہوگئے۔ 
سیرت و خصائص:
محسن اہل سنت، فقیہ ملت، فقیہ العصر، مناظرِ اعظم، مدرس اکمل، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، صاحبِ اوصاف کثیرہ حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ۔ 
آپ کا تعلق ایک علمی و دیندار گھرانے سے تھا۔ آپ اپنے وقت کی ایک عظیم اور جامع شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی تصنیفی، تدریسی، دینی، ملی، علمی اور تقریری خدمات اور بالخصوص دینی مدارس کا قیام جو مسلک حق اور دینِ اسلام کیلۓ روح کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی زندگی کے ایسے شاندار کارنامے ہیں جن پر اہلسنت آپ کا جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے۔
مدارس یقیناً ایک قلعےکی حیثیت رکھتے ہیں، مدارس کا اثر مستقل اور دیر پا ہوتا ہے۔ جس علاقے میں مدرسہ ہوگا وہاں کے لوگوں کا اور ان کی نسلوں کا ایمان محفوظ رہے گا۔ بہت سے علاقے ہمارے مشاہدے میں ہیں کہ وہاں بدمذہبوں نے مدرسے کھولے اور پوری سنی آبادی کو بدمذہب بنا دیا۔ 
حضرت فقیہ ملت فرماتے ہیں کہ "مذہب اہل سنت کی تبلیغ، مسلک اعلٰی حضرت کی ترویج اور ضلع بستی و گونڈہ کی بڑھتی ہوئی بد مذہبی کی روک تھام کےلیے حضرت شاہ محمد یار علی صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت شیر بیشہ اہل سنت قدس سرہ جیسے ساحر البیان مقرر اور مناظر کو ہمراہ لے کر بہت سے دیہاتوں کا دورہ فرمایا جن کی تقریر و مناظرے نے پورے علاقہ میں دھوم مچا دی اور اہل سنت میں نئی روح ڈال دی لیکن چوں کہ تعلیم کے مقابلہ میں تقریر و مناظرہ کا اثر زیادہ دیر پا نہیں ہوتا اس لیے حضرت شعیب الاولیاء کی عین تمنا تھی کہ اس علاقے میں اہل سنت کے مدارس بنائے جائیں اور ان کے تعلیمی معیار کو اعلیٰ کیا جائے تاکہ تعلیم خوب عام ہوجائے۔ آپ اپنے تمام مریدین و معتقدین کو مدارس کی مدد کی تلقین فرماتے تھے۔ "
ایک اور مقام پر افسوس کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں: درس و تدریس، تالیف اور فتویٰ نویسی کے ساتھ ہم نے وعظ و تقریر کی بھی کوشش کی اس لیے کہ جاہل عوام کی تبلیغ کے لیے یہی ایک ذریعہ ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ آج کل وعظ و تقریر کے بارے میں ہماری جماعت کا مزاج بہت بگڑ گیا ہے کہ سیرت النبی ﷺ کے مبارک اسٹیج پر فساق و فجار ہر قسم کے شعراء کثرت سے بلائے جاتے ہیں اور گیارہ بارہ بجے تک فلمی ٹھمری وغیرہ ہر قسم کی طرز کے اشعار پڑھے جاتے ہیں، پھر تھوڑی دیر عالم کی تقریر ہوتی ہے اور آخر میں پھر اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ اس طرح تقریر کا جو کچھ اثر ہوتا ہے وہ زائل ہو جاتا ہے اور سامعین صرف نغمہ و ترنم کا اثر لے کر اپنے اپنے گھر جاتے ہیں۔ بعض جلسوں میں تو اتنے بڑے شعراء بلائے جاتے ہیں جو بڑے بڑے شیخ الحدیث سے بھی بڑے ہوتے ہیں کہ ان سے زیادہ شاعر کی خاطر مدارت ہوتی ہے، لوگ اسے گھیرے رہتے ہیں اور نہایت ہی اعزاز اور تعظیم و تکریم کے ساتھ اسے رخصت کرتے ہیں۔ میں ایسے جلسوں میں جہاں گویے شاعر حاصل جلسہ ہوں شرکت کرنے سے پرہیز کرتا ہوں کہ مذہبی جلسوں میں مذہبی پیشوا کی ثانوی حیثیت ہونا مذہب اور مذہبی پیشوا دونوں کی موت ہے۔
علماء و مشائخ سے شکوہ:
حضرت فقیہ ِ ملت فرماتے ہیں کہ "ہماری جماعت میں تصنیف و تالیف کی بہت کمی ہے۔ دوسرے لوگ قرآن و حدیث کے ترجمے، ان کی تفسیر تشریح، درسی کتابوں کے شروح و حواشی اور ان کے ترجمے تاریخ و سیر اور اخلاق و تصوف وغیرہ ہر علم و فن کی کتابیں لکھنے میں پیش پیش ہیں اور ہم بالکل نہ لکھنے کے برابر اس لیے کہ ہماری جماعت کے اکثر وہ جلیل القدر علماء جو تصنیف و تالیف کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اپنا پورا وقت وعظ و تقریر پیری مریدی، میں صرف کرکے اپنی اس عظیم ذمہ داری سے غفلت برت رہے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ پیری مریدی اور وعظ و تقریر نہ کریں لیکن ان سے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ وقت کی اس اہم ضرورت پر توجہ دیں اور اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر تصنیفی کام ضرور کریں ورنہ سنیت کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جائے گا"۔ 
آپ مسلکِ حق اہل اہلسنت و جماعت کے فروغ کیلئے ساری زندگی خلوص و للہیت کیساتھ جد و جہد کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ آپ کو "فقیہِ ملت" کے نام سے یاد کرتا ہے۔ آپ نے حصول علم کیلۓ جو مشقتیں برداشت کیں آج کا طالب ِ علم سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ نے اپنی کتب کے مقدمات میں جو تجربات قلم بند کیے ہیں آج کے علماء و طلباء کو انکا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
وصال:
آپ کا وصال 4 جمادی الآخر 1422ھ بمطابق 24 اگست 2001ء شبِ جمعہ بارہ بجکر پچپن منٹ پر 70 سال کی عمر میں اوجھا گنج (انڈیا) میں ہوا۔ مزار مبارک مرکز تربیت افتاء دارالعلوم امجدیہ اہل سنت ارشد العلوم کے احاطہ میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ 
ماخذ و مراجع: مقدمہ انوار الحدیث، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ۔ سیرت صدر الشریعہ۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
محمد مفید عالم قادری صمدی 


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area