قیادت اور چہرہ
غلام مصطفےٰ نعیمی ہاشمی
روشن مستقبل دہلی
سال 1998 کی بات ہے، رامپور پارلیمانی حلقے سے بی جے پی نے مختار عباس نقوی کو اپنا امیدوار بنا کر بھیجا۔مختار عباس نقوی الہ آباد کے رہائشی اور رامپور کے لیے پیراشوٹ امیدوار تھے۔ان کا مقابلہ کانگریس امیدوار اور نواب خاندان کی بہو بیگم نور بانو سے تھا۔جو اس وقت موجودہ ممبر آف پارلیمنٹ تھیں۔بی جے پی نے مسلمانوں کے درمیان "مسلم چہرے" کا بھرپور پروپیگنڈا کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا وہ طبقہ جو کسی طور بی جے پی کو ووٹ نہیں دے سکتا تھا، اس کا کچھ فیصد ووٹ مسلم چہرے کی بنیاد پر بی جے پی کی طرف چلا گیا، نتیجتاً بی جے پی نے ایک نئے اور کمزور امیدوار کے باوجود رامپور جیسی مسلم اکثریتی سیٹ پر غیر متوقع کامیابی حاصل کر لی۔اس وقت ایک مقامی بی جے پی لیڈر نے کہا تھا:
"مسلمانوں اور ہندوؤں میں بنیادی فرق اسی سوچ کا ہے کہ مسلمان صرف مسلم چہرہ دیکھتا ہے اور ہم اپنی قیادت دیکھتے ہیں۔"
اس وقت ہماری عمر چھوٹی تھی لیکن اس کی بات دماغ میں بیٹھ گئی، بعدہ جب چیزوں کو گہرائی سے جانچا پرکھا تو یہ پایا کہ واقعی مسلمانوں میں "اپنے چہرے" کا مزاج اندر تک جڑیں جمائے بیٹھا ہے۔اب یہ مزاج سیکولر پارٹیوں نے بنایا یا پہلے سے بنا بنایا تھا، یہ ایک الگ موضوع ہے، لیکن ہمارے اس مزاج کا سیاسی پارٹیوں نے خوب فائدہ اٹھایا لیکن قوم مسلم کو اس مزاج کا کوئی خاص فائدہ آج تک نہیں ملا۔
*___________قیادت اہم یا چہرہ؟*
قیادت کسی بھی پارٹی کا وہ ہائی کمان ہے جو پارٹی کی پالیسیاں بنانے کا اختیار رکھتا ہے۔جب کہ "چہرے" کا اطلاق ایسے افراد پر کیا جاتا ہے جو پارٹی پالیسیوں کے لیے مددگار یا مفید ثابت ہو سکتا ہو۔قیادت کچھ کرے نہ کرے وہ بہرحال طاقت ور اور سب سے بڑی اتھارٹی ہوتی ہے لیکن "چہرے" اسی وقت تک اہم رہتے ہیں جب تک قیادت کو فائدہ پہنچاتے رہیں۔جیسے ہی فائدہ کم یا بند ہوتا ہے، چہرے بدل دئے جاتے ہیں اس طرح وہ "چہرہ" جو کبھی طاقت ور دکھتا ہے وہ چند لمحوں بعد گمنامی کی دھول میں کھو جاتا ہے۔تقریب فہم کے لیے آپ بہوجن سماج پارٹی اور نسیم الدین صدیقی کو ذہن میں رکھیں، بہوجن سماج پارٹی(BSP) ایک سیاسی پارٹی ہے۔اس پارٹی کی قیادت دلتوں کے ہاتھ میں ہے۔نسیم الدین صدیقی کبھی اس پارٹی کا "مسلم چہرہ" ہوا کرتے تھے۔صدیقی صاحب کی محنت اور چہرے کی بدولت بی ایس پی کو فائدہ ملا جس کی وجہ سے بی ایس پی نے چار بار اتر پردیش میں اپنی حکومت بنائی۔نسیم الدین صدیقی دس گیارہ شعبوں کے طاقت ور وزیر ہوا کرتے تھے۔کچھ وقت کے بعد پارٹی قیادت کو نسیم الدین صدیقی بے فائدہ لگنے لگے اس لیے "چہرہ" بدل دیا گیا۔آج پارٹی کی دلت قیادت اسی طرح موجود ہے مگر "اپنا چہرہ" دودھ کی مکھی طرح پھینک دیا گیا۔اس مثال کو آپ سماج وادی پارٹی اور اعظم خان، آر جے ڈی اور شہاب الدین، این سی پی اور طارق انور وغیرہ سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔
اعظم خان سماج وادی کے بانی ممبر ہیں لیکن وہ صرف "چہرہ" ہیں، قیادت ملائم سنگھ کی تھی اس لیے اعظم صاحب آج بھی سینئر ترین لیڈر ہونے کے باوجود قائد نہیں ہیں۔قیادت یادو فیملی کے ہاتھوں میں ہے۔مرحوم شہاب الدین صاحب آر جے ڈی کا "مضبوط چہرہ" ہوا کرتے تھے لیکن قیادت لالو یادو کے پاس تھی، آج شہاب الدین صاحب کی فیملی معمولی کارکن کی حیثیت میں ہے جب کہ تیجسوی قائد بنے بیٹھے ہیں۔
*__________قیادت کی طاقت*
سیاست میں آپ چاہیں جتنا مضبوط چہرہ بھیج دیں لیکن اسے بہرحال پارٹی قیادت کے ماتحت ہی چلنا پڑتا ہے اس لیے بارہا ایسا ہوتا ہے کہ "ہمارے چہرے" ہمارے ہی خلاف کام کرتے ہیں۔ہمیں غصہ آتا ہے کہ یہ ہمارے چہرے ہوکر بھی ہمارے خلاف کیوں ہوجاتے ہیں؟
ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ "ہمارا چہرہ" کتنا ہی بھاری بھرکم ہو وہ کسی بھی حال میں پارٹی پالیسی سے اختلاف نہیں کر سکتا، اگر کیا تو اسے "دوسرے چہرے" سے بدل دیا جائے گا۔
کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ "ہمارے چہرے" ہمارے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ایسے نظارے دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ چلو "اپنا چہرہ" اپنے کام کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ کام بھی قومی ہمدردی میں نہیں ہائی کمان کی ہدایت پر کیا جاتا ہے۔گذشتہ دنوں راجیو رنجن نامی صحافی نے ایک پوڈ کاسٹ میں ایک قصہ سنایا جس سے ہائی کمان کی طاقت اور اس کی فکر کا پتا چلتا ہے، راجیو رنجن کہتے ہیں:
"جب سماج وادی میں اعظم خان اور امر سنگھ میں اختلاف ہوا تو ہائی کمان(ملائم سنگھ) کو لگا کہ فائدہ امر سنگھ کے ساتھ میں ہے تو انہوں نے مسلم لیڈروں کو اعظم خان کی مخالفت کا حکم دیا، اور اسی کو بہانہ بنا کر اعظم صاحب کو پارٹی سے نکال دیا۔پارٹی کا بانی ممبر اور بڑا لیڈر ہونے کے باوجود کسی بھی مسلم چہرے نے اعظم خان کا ساتھ نہیں دیا۔سب امر سنگھ کی طرف رہے کیوں کہ ہائی کمان کا حکم اسی طرف تھا۔سال بھر بعد قیادت(ملائم سنگھ) کو لگا کہ فائدہ اعظم خان کو بلانے میں ہے تو انہوں نے پارٹی کے مسلم چہروں کو ایک پریس کانفرنس کرکے امر سنگھ کی مخالفت کرنے کا حکم دیا۔مسلم چہروں نے ویسا ہی کیا۔اس طرح پارٹی قیادت نے اندرونی مخالفت کا حوالہ دے کر امر سنگھ کو نکال دیا اور اعظم خان کو اندر کر لیا۔"
یعنی قیادت ساری گوٹیاں اپنے حساب سے سیٹ کرتی ہے، چہرے بس ان گوٹیوں کے اٹھانے بٹھانے میں بس ذریعہ بنتے ہیں۔اس سے زیادہ چہروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔لیکن ہم لوگ آج بھی یہی سوچ کر خوش ہو جاتے ہیں فلاں پارٹی میں ہمارا فلاں بندہ ہے۔ہمارا فلاں شخص پارٹی کا اہم چہرہ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اہم قیادت ہوتی ہے چہرہ نہیں !!
اس لیے یاد رکھیں !!
جو چہرہ جہاں مضبوط ہے اسے ایک حد تک مضبوط رکھیں لیکن جہاں بھی ممکن ہو سکے قیادت کو پروان چڑھانے کا مزاج ضرور بنائیں۔قیادت کی مضبوطی ہی سے سیاسی مول تول اور حقوق منوانے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔بغیر قیادت آپ صرف "مانگ" سکتے ہیں مگر Bargaining نہیں کر سکتے۔قیادت کھڑی کرنے میں مشکل، محنت اور مشقت تو ضرور ہے لیکن اصل کامیابی قیادت ہی سے ملتی ہے، چہروں سے نہیں!!
28 ربیع الآخر 1447ھ
21 اکتوبر 2025 بروز منگل
غلام مصطفےٰ نعیمی ہاشمی
روشن مستقبل دہلی
سال 1998 کی بات ہے، رامپور پارلیمانی حلقے سے بی جے پی نے مختار عباس نقوی کو اپنا امیدوار بنا کر بھیجا۔مختار عباس نقوی الہ آباد کے رہائشی اور رامپور کے لیے پیراشوٹ امیدوار تھے۔ان کا مقابلہ کانگریس امیدوار اور نواب خاندان کی بہو بیگم نور بانو سے تھا۔جو اس وقت موجودہ ممبر آف پارلیمنٹ تھیں۔بی جے پی نے مسلمانوں کے درمیان "مسلم چہرے" کا بھرپور پروپیگنڈا کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا وہ طبقہ جو کسی طور بی جے پی کو ووٹ نہیں دے سکتا تھا، اس کا کچھ فیصد ووٹ مسلم چہرے کی بنیاد پر بی جے پی کی طرف چلا گیا، نتیجتاً بی جے پی نے ایک نئے اور کمزور امیدوار کے باوجود رامپور جیسی مسلم اکثریتی سیٹ پر غیر متوقع کامیابی حاصل کر لی۔اس وقت ایک مقامی بی جے پی لیڈر نے کہا تھا:
"مسلمانوں اور ہندوؤں میں بنیادی فرق اسی سوچ کا ہے کہ مسلمان صرف مسلم چہرہ دیکھتا ہے اور ہم اپنی قیادت دیکھتے ہیں۔"
اس وقت ہماری عمر چھوٹی تھی لیکن اس کی بات دماغ میں بیٹھ گئی، بعدہ جب چیزوں کو گہرائی سے جانچا پرکھا تو یہ پایا کہ واقعی مسلمانوں میں "اپنے چہرے" کا مزاج اندر تک جڑیں جمائے بیٹھا ہے۔اب یہ مزاج سیکولر پارٹیوں نے بنایا یا پہلے سے بنا بنایا تھا، یہ ایک الگ موضوع ہے، لیکن ہمارے اس مزاج کا سیاسی پارٹیوں نے خوب فائدہ اٹھایا لیکن قوم مسلم کو اس مزاج کا کوئی خاص فائدہ آج تک نہیں ملا۔
*___________قیادت اہم یا چہرہ؟*
قیادت کسی بھی پارٹی کا وہ ہائی کمان ہے جو پارٹی کی پالیسیاں بنانے کا اختیار رکھتا ہے۔جب کہ "چہرے" کا اطلاق ایسے افراد پر کیا جاتا ہے جو پارٹی پالیسیوں کے لیے مددگار یا مفید ثابت ہو سکتا ہو۔قیادت کچھ کرے نہ کرے وہ بہرحال طاقت ور اور سب سے بڑی اتھارٹی ہوتی ہے لیکن "چہرے" اسی وقت تک اہم رہتے ہیں جب تک قیادت کو فائدہ پہنچاتے رہیں۔جیسے ہی فائدہ کم یا بند ہوتا ہے، چہرے بدل دئے جاتے ہیں اس طرح وہ "چہرہ" جو کبھی طاقت ور دکھتا ہے وہ چند لمحوں بعد گمنامی کی دھول میں کھو جاتا ہے۔تقریب فہم کے لیے آپ بہوجن سماج پارٹی اور نسیم الدین صدیقی کو ذہن میں رکھیں، بہوجن سماج پارٹی(BSP) ایک سیاسی پارٹی ہے۔اس پارٹی کی قیادت دلتوں کے ہاتھ میں ہے۔نسیم الدین صدیقی کبھی اس پارٹی کا "مسلم چہرہ" ہوا کرتے تھے۔صدیقی صاحب کی محنت اور چہرے کی بدولت بی ایس پی کو فائدہ ملا جس کی وجہ سے بی ایس پی نے چار بار اتر پردیش میں اپنی حکومت بنائی۔نسیم الدین صدیقی دس گیارہ شعبوں کے طاقت ور وزیر ہوا کرتے تھے۔کچھ وقت کے بعد پارٹی قیادت کو نسیم الدین صدیقی بے فائدہ لگنے لگے اس لیے "چہرہ" بدل دیا گیا۔آج پارٹی کی دلت قیادت اسی طرح موجود ہے مگر "اپنا چہرہ" دودھ کی مکھی طرح پھینک دیا گیا۔اس مثال کو آپ سماج وادی پارٹی اور اعظم خان، آر جے ڈی اور شہاب الدین، این سی پی اور طارق انور وغیرہ سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔
اعظم خان سماج وادی کے بانی ممبر ہیں لیکن وہ صرف "چہرہ" ہیں، قیادت ملائم سنگھ کی تھی اس لیے اعظم صاحب آج بھی سینئر ترین لیڈر ہونے کے باوجود قائد نہیں ہیں۔قیادت یادو فیملی کے ہاتھوں میں ہے۔مرحوم شہاب الدین صاحب آر جے ڈی کا "مضبوط چہرہ" ہوا کرتے تھے لیکن قیادت لالو یادو کے پاس تھی، آج شہاب الدین صاحب کی فیملی معمولی کارکن کی حیثیت میں ہے جب کہ تیجسوی قائد بنے بیٹھے ہیں۔
*__________قیادت کی طاقت*
سیاست میں آپ چاہیں جتنا مضبوط چہرہ بھیج دیں لیکن اسے بہرحال پارٹی قیادت کے ماتحت ہی چلنا پڑتا ہے اس لیے بارہا ایسا ہوتا ہے کہ "ہمارے چہرے" ہمارے ہی خلاف کام کرتے ہیں۔ہمیں غصہ آتا ہے کہ یہ ہمارے چہرے ہوکر بھی ہمارے خلاف کیوں ہوجاتے ہیں؟
ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ "ہمارا چہرہ" کتنا ہی بھاری بھرکم ہو وہ کسی بھی حال میں پارٹی پالیسی سے اختلاف نہیں کر سکتا، اگر کیا تو اسے "دوسرے چہرے" سے بدل دیا جائے گا۔
کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ "ہمارے چہرے" ہمارے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ایسے نظارے دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ چلو "اپنا چہرہ" اپنے کام کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ کام بھی قومی ہمدردی میں نہیں ہائی کمان کی ہدایت پر کیا جاتا ہے۔گذشتہ دنوں راجیو رنجن نامی صحافی نے ایک پوڈ کاسٹ میں ایک قصہ سنایا جس سے ہائی کمان کی طاقت اور اس کی فکر کا پتا چلتا ہے، راجیو رنجن کہتے ہیں:
"جب سماج وادی میں اعظم خان اور امر سنگھ میں اختلاف ہوا تو ہائی کمان(ملائم سنگھ) کو لگا کہ فائدہ امر سنگھ کے ساتھ میں ہے تو انہوں نے مسلم لیڈروں کو اعظم خان کی مخالفت کا حکم دیا، اور اسی کو بہانہ بنا کر اعظم صاحب کو پارٹی سے نکال دیا۔پارٹی کا بانی ممبر اور بڑا لیڈر ہونے کے باوجود کسی بھی مسلم چہرے نے اعظم خان کا ساتھ نہیں دیا۔سب امر سنگھ کی طرف رہے کیوں کہ ہائی کمان کا حکم اسی طرف تھا۔سال بھر بعد قیادت(ملائم سنگھ) کو لگا کہ فائدہ اعظم خان کو بلانے میں ہے تو انہوں نے پارٹی کے مسلم چہروں کو ایک پریس کانفرنس کرکے امر سنگھ کی مخالفت کرنے کا حکم دیا۔مسلم چہروں نے ویسا ہی کیا۔اس طرح پارٹی قیادت نے اندرونی مخالفت کا حوالہ دے کر امر سنگھ کو نکال دیا اور اعظم خان کو اندر کر لیا۔"
یعنی قیادت ساری گوٹیاں اپنے حساب سے سیٹ کرتی ہے، چہرے بس ان گوٹیوں کے اٹھانے بٹھانے میں بس ذریعہ بنتے ہیں۔اس سے زیادہ چہروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔لیکن ہم لوگ آج بھی یہی سوچ کر خوش ہو جاتے ہیں فلاں پارٹی میں ہمارا فلاں بندہ ہے۔ہمارا فلاں شخص پارٹی کا اہم چہرہ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اہم قیادت ہوتی ہے چہرہ نہیں !!
اس لیے یاد رکھیں !!
جو چہرہ جہاں مضبوط ہے اسے ایک حد تک مضبوط رکھیں لیکن جہاں بھی ممکن ہو سکے قیادت کو پروان چڑھانے کا مزاج ضرور بنائیں۔قیادت کی مضبوطی ہی سے سیاسی مول تول اور حقوق منوانے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔بغیر قیادت آپ صرف "مانگ" سکتے ہیں مگر Bargaining نہیں کر سکتے۔قیادت کھڑی کرنے میں مشکل، محنت اور مشقت تو ضرور ہے لیکن اصل کامیابی قیادت ہی سے ملتی ہے، چہروں سے نہیں!!
28 ربیع الآخر 1447ھ
21 اکتوبر 2025 بروز منگل

