(1) جس مؤذن سے کلمات اذان صحیح ادا نہ ہوتے ہوں تو کیا ایسے موذن کو بحال رکھا جائے یا معزول کردیا جائے
(2)صحیح کلمات اذان ادا نے کرنے والے مؤذن چار طرح کے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
♦•••••••••••••••••••••••••♦
(2)صحیح کلمات اذان ادا نے کرنے والے مؤذن چار طرح کے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
♦•••••••••••••••••••••••••♦
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ایک شخص آذان صحیح نہیں پڑھتا، اس سے تلفّظ میں غلطی ہوجاتی ہے تو کیا اس مؤذن کو معزول کردیا جائے اور اس کا دیا ہوا اذان لوٹایا جائے گا یا نہیں ؟
برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں.
سائل:- محمد شہباز حنفی یہ سوال مجلس شوریٰ گروپ کا ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ایک شخص آذان صحیح نہیں پڑھتا، اس سے تلفّظ میں غلطی ہوجاتی ہے تو کیا اس مؤذن کو معزول کردیا جائے اور اس کا دیا ہوا اذان لوٹایا جائے گا یا نہیں ؟
برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں.
سائل:- محمد شہباز حنفی یہ سوال مجلس شوریٰ گروپ کا ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
ایسے موذن جو کلمات اذان صحیح سے ادا نہیں کرتے اسے فورا ہٹا دیا جائے کیونکہ غلط اذان بعض صورتوں میں کفر ہے اور بعض میں مکروہ تحریمی ہے اور مؤذن کو اذان دینے کے پہلے کسی عالم کے پاس جاکر تلفظ کو ٹھیک سے ادا کرنے کے لئے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے پھر اذان دینے کا کام شروع کرے
صورت مسئولہ میں آذان کو لوٹانا ہوگا اور مؤذن کو معزول کردینا ہوگا۔ ۔غور کرنے پر یہ واضح ہوتا ہے کہ مؤذن سے آذان میں تیرہ قسم کی غلطیاں ہوسکتی ہیں،وہ اس طرح ہے
(1) اللہ اکبر میں الف پر " مد" لگا کر یعنی " آ"للہ اکبر کہنا یعنی الف پر مد ملاکر کھینچ کر پڑھنا اور اس طرح کی غلطی کرنا کفر ہے اس سے اذان ہوتی ہی نہیں ہے .
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
بلکہ اگر ان کے معانی فاسدہ سمجھ کر قصدا کہے تو کافر ہے۔
صورت مسئولہ میں آذان کو لوٹانا ہوگا اور مؤذن کو معزول کردینا ہوگا۔ ۔غور کرنے پر یہ واضح ہوتا ہے کہ مؤذن سے آذان میں تیرہ قسم کی غلطیاں ہوسکتی ہیں،وہ اس طرح ہے
(1) اللہ اکبر میں الف پر " مد" لگا کر یعنی " آ"للہ اکبر کہنا یعنی الف پر مد ملاکر کھینچ کر پڑھنا اور اس طرح کی غلطی کرنا کفر ہے اس سے اذان ہوتی ہی نہیں ہے .
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
بلکہ اگر ان کے معانی فاسدہ سمجھ کر قصدا کہے تو کافر ہے۔
(بہار شریعت جلد سویم ص 58)
ورنہ نہیں لیکن اذان نہیں ہوئی اور وہ گنہگار ہوگا
(2) اللہ اکبر کو : اللہ ۔
پڑھنا یعنی اکبر میں ؛ ب کے ساتھ الف بڑھا دینا جس سے معنی میں فساد پیدا ہوجاتا ہے اس طرح غلطی کرنا حرام ہے منیۃ المصلی میں ہے کہ کہ اکبار شیطان کانام ہے ایسا کہنا بھی کفر ہے
(3) اللہ اکبر کو : ایلاہ اکبر : پڑھنا یہ بھی ِگناہ کبیرہ یعنی ایلاھو اکبر پڑھنا۔
(4) اللہ اکبر کو : آلاہ اکبر کہنا یعنی الف پر مد؛ لام میں زبر مع الف اور ہ پر پیش لگانا .یہ بھی گناہ ہے ۔
(5) اشھد ان لا الہ الااللہ کو اشھاد الا الہ الااللہ پڑھنا اس میں"ھ " میں الف بڑھا دینا.
6- یا پھر: اشھد ان لا الہ الو لا پڑھنا .
(7) اشھد ان محمد رسول اللہ کو : اشھد انا محمد رسول اللہ پڑھنا؛ اس صورت میں " ان " میں " الف "کا اضافہ ہوجاتا ہے ۔
(8) یا پھر : اشھد ان محمدٌ رسول اللہ یعنی "دال "کو "ر"میں ملانے کے لئے "دال" پر پیش پڑھنا.
(9) حی علی الصلاة کو "حیا علی الصلاۃ " پڑھنا یعنی" ی" میں الف کا بڑھا دينا اور "صلاۃ" کے آخر میں بڑی" ح" کا پڑھنا .
(10) حی علی الفلاح کو حی علی الفلاہ پڑھنا یعنی بڑی "ح" کو چھوٹی "ہ"پڑھنا ۔
(11) اسی طرح حی علی الفلا کا پڑھنا یعنی بڑی"ح" کو حذف کردینا۔ اور چھوٹی ھ نکالنا
(12) الصلاۃ خیرمن النوم کو الصلاۃ خیر من النو پڑھنا یعنی " میم"کا تلفظ نہیں نکالنا ۔
(13) لاالہ الااللہ کو لا ایلاہ الا اللہ پڑھنا ۔
یہ کل تیرہ غلطیاں ہیں جو جاہل مؤذن سے ظاہر ہوتی ہیں کسی مؤذن سے ان میں ایک غلطی کسی سے دو کسی سے تین وغیرہ و غیرہ ہوتی ہیں ۔
علمائے کرام فرماتے ہیں:-
(2) اللہ اکبر کو : اللہ ۔
پڑھنا یعنی اکبر میں ؛ ب کے ساتھ الف بڑھا دینا جس سے معنی میں فساد پیدا ہوجاتا ہے اس طرح غلطی کرنا حرام ہے منیۃ المصلی میں ہے کہ کہ اکبار شیطان کانام ہے ایسا کہنا بھی کفر ہے
(3) اللہ اکبر کو : ایلاہ اکبر : پڑھنا یہ بھی ِگناہ کبیرہ یعنی ایلاھو اکبر پڑھنا۔
(4) اللہ اکبر کو : آلاہ اکبر کہنا یعنی الف پر مد؛ لام میں زبر مع الف اور ہ پر پیش لگانا .یہ بھی گناہ ہے ۔
(5) اشھد ان لا الہ الااللہ کو اشھاد الا الہ الااللہ پڑھنا اس میں"ھ " میں الف بڑھا دینا.
6- یا پھر: اشھد ان لا الہ الو لا پڑھنا .
(7) اشھد ان محمد رسول اللہ کو : اشھد انا محمد رسول اللہ پڑھنا؛ اس صورت میں " ان " میں " الف "کا اضافہ ہوجاتا ہے ۔
(8) یا پھر : اشھد ان محمدٌ رسول اللہ یعنی "دال "کو "ر"میں ملانے کے لئے "دال" پر پیش پڑھنا.
(9) حی علی الصلاة کو "حیا علی الصلاۃ " پڑھنا یعنی" ی" میں الف کا بڑھا دينا اور "صلاۃ" کے آخر میں بڑی" ح" کا پڑھنا .
(10) حی علی الفلاح کو حی علی الفلاہ پڑھنا یعنی بڑی "ح" کو چھوٹی "ہ"پڑھنا ۔
(11) اسی طرح حی علی الفلا کا پڑھنا یعنی بڑی"ح" کو حذف کردینا۔ اور چھوٹی ھ نکالنا
(12) الصلاۃ خیرمن النوم کو الصلاۃ خیر من النو پڑھنا یعنی " میم"کا تلفظ نہیں نکالنا ۔
(13) لاالہ الااللہ کو لا ایلاہ الا اللہ پڑھنا ۔
یہ کل تیرہ غلطیاں ہیں جو جاہل مؤذن سے ظاہر ہوتی ہیں کسی مؤذن سے ان میں ایک غلطی کسی سے دو کسی سے تین وغیرہ و غیرہ ہوتی ہیں ۔
علمائے کرام فرماتے ہیں:-
کہ مؤذن سے آذان کی آواز نکالنے میں تین قسم کی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔
ان غلطیوں سے بچنا ہر مؤذن پر واجب و لازم یعنی ضروری ہے۔
(1) ترجیع
(2) تلحین
ان غلطیوں سے بچنا ہر مؤذن پر واجب و لازم یعنی ضروری ہے۔
(1) ترجیع
(2) تلحین
(3)تنحخی
ان میں ترجیع اسے کہتے ہیں جو آذان کے کلمات دو دو بار کہنے کے بدلے چار چار بار کہ دے۔
یہ کام جان کر کرے یا بھول کر کرے بہر حال شرعاً منع اور آذان غلط ہوجائے گی کہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔
(2)تلحین یہ ہے کہ آذان یا تکبیر و اقامت میں ایسی طرزیں سُریں نکال کر نغمہ سرائی کرے جس سے آذان و اقامت کے الفاظ بگڑ جائیں؛ عام مؤذن میں اسی قسم کی غلطیاں ان کی جہالت کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ اسی کو لحنی غلطی کہتے ہیں۔
لحن لحن عربی لفظ ہے جس کا معنی آواز ۔سریلی آواز ۔خوش آوازی ۔خوش خوانی۔
ان میں ترجیع اسے کہتے ہیں جو آذان کے کلمات دو دو بار کہنے کے بدلے چار چار بار کہ دے۔
یہ کام جان کر کرے یا بھول کر کرے بہر حال شرعاً منع اور آذان غلط ہوجائے گی کہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔
(2)تلحین یہ ہے کہ آذان یا تکبیر و اقامت میں ایسی طرزیں سُریں نکال کر نغمہ سرائی کرے جس سے آذان و اقامت کے الفاظ بگڑ جائیں؛ عام مؤذن میں اسی قسم کی غلطیاں ان کی جہالت کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ اسی کو لحنی غلطی کہتے ہیں۔
لحن لحن عربی لفظ ہے جس کا معنی آواز ۔سریلی آواز ۔خوش آوازی ۔خوش خوانی۔
(فیروز اللغات ص 1152)
گانا کو لحن کے ساتھ گایا جاتا ہے جبکہ قرآن شریف جو کلام اللہ ہے جس پر ہمارا ایمان ہے جو ہماری شفاعت کرے گی تو قرآن شریف کو لحن کے ساتھ پڑھنا حرام ہے ۔حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
لحن کے ساتھ قرآن شریف پڑھنا حرام ہے اور سننا بھی حرام ہے مگر مد اور لین میں لحن ہوا تو نماز فاسد نہ ہوگی اگر فاحش نہ ہو کہ تان کی حد تک پہنچ جائے۔
گانا کو لحن کے ساتھ گایا جاتا ہے جبکہ قرآن شریف جو کلام اللہ ہے جس پر ہمارا ایمان ہے جو ہماری شفاعت کرے گی تو قرآن شریف کو لحن کے ساتھ پڑھنا حرام ہے ۔حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
لحن کے ساتھ قرآن شریف پڑھنا حرام ہے اور سننا بھی حرام ہے مگر مد اور لین میں لحن ہوا تو نماز فاسد نہ ہوگی اگر فاحش نہ ہو کہ تان کی حد تک پہنچ جائے۔
(بہار شریعت جلد سوم ص 88)
اذان اذان نماز کے لیے اعلان ہے اور اذان کو بھی لحن سے پڑھنا حرام ہے در مختار میں ہے کہ
(ھو) لغۃ الاعلام و شرعا (اعلام مخصوص) یعنی اذان کا لغوی معنی آگاہ کرنا ہے اور اس کا شرعی معنی مخصوص آگاہی ہے
اذان اذان نماز کے لیے اعلان ہے اور اذان کو بھی لحن سے پڑھنا حرام ہے در مختار میں ہے کہ
(ھو) لغۃ الاعلام و شرعا (اعلام مخصوص) یعنی اذان کا لغوی معنی آگاہ کرنا ہے اور اس کا شرعی معنی مخصوص آگاہی ہے
(ردالمختار ۔کتاب الصلاۃ۔ باب الاذان ص 47)
حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رحمۃاللہ علیہ عالمگیری ۔درمختار اور رد المحتار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ
کلمات اذان میں لحن حرام ہے مثلا اللہ اکبر کے ہمزے کو مد کے ساتھ آللہ۔یا آکبر پڑھنا یونہی اکبر میں "بے" کے بعد الف پڑھنا حرام ہے یونہی کلمات اذان کو قواعد موسیقی پر گانا بھی لحن ناجائز ہے۔
حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رحمۃاللہ علیہ عالمگیری ۔درمختار اور رد المحتار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ
کلمات اذان میں لحن حرام ہے مثلا اللہ اکبر کے ہمزے کو مد کے ساتھ آللہ۔یا آکبر پڑھنا یونہی اکبر میں "بے" کے بعد الف پڑھنا حرام ہے یونہی کلمات اذان کو قواعد موسیقی پر گانا بھی لحن ناجائز ہے۔
(بہار شریعت جلد سوم ص 28)
اور درمختار میں ہے کہ (ولالحن فیہ) ای تغنی بغیرہ کلماتہ فانہ لایحل فعلہ وسماعہ کالتغنی بالقرآن یعنی اور اذان میں غناء نہیں ہے یعنی اس طرح گانے کی آواز میں اذان دینا کہ اس کے کلمات تبدیل ہو جائیں ۔اس کا کرنا اور سننا قرآن کی تغنی کی طرح حلال نہیں ہے۔ (ردالمحتار علی الدرمختار ۔کتاب الصلاۃ ۔باب الاذان ص 53)
بے شک گانے میں اچھے یا برے، عشقیہ یا غیر عشقیہ سب طرح کے اشعار ہوتے ہیں مگر ان اشعار کو لحن ، گٹکری کے ساتھ پڑھنا منع ہے کہ اسے گانا ہی کہا جاتا ہے نہ کہ اشعار کیونکہ درمختار میں ولا لحن فیہ سے مراد ای یغنی آیا ہوا ہے کہ گانا کی طرح پڑھنا منع ہے ۔
جب اذان کے کلمات ذکر الہی ہے اسے لحن کے ساتھ کہنا حلال نہیں ہے تلاوت قرآن میں ہر ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی لیکن قرآن شریف کو لحن سے پڑھنا حلال نہیں تو اشعار کو لحن سے پڑھنا کیسے حلال ہوگا۔
اچھے اشعار کو بھی گانا کے طرج پر گانا یعنی لحن و گٹکری کے ساتھ بالخصوص فاسقین و فاسقات کے ساتھ مشہور ہے ۔ایسی تخصیص شرعاً شئی کو ممنوع کردیتی ہے اگرچہ فی نفسہ اس میں کوئی حرج نہ ہو اسی طرح کلمات اذان کو بھی لحن سے پڑھنا حرام ہے۔
(3) نحخ یہ ہے کہ، مؤذن یا مکبر اپنی آذان یا تکبیر میں بلا عذر کھانسے ، کھنکارے۔ فقہاء کرام نے ان تینوں غلطیوں سے مؤذن و مکبر کو منع کیا ہے
---- فتاوی شامی جلد اول ص 359 میں ہے کہ
"""ولا ترجیع فانہ مکروہ ولا لحن فیہ ای تغنی بغیر کلماتہ فانہ لا یحل فعلہ ای بزیارۃ حرکۃ اوحرف او مد و غیرھا فی الاوائل والاواخر" ""
یعنی اور ناجائز ہے آذان میں ترجیع کیونکہ ترجیع مکروہ تحریمی ہے اور آذان میں لحن یعنی نغمہ سرائی بھی ناجائز ہے یعنی آذان کے کلمات اور لفظوں کو بگاڑ کر ادا کرنا، کیونکہ حرام ہے یہ کام آذان میں کہ زیر زبر کی یا حرف یا مد وغیرہ کی زیادتی یا کمی ہوجائے لفظوں کے شروع میں یا آخر میں،
2- اور فتاوی عالم گیری میں ہے والمد فی اول التکبیر کفر، و فی آخرہ خطاء فاحش،و یکرہ التلحین وھوالتغنی بحیث یؤدی الی تغیر کلماتہ کذا فی شرح المجمع لابن المالک وتحسین الصوات للآذان حسن مالم یکن لحنا
اور درمختار میں ہے کہ (ولالحن فیہ) ای تغنی بغیرہ کلماتہ فانہ لایحل فعلہ وسماعہ کالتغنی بالقرآن یعنی اور اذان میں غناء نہیں ہے یعنی اس طرح گانے کی آواز میں اذان دینا کہ اس کے کلمات تبدیل ہو جائیں ۔اس کا کرنا اور سننا قرآن کی تغنی کی طرح حلال نہیں ہے۔ (ردالمحتار علی الدرمختار ۔کتاب الصلاۃ ۔باب الاذان ص 53)
بے شک گانے میں اچھے یا برے، عشقیہ یا غیر عشقیہ سب طرح کے اشعار ہوتے ہیں مگر ان اشعار کو لحن ، گٹکری کے ساتھ پڑھنا منع ہے کہ اسے گانا ہی کہا جاتا ہے نہ کہ اشعار کیونکہ درمختار میں ولا لحن فیہ سے مراد ای یغنی آیا ہوا ہے کہ گانا کی طرح پڑھنا منع ہے ۔
جب اذان کے کلمات ذکر الہی ہے اسے لحن کے ساتھ کہنا حلال نہیں ہے تلاوت قرآن میں ہر ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی لیکن قرآن شریف کو لحن سے پڑھنا حلال نہیں تو اشعار کو لحن سے پڑھنا کیسے حلال ہوگا۔
اچھے اشعار کو بھی گانا کے طرج پر گانا یعنی لحن و گٹکری کے ساتھ بالخصوص فاسقین و فاسقات کے ساتھ مشہور ہے ۔ایسی تخصیص شرعاً شئی کو ممنوع کردیتی ہے اگرچہ فی نفسہ اس میں کوئی حرج نہ ہو اسی طرح کلمات اذان کو بھی لحن سے پڑھنا حرام ہے۔
(3) نحخ یہ ہے کہ، مؤذن یا مکبر اپنی آذان یا تکبیر میں بلا عذر کھانسے ، کھنکارے۔ فقہاء کرام نے ان تینوں غلطیوں سے مؤذن و مکبر کو منع کیا ہے
---- فتاوی شامی جلد اول ص 359 میں ہے کہ
"""ولا ترجیع فانہ مکروہ ولا لحن فیہ ای تغنی بغیر کلماتہ فانہ لا یحل فعلہ ای بزیارۃ حرکۃ اوحرف او مد و غیرھا فی الاوائل والاواخر" ""
یعنی اور ناجائز ہے آذان میں ترجیع کیونکہ ترجیع مکروہ تحریمی ہے اور آذان میں لحن یعنی نغمہ سرائی بھی ناجائز ہے یعنی آذان کے کلمات اور لفظوں کو بگاڑ کر ادا کرنا، کیونکہ حرام ہے یہ کام آذان میں کہ زیر زبر کی یا حرف یا مد وغیرہ کی زیادتی یا کمی ہوجائے لفظوں کے شروع میں یا آخر میں،
2- اور فتاوی عالم گیری میں ہے والمد فی اول التکبیر کفر، و فی آخرہ خطاء فاحش،و یکرہ التلحین وھوالتغنی بحیث یؤدی الی تغیر کلماتہ کذا فی شرح المجمع لابن المالک وتحسین الصوات للآذان حسن مالم یکن لحنا
یعنی اور تکبیر یعنی "اللہ اکبر" کے اول میں مد لگانا کفر ہے (اس لئے منع ہے کہ اللہ کے الف پر مد لگانے سے یہ فقرہ سوال انکاری کا بن جائے گا اور اس کا ترجمہ ہوگا : کیا اللہ سب سے بڑا ہے ؟ جبکہ اس کا معنی ہے اللہ سب سے بڑا ہے اور الف پر مد لگانے سے سوالیہ جملہ بن جائے گا کہ کیا اللہ سب سے بڑا ہے یہی کفر ہے
اور یہ کہنا کفر ہے اس کے متعلق حضور صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
بلکہ اگر ان کے معانی فاسدہ سمجھ کر قصدا کہے تو کافر ہے۔
اور یہ کہنا کفر ہے اس کے متعلق حضور صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
بلکہ اگر ان کے معانی فاسدہ سمجھ کر قصدا کہے تو کافر ہے۔
(بہار شریعت جلد سوئم ص 58)
اس سے واضح ہوا کہ اگر ان کے معانی فاسدہ وہ مؤذن نہیں سمجھتا ہے اور معانی فاسدہ بےسمجھے اذان دیتا ہے تو کافر نہ ہوگا ہاں ان کے معانی فاسدہ سمجھ کر پھر قصدا کہے تو کافر ورنہ نہیں ۔ لیکن گنہگار ضرور ہوگا کہ یہ فعل حرام ہے بلکہ کفر ہے اسی لئے حکم شرعی ہے کہ
نماز میں تکبیر تحریمہ میں لفظ اللہ کو آللہ یا اکبر کو آکبر یا اکبار کہا نماز نہ ہوگی۔
اس سے واضح ہوا کہ اگر ان کے معانی فاسدہ وہ مؤذن نہیں سمجھتا ہے اور معانی فاسدہ بےسمجھے اذان دیتا ہے تو کافر نہ ہوگا ہاں ان کے معانی فاسدہ سمجھ کر پھر قصدا کہے تو کافر ورنہ نہیں ۔ لیکن گنہگار ضرور ہوگا کہ یہ فعل حرام ہے بلکہ کفر ہے اسی لئے حکم شرعی ہے کہ
نماز میں تکبیر تحریمہ میں لفظ اللہ کو آللہ یا اکبر کو آکبر یا اکبار کہا نماز نہ ہوگی۔
(بہار شریعت جلد سوئم ص 58)
یعنی الف پر مد پڑھا یا الف کو خوب لمبا پڑھا تو اس صورت میں نماز نہ ہوگی
جیسا کہ بہار شریعت میں یے کہ ۔کلمات اذان میں لحن حرام ہے مثلا اللہ اکبر کے ہمزے کو مد کے ساتھ آللہ اکبر یا اکبر ( یعنی الف پر مد بڑھا کر پڑھنا) یونہی اکبر میں بے کے بعد الف بڑھانا حرام ہے (بہار شریعت جلد سوئم ص 28)
اور آخر میں "مد" لگانا یہ تو بہت فاحش غلطی کی اگر جہالت سے ناسمجھی میں آگے یا پیچھے مد لگایا تو اگرچہ کافر نہ ہوگا مگر بدترین گناہ کبیرہ کیا اور اذان غلط ہوگئی دوبارہ کہی جائے گا۔ (العطایا الاحمدیہ جلد چہارم ص 520)
اللہ کے لام کو پر ( یعنی پ پر پیش کرکے پڑھنا ) سنت متوارثہ ہے جب کہ اس سے پہلے فتحہ یا ضمہ ہو ( تلخیص فتاوی رضویہ جلد اول ص 444)
آذان میں تلحین کرنا مکروہ تحریمی ہے اور تلحین کا معنی یہ ہے اس طرح نغمہ سرائی کرنا کہ آذان کے الفاظ متغیر ہوجائیں یعنی بگڑ جائیں۔
ابن مالک کی شرح مجمع میں بھی یہ مسئلہ ایسا ہی لکھا ہے خیال رہے کہ آذان میں صحیح تلفظ کے ساتھ اچھی آواز میں آذان دینا جائز ہے مگر وہ لحن جس سے الفاظ بگڑ جائیں اورمعنی میں فساد پیدا ہوجائیں وہ منع ہے۔
غلط اذان دینے والے مؤذن چار طرح کے گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔
جیسا کہ بہار شریعت میں یے کہ ۔کلمات اذان میں لحن حرام ہے مثلا اللہ اکبر کے ہمزے کو مد کے ساتھ آللہ اکبر یا اکبر ( یعنی الف پر مد بڑھا کر پڑھنا) یونہی اکبر میں بے کے بعد الف بڑھانا حرام ہے (بہار شریعت جلد سوئم ص 28)
اور آخر میں "مد" لگانا یہ تو بہت فاحش غلطی کی اگر جہالت سے ناسمجھی میں آگے یا پیچھے مد لگایا تو اگرچہ کافر نہ ہوگا مگر بدترین گناہ کبیرہ کیا اور اذان غلط ہوگئی دوبارہ کہی جائے گا۔ (العطایا الاحمدیہ جلد چہارم ص 520)
اللہ کے لام کو پر ( یعنی پ پر پیش کرکے پڑھنا ) سنت متوارثہ ہے جب کہ اس سے پہلے فتحہ یا ضمہ ہو ( تلخیص فتاوی رضویہ جلد اول ص 444)
آذان میں تلحین کرنا مکروہ تحریمی ہے اور تلحین کا معنی یہ ہے اس طرح نغمہ سرائی کرنا کہ آذان کے الفاظ متغیر ہوجائیں یعنی بگڑ جائیں۔
ابن مالک کی شرح مجمع میں بھی یہ مسئلہ ایسا ہی لکھا ہے خیال رہے کہ آذان میں صحیح تلفظ کے ساتھ اچھی آواز میں آذان دینا جائز ہے مگر وہ لحن جس سے الفاظ بگڑ جائیں اورمعنی میں فساد پیدا ہوجائیں وہ منع ہے۔
غلط اذان دینے والے مؤذن چار طرح کے گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔
جو قابل افسوس ناک بات ہے۔
(1) پہلا گناہ کہ اس نے آذان کے کلمات کو کسی سے سیکھا نہیں
۔ یعنی علم نہیں حاصل کیا اس لئے علم حاصل نہ کرنے کا گناہ اور یہ کہنا کہ میں جاہل ہوں تو جہالت عذر نہیں کیونکہ ضروری مسائل کا سیکھنا فرض ہے اسی لئے حدیث شریف میں ہے کہ تمہارا مؤذن نیک ہو اسی لئے اذان دینے کے لئے بھی اولا اذان کی پوری تعلیم اور طریقہ اور الفاظ کی صحیح ادائیگی حاصل کرنا لازم ہے
(2) دوسرا اس کی اپنی غلطی کا کہ آذان غلط دیا
(3) گناہ خیانت کا کہ آذان کے جو کلمات بطور امانت الہی ہے یعنی شعار اللہ ہے اس کا ادب ہم پر واجب و لازم ہے اس کے الفاظ بدلنے، زبر، زیر، پیش غلط پڑھنے کا گناہ کہ امانت میں خیانت کیا لہذا خیانت کا گناہ۔
(4) چوتھا گناہ سننے والے کی غلط ادائیگی کا، وہ مؤذن غلط آذان دیا جس کو سننا شرعا منع ہے مگر لوگوں نے سنا تو سب کا گناہ اس مؤذن کے سر پر جائے گا
اس ضمن میں مفتیِ اسلام مفتی اقتدار احمد خان نعیمی ابن حضور حکیم الامت مفسر قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی قدس سرہ نے لکھا کہ : ایک بزرگ نے فرمایا کہ *میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر غلط آذان پڑھتا ہو اس کی زندگی میں غربت و ذلت ملتی ہے اور مرتے وقت چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے یہ ظاہری سزا ہے، قبر و حشر میں نہ جانے کیا سزا ملے، العیاذ باللہ تعالیٰ۔ (فتاوی نعیمیہ جلد چہارم ص 518)
مؤذن کیسا ہو:-
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مؤذن کے بارے میں ارشاد فرمایا، و یؤذن لکم خیارکم و خیارھم من کان عالما باحکام شرع یعنی تمہارے لیے وہ شخص آذان دیا کرے جو تم میں سب سے زیادہ اعلی افضل بہتر ہو( اس حدیث کو ابؤداؤد نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت فرمایا، ) اور اس حدیث کے تحت علما نے فرمایا کہ مؤذن عالم با عمل ہو، متقی بھی ہو، کیونکہ حدیث کے الفاظ : خیارکم : یعنی تم میں سب سے بہتر ہو اور یہ روشن ہے کہ عالم با عمل سے بہتر کون ہوسکتا ہے اور عالم بھی وہ جس کے الفاظ کی ادائیگی درست ہو، اسی لئے فتاوی عالم گیری میں ہے، و ینبغی ان یکون المؤذن رجلا عاقلا صالحا تقیا عالما بالسنۃ
(1) پہلا گناہ کہ اس نے آذان کے کلمات کو کسی سے سیکھا نہیں
۔ یعنی علم نہیں حاصل کیا اس لئے علم حاصل نہ کرنے کا گناہ اور یہ کہنا کہ میں جاہل ہوں تو جہالت عذر نہیں کیونکہ ضروری مسائل کا سیکھنا فرض ہے اسی لئے حدیث شریف میں ہے کہ تمہارا مؤذن نیک ہو اسی لئے اذان دینے کے لئے بھی اولا اذان کی پوری تعلیم اور طریقہ اور الفاظ کی صحیح ادائیگی حاصل کرنا لازم ہے
(2) دوسرا اس کی اپنی غلطی کا کہ آذان غلط دیا
(3) گناہ خیانت کا کہ آذان کے جو کلمات بطور امانت الہی ہے یعنی شعار اللہ ہے اس کا ادب ہم پر واجب و لازم ہے اس کے الفاظ بدلنے، زبر، زیر، پیش غلط پڑھنے کا گناہ کہ امانت میں خیانت کیا لہذا خیانت کا گناہ۔
(4) چوتھا گناہ سننے والے کی غلط ادائیگی کا، وہ مؤذن غلط آذان دیا جس کو سننا شرعا منع ہے مگر لوگوں نے سنا تو سب کا گناہ اس مؤذن کے سر پر جائے گا
اس ضمن میں مفتیِ اسلام مفتی اقتدار احمد خان نعیمی ابن حضور حکیم الامت مفسر قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی قدس سرہ نے لکھا کہ : ایک بزرگ نے فرمایا کہ *میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر غلط آذان پڑھتا ہو اس کی زندگی میں غربت و ذلت ملتی ہے اور مرتے وقت چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے یہ ظاہری سزا ہے، قبر و حشر میں نہ جانے کیا سزا ملے، العیاذ باللہ تعالیٰ۔ (فتاوی نعیمیہ جلد چہارم ص 518)
مؤذن کیسا ہو:-
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مؤذن کے بارے میں ارشاد فرمایا، و یؤذن لکم خیارکم و خیارھم من کان عالما باحکام شرع یعنی تمہارے لیے وہ شخص آذان دیا کرے جو تم میں سب سے زیادہ اعلی افضل بہتر ہو( اس حدیث کو ابؤداؤد نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت فرمایا، ) اور اس حدیث کے تحت علما نے فرمایا کہ مؤذن عالم با عمل ہو، متقی بھی ہو، کیونکہ حدیث کے الفاظ : خیارکم : یعنی تم میں سب سے بہتر ہو اور یہ روشن ہے کہ عالم با عمل سے بہتر کون ہوسکتا ہے اور عالم بھی وہ جس کے الفاظ کی ادائیگی درست ہو، اسی لئے فتاوی عالم گیری میں ہے، و ینبغی ان یکون المؤذن رجلا عاقلا صالحا تقیا عالما بالسنۃ
یعنی آذان دینے والا مرد عاقل بالغ، سمجھ دار، نیک، متقی، پرہیز گار ہو اور اذان کی سنت اور طریقے کو بہت اچھی طرح جاننے والا ہو۔ (فتاوی عالم گیری، جلد اول، ص 53)
جو حضرات مؤذن کا کام انجام دیتے ہیں وہ پہلے علماء کرام یا قاری حضرات سے اپنی آذان بالکل درست کرائیں تاکہ ایک بھی لفظی غلطی باقی نہ رہے
اقول ۔( محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار) فتاوی عالمگیری کی عبارت میں لفظ ینبغی ہے جو علماء متقدمین کے نزدیک واجب کے لئے بولا اور کبھی مستحب کے لئے بھی کہا جاتا ہے اسی لئے بہار شریعت میں ہے کہ ۔
مستحب یہ ہے کہ مؤذن مرد عاقل ۔صالح پرہیزگار عالم بالسنہ ذی وجاہت لوگوں کے احوال کا نگران اور جو جماعت سے رہ جانے والے ہوں ان کو زجر کرنے والا ہو اذان پر مداوت کرتا ہو اور ثواب کے لئے اذان کہتا ہو یعنی اذان پر اجرت نہ لیتا ہو
جو حضرات مؤذن کا کام انجام دیتے ہیں وہ پہلے علماء کرام یا قاری حضرات سے اپنی آذان بالکل درست کرائیں تاکہ ایک بھی لفظی غلطی باقی نہ رہے
اقول ۔( محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار) فتاوی عالمگیری کی عبارت میں لفظ ینبغی ہے جو علماء متقدمین کے نزدیک واجب کے لئے بولا اور کبھی مستحب کے لئے بھی کہا جاتا ہے اسی لئے بہار شریعت میں ہے کہ ۔
مستحب یہ ہے کہ مؤذن مرد عاقل ۔صالح پرہیزگار عالم بالسنہ ذی وجاہت لوگوں کے احوال کا نگران اور جو جماعت سے رہ جانے والے ہوں ان کو زجر کرنے والا ہو اذان پر مداوت کرتا ہو اور ثواب کے لئے اذان کہتا ہو یعنی اذان پر اجرت نہ لیتا ہو
(بہار شریعت جلد سوئم ص 27)
مؤذن امانت دار ہے اس لئے اسے صحیح صحیح اذان کے کلمات ادا کرنا ضروری ہے الفاظ اذان خدا تعالیٰ کی امانت ہے اس اگر مؤذن کلمات اذان صحیح سے ادا نہیں کیا تو خائن کہلائے گا اور خیانت کا گنہگار گنہگار ہوگا
حدیث شریف میں ہے کہ ۔
الامام ضامن والموذن موتمن اللھم ارشد الائمۃ واغفر للموذنین
مؤذن امانت دار ہے اس لئے اسے صحیح صحیح اذان کے کلمات ادا کرنا ضروری ہے الفاظ اذان خدا تعالیٰ کی امانت ہے اس اگر مؤذن کلمات اذان صحیح سے ادا نہیں کیا تو خائن کہلائے گا اور خیانت کا گنہگار گنہگار ہوگا
حدیث شریف میں ہے کہ ۔
الامام ضامن والموذن موتمن اللھم ارشد الائمۃ واغفر للموذنین
یعنی امام مسلمانوں کی نمازوں کا ذمہ دار ہے اور مؤذن مسلمانوں کا امانت دار ہے اے اللہ اماموں کو سچی ہدایت عطا فرما اور مؤذن نے گناہ بخش دے
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
المؤذن امناء الناس علی صلوتھم و سحورھم وعلی فطرھم رواہ البیہقی و طبرانی یعنی بیہقی اور طبرانی نے حدیث پاک روایت فرمائی کہ مؤذن مسلمانوں کی نمازوں ۔ ۔سحریوں ۔اور افطاریوں کے امانت دار ہیں ایک تیسری حدیث شریف میں ہے کہ
آملک بالاذن والامام آملک بالامامۃ یعنی
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مؤذن مالک بن گیا اذان کے ذریعہ اور امام نماز کا مالک بن گیا ۔کل قیامت انہی سے پوچھ گئی ۔اں احادیث سے ثابت ہوا کہ مؤذن تین چیزوں کا امانت دار ہے
(1) نمازوں
(2) روزوں کی سحریوں
(3) افطاریوں کا لہذا اگر اوقات میں ذرا غلطی کرے گا تو لوگوں کی نمازیں۔ سحرئیں ۔افطارئیں برباد یہ بہت بڑی خیانت ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
المؤذن امناء الناس علی صلوتھم و سحورھم وعلی فطرھم رواہ البیہقی و طبرانی یعنی بیہقی اور طبرانی نے حدیث پاک روایت فرمائی کہ مؤذن مسلمانوں کی نمازوں ۔ ۔سحریوں ۔اور افطاریوں کے امانت دار ہیں ایک تیسری حدیث شریف میں ہے کہ
آملک بالاذن والامام آملک بالامامۃ یعنی
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مؤذن مالک بن گیا اذان کے ذریعہ اور امام نماز کا مالک بن گیا ۔کل قیامت انہی سے پوچھ گئی ۔اں احادیث سے ثابت ہوا کہ مؤذن تین چیزوں کا امانت دار ہے
(1) نمازوں
(2) روزوں کی سحریوں
(3) افطاریوں کا لہذا اگر اوقات میں ذرا غلطی کرے گا تو لوگوں کی نمازیں۔ سحرئیں ۔افطارئیں برباد یہ بہت بڑی خیانت ہے۔
(فتاوی العظایا الاحمدیۃ جلد چہارم ص 517)
اگر مؤذن ہی امام بھی ہوتو بہتر ہے۔
جاہل مؤذن کے متعلق حدیث میں پیشنگوئی۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نے فرمایا کہ
عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ قوم کے بیوقوف مسلمانوں کے مؤذن بن جائیں گے۔
جاہل مؤذن کے متعلق حدیث میں پیشنگوئی۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نے فرمایا کہ
عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ قوم کے بیوقوف مسلمانوں کے مؤذن بن جائیں گے۔
(فتاوی العطایا الاحمدیہ جلد چہارم ص 518 بحوالہ کتاب کنز الحقائق جلد اول ص 145 رواہ الدیلمی و مسند الفردوس)
اس سے واضح ہوا کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں جاہل مؤذن کو بحال کیا جائے گا اور غالبا آج کل یہی ہورہا ہے ۔
جاہل مؤذن غلط اذان دیں گے جس سے مؤذن خود گنہگار ہوگا اور بعض صورتوں میں اذان ہوتی بھی نہیں اور بعض صورتوں میں اذان کو لاٹانا واجب ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں اذان لوٹا مستحب ہوتا ہے ۔ اسی لئے فقہاء نے فرمایا کہ مؤذن عالم ہو
حضور سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
مؤذن عاقل بالغ صالح متقی عالم بالسنہ مواظب علی الاذان اوقات صلوۃ کا عارف بلند آواز اس کا خیال کہ کون جماعت میں داخل نہ ہوا (فتاوی مصطفویہ ص 199)
کس کو آذان کہنا منع ہے؟
(1)-- جاہل جس کا تلفظ صحیح نہ ہو ۔
(2)-- بدمذہب گمراہ ۔
(3)-- فاسق معلن ۔
(4)-- بچے ۔
(5)-- عورت ۔
(6)- یا غیر مسلم ۔
(7)- جس کا عقیدہ کفر تک پہنچا ہو ۔
(8)-- ناپاک مرد ۔
(9) بے وضو ۔
(10) نشہ والے
(11) مجنون
(12) خنشی
(13) جنب
وغیرہا
کیونکہ حدیث پاک میں منع فرمایا گیا چنانچہ جامع صغیر جلد دوم ص 194، پر بحوالہ بیہقی شریف بروایت حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منقول ہے، نھی ان یکون الامام مؤذنا یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مقرر شدہ امام کو مؤذن نہ بنایا جائے یعنی امام کے امامت بھی ہواور اذان دینا بھی ہو ؛ یہ شرعا ممنوع ہے(فتاوی نعیمیہ جلد چہارم ص 516)
لیکن فتوی یہ ہے کہ امام اذان بھی دے سکتے ہیں اور مؤذن امام بھی ہوسکتا ہے
ان میں سے بعض آذان لوٹانا واجب ہے اور بعض کا مستحب اور بعض ایسی غلطیاں ہیں کہ جس سے آذان ہوئی ہی نہیں ۔ حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
*اگر اَذان غلط کہی گئی، مثلاً لحن کے ساتھ تو اس کا جواب نہیں بلکہ ایسی اَذان سُنے بھی نہیں ۔
( بہار شریعت ، حصہ سوم، آذان کا بیان)
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ آذان بیرون مسجد میں دی جائے یعنی مسجد کے اندر مکروہ تحریمی ہے آج کل بہت جگہ پنچوقتی آذان یا جمعہ کے دن اذان ثانی مسجد کے اندر یا صحن مسجد یا دروزہ کے پاس نیچے دی جاتی ہے یہ مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ صغیرہ ہے اور بار بار کرنے سے گناہ کبیرہ جو بغیر توبہ کے معاف نہ ہو*.
*اے بھائی مسلمان مؤذن! آپ سے گزارش ہے کہ مؤذن کی جگہ پر بحال ہونے سے پہلے کلمات آذان کو صحیح ادائیگی کے لئے کسی عالم یا حافظ یا قاری سے مشق کرلیں تاکہ گنہگار نہ بنیں،
جو آذان دینے کا ثواب ہے اس سے وہ حاصل ہو اور دنیاوی سزا سے بھی بچ جائے گا
، اور آج کل اکثر مؤذن ان غلطیوں میں مبتلا ہیں اور بعض غلطیاں تو کفر بھی ہے لھذا پرہیز کریں۔
(ابو داؤد شریف، فتاوی شامی، فتاوی عالم گیری، بہار شریعت، فتاوی نعیمیہ)
سوال ۔جس مسجد میں غلط اذان دی گئی اور اس اذان پر نماز ادا کرلی گئی تو کیا وہ نماز ہوگئی ؟
الجواب ۔ نماز ہوگئی کہ اذان اور اقامت شرط نماز سے نہیں ہے لیکن ترک واجبات کا گناہ ہوگا اور ایسا جاہل مؤذن کے جس ناظم نے جو اراکین مسجد بحال کیا وہ بھی گنہگار ہوں گے اس لئے جو صحیح صحیح کلمات اذان نکالتے ہیں وہ نیک بھی ہو اوقات اذان کو جاننے والا ہو متقی پرہیزگار ہو ایسے کو بحال کریں جیسا کہ حضور سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ بریلی شریف کے فتوی سے واضح ہے جو اوپر میں نقل ہے کبھی بھی جاہل مؤذن کو بحال نہ کریں
تاجدار اہل سنت امام الفقہاء والمشائخ مخدوم العلماء حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اذان و اقامت اگر بالکل نہ ہوئی جب بھی نماز ہوجاتی ہے ان نمازوں کے اعادہ کا حکم نہیں (فتاوی مصطفویہ ص 199.200)
اس سے واضح ہوا کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں جاہل مؤذن کو بحال کیا جائے گا اور غالبا آج کل یہی ہورہا ہے ۔
جاہل مؤذن غلط اذان دیں گے جس سے مؤذن خود گنہگار ہوگا اور بعض صورتوں میں اذان ہوتی بھی نہیں اور بعض صورتوں میں اذان کو لاٹانا واجب ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں اذان لوٹا مستحب ہوتا ہے ۔ اسی لئے فقہاء نے فرمایا کہ مؤذن عالم ہو
حضور سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
مؤذن عاقل بالغ صالح متقی عالم بالسنہ مواظب علی الاذان اوقات صلوۃ کا عارف بلند آواز اس کا خیال کہ کون جماعت میں داخل نہ ہوا (فتاوی مصطفویہ ص 199)
کس کو آذان کہنا منع ہے؟
(1)-- جاہل جس کا تلفظ صحیح نہ ہو ۔
(2)-- بدمذہب گمراہ ۔
(3)-- فاسق معلن ۔
(4)-- بچے ۔
(5)-- عورت ۔
(6)- یا غیر مسلم ۔
(7)- جس کا عقیدہ کفر تک پہنچا ہو ۔
(8)-- ناپاک مرد ۔
(9) بے وضو ۔
(10) نشہ والے
(11) مجنون
(12) خنشی
(13) جنب
وغیرہا
کیونکہ حدیث پاک میں منع فرمایا گیا چنانچہ جامع صغیر جلد دوم ص 194، پر بحوالہ بیہقی شریف بروایت حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منقول ہے، نھی ان یکون الامام مؤذنا یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مقرر شدہ امام کو مؤذن نہ بنایا جائے یعنی امام کے امامت بھی ہواور اذان دینا بھی ہو ؛ یہ شرعا ممنوع ہے(فتاوی نعیمیہ جلد چہارم ص 516)
لیکن فتوی یہ ہے کہ امام اذان بھی دے سکتے ہیں اور مؤذن امام بھی ہوسکتا ہے
ان میں سے بعض آذان لوٹانا واجب ہے اور بعض کا مستحب اور بعض ایسی غلطیاں ہیں کہ جس سے آذان ہوئی ہی نہیں ۔ حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
*اگر اَذان غلط کہی گئی، مثلاً لحن کے ساتھ تو اس کا جواب نہیں بلکہ ایسی اَذان سُنے بھی نہیں ۔
( بہار شریعت ، حصہ سوم، آذان کا بیان)
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ آذان بیرون مسجد میں دی جائے یعنی مسجد کے اندر مکروہ تحریمی ہے آج کل بہت جگہ پنچوقتی آذان یا جمعہ کے دن اذان ثانی مسجد کے اندر یا صحن مسجد یا دروزہ کے پاس نیچے دی جاتی ہے یہ مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ صغیرہ ہے اور بار بار کرنے سے گناہ کبیرہ جو بغیر توبہ کے معاف نہ ہو*.
*اے بھائی مسلمان مؤذن! آپ سے گزارش ہے کہ مؤذن کی جگہ پر بحال ہونے سے پہلے کلمات آذان کو صحیح ادائیگی کے لئے کسی عالم یا حافظ یا قاری سے مشق کرلیں تاکہ گنہگار نہ بنیں،
جو آذان دینے کا ثواب ہے اس سے وہ حاصل ہو اور دنیاوی سزا سے بھی بچ جائے گا
، اور آج کل اکثر مؤذن ان غلطیوں میں مبتلا ہیں اور بعض غلطیاں تو کفر بھی ہے لھذا پرہیز کریں۔
(ابو داؤد شریف، فتاوی شامی، فتاوی عالم گیری، بہار شریعت، فتاوی نعیمیہ)
سوال ۔جس مسجد میں غلط اذان دی گئی اور اس اذان پر نماز ادا کرلی گئی تو کیا وہ نماز ہوگئی ؟
الجواب ۔ نماز ہوگئی کہ اذان اور اقامت شرط نماز سے نہیں ہے لیکن ترک واجبات کا گناہ ہوگا اور ایسا جاہل مؤذن کے جس ناظم نے جو اراکین مسجد بحال کیا وہ بھی گنہگار ہوں گے اس لئے جو صحیح صحیح کلمات اذان نکالتے ہیں وہ نیک بھی ہو اوقات اذان کو جاننے والا ہو متقی پرہیزگار ہو ایسے کو بحال کریں جیسا کہ حضور سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ بریلی شریف کے فتوی سے واضح ہے جو اوپر میں نقل ہے کبھی بھی جاہل مؤذن کو بحال نہ کریں
تاجدار اہل سنت امام الفقہاء والمشائخ مخدوم العلماء حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اذان و اقامت اگر بالکل نہ ہوئی جب بھی نماز ہوجاتی ہے ان نمازوں کے اعادہ کا حکم نہیں (فتاوی مصطفویہ ص 199.200)
اذان دینا اگرچہ سنت مؤکدہ قریب واجب ہے اس کا ترک کرنے والا گنہگار ہوگا لیکن نماز صحیح ہونے کے لئے اذان و اقامت سبب اور شرط نہیں ہے
جب جماعت مستحبہ کے ساتھ مسجد میں وقت پر ادا کیا جائیں تو ان کے لئے اذان سنت مؤکدہ ہے اور اس کا حکم مثل واجب ہے کہ اگر اذان نہ کہی تو وہاں سب لوگ گنہگار ہوں گے حضور صدر الشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فرض پنچ گانہ کہ انہیں میں جمعہ بھی ہے جب جماعت مستحبہ کے ساتھ مسجد میں ادا کئے جائیں تو ان کے اذان سنت مؤکدہ ہے ۔اور اس کا حکم مثل واجب ہے کہ اگر اذان نہ کہی تو وہاں کے سب لوگ گنہگار ہوں گے یہاں تک کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر کسی شہر کے سب لوگ اذان ترک کردیں تو میں ان سے قتال کروں گا اور اگر ایک شخص چھوڑ دے تو اسے ماروں گا اور قید کروں گا ۔
مسئلہ دوم : ۔مسجد میں بلا اذان واقامت جماعت پڑھنا مکروہ ہے۔
جب جماعت مستحبہ کے ساتھ مسجد میں وقت پر ادا کیا جائیں تو ان کے لئے اذان سنت مؤکدہ ہے اور اس کا حکم مثل واجب ہے کہ اگر اذان نہ کہی تو وہاں سب لوگ گنہگار ہوں گے حضور صدر الشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فرض پنچ گانہ کہ انہیں میں جمعہ بھی ہے جب جماعت مستحبہ کے ساتھ مسجد میں ادا کئے جائیں تو ان کے اذان سنت مؤکدہ ہے ۔اور اس کا حکم مثل واجب ہے کہ اگر اذان نہ کہی تو وہاں کے سب لوگ گنہگار ہوں گے یہاں تک کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر کسی شہر کے سب لوگ اذان ترک کردیں تو میں ان سے قتال کروں گا اور اگر ایک شخص چھوڑ دے تو اسے ماروں گا اور قید کروں گا ۔
مسئلہ دوم : ۔مسجد میں بلا اذان واقامت جماعت پڑھنا مکروہ ہے۔
(بہار شریعت جلد سوئم ص 25)
جو اذان کی وقت باتوں میں مشغول رہے اس پر معاذ اللہ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے ۔
راستہ پر چل رہا تھا کہ اذان کی آواز آئی تو اتنی دیر کھڑا ہوجائے اذاں سنے اور جواب دے بعض علماء کے نزدیک اذان کا جواب دینا واجب ہے اور فتوی یہ ہے کہ مستحب ہے ۔لیکن واجب سے بچنے کے لیے جواب دے اگر بوقت اذان جواب نہ دیا تو اگر زیادہ دیر نہ ہوئی جواب دے دے
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
جو اذان کی وقت باتوں میں مشغول رہے اس پر معاذ اللہ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے ۔
راستہ پر چل رہا تھا کہ اذان کی آواز آئی تو اتنی دیر کھڑا ہوجائے اذاں سنے اور جواب دے بعض علماء کے نزدیک اذان کا جواب دینا واجب ہے اور فتوی یہ ہے کہ مستحب ہے ۔لیکن واجب سے بچنے کے لیے جواب دے اگر بوقت اذان جواب نہ دیا تو اگر زیادہ دیر نہ ہوئی جواب دے دے
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں مفتی اعظم بہارحضرت علامہ
مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ شمسی 9، نومبر 2020
منجانب:-
(1) تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی و مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ سیتامڑھی آزاد چوک
زیر سرپرستی:-
حضور تاج السنہ ولی ابن ولی حضرت مولانا مفتی محمد توصیف رضا خاں بریلوی شریف
صدر رکن:-
مورخہ شمسی 9، نومبر 2020
منجانب:-
(1) تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی و مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ سیتامڑھی آزاد چوک
زیر سرپرستی:-
حضور تاج السنہ ولی ابن ولی حضرت مولانا مفتی محمد توصیف رضا خاں بریلوی شریف
صدر رکن:-
شیر مہاراشٹر مفسر قران قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاءالدین رضوی ثنائی میرا روڈ ممبئی
نظر ثانی:-
نظر ثانی:-
محمّد جنید عالم شارق مصباحی ساکن بیتاہی خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلي سیتا مڑھی