ایک غلط فہمی کا ازالہ سلسلہ وار قسط سوم
______________________
فتاویٰ شارح بخاری کے ایک دو فتاوے سے جو غلط فہمی ہوئی ہے اس کا ازالہ
______________________
فتاویٰ شارح بخاری کے ایک دو فتاوے سے جو غلط فہمی ہوئی ہے اس کا ازالہ
_______________
فتویٰ شارح ںخاری جلد دوم ص 389 کے ایک فتویٰ پر تبصرہ ثنائیہ
______________________
حضور شارح بخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
رہ گئے وہ لوگ ان چاروں کفریات میں سے جو کسی ایک پر مطلع نہیں انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں وہ صرف دیوبندی مولوی کی ظاہری اسلامی صورت ۔ان کی نماز ۔روزوں ۔کو دیکھ کر انہیں عالم مولانا جانتے ہیں ۔ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں ۔معمولات اہل سنت کو بدعت حرام جانتے ہیں ۔وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں ۔دوسرے لوگ بھی ان کو دیوبندی کہتے ہیں ۔جیسے قادیانی ہیں کہ حقیقت میں ختم نبوت کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہیں ۔مگر عرف عام میں پڑھے لکھے لوگ گورنمنٹ کے کاغذات میں ان کو مسلمان کہتے اور لکھتے ہیں ۔عوام کا عرف مدار حکم نہیں ۔حکم کا دارو مدار حقیقی معنی پر ہے ۔اس لئے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہو لوگ بھی اس کو دیوبندی کہتے ہوں ۔وہ ان چاروں علماے دیوبند کو اپنا مقتداء اور پیشوا بھی مانتے ہوں حتی کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تو وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے یا اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389)
ان تصریحات سے مندرجہ ذیل باتوں کو صحیح علم ہوا کہ
(1) فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389 کا یہی وہ فتوی ہے جس کو ایک دو مفتی صاحبان اپنے موقف کی تائید میں دلیل بناتے ہیں کہ ہر عام دیوبندی جن کو کفریات کا علم نہیں اس سے میل جول ۔شادی بیاہ ۔اس کے یہاں کھانا پینا جائز ہے کیونکہ وہ کافر ومرتد نہیں ہے اگرچہ معمولات اہل سنت کو بدعت کہتے ہیں
الجواب (1)
اسی عبارت کو سمجھنے میں ان مفتی صاحب کو غلط فہمی ہوگئی کیونکہ اس فتوی سے بھی ان کے موقف کی تائید نہیں ہو رہی ہے بلکہ ہم تمام سنی مسلمان صحیح العقیدہ کا بھی یہی موقف ہے کہ ایسے لوگ گستاخ رسول نہیں ہیں مگر معمولات اہل سنت وجماعت کو بدعت کہنے کی وجہ سے بدمذہب ضرور ہے جس کی دلیل آگے آرہی ہے خیال رہے کہ کسی مفتی کواپنا موقف ثابت کرنے کے لئے ایک نہیں کئی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے پھر اپنا موقف بیان کیا جاتا ہے ۔
(2) پھر دوسری بات کا یہ علم ہوا کہ ایسے لوگ معمولات اہل سنت کو بدعت و حرام جانتے ہیں وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں
الجواب : (2)
یہ بھی صحیح ہے لیکن ہمارے فقہا کرام فرماتے ہیں کہ جو معمولات اہل سنت کو ناجائز و بدعت کہے وہ خود بد مذہب ہے
*(1) جیسا کہ فتاوی تاج الشریعہ میں ہے*.
کہ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں:
*اور اگر زید نہ تو خود عقائد کفریہ رکھتا ہو نہ ایسوں کو مسلمان جانتا ہے جو عقائد کفریہ کے سبب علماے حرمین وغیر ہما سے حکم کفر پاچکے مگر معمولات اہل سنت مثل نیاز ۔فاتحہ و میلاد و قیام کو بدعت وناجائز جانتا ہے تو اگرچہ کافر قطعی نہیں مگر بدمذہب ضرور ہے*(فتاوی تاج الشریعہ جلد سوم ص 382)
*دیکھئے فتاوی شارح ںخاری جلد دوم ص 389 کے فتوی کا صحیح مطلب فتوی تاج الشریعہ جلد سوم ص:382 کا یہی فتوی ہے جو ابھی آپ نے پڑھا*
بدمذہب اس صورت میں جبکہ اس کو ان چاروں افراد کے کفریات کا علم قطعی یقینی نہ ہوں اگر ہے تو پھر حکم وہی ہوگا جو ان سب پر ہے
(2).*جیسا کہ فتاوی تاج الشریعہ میں ہے*
حضور تاج الشریعہ قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
*فی زماننا قیام اہل سنت و جماعت کی علامت ہے اور قیام نہ کرنا وہابیت کی پہچان ہے ۔ان لوگوں کے عقائد کی تحقیق کی جائے اگر وہابی ثابت ہوں تو ان سے پرہیز ضروری ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ اکابر دیوبند کے بارے میں پوچھیں اگر اکابر دیوبند کے عقائد کفریہ کو جان کر انہیں مسلمان جانے تو دیوبندی ہے (فتاوی تاج الشریعہ جلد سوم ص 230)
*ایک اشکال و جواب*۔
*اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ فتاوی تاج الشریعہ میں بدمذہب کا قول نقل ہے*
*لیکن یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے؛ فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389 پر جو فتوی دیا اس میں گمراہ بدمذہب کا قول نقل نہیں ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک نہ وہ کافر و مرتد ہے اور نہ گمراہ بدمذہب ہے*. ؟
*اس اشکال کا حل*
الجواب : فتاوی شارح بخاری کوئی ایک جلد میں نہیں ہے کہ یہی صحیح ہے بلکہ کئی جلدوں میں ہے
*سماعت فرمائیں*.
*فتاوی شارح بخاری میں بھی نقل ہے مگر جلد سوم ہی میں ہے*.
حضور نے شارح بخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
*ہر وہ وہابی جو میلاد ۔قیام۔نیاز۔فاتحہ۔وغیرہ کو حرام و بدعت بتائے وہ گمراہ ضرور ہے اور گم راہوں سے میل جول حرام۔وہ دیوبندی جو اپنے اساطین کے کفریات پر مطلع نہیں وہ اگرچہ کافر نہیں مگر گمراہ ضرور ہے۔اس لئے ان سے میل جول۔سلام کلام ۔لین دین حرام و گناہ ہے*. (فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 213)
*دیکھئے فتاوی شارح ںخاری جلد دوم ص 389 کے فتوی کا صحیح مطلب فتوی شارح ںخاری جلد سوم ص 213, کا یہی فتوی ہے جو ابھی آپ نے پڑھا*.
الحاصل :جو شخص ان چاروں کے کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں، انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں اور معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام جانتے ہیں وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں ہے مگر معمولات اہل سنت وجماعت کو بدعت وحرام کہنے کی وجہ سے گمراہ بدمذہب ہے یہی صحیح تحقیق ہے جیسا کہ فتاوی تاج الشریعہ اور فتاوی شارح ںخاری سے واضح ہوا خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی سوال کے جواب میں تمام چیزوں پر گفتگو کی جائے اس لئے جو مسئلہ جس باب کا ہو اس باب کو کئی کتابوں سے ملایا جائے جیسے فتاوی شارح ںخاری جلد دوم ص 389 میں بدمذہب کا ذکر نہیں مگر فتاوی شارح ںخاری جلد سوم میں گمراہ بدمذہب کا ذکر منقول ہے
(3) ان تصریحات سے تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگرچہ ان کفریات کا علم نہیں اور معمولات اہل سنت کو بدعت و حرام کہتے ہیں اور اپنے آپ کو دیوبندی بھی کہتے ہیں پھر بھی وہ دیوبندی نہیں ہے مگر گمراہ و بدمذہب فاسق ضرور ہے اور اہل سنت وجماعت سے۔ خارج ہے کیونکہ
ضروریات اہل سنت کے منکر کو گمراہ کہتے ہیں اور ضروریات دین میں سے کسی کو منکر کو کافر ۔گم راہ کے لئے کافر ہونا ضروری نہیں ۔جیسے خوارج کہ یہ گم راہ ضرور ہیں ۔اہل سنت سے خارج ہیں مگر ان پر کفر کا فتویٰ نہیں ۔(فتاوی شارح جلد دوم 482)
*اقراری دیوبندی وہابی*
الجواب (3) اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اقرار کرنے کی وجہ سے اقراری دیوبندی ہوگیا ہے
*جیسا کہ فتاوی شارح بخاری میں ہے*.
حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کہ یہ کہہ چکا کہ میں دیوبندی ہوں تو وہ دیوبندی ہے اقرار سے بڑھ کر کوئی ثبوت نہیں اس کا حکم وہی ہے جو دیوبندی کا ہے (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص،371)
پھر فرماتے ہیں کہ:
جو شخص جھگڑے کی حالت میں یا مذاق کے طور پر یہ کہے کہ میں دیوبندی ہوں یقینا وہ دیوبندی کافر مانا جائے گا
عالم گیری میں ہے:
*مسلم قال آنا ملحد یکفر*. جو یہ کہے کہ میں کافر ہوں وہ کافر ہوگیا
جو زبان سے کوئی شخص کلمہ کفر بکے تو اس کے اوپر کفر کا حکم لگایا جائے گا
ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے ۔امام ابن حجر مکی اعلام میں فرماتے ہیں:
*عملنا بما دل علیہ لفظہ صریحا فقلنا لہ انت حیث اطلقت ھذا اللفظ ولم تاؤل کنت کافرا و ان کنت لم تقصد بذلک آنا نحکم بالکفر باعتبار الظاہر والا رادۃ وعدمھا لاشغل لنا بھا* یعنی ہم اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جس پر لفظ صریحا دلالت کرتا ہے اور ہم کہتے ہیں جب تو نے اس لفظ کا اطلاق کیا اور تاویل نہیں کی تو کافر ہوگیا ۔اگرچہ تیرا یہ قصد نہ ہو اس لئے کہ ہم ظاہر کے اعتبار سے کفر کا حکم کرتے ہیں ارادہ اور عدم ارادہ سے ہمیں کوئی کام نہیں ۔
اور یہ کہنا کہ میں نے ہنسی مذاق میں کہہ دیا تھا یا غصہ میں کہہ دیا تھا یہ تاویل نہیں اور نہ اس کا اعتبار اگر کوئی شخص ہنسی مذاق میں بھی کلمہ کفر بکے گا تو کافر ہو جائے گا (فتاوی شارح ںخاری جلد دوم ص 376)
پھر فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کہا کہ میں دیوبند کا ماننے والا ہوں وہ اگر دیوبندی بھی نہیں تھا تو اس کہنے کی وجہ سے دیوبند ہوگیا (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 378)
اسی طرح کسی مسلمان کو وہابی کہا تو کیا حکم ہے ؟
الجواب : اگر سب وشتم اور زجر کے طور پر کہا ہے تو گناہ ہے اور اگر کافر اعتقاد کرکے کہا تو خود کافر (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 377)
*الحاصل*
(1) حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389 میں جو یہ فرمایا کہ وہ لوگ ان چاروں یعنی قاسم نانوتوی۔رشید احمد گنگوہی۔خلیل احمد انبیٹھوی اور اشرف علی تھانوی کے کفریات ؛جن پر علماء حرمین اور ہندو سندھ کے علماء نے کفر کا فتویٰ دیا اور فرمایا کہ
*الجمع المسلمون علی ان شاتمہ کافر من شک فی کفرہ و عذابہ کفر* یعنی مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جو (شک) نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرے وہ کافر ہے۔ایسا کہ جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے (ردالمحتار شرح درمختار ۔کتاب الجہاد ۔باب المرتد ص 370)
ان کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں اور معمولات اہل سنت کو بدعت و حرام جانتے ہیں۔ وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور نہ اس پر حکم ہے مگر معمولات اہل سنت کو ناجائز و حرام اور بدعت کہنے کی وجہ سے گمراہ بدمذہب ہے اور اہل سنت وجماعت سے خارج ہے
(2) اگر کوئی غصہ یا مذاق یا ویسے ہی اپنے آپ کو دیوبندی کہتے تو وہ اقراری دیوبندی ہے جیسا کہ فتاوی شارح بخاری اور فتاوی تاج الشریعہ سے واضح ہوا مگر حضور شارح بخاری نے جو فرمایا کہ جو لوگ خود کو دیوبندی کہتے ہیں مگر علماے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں تو وہ دیوبندی نہیں ہے یہ شرط نہ فتاوی تاج الشریعہ میں ہے اور نہ فتاوی شارح بخاری میں ہے صرف فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389 پر ہے تو اس کو حل کرنے کے لئے یہ طریقہ استعمال کیا جائے گا اس کے بعد حکم لگایا جائے گا حالانکہ آج کل عقائد یا معمولات اہل سنت سب کو معلوم ہے ۔
لہذا اس کے سامنے اگر ان چار وں افراد کے کفریات؛ جو قسط دوم میں نقل ہے؛ بیان کیا جائے یا کتاب دیکھایا جائےاور وہ نہ مانے تو وہ اقراری دیوبندی کہلائے گا۔جو اصل پر حکم ہے وہ اس اقراری پر ہے
(3) جس بستی کے لوگ فاتحہ چہلم کرتے ہوں میلاد پاک بھی کرتے ہوں لیکن اپنے آپ کو دیوبندی کہلاتے ہوں تو ایسا لوگ اپنے اقرار سے دیوبند بددین ہیں (فتاوی تاج الشریعہ جلد دوم ص 314)
(4) خیال رہے کہ
قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ عذاب اس عالم پر ہوگا جسے اس کے علم نے نفع نہ دیا ہو حالانکہ وہ شخص مقتداء اور پیشوا بن کر رہا تو لامحالہ اس کی بدعملی سے عوام بھی سند پکڑیں گی اور جتنے لوگ اس کی پیروی کریں گے ان سب کا وبال اس مقتداء کے سر ہوگا اور ان پیروکارو کے بھی عذاب میں کمی نہ ہوگی۔ یعنی دونوں کو برابر عذاب دیا جائے گا ۔
(فتاوی تاج الشریعہ جلد دوم ص 338)
اس لئے علماء پر فرض ہے کہ صحیح مسائل لوگوں کو بتلائیں تاکہ وہ گمراہ ہونے سے بچ جائیں آپ بھی گمراہ نہ ہو دوسرے کو بھی نہ ہونے دیں اپنی نفسانیت وطںیعث اور انانیت کی وجہ سے غلط مسئلہ بیان نہ کریں اسی میں دونوں جہاں میں نجات ہے
حضرت تاج الشریعہ قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ علماء کا اس صورت میں مواخذہ شدید ہے کہ بدمذہبوں سے ان کا ملنا ہزاروں عوام کے ارتداد اور گمراہی کا موجب ہوگا اور جو بدمذہبوں کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اس کے متعلق فتاوی تاج الشریعہ میں ہے کہ حرام بدکام بد انجام ہے اور ایسے لوگ قائد اہل سنت کہلانے کے مستحق نہیں۔
فتویٰ شارح ںخاری جلد دوم ص 389 کے ایک فتویٰ پر تبصرہ ثنائیہ
______________________
حضور شارح بخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
رہ گئے وہ لوگ ان چاروں کفریات میں سے جو کسی ایک پر مطلع نہیں انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں وہ صرف دیوبندی مولوی کی ظاہری اسلامی صورت ۔ان کی نماز ۔روزوں ۔کو دیکھ کر انہیں عالم مولانا جانتے ہیں ۔ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں ۔معمولات اہل سنت کو بدعت حرام جانتے ہیں ۔وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں ۔دوسرے لوگ بھی ان کو دیوبندی کہتے ہیں ۔جیسے قادیانی ہیں کہ حقیقت میں ختم نبوت کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہیں ۔مگر عرف عام میں پڑھے لکھے لوگ گورنمنٹ کے کاغذات میں ان کو مسلمان کہتے اور لکھتے ہیں ۔عوام کا عرف مدار حکم نہیں ۔حکم کا دارو مدار حقیقی معنی پر ہے ۔اس لئے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہو لوگ بھی اس کو دیوبندی کہتے ہوں ۔وہ ان چاروں علماے دیوبند کو اپنا مقتداء اور پیشوا بھی مانتے ہوں حتی کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تو وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے یا اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389)
ان تصریحات سے مندرجہ ذیل باتوں کو صحیح علم ہوا کہ
(1) فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389 کا یہی وہ فتوی ہے جس کو ایک دو مفتی صاحبان اپنے موقف کی تائید میں دلیل بناتے ہیں کہ ہر عام دیوبندی جن کو کفریات کا علم نہیں اس سے میل جول ۔شادی بیاہ ۔اس کے یہاں کھانا پینا جائز ہے کیونکہ وہ کافر ومرتد نہیں ہے اگرچہ معمولات اہل سنت کو بدعت کہتے ہیں
الجواب (1)
اسی عبارت کو سمجھنے میں ان مفتی صاحب کو غلط فہمی ہوگئی کیونکہ اس فتوی سے بھی ان کے موقف کی تائید نہیں ہو رہی ہے بلکہ ہم تمام سنی مسلمان صحیح العقیدہ کا بھی یہی موقف ہے کہ ایسے لوگ گستاخ رسول نہیں ہیں مگر معمولات اہل سنت وجماعت کو بدعت کہنے کی وجہ سے بدمذہب ضرور ہے جس کی دلیل آگے آرہی ہے خیال رہے کہ کسی مفتی کواپنا موقف ثابت کرنے کے لئے ایک نہیں کئی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے پھر اپنا موقف بیان کیا جاتا ہے ۔
(2) پھر دوسری بات کا یہ علم ہوا کہ ایسے لوگ معمولات اہل سنت کو بدعت و حرام جانتے ہیں وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں
الجواب : (2)
یہ بھی صحیح ہے لیکن ہمارے فقہا کرام فرماتے ہیں کہ جو معمولات اہل سنت کو ناجائز و بدعت کہے وہ خود بد مذہب ہے
*(1) جیسا کہ فتاوی تاج الشریعہ میں ہے*.
کہ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں:
*اور اگر زید نہ تو خود عقائد کفریہ رکھتا ہو نہ ایسوں کو مسلمان جانتا ہے جو عقائد کفریہ کے سبب علماے حرمین وغیر ہما سے حکم کفر پاچکے مگر معمولات اہل سنت مثل نیاز ۔فاتحہ و میلاد و قیام کو بدعت وناجائز جانتا ہے تو اگرچہ کافر قطعی نہیں مگر بدمذہب ضرور ہے*(فتاوی تاج الشریعہ جلد سوم ص 382)
*دیکھئے فتاوی شارح ںخاری جلد دوم ص 389 کے فتوی کا صحیح مطلب فتوی تاج الشریعہ جلد سوم ص:382 کا یہی فتوی ہے جو ابھی آپ نے پڑھا*
بدمذہب اس صورت میں جبکہ اس کو ان چاروں افراد کے کفریات کا علم قطعی یقینی نہ ہوں اگر ہے تو پھر حکم وہی ہوگا جو ان سب پر ہے
(2).*جیسا کہ فتاوی تاج الشریعہ میں ہے*
حضور تاج الشریعہ قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
*فی زماننا قیام اہل سنت و جماعت کی علامت ہے اور قیام نہ کرنا وہابیت کی پہچان ہے ۔ان لوگوں کے عقائد کی تحقیق کی جائے اگر وہابی ثابت ہوں تو ان سے پرہیز ضروری ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ اکابر دیوبند کے بارے میں پوچھیں اگر اکابر دیوبند کے عقائد کفریہ کو جان کر انہیں مسلمان جانے تو دیوبندی ہے (فتاوی تاج الشریعہ جلد سوم ص 230)
*ایک اشکال و جواب*۔
*اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ فتاوی تاج الشریعہ میں بدمذہب کا قول نقل ہے*
*لیکن یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے؛ فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389 پر جو فتوی دیا اس میں گمراہ بدمذہب کا قول نقل نہیں ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک نہ وہ کافر و مرتد ہے اور نہ گمراہ بدمذہب ہے*. ؟
*اس اشکال کا حل*
الجواب : فتاوی شارح بخاری کوئی ایک جلد میں نہیں ہے کہ یہی صحیح ہے بلکہ کئی جلدوں میں ہے
*سماعت فرمائیں*.
*فتاوی شارح بخاری میں بھی نقل ہے مگر جلد سوم ہی میں ہے*.
حضور نے شارح بخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
*ہر وہ وہابی جو میلاد ۔قیام۔نیاز۔فاتحہ۔وغیرہ کو حرام و بدعت بتائے وہ گمراہ ضرور ہے اور گم راہوں سے میل جول حرام۔وہ دیوبندی جو اپنے اساطین کے کفریات پر مطلع نہیں وہ اگرچہ کافر نہیں مگر گمراہ ضرور ہے۔اس لئے ان سے میل جول۔سلام کلام ۔لین دین حرام و گناہ ہے*. (فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 213)
*دیکھئے فتاوی شارح ںخاری جلد دوم ص 389 کے فتوی کا صحیح مطلب فتوی شارح ںخاری جلد سوم ص 213, کا یہی فتوی ہے جو ابھی آپ نے پڑھا*.
الحاصل :جو شخص ان چاروں کے کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں، انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں اور معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام جانتے ہیں وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں ہے مگر معمولات اہل سنت وجماعت کو بدعت وحرام کہنے کی وجہ سے گمراہ بدمذہب ہے یہی صحیح تحقیق ہے جیسا کہ فتاوی تاج الشریعہ اور فتاوی شارح ںخاری سے واضح ہوا خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی سوال کے جواب میں تمام چیزوں پر گفتگو کی جائے اس لئے جو مسئلہ جس باب کا ہو اس باب کو کئی کتابوں سے ملایا جائے جیسے فتاوی شارح ںخاری جلد دوم ص 389 میں بدمذہب کا ذکر نہیں مگر فتاوی شارح ںخاری جلد سوم میں گمراہ بدمذہب کا ذکر منقول ہے
(3) ان تصریحات سے تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگرچہ ان کفریات کا علم نہیں اور معمولات اہل سنت کو بدعت و حرام کہتے ہیں اور اپنے آپ کو دیوبندی بھی کہتے ہیں پھر بھی وہ دیوبندی نہیں ہے مگر گمراہ و بدمذہب فاسق ضرور ہے اور اہل سنت وجماعت سے۔ خارج ہے کیونکہ
ضروریات اہل سنت کے منکر کو گمراہ کہتے ہیں اور ضروریات دین میں سے کسی کو منکر کو کافر ۔گم راہ کے لئے کافر ہونا ضروری نہیں ۔جیسے خوارج کہ یہ گم راہ ضرور ہیں ۔اہل سنت سے خارج ہیں مگر ان پر کفر کا فتویٰ نہیں ۔(فتاوی شارح جلد دوم 482)
*اقراری دیوبندی وہابی*
الجواب (3) اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اقرار کرنے کی وجہ سے اقراری دیوبندی ہوگیا ہے
*جیسا کہ فتاوی شارح بخاری میں ہے*.
حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کہ یہ کہہ چکا کہ میں دیوبندی ہوں تو وہ دیوبندی ہے اقرار سے بڑھ کر کوئی ثبوت نہیں اس کا حکم وہی ہے جو دیوبندی کا ہے (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص،371)
پھر فرماتے ہیں کہ:
جو شخص جھگڑے کی حالت میں یا مذاق کے طور پر یہ کہے کہ میں دیوبندی ہوں یقینا وہ دیوبندی کافر مانا جائے گا
عالم گیری میں ہے:
*مسلم قال آنا ملحد یکفر*. جو یہ کہے کہ میں کافر ہوں وہ کافر ہوگیا
جو زبان سے کوئی شخص کلمہ کفر بکے تو اس کے اوپر کفر کا حکم لگایا جائے گا
ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے ۔امام ابن حجر مکی اعلام میں فرماتے ہیں:
*عملنا بما دل علیہ لفظہ صریحا فقلنا لہ انت حیث اطلقت ھذا اللفظ ولم تاؤل کنت کافرا و ان کنت لم تقصد بذلک آنا نحکم بالکفر باعتبار الظاہر والا رادۃ وعدمھا لاشغل لنا بھا* یعنی ہم اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جس پر لفظ صریحا دلالت کرتا ہے اور ہم کہتے ہیں جب تو نے اس لفظ کا اطلاق کیا اور تاویل نہیں کی تو کافر ہوگیا ۔اگرچہ تیرا یہ قصد نہ ہو اس لئے کہ ہم ظاہر کے اعتبار سے کفر کا حکم کرتے ہیں ارادہ اور عدم ارادہ سے ہمیں کوئی کام نہیں ۔
اور یہ کہنا کہ میں نے ہنسی مذاق میں کہہ دیا تھا یا غصہ میں کہہ دیا تھا یہ تاویل نہیں اور نہ اس کا اعتبار اگر کوئی شخص ہنسی مذاق میں بھی کلمہ کفر بکے گا تو کافر ہو جائے گا (فتاوی شارح ںخاری جلد دوم ص 376)
پھر فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کہا کہ میں دیوبند کا ماننے والا ہوں وہ اگر دیوبندی بھی نہیں تھا تو اس کہنے کی وجہ سے دیوبند ہوگیا (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 378)
اسی طرح کسی مسلمان کو وہابی کہا تو کیا حکم ہے ؟
الجواب : اگر سب وشتم اور زجر کے طور پر کہا ہے تو گناہ ہے اور اگر کافر اعتقاد کرکے کہا تو خود کافر (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 377)
*الحاصل*
(1) حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389 میں جو یہ فرمایا کہ وہ لوگ ان چاروں یعنی قاسم نانوتوی۔رشید احمد گنگوہی۔خلیل احمد انبیٹھوی اور اشرف علی تھانوی کے کفریات ؛جن پر علماء حرمین اور ہندو سندھ کے علماء نے کفر کا فتویٰ دیا اور فرمایا کہ
*الجمع المسلمون علی ان شاتمہ کافر من شک فی کفرہ و عذابہ کفر* یعنی مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جو (شک) نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرے وہ کافر ہے۔ایسا کہ جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے (ردالمحتار شرح درمختار ۔کتاب الجہاد ۔باب المرتد ص 370)
ان کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں اور معمولات اہل سنت کو بدعت و حرام جانتے ہیں۔ وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور نہ اس پر حکم ہے مگر معمولات اہل سنت کو ناجائز و حرام اور بدعت کہنے کی وجہ سے گمراہ بدمذہب ہے اور اہل سنت وجماعت سے خارج ہے
(2) اگر کوئی غصہ یا مذاق یا ویسے ہی اپنے آپ کو دیوبندی کہتے تو وہ اقراری دیوبندی ہے جیسا کہ فتاوی شارح بخاری اور فتاوی تاج الشریعہ سے واضح ہوا مگر حضور شارح بخاری نے جو فرمایا کہ جو لوگ خود کو دیوبندی کہتے ہیں مگر علماے دیوبند کی کفری عبارتوں سے واقف نہیں تو وہ دیوبندی نہیں ہے یہ شرط نہ فتاوی تاج الشریعہ میں ہے اور نہ فتاوی شارح بخاری میں ہے صرف فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 389 پر ہے تو اس کو حل کرنے کے لئے یہ طریقہ استعمال کیا جائے گا اس کے بعد حکم لگایا جائے گا حالانکہ آج کل عقائد یا معمولات اہل سنت سب کو معلوم ہے ۔
لہذا اس کے سامنے اگر ان چار وں افراد کے کفریات؛ جو قسط دوم میں نقل ہے؛ بیان کیا جائے یا کتاب دیکھایا جائےاور وہ نہ مانے تو وہ اقراری دیوبندی کہلائے گا۔جو اصل پر حکم ہے وہ اس اقراری پر ہے
(3) جس بستی کے لوگ فاتحہ چہلم کرتے ہوں میلاد پاک بھی کرتے ہوں لیکن اپنے آپ کو دیوبندی کہلاتے ہوں تو ایسا لوگ اپنے اقرار سے دیوبند بددین ہیں (فتاوی تاج الشریعہ جلد دوم ص 314)
(4) خیال رہے کہ
قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ عذاب اس عالم پر ہوگا جسے اس کے علم نے نفع نہ دیا ہو حالانکہ وہ شخص مقتداء اور پیشوا بن کر رہا تو لامحالہ اس کی بدعملی سے عوام بھی سند پکڑیں گی اور جتنے لوگ اس کی پیروی کریں گے ان سب کا وبال اس مقتداء کے سر ہوگا اور ان پیروکارو کے بھی عذاب میں کمی نہ ہوگی۔ یعنی دونوں کو برابر عذاب دیا جائے گا ۔
(فتاوی تاج الشریعہ جلد دوم ص 338)
اس لئے علماء پر فرض ہے کہ صحیح مسائل لوگوں کو بتلائیں تاکہ وہ گمراہ ہونے سے بچ جائیں آپ بھی گمراہ نہ ہو دوسرے کو بھی نہ ہونے دیں اپنی نفسانیت وطںیعث اور انانیت کی وجہ سے غلط مسئلہ بیان نہ کریں اسی میں دونوں جہاں میں نجات ہے
حضرت تاج الشریعہ قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ علماء کا اس صورت میں مواخذہ شدید ہے کہ بدمذہبوں سے ان کا ملنا ہزاروں عوام کے ارتداد اور گمراہی کا موجب ہوگا اور جو بدمذہبوں کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اس کے متعلق فتاوی تاج الشریعہ میں ہے کہ حرام بدکام بد انجام ہے اور ایسے لوگ قائد اہل سنت کہلانے کے مستحق نہیں۔
(فتاوی تاج الشریعہ جلد دوم ص 231)
اس لئے علماء کو اس معاملہ میں سخت رہنا چاہیے کیونکہ وہ قائد ملت ہیں
واللہ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد ثناء اللہ خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی
مورخہ 21 ربیع الثانی 1447
14 اکتوبر 2025
سلسلہ قسط چہارم میں گمراہ بدمذہب کے احکام ملاحظہ فرمائیں
اس لئے علماء کو اس معاملہ میں سخت رہنا چاہیے کیونکہ وہ قائد ملت ہیں
واللہ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد ثناء اللہ خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی
مورخہ 21 ربیع الثانی 1447
14 اکتوبر 2025
سلسلہ قسط چہارم میں گمراہ بدمذہب کے احکام ملاحظہ فرمائیں