اۓ زہرا کے بابا ، سنیں التجا ، مدینہ بلا لیجئے!
شعر و شاعر کا شرعی حکم
شعر و شاعر کا شرعی حکم
══════ ༺❀༻ ══════
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ :
ایک نعت ہے جس کا مشہور مصرعہ ہے “ اے زہرا کے بابا سنیں التجا ، مدینہ بلا لیجئے” تو اہلِ سنت کے ایک مشہور مفتی و عالمِ دین حضرت مفتی محمد اختر حسین علیمی ہیں جن کے نام سے ایک تحریر سوشل میڈیا پر پڑھی جارہی ہے جس میں مذکورہ بالا مصرعہ پڑھنے کو حرام بتایا گیا ہے نیز اسے حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شانِ مبارک میں بے ادبی بتایا گیا ہے جبکہ یہ مصرعہ مشہور و معروف شاعرِ اہل سنت جناب محمد علی فیضی کی نعت کا ہے ۔
کیا اس میں کوئی شرعی قباحت ہے؟
کیا آیتِ کریمہ ﴿لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا﴾ کی رو سے اسے ناجائز کہا جائے گا ۔؟
یا شرعاً یہ مصرعہ پڑھنا جائز ہے ۔؟
آپ براہ مہربانی جو حکمِ شرع ہو اسے قرآن و حدیث اور اقوالِ فقہا کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں! بینوا توجروا ۔
فقط:
طالبِ دعا: محمد شاھد رضا ثنائی
منیجر ، افکارِ اہلِ سنت اکیڈمی
پوجانگر میراروڈ ممبئی مہاراشٹرا
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ :
ایک نعت ہے جس کا مشہور مصرعہ ہے “ اے زہرا کے بابا سنیں التجا ، مدینہ بلا لیجئے” تو اہلِ سنت کے ایک مشہور مفتی و عالمِ دین حضرت مفتی محمد اختر حسین علیمی ہیں جن کے نام سے ایک تحریر سوشل میڈیا پر پڑھی جارہی ہے جس میں مذکورہ بالا مصرعہ پڑھنے کو حرام بتایا گیا ہے نیز اسے حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شانِ مبارک میں بے ادبی بتایا گیا ہے جبکہ یہ مصرعہ مشہور و معروف شاعرِ اہل سنت جناب محمد علی فیضی کی نعت کا ہے ۔
کیا اس میں کوئی شرعی قباحت ہے؟
کیا آیتِ کریمہ ﴿لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا﴾ کی رو سے اسے ناجائز کہا جائے گا ۔؟
یا شرعاً یہ مصرعہ پڑھنا جائز ہے ۔؟
آپ براہ مہربانی جو حکمِ شرع ہو اسے قرآن و حدیث اور اقوالِ فقہا کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں! بینوا توجروا ۔
فقط:
طالبِ دعا: محمد شاھد رضا ثنائی
منیجر ، افکارِ اہلِ سنت اکیڈمی
پوجانگر میراروڈ ممبئی مہاراشٹرا
══════ ༺❀༻ ══════
الجواب وباللہ التوفیق
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَیْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا﴾
(النور: 63)
ائمہ تفسیر نے اس آیت کا جو معنی بیان کیا ہے وہ بہت ہی نفیس اور معنی خیز ہے ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : “ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو عام لوگوں کی طرح بے ادبانہ انداز سے نہ پکارو ۔”
(الجامع لأحکام القرآن، القرطبی 12/316)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ “اس آیت میں بے ادبی سے منع کیا گیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا منع نہیں بلکہ بے ادبی کا انداز منع ہے ۔”
(تفسیر ابن کثیر 3/318)
علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ “ یہاں نہی اس بات سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خطاب میں ایسا انداز ہو جیسا عام آدمیوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔”
(روح المعانی 18/145)
پس ثابت ہوا کہ آیت کا مقصد ‘ نداءِ رسول’ کو روکنا نہیں ، بلکہ بے ادبی سے روکنا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو نداء دینا شرعاً جائز و مشروع ہے ۔
صحابۂ کرام کا نداء کرنا یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نداء ثابت ہے ۔ وہ ایک موقع سے یوں ندا کرتے ہیں ۔
“یا رسول اللہ ادعُ اللہَ لي”
(سنن الترمذی 3578)
اصحابِ نبی جنگِ احد میں یوں نداء کرتے ۔ “ يا محمداه ! ”
(صحیح البخاری ، کتاب الجهاد)
حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے نداء ثابت ہے اور وہ تکلیف کے وقت حضورِاکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو یوں پکارتے۔ “ وا محمداہ ! ”
(سیر اعلام النبلاء 1/358)
جب صحابہ نے خود نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو نداء کی تو اصولاً نداءِ رسول جائز ہے ۔
ہمارے فقہا فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا جائز و درست ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ “ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو قبرِ مبارک پر یا دور سے نداء دینا جائز ہے بشرطِ ادب و تعظیم ملحوظ ہو ۔”
(الأذکار ، باب زیارۃ القبر النبوی)
امام تقی الدین سبکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ “ توسل اور نداء للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بالاتفاق جائز ہیں ، جب تک بے ادبی شامل نہ ہو ۔”
(شفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام ص 158)
امام ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں ۔ “ جو نداء تعظیم کے ساتھ ہو وہ مشروع و جائز ہے ۔”
( الفتاوی الکبری الفقہیہ )
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضلِ بریلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ “ نداءِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جائز و مستحب ہے ، اور آیتِ کریمہ میں منع ، بے ادبی کا ہے ، نداء کا نہیں ۔”
(فتاویٰ رضویہ 21/27)
“ اے زہرا کے بابا ! ” یہ ‘وصفی لقب’ ہے ، ذاتی نام نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی نسبت سے “ زہرا کے بابا ” کہنا اس سے شاعر کا مراد بہت ظاہر ہے اور یہ بات شاعر کے دوسرے اشعار سے سمجھ میں آجاتا ہے ۔ جیسا کہ سوشل میڈیا پر یہ نعت موجود ہے ۔ یقینا اس مصرعہ سے تعظیم ، محبت اور تکریم کا اظہار ہے ۔
ائمہ اسلام نے لقب و وصف سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پکارنے کو افضل کہا ہے
( فتاویٰ ہندیہ 5/323، فتاویٰ رضویہ 21/30 )
“ سنیں التجا ” تو احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم امت کے حالات جانتے ہیں ۔ “ تعرض علیّ أعمال أمتی” یعنی “میری امت کے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں ۔” (مسند احمد 10542)
“ حیاتی خیر لکم ومماتی خیر لکم ”(معجم کبیر، طبرانی 7/266)
عقیدہ اہلِ سنت: نداء و عرضی دعا بالاذن من اللہ جائز ہے ۔،
اور یہ عقیدہ نہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم “ مستقل بالذات فاعل ” ہیں۔
لہٰذا “ سنیں التجا ، مدینہ بلا لیجئے ” اس مصرعہ سے درحقیقت درخواستِ شفاعت سمجھمیں آرہی ہے ، نہ کہ نداۓ عام جیسا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں ۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے ثابت ہوا کہ: مصرعہ ادب و تعظیم پر مشتمل ہے ۔ ، اس میں کوئی بے ادبی ، گستاخی یا شرکیہ مفہوم نہیں ۔ یہ آیتِ “ لا تجعلوا دعاء الرسول ” کے خلاف نہیں ۔
نداءِ رسول فقہا کے نزدیک جائز ہے ۔ ، یہ وصفی خطاب ۔ اے زہرا کے بابا ! شرعاً درست بلکہ بہتر ہے ۔
اس میں نہ خلافِ ادب ہے ، نہ آیتِ کریمہ کے خلاف ، نہ کوئی فاسد عقیدہ کا لزوم ہے ۔ بلکہ ادب ، محبت اور نسبتِ مقدسہ کا اظہار ہے ۔ لہٰذا اسے پڑھنا ، سننا اور نعت میں استعمال کرنا جائز ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی عفی عنہ
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
17/ جمادى الآخر 1447 ھ
09/ دسمبر 2025 ء
الجواب وباللہ التوفیق
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَیْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا﴾
(النور: 63)
ائمہ تفسیر نے اس آیت کا جو معنی بیان کیا ہے وہ بہت ہی نفیس اور معنی خیز ہے ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : “ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو عام لوگوں کی طرح بے ادبانہ انداز سے نہ پکارو ۔”
(الجامع لأحکام القرآن، القرطبی 12/316)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ “اس آیت میں بے ادبی سے منع کیا گیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا منع نہیں بلکہ بے ادبی کا انداز منع ہے ۔”
(تفسیر ابن کثیر 3/318)
علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ “ یہاں نہی اس بات سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خطاب میں ایسا انداز ہو جیسا عام آدمیوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔”
(روح المعانی 18/145)
پس ثابت ہوا کہ آیت کا مقصد ‘ نداءِ رسول’ کو روکنا نہیں ، بلکہ بے ادبی سے روکنا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو نداء دینا شرعاً جائز و مشروع ہے ۔
صحابۂ کرام کا نداء کرنا یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نداء ثابت ہے ۔ وہ ایک موقع سے یوں ندا کرتے ہیں ۔
“یا رسول اللہ ادعُ اللہَ لي”
(سنن الترمذی 3578)
اصحابِ نبی جنگِ احد میں یوں نداء کرتے ۔ “ يا محمداه ! ”
(صحیح البخاری ، کتاب الجهاد)
حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے نداء ثابت ہے اور وہ تکلیف کے وقت حضورِاکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو یوں پکارتے۔ “ وا محمداہ ! ”
(سیر اعلام النبلاء 1/358)
جب صحابہ نے خود نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو نداء کی تو اصولاً نداءِ رسول جائز ہے ۔
ہمارے فقہا فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا جائز و درست ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ “ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو قبرِ مبارک پر یا دور سے نداء دینا جائز ہے بشرطِ ادب و تعظیم ملحوظ ہو ۔”
(الأذکار ، باب زیارۃ القبر النبوی)
امام تقی الدین سبکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ “ توسل اور نداء للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بالاتفاق جائز ہیں ، جب تک بے ادبی شامل نہ ہو ۔”
(شفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام ص 158)
امام ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں ۔ “ جو نداء تعظیم کے ساتھ ہو وہ مشروع و جائز ہے ۔”
( الفتاوی الکبری الفقہیہ )
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضلِ بریلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ “ نداءِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جائز و مستحب ہے ، اور آیتِ کریمہ میں منع ، بے ادبی کا ہے ، نداء کا نہیں ۔”
(فتاویٰ رضویہ 21/27)
“ اے زہرا کے بابا ! ” یہ ‘وصفی لقب’ ہے ، ذاتی نام نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی نسبت سے “ زہرا کے بابا ” کہنا اس سے شاعر کا مراد بہت ظاہر ہے اور یہ بات شاعر کے دوسرے اشعار سے سمجھ میں آجاتا ہے ۔ جیسا کہ سوشل میڈیا پر یہ نعت موجود ہے ۔ یقینا اس مصرعہ سے تعظیم ، محبت اور تکریم کا اظہار ہے ۔
ائمہ اسلام نے لقب و وصف سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پکارنے کو افضل کہا ہے
( فتاویٰ ہندیہ 5/323، فتاویٰ رضویہ 21/30 )
“ سنیں التجا ” تو احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم امت کے حالات جانتے ہیں ۔ “ تعرض علیّ أعمال أمتی” یعنی “میری امت کے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں ۔” (مسند احمد 10542)
“ حیاتی خیر لکم ومماتی خیر لکم ”(معجم کبیر، طبرانی 7/266)
عقیدہ اہلِ سنت: نداء و عرضی دعا بالاذن من اللہ جائز ہے ۔،
اور یہ عقیدہ نہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم “ مستقل بالذات فاعل ” ہیں۔
لہٰذا “ سنیں التجا ، مدینہ بلا لیجئے ” اس مصرعہ سے درحقیقت درخواستِ شفاعت سمجھمیں آرہی ہے ، نہ کہ نداۓ عام جیسا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں ۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے ثابت ہوا کہ: مصرعہ ادب و تعظیم پر مشتمل ہے ۔ ، اس میں کوئی بے ادبی ، گستاخی یا شرکیہ مفہوم نہیں ۔ یہ آیتِ “ لا تجعلوا دعاء الرسول ” کے خلاف نہیں ۔
نداءِ رسول فقہا کے نزدیک جائز ہے ۔ ، یہ وصفی خطاب ۔ اے زہرا کے بابا ! شرعاً درست بلکہ بہتر ہے ۔
اس میں نہ خلافِ ادب ہے ، نہ آیتِ کریمہ کے خلاف ، نہ کوئی فاسد عقیدہ کا لزوم ہے ۔ بلکہ ادب ، محبت اور نسبتِ مقدسہ کا اظہار ہے ۔ لہٰذا اسے پڑھنا ، سننا اور نعت میں استعمال کرنا جائز ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی عفی عنہ
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
17/ جمادى الآخر 1447 ھ
09/ دسمبر 2025 ء

