مسلمانوں کی قیادت اور بہار کابدلتا منظر نامہ
══════ ༺❀༻ ══════
بہار کی سیاست ایک بار پھر جوش میں ہے، مگر اس شور شرابے کے بیچ مسلمانوں کی خاموشی سب سے زیادہ سنائی دیتی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو آبادی میں اٹھارہ فیصد ہے، مگر قیادت کے میدان میں صفر پر کھڑی ہے۔ وہ قوم جو علم، عدل اور قربانی کی علامت تھی، آج دوسروں کی دست نگر بن چکی ہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں جو دہائیوں سے مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھی ہیں، انہوں نے مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھا۔ انہی کے ادوار میں بھاگلپور کے فسادات ہوئے، گجرات میں خون بہا، مظفر نگر میں عزتیں لٹیں، اور بابری مسجد کی شہادت پر خاموشی چھائی رہی۔ رنگاناتھ مشرا اور سچر کمیٹی کی سفارشات فائلوں میں دفن ہو گئیں، مگر مسلمانوں کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ دوسری جانب وہ قومیں جن کی آبادی صرف آٹھ یا دس فیصد ہے، اپنی قیادت کھڑی کر کے اقتدار کے بڑے عہدوں تک پہنچ گئیں، مگر مسلمان ابھی تک دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ بے بسی قیادت نہ ہونے کا نتیجہ ہے، یہ غلامی اس قوم کی خود فریبی کا ثمر ہے۔ جو قوم اپنی رہنمائی دوسروں کے ہاتھ میں دے دے، وہ اپنی تقدیر پر اختیار کھو دیتی ہے۔ ایسے میں جب ایک خوددار، باہمت، قیادت نے میدان میں قدم رکھا — وہ قیادت جو حیدرآباد کی مٹی سے اٹھی، جسے دنیا #اسدالدین اویسی کہتی ہے، جس نے ایمان، حمیت اور خودداری کا پیغام دیا — تو خود مسلمانوں نے اسے نشانہ بنایا۔ وہی اسدالدین اویسی جس نے پارلیمان میں امت کی زبان بن کر بولنے کی جرأت کی، نبی کریم ﷺ کی حرمت کے لیے ڈٹ گیا، اور ماب لنچنگ کے خلاف سب سے مضبوط آواز بن کر ابھرا، اسے “بی ٹیم” اور “ووٹ کٹوا” کہا گیا۔ یہ بدبختی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہی وہ قیادت ہے جو کہتی ہے: “اپنی تقدیر خود لکھو، دوسروں کے رحم پر مت جیو۔” سیمانچل کے باشعور علما، مفتیانِ کرام اور دین و ملت کے درد رکھنے والے نوجوان اسی پیغام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہندوستان کے نامور اور یادگار اسلاف و امانت اکابرین عالم ومفتی و مذہبی رہنما حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن مضطرؔ صاحب کا موقف وقت کی نبض پر ہے، انہوں نے امت کے مفاد میں قیادت کی تائید کی ہے اور درجنوں علما نے اس موقف کی تائید کی۔ لیکن کچھ لوگ علامہ زرقانی کے مبینہ بیان کو بنیاد بنا کر گمراہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے مہا گٹھ بندھن کی حمایت کی ہے۔(ابھی تک میں نے علامہ زرقانی کے مضمون کو نہیں دیکھا) اگر بالفرض یہ درست ہے تو یہ بیان حالاتِ حاضرہ میں “آ بیل مجھے مار” کے مترادف ہے۔علامہ زرقانی بیرونِ ملک مقیم ہیں، جب کہ سیمانچل بہار کے زمینی حقائق وہی جانتا ہے جو اس دھرتی کی مٹی سے جڑا ہے۔ اس کے برعکس، مفتی مطیع الرحمن مضطرؔ صاحب جیسے علما بصیرت، جرأت اور ملت کے مفاد کے ساتھ بولتے ہیں۔ اب فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے — کب تک وہ دوسروں کے کندھے استعمال کرتے رہیں گے؟ کب تک ان پارٹیوں کے وعدوں کے جال میں پھنسے رہیں گے جنہوں نے ان کے بچوں سے تعلیم، ان کی بستیوں سے ترقی اور ان کے گھروں سے امید چھین لی؟ سیمانچل آج بھی پسماندگی، غربت اور جہالت میں ڈوبا ہوا ہے۔ سڑک نہیں، اسپتال نہیں، اسکول نہیں، روزگار نہیں — صرف وعدے ہیں جو ہر الیکشن کے بعد مر جاتے ہیں۔ اب بھی اگر مسلمان جاگے نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں ان سے پوچھیں گی کہ تم نے اپنی قیادت کیوں نہ بنائی؟ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اپنے اندر اتحاد پیدا کریں، خود اپنی قیادت تراشیں، اپنی سیاسی خودمختاری کا اعلان کریں، اور ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے دھوکے سے نکلیں جنہوں نے ہمیشہ ان کا استحصال کیا۔ قیادت کسی کے احسان سے نہیں ملتی، اسے خود پیدا کرنا پڑتا ہے۔ جب قوم اپنی قیادت خود بناتی ہے تو اس کی آواز ایوان میں گونجتی ہے، اس کا ووٹ بکتا نہیں، اس کا حق چھنتا نہیں۔ یہ وقت کسی ایک پارٹی یا شخصیت کی حمایت یا مخالفت کا نہیں، بلکہ ملت کے اجتماعی بیدار ہونے کا ہے۔ مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ اب یہ لڑائی اقتدار کی نہیں، بقا کی ہے — ایمان، عزت اور وجود کی لڑائی ہے۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے: غلامی کی زنجیر میں جکڑے رہنا ہے یا اسدالدین اویسی کی قیادت کے ساتھ عزت و خودداری کی زندگی جینی ہے۔ اٹھو مسلمانوں! اپنے ضمیر کو جگاؤ، اپنی قیادت خود بناؤ، کیونکہ اب وقت ہے کہ تم دوسروں کے نہیں بلکہ اپنے فیصلے خود کرو، اپنی تقدیر خود لکھو اور اپنی عزت خود سنبھالو۔ یہی تمہارے ایمان، تمہاری غیرت اور تمہاری بقا کا راستہ ہے۔
👈🖋️
ابوالفضل غلام آسی مونس پورنوی
بہار کی سیاست ایک بار پھر جوش میں ہے، مگر اس شور شرابے کے بیچ مسلمانوں کی خاموشی سب سے زیادہ سنائی دیتی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو آبادی میں اٹھارہ فیصد ہے، مگر قیادت کے میدان میں صفر پر کھڑی ہے۔ وہ قوم جو علم، عدل اور قربانی کی علامت تھی، آج دوسروں کی دست نگر بن چکی ہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں جو دہائیوں سے مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھی ہیں، انہوں نے مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھا۔ انہی کے ادوار میں بھاگلپور کے فسادات ہوئے، گجرات میں خون بہا، مظفر نگر میں عزتیں لٹیں، اور بابری مسجد کی شہادت پر خاموشی چھائی رہی۔ رنگاناتھ مشرا اور سچر کمیٹی کی سفارشات فائلوں میں دفن ہو گئیں، مگر مسلمانوں کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ دوسری جانب وہ قومیں جن کی آبادی صرف آٹھ یا دس فیصد ہے، اپنی قیادت کھڑی کر کے اقتدار کے بڑے عہدوں تک پہنچ گئیں، مگر مسلمان ابھی تک دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ بے بسی قیادت نہ ہونے کا نتیجہ ہے، یہ غلامی اس قوم کی خود فریبی کا ثمر ہے۔ جو قوم اپنی رہنمائی دوسروں کے ہاتھ میں دے دے، وہ اپنی تقدیر پر اختیار کھو دیتی ہے۔ ایسے میں جب ایک خوددار، باہمت، قیادت نے میدان میں قدم رکھا — وہ قیادت جو حیدرآباد کی مٹی سے اٹھی، جسے دنیا #اسدالدین اویسی کہتی ہے، جس نے ایمان، حمیت اور خودداری کا پیغام دیا — تو خود مسلمانوں نے اسے نشانہ بنایا۔ وہی اسدالدین اویسی جس نے پارلیمان میں امت کی زبان بن کر بولنے کی جرأت کی، نبی کریم ﷺ کی حرمت کے لیے ڈٹ گیا، اور ماب لنچنگ کے خلاف سب سے مضبوط آواز بن کر ابھرا، اسے “بی ٹیم” اور “ووٹ کٹوا” کہا گیا۔ یہ بدبختی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہی وہ قیادت ہے جو کہتی ہے: “اپنی تقدیر خود لکھو، دوسروں کے رحم پر مت جیو۔” سیمانچل کے باشعور علما، مفتیانِ کرام اور دین و ملت کے درد رکھنے والے نوجوان اسی پیغام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہندوستان کے نامور اور یادگار اسلاف و امانت اکابرین عالم ومفتی و مذہبی رہنما حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن مضطرؔ صاحب کا موقف وقت کی نبض پر ہے، انہوں نے امت کے مفاد میں قیادت کی تائید کی ہے اور درجنوں علما نے اس موقف کی تائید کی۔ لیکن کچھ لوگ علامہ زرقانی کے مبینہ بیان کو بنیاد بنا کر گمراہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے مہا گٹھ بندھن کی حمایت کی ہے۔(ابھی تک میں نے علامہ زرقانی کے مضمون کو نہیں دیکھا) اگر بالفرض یہ درست ہے تو یہ بیان حالاتِ حاضرہ میں “آ بیل مجھے مار” کے مترادف ہے۔علامہ زرقانی بیرونِ ملک مقیم ہیں، جب کہ سیمانچل بہار کے زمینی حقائق وہی جانتا ہے جو اس دھرتی کی مٹی سے جڑا ہے۔ اس کے برعکس، مفتی مطیع الرحمن مضطرؔ صاحب جیسے علما بصیرت، جرأت اور ملت کے مفاد کے ساتھ بولتے ہیں۔ اب فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے — کب تک وہ دوسروں کے کندھے استعمال کرتے رہیں گے؟ کب تک ان پارٹیوں کے وعدوں کے جال میں پھنسے رہیں گے جنہوں نے ان کے بچوں سے تعلیم، ان کی بستیوں سے ترقی اور ان کے گھروں سے امید چھین لی؟ سیمانچل آج بھی پسماندگی، غربت اور جہالت میں ڈوبا ہوا ہے۔ سڑک نہیں، اسپتال نہیں، اسکول نہیں، روزگار نہیں — صرف وعدے ہیں جو ہر الیکشن کے بعد مر جاتے ہیں۔ اب بھی اگر مسلمان جاگے نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں ان سے پوچھیں گی کہ تم نے اپنی قیادت کیوں نہ بنائی؟ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اپنے اندر اتحاد پیدا کریں، خود اپنی قیادت تراشیں، اپنی سیاسی خودمختاری کا اعلان کریں، اور ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے دھوکے سے نکلیں جنہوں نے ہمیشہ ان کا استحصال کیا۔ قیادت کسی کے احسان سے نہیں ملتی، اسے خود پیدا کرنا پڑتا ہے۔ جب قوم اپنی قیادت خود بناتی ہے تو اس کی آواز ایوان میں گونجتی ہے، اس کا ووٹ بکتا نہیں، اس کا حق چھنتا نہیں۔ یہ وقت کسی ایک پارٹی یا شخصیت کی حمایت یا مخالفت کا نہیں، بلکہ ملت کے اجتماعی بیدار ہونے کا ہے۔ مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ اب یہ لڑائی اقتدار کی نہیں، بقا کی ہے — ایمان، عزت اور وجود کی لڑائی ہے۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے: غلامی کی زنجیر میں جکڑے رہنا ہے یا اسدالدین اویسی کی قیادت کے ساتھ عزت و خودداری کی زندگی جینی ہے۔ اٹھو مسلمانوں! اپنے ضمیر کو جگاؤ، اپنی قیادت خود بناؤ، کیونکہ اب وقت ہے کہ تم دوسروں کے نہیں بلکہ اپنے فیصلے خود کرو، اپنی تقدیر خود لکھو اور اپنی عزت خود سنبھالو۔ یہی تمہارے ایمان، تمہاری غیرت اور تمہاری بقا کا راستہ ہے۔
👈🖋️
ابوالفضل غلام آسی مونس پورنوی
