مسلم لڑکیوں کا ارتداد اور بین المذاہب شادیاں
...................
از انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ شریف
استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی
دنیا بھر میں معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی شناخت اور ذاتی آزادی کا مسئلہ ہمیشہ سے حساس رہا ہے۔ برصغیر ہند میں، جہاں مختلف مذاہب اور تہذیبیں صدیوں سے ایک ساتھ رہتی آئی ہیں، وہاں یہ حساسیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آج کل اخبارات اور میڈیا میں آئے دن ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں مسلم لڑکی نے ہندو نوجوان سے شادی کر لی، یا کسی نے اسلام ترک کر کے دوسری مذہب اختیار کر لیا۔ ایسے واقعات پر ایک عام مسلمان کے دل میں بےچینی اور اضطراب پیدا ہونا فطری امر ہے۔
یہ صورتِ حال صرف جذباتی پہلو نہیں رکھتی بلکہ اس کے اندر شرعی، سماجی، قانونی اور فکری تمام جہات شامل ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلم لڑکیاں اپنے خاندانی، مذہبی اور دینی پس منظر کو چھوڑ کر دوسری مذہبی شناخت کیوں قبول کر لیتی ہیں؟ اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اور اس کے سدِّباب یا صحیح فہم کے لیے کیا علمی و عملی اقدام کیے جا سکتے ہیں؟
اس مضمون میں ہم ان سوالات کا تحقیقی اور مقالاتی تجزیہ کریں گے۔
لکھیم پور کھِیری کا واقعہ
ابھی دو چار دن میں اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور کھِیری سے ایک سنسنی خیز خبر سامنے آئی کہ دو مسلم بہنوں نے اپنے ہندو محبوبوں سے شادی کی۔ یہ شادی کسی عدالت یا نکاح خواں کے ذریعے نہیں بلکہ مندر میں ہندو رسومات کے مطابق انجام دی گئی۔ شادی کے دوران دونوں بہنوں نے اپنے اسلامی نام بھی ترک کر دیے: رُخشانہ نے “روبی” اور جَسمن نے “چاندنی” نام اختیار کیا۔ اس واقعہ نے پورے علاقے میں بحث چھیڑ دی اور سوشل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا
یہ کوئی انوکھا یا منفرد واقعہ نہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں کئی جگہوں سے ایسی خبریں آئی ہیں کہ مسلم لڑکیوں نے ہندو نوجوانوں سے تعلقات قائم کیے، شادی کی یا پھر اسلام ترک کر کے دوسری مذہب اپنا لی۔
کچھ کیسوں میں خاندان کی طرف سے شدید مخالفت ہوئی اور لڑکی کو سماجی بائیکاٹ یا حتیٰ کہ جان سے مار دینے جیسے انتہاپسندانہ رویے بھی دیکھنے کو ملے۔
کچھ جگہوں پر سماجی قبولیت کا مظاہرہ ہوا اور لوگ اسے "محبت کی جیت" یا "مذہبی ہم آہنگی" کا نام دیتے ہیں۔
لیکن مجموعی طور پر یہ واقعات مسلم معاشرے کے اندر شدید اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔
شرعی نقطۂ نظر
ارتداد کی تعریف
اسلامی اصطلاح میں "ارتداد" اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو شعوری طور پر اسلام کو ترک کر کے کسی اور مذہب یا نظامِ عقیدہ کو اختیار کرے۔ قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں سخت وعیدیں موجود ہیں۔ فقہائے کرام نے اس کی مختلف اقسام اور ان کے احکام بیان کیے ہیں۔
*مسلم لڑکی کی غیر مسلم سے شادی*
اسلامی شریعت میں مسلمان مرد کو "اہل کتاب" کی عورت سے نکاح کی گنجائش ہے، لیکن مسلمان عورت کے لیے کسی غیر مسلم مرد سے شادی جائز نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی مسلمان لڑکی اسلام پر باقی رہتے ہوئے غیر مسلم مرد سے شادی کرتی ہے تو یہ نکاح شرعاً باطل ہے۔ البتہ اگر وہ پہلے اسلام ترک کر دے تو وہ ارتداد کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے، اور پھر اس کی شادی دوسرے مذہب کے قوانین کے مطابق انجام پاتی ہے۔
دینی تشویش
مسلمان معاشروں میں ایسے واقعات دینی کمزوری، تربیت کی کمی، اور دنیوی رغبتوں کے نتیجے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ علما کے نزدیک یہ امت کے لیے ایک بڑی فکری و اخلاقی آزمائش ہے۔
قانونی پہلو
بھارت کا آئین ہر شہری کو مذہب اختیار کرنے اور تبدیل کرنے کا حق دیتا ہے۔ آئین کی دفعہ 25 کے مطابق ہر فرد کو یہ آزادی ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق عبادات کرے اور کسی بھی مذہب کو قبول یا ترک کرے۔
لیکن شادی کے معاملے میں کچھ قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں:
اگر ایک مسلمان لڑکی اپنی مذہبی شناخت بدلے بغیر ہندو نوجوان سے مندر میں شادی کرے تو وہ شادی قانونی طور پر غیر معتبر قرار دی جا سکتی ہے، جیسا کہ پنجاب و ہریانہ ہائیکورٹ کے ایک فیصلے میں کہا گیا کہ "بغیر تبدیلی مذہب کے ایسی شادی صرف live-in relationship شمار ہوگی"۔
اگر وہ باقاعدہ مذہب تبدیل کرے تو پھر شادی قانونی طور پر تسلیم کر لی جاتی ہے، لیکن سماجی و خاندانی مسائل اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔
سماجی و فکری پہلو
یہ واقعات صرف فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے سماج کا سوال ہیں۔
1. خاندانی ڈھانچہ اور تربیت:
اکثر ایسے واقعات ان گھروں سے جڑتے ہیں جہاں دینی تعلیم و تربیت کمزور ہو اور والدین بچوں کو صرف دنیاوی تعلیم کی طرف توجہ دلائیں۔
2. محبت اور ذاتی آزادی کا سوال:
نئی نسل کے لیے "محبت" سب سے بڑی قدر بنتی جا رہی ہے۔ وہ مذہبی اور خاندانی حدود کو نظرانداز کر کے ذاتی آزادی کو فوقیت دیتی ہے۔
3. سماجی ردعمل:
ایک طرف بعض لوگ ایسے واقعات کو قبول کرتے ہیں اور انہیں مذہبی ہم آہنگی کی مثال مانتے ہیں، دوسری طرف معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے مذہبی شناخت پر حملہ تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کیسوں میں لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے یا انہیں سماجی طور پر تنہا کر دیا جاتا ہے۔
4. میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز:
ان واقعات کو میڈیا جس انداز میں پیش کرتا ہے، اس کا بھی بڑا اثر ہوتا ہے۔ کچھ چینلز اور اخبارات اسے "پیار کی جیت" بنا کر دکھاتے ہیں، جبکہ کچھ اسے "ارتداد" اور "خطرہ" کے طور پر نمایاں کرتے ہیں۔
مسلم لڑکیوں کے ارتداد اور غیر مسلموں سے شادی کا مسئلہ ایک ہمہ جہتی مسئلہ ہے، جس میں دینی، سماجی، قانونی اور فکری تمام پہلو موجود ہیں
دینی اعتبار سے یہ ایک سنگین انحراف ہے اور امت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
قانونی اعتبار سے یہ آئینی آزادی کے تحت ممکن ہے، لیکن شرعی و سماجی پہلوؤں سے اس پر تناؤ پیدا ہوتا ہے۔
سماجی اعتبار سے یہ واقعات خاندانی ڈھانچے، تربیت اور مذہبی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
لہٰذا ضرورت ہے کہ:
1. مسلم گھرانے اپنی اولاد کو مضبوط دینی اور فکری بنیاد فراہم کریں۔
2. معاشرتی سطح پر نکاح کو آسان اور قابلِ عمل بنایا جائے تاکہ لڑکیاں غیر فطری راستے نہ اپنائیں۔
3. مذہبی ادارے اور علما اس موضوع پر سائنسی، منطقی اور دوستانہ انداز میں مکالمہ کریں، صرف فتوے اور سختی کافی نہیں۔
4. حکومت اور قانون اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر شخص کو اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق جینے کا حق ہو، لیکن سماجی ہم آہنگی بھی قائم رہے۔
از انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ شریف
استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی
دنیا بھر میں معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی شناخت اور ذاتی آزادی کا مسئلہ ہمیشہ سے حساس رہا ہے۔ برصغیر ہند میں، جہاں مختلف مذاہب اور تہذیبیں صدیوں سے ایک ساتھ رہتی آئی ہیں، وہاں یہ حساسیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آج کل اخبارات اور میڈیا میں آئے دن ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں مسلم لڑکی نے ہندو نوجوان سے شادی کر لی، یا کسی نے اسلام ترک کر کے دوسری مذہب اختیار کر لیا۔ ایسے واقعات پر ایک عام مسلمان کے دل میں بےچینی اور اضطراب پیدا ہونا فطری امر ہے۔
یہ صورتِ حال صرف جذباتی پہلو نہیں رکھتی بلکہ اس کے اندر شرعی، سماجی، قانونی اور فکری تمام جہات شامل ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلم لڑکیاں اپنے خاندانی، مذہبی اور دینی پس منظر کو چھوڑ کر دوسری مذہبی شناخت کیوں قبول کر لیتی ہیں؟ اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اور اس کے سدِّباب یا صحیح فہم کے لیے کیا علمی و عملی اقدام کیے جا سکتے ہیں؟
اس مضمون میں ہم ان سوالات کا تحقیقی اور مقالاتی تجزیہ کریں گے۔
لکھیم پور کھِیری کا واقعہ
ابھی دو چار دن میں اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور کھِیری سے ایک سنسنی خیز خبر سامنے آئی کہ دو مسلم بہنوں نے اپنے ہندو محبوبوں سے شادی کی۔ یہ شادی کسی عدالت یا نکاح خواں کے ذریعے نہیں بلکہ مندر میں ہندو رسومات کے مطابق انجام دی گئی۔ شادی کے دوران دونوں بہنوں نے اپنے اسلامی نام بھی ترک کر دیے: رُخشانہ نے “روبی” اور جَسمن نے “چاندنی” نام اختیار کیا۔ اس واقعہ نے پورے علاقے میں بحث چھیڑ دی اور سوشل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا
یہ کوئی انوکھا یا منفرد واقعہ نہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں کئی جگہوں سے ایسی خبریں آئی ہیں کہ مسلم لڑکیوں نے ہندو نوجوانوں سے تعلقات قائم کیے، شادی کی یا پھر اسلام ترک کر کے دوسری مذہب اپنا لی۔
کچھ کیسوں میں خاندان کی طرف سے شدید مخالفت ہوئی اور لڑکی کو سماجی بائیکاٹ یا حتیٰ کہ جان سے مار دینے جیسے انتہاپسندانہ رویے بھی دیکھنے کو ملے۔
کچھ جگہوں پر سماجی قبولیت کا مظاہرہ ہوا اور لوگ اسے "محبت کی جیت" یا "مذہبی ہم آہنگی" کا نام دیتے ہیں۔
لیکن مجموعی طور پر یہ واقعات مسلم معاشرے کے اندر شدید اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔
شرعی نقطۂ نظر
ارتداد کی تعریف
اسلامی اصطلاح میں "ارتداد" اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو شعوری طور پر اسلام کو ترک کر کے کسی اور مذہب یا نظامِ عقیدہ کو اختیار کرے۔ قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں سخت وعیدیں موجود ہیں۔ فقہائے کرام نے اس کی مختلف اقسام اور ان کے احکام بیان کیے ہیں۔
*مسلم لڑکی کی غیر مسلم سے شادی*
اسلامی شریعت میں مسلمان مرد کو "اہل کتاب" کی عورت سے نکاح کی گنجائش ہے، لیکن مسلمان عورت کے لیے کسی غیر مسلم مرد سے شادی جائز نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی مسلمان لڑکی اسلام پر باقی رہتے ہوئے غیر مسلم مرد سے شادی کرتی ہے تو یہ نکاح شرعاً باطل ہے۔ البتہ اگر وہ پہلے اسلام ترک کر دے تو وہ ارتداد کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے، اور پھر اس کی شادی دوسرے مذہب کے قوانین کے مطابق انجام پاتی ہے۔
دینی تشویش
مسلمان معاشروں میں ایسے واقعات دینی کمزوری، تربیت کی کمی، اور دنیوی رغبتوں کے نتیجے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ علما کے نزدیک یہ امت کے لیے ایک بڑی فکری و اخلاقی آزمائش ہے۔
قانونی پہلو
بھارت کا آئین ہر شہری کو مذہب اختیار کرنے اور تبدیل کرنے کا حق دیتا ہے۔ آئین کی دفعہ 25 کے مطابق ہر فرد کو یہ آزادی ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق عبادات کرے اور کسی بھی مذہب کو قبول یا ترک کرے۔
لیکن شادی کے معاملے میں کچھ قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں:
اگر ایک مسلمان لڑکی اپنی مذہبی شناخت بدلے بغیر ہندو نوجوان سے مندر میں شادی کرے تو وہ شادی قانونی طور پر غیر معتبر قرار دی جا سکتی ہے، جیسا کہ پنجاب و ہریانہ ہائیکورٹ کے ایک فیصلے میں کہا گیا کہ "بغیر تبدیلی مذہب کے ایسی شادی صرف live-in relationship شمار ہوگی"۔
اگر وہ باقاعدہ مذہب تبدیل کرے تو پھر شادی قانونی طور پر تسلیم کر لی جاتی ہے، لیکن سماجی و خاندانی مسائل اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔
سماجی و فکری پہلو
یہ واقعات صرف فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے سماج کا سوال ہیں۔
1. خاندانی ڈھانچہ اور تربیت:
اکثر ایسے واقعات ان گھروں سے جڑتے ہیں جہاں دینی تعلیم و تربیت کمزور ہو اور والدین بچوں کو صرف دنیاوی تعلیم کی طرف توجہ دلائیں۔
2. محبت اور ذاتی آزادی کا سوال:
نئی نسل کے لیے "محبت" سب سے بڑی قدر بنتی جا رہی ہے۔ وہ مذہبی اور خاندانی حدود کو نظرانداز کر کے ذاتی آزادی کو فوقیت دیتی ہے۔
3. سماجی ردعمل:
ایک طرف بعض لوگ ایسے واقعات کو قبول کرتے ہیں اور انہیں مذہبی ہم آہنگی کی مثال مانتے ہیں، دوسری طرف معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے مذہبی شناخت پر حملہ تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کیسوں میں لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے یا انہیں سماجی طور پر تنہا کر دیا جاتا ہے۔
4. میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز:
ان واقعات کو میڈیا جس انداز میں پیش کرتا ہے، اس کا بھی بڑا اثر ہوتا ہے۔ کچھ چینلز اور اخبارات اسے "پیار کی جیت" بنا کر دکھاتے ہیں، جبکہ کچھ اسے "ارتداد" اور "خطرہ" کے طور پر نمایاں کرتے ہیں۔
مسلم لڑکیوں کے ارتداد اور غیر مسلموں سے شادی کا مسئلہ ایک ہمہ جہتی مسئلہ ہے، جس میں دینی، سماجی، قانونی اور فکری تمام پہلو موجود ہیں
دینی اعتبار سے یہ ایک سنگین انحراف ہے اور امت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
قانونی اعتبار سے یہ آئینی آزادی کے تحت ممکن ہے، لیکن شرعی و سماجی پہلوؤں سے اس پر تناؤ پیدا ہوتا ہے۔
سماجی اعتبار سے یہ واقعات خاندانی ڈھانچے، تربیت اور مذہبی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
لہٰذا ضرورت ہے کہ:
1. مسلم گھرانے اپنی اولاد کو مضبوط دینی اور فکری بنیاد فراہم کریں۔
2. معاشرتی سطح پر نکاح کو آسان اور قابلِ عمل بنایا جائے تاکہ لڑکیاں غیر فطری راستے نہ اپنائیں۔
3. مذہبی ادارے اور علما اس موضوع پر سائنسی، منطقی اور دوستانہ انداز میں مکالمہ کریں، صرف فتوے اور سختی کافی نہیں۔
4. حکومت اور قانون اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر شخص کو اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق جینے کا حق ہو، لیکن سماجی ہم آہنگی بھی قائم رہے۔