Type Here to Get Search Results !

ڈھونگی باباؤں کا عروج اور امت پر اس کے اثرات



ڈھونگی باباؤں کا عروج اور امت پر اس کے اثرات
--------------------------
ازانیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ شریف
استاد و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی

مکرمی۔ دنیا بھر میں ہر معاشرے میں روحانیت اور روحانی علاج کی ایک خاص اہمیت رہی ہے۔ انسان فطرتاً بیماری، پریشانی اور زندگی کے مسائل کے حل کے لیے غیر مرئی قوتوں سے مدد کی تلاش کرتا ہے۔ اسلام میں دعا، تعویذ اور شرعی جھاڑ پھونک کو ایک منظم اور مستند طریقے سے استعمال کرنے کی ہدایت موجود ہے، تاہم حالیہ برسوں میں ایک تشویشناک رجحان نے جنم لیا ہے جس کا تعلق ڈھونگی باباؤں اور حرام طریقوں سے وابستہ افراد سے ہے۔ یہ لوگ نہ صرف عوام کو گمراہ کر رہے ہیں بلکہ روحانی اور مالی استحصال کا ذریعہ بھی بن چکے ہیں۔
بابا بننے کی آسانی اور عوامی فریب
موجودہ دور میں کئی لوگ جو کسی پیشے یا معاشی سرگرمی میں منسلک نہیں ہیں، آسانی سے “بابا” بن جاتے ہیں۔ وہ چند ساتھیوں کے ساتھ اپنا چھوٹا سا ہجوم تیار کرتے ہیں، مقامی دکانوں اور چائے خانوں میں اپنی خدمات کا تذکرہ کرواتے ہیں، اور یوں عوام کے ذہنوں میں اپنی ساکھ قائم کر لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر یہ لوگ نہ علم الاعداد سے واقف ہوتے ہیں نہ کسی شرعی تعلیم سے، لیکن عوام کی لاعلمی اور جستجوئے شفاء کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ بابا حضرات اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں جنات یا غیبی قوتوں نے علم عطا کیا ہے اور اب وہ دعا یا تعویذ کرنے کے اہل ہیں۔ حقیقت میں، یہ دعوے نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں نہ آثار صحابہ و ائمہ سے۔ علمی اعتبار سے دعا تعویذ کے لیے علم الاعداد کا ہونا ضروری ہے، اور بغیر اہل علم کی اجازت یہ کام کرنا شرعی اعتبار سے ناجائز اور خیانت ہے۔
عطائی علوم کے مبہم دعوے
عطائی علوم کے حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنات یا غیبی قوتیں صرف جہالت رکھنے والوں کو علم کیوں عطا کرتی ہیں؟ کیا یہ کسی عالم، ڈاکٹر، سائنس دان یا محقق کو علم دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے؟ حقیقت میں یہ صرف عوام کو دھوکہ دینے اور مالی منفعت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
معاشی پہلو اور عوامی نقصان
ایک مشاہدے کے مطابق ایسے باباؤں کے پاس روزانہ 150 سے 200 افراد آتے ہیں۔ اگرچہ فیس رسمی طور پر نہیں لی جاتی، لیکن جو لوگ خواہش مند ہوتے ہیں، وہ چند ہزار روپے دے دیتے ہیں۔ نتیجتاً ایک بابا کی ماہانہ آمدنی کئی لاکھ روپے تک پہنچ سکتی ہے، جو کہ کسی بھی معمولی پیشے یا سرکاری نوکری سے کہیں زیادہ ہے۔ اس معاشی فائدے کی وجہ سے بے شمار لوگ بابا بننے کی طرف راغب ہو جاتے ہیں، اور عوام کا ایمان و عقیدہ خطرے میں پڑتا ہے۔
غیر شرعی علوم اور خطرناک رجحانات
حالیہ عرصے میں یہ ڈھونگی بابا حضرات سفلی علوم کے ذریعے بھی علاج کا دعویٰ کرنے لگے ہیں، جو نہ صرف حرام ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ قرآن و سنت میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شفاء کے لیے حرام چیزوں کا راستہ نہیں دیا۔ اس لیے کسی بھی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ دعا، تعویذ یا جھاڑ پھونک صرف اہل علم اور شرعی طریقے سے کروائے جائیں۔
شرعی رہنمائی اور عوام کی ذمہ داری
اسلام میں جھاڑ پھونک کی صحیح شکل میں قرآنی آیات، سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی اور معوذتین کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ اہل علم دین کبھی بھی حرام امور کو شامل نہیں کرتے اور نہ ہی عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس لیے عوام کو چاہیے کہ وہ ڈھونگی باباؤں، غیر مستند ملاؤں اور سفلی علوم کے دعویداروں سے دور رہیں اور اپنے ایمان کو محفوظ رکھیں۔
ڈھونگی باباؤں کا بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف معاشرتی نقصان کا سبب ہے بلکہ روحانی سطح پر بھی خطرناک ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے عقیدے کی حفاظت کے لیے صرف اہل علم دین اور شرعی طریقوں پر اعتماد کریں، اور ان جھوٹے دعویداروں سے مکمل بائیکاٹ کریں۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area