موجودہ دینی جلسے: فائدہ یا نقصان؟
--------------
از قلم: انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ شریف استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ، قصبہ سوار، ضلع رامپور (یوپی)
مکرمی
اسلام ایک ہمہ گیر، ہمہ زمانی اور ہمہ مکانی دین ہے۔ اس کا دائرہ محض عبادات یا چند مخصوص رسموں تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کے ہر شعبے—معاشرت، اخلاق، معیشت، سیاست، روحانیت اور انفرادی و اجتماعی رویوں—کے لیے مکمل اور ہمہ جہت رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ دین انسان کو نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق کا درست شعور دیتا ہے بلکہ بندوں کے حقوق، معاشرتی عدل، انسانی اقدار اور باہمی تعلقات کو بھی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ وقت، جگہ اور حالات کے تغیر کے باوجود اپنی معنویت اور ہدایت کا سرچشمہ برقرار رکھتا ہے۔
انسانی معاشرت میں اصلاح و ہدایت کا یہ سفر انبیاءِ کرام علیہم السلام کے ذریعے شروع ہوا اور ہر دور میں یہ کارواں لوگوں کی رہنمائی کرتا رہا۔ اس سلسلے کی آخری اور تکمیلی کڑی ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جن پر دین مکمل ہوا اور ہدایت کا یہ سرچشمہ قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔ چونکہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا، اس لیے اس مشنِ ہدایت، تبلیغ اور اصلاح کی ذمہ داری امت کے علما پر منتقل کر دی گئی۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
العلماء ورثۃ الانبیاء
یعنی علماء، انبیاء کے وارث ہیں۔
از قلم: انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ شریف استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ، قصبہ سوار، ضلع رامپور (یوپی)
مکرمی
اسلام ایک ہمہ گیر، ہمہ زمانی اور ہمہ مکانی دین ہے۔ اس کا دائرہ محض عبادات یا چند مخصوص رسموں تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کے ہر شعبے—معاشرت، اخلاق، معیشت، سیاست، روحانیت اور انفرادی و اجتماعی رویوں—کے لیے مکمل اور ہمہ جہت رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ دین انسان کو نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق کا درست شعور دیتا ہے بلکہ بندوں کے حقوق، معاشرتی عدل، انسانی اقدار اور باہمی تعلقات کو بھی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ وقت، جگہ اور حالات کے تغیر کے باوجود اپنی معنویت اور ہدایت کا سرچشمہ برقرار رکھتا ہے۔
انسانی معاشرت میں اصلاح و ہدایت کا یہ سفر انبیاءِ کرام علیہم السلام کے ذریعے شروع ہوا اور ہر دور میں یہ کارواں لوگوں کی رہنمائی کرتا رہا۔ اس سلسلے کی آخری اور تکمیلی کڑی ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جن پر دین مکمل ہوا اور ہدایت کا یہ سرچشمہ قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔ چونکہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا، اس لیے اس مشنِ ہدایت، تبلیغ اور اصلاح کی ذمہ داری امت کے علما پر منتقل کر دی گئی۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
العلماء ورثۃ الانبیاء
یعنی علماء، انبیاء کے وارث ہیں۔
(سنن ترمذی، حدیث: 2687)
یہ وراثت محض علمی نہیں بلکہ فکری، اخلاقی، روحانی اور عملی پہلوؤں کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ قرآن کریم نے بھی علم رکھنے والوں کو خصوصیت سے یاد کیا اور انہیں ممتاز مقام عطا فرمایا:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: 9)
علماء کا یہ رشتہ صرف علم حاصل کرنے یا سکھانے تک محدود نہیں بلکہ تبلیغ، تربیت، اصلاح اور معاشرتی رہنمائی کے وسیع تر دائرے کو بھی شامل ہے۔ وہ نہ صرف دین کے محافظ اور معلم ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کے فکری، اخلاقی اور روحانی معالج بھی ہوتے ہیں۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ جب بھی معاشرتی بگاڑ، فکری انحراف یا دینی کمزوری کا دور آیا، علمائے کرام ہی نے اپنے قول و فعل اور کردار کی روشنی سے اس تاریکی کو دور کیا
اسی نسبت سے امت مسلمہ کے وہ علمائے ربانی جو اپنی گفتار و کردار سے دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہمیشہ سے تبلیغِ دین کے مختلف ذرائع اختیار کرتے آئے ہیں۔ کبھی درس و تدریس کے ذریعے، کبھی تحریر و تصنیف کی صورت میں، کبھی دعوت و تبلیغ کی تحریکوں کے ذریعے اور کبھی عوامی اجتماعات (جلسوں) کے ذریعے دین کی شمع کو فروزاں رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
علماء کی ذمے داریاں
علماء امت کے وہ معزز افراد ہیں جن پر دین کے تحفظ، تعلیم، اشاعت اور اصلاحِ معاشرہ کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف علم حاصل کرنے والے اور اس کی ترسیل کرنے والے ہوتے ہیں بلکہ وہی قوم کے فکری و اخلاقی رہنما، روحانی معالج اور عملی نمونہ بھی بن کر سامنے آتے ہیں۔ ان کی زندگی نبوی صفات سے متصف ہوتی ہے، ان کا مقصد صرف تقریر یا تعلیم نہیں بلکہ عمل، تبلیغ، اور تربیت کے ذریعہ لوگوں کو دین کی اصل روح سے روشناس کرانا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے وہ علمائے ربانی، جو اپنی گفتار و کردار سے دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہمیشہ سے اصلاح و تبلیغ کے مختلف ذرائع اختیار کرتے رہے ہیں۔ کبھی درس و تدریس کے ذریعہ، کبھی دعوت و تبلیغ کی تحریکوں کے ذریعے، کبھی تحریر و تصنیف کی صورت میں، اور کبھی عوامی اجتماعات (جلسوں) کے ذریعے، دین کی شمع کو فروزاں رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
جلسے ایک تاریخی روایت
برصغیر ہند و پاک میں جلسوں کا رجحان کوئی نیا نہیں، بلکہ ایک طویل روایت کا حصہ ہے۔ خود نبی کریم ﷺ بھی اصحابِ صفہ، دیگر صحابہ کرامؓ اور وفود کے اجتماعات میں وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ یہ جلسے اسلامی تعلیمات کے فروغ، عامۃ الناس کی اصلاح، دینی شعور بیدار کرنے اور ایمان افروزی کا ایک مؤثر ذریعہ بنے۔ خاص طور پر ہندوستان میں دینِ اسلام کی عوامی سطح پر بیداری میں ان جلسوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔
موجودہ جلسوں کا المیہ
تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں ان جلسوں کا مزاج اور معیار شدید انحطاط کا شکار ہے۔ ایک طرف نیک نیتی کے ساتھ دین و سنیت کی خدمت کا دعویٰ، اور دوسری طرف ایسے عناصر کی یلغار، جنہوں نے دین کو ایک تفریحی اسٹیج شو میں تبدیل کردیا ہے۔
جعلی مقررین اور تفریحی مولوی
آج کل کے بیشتر جلسے ایسے خودساختہ، غیر معیاری اور غیر علمی مقررین سے مزین ہوتے ہیں جو چرب زبانی، من گھڑت قصے، اور مصنوعی جذبات کے ذریعہ عوام کو محض وقتی سرور دیتے ہیں۔ ان کی تقاریر میں نہ علمی گہرائی ہوتی ہے، نہ روحانی تاثیر، اور نہ ہی دینی فہم۔ وہ چند گھنٹوں کی لچھے دار باتیں کرکے جیبیں بھر کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد نے دین کے مقدس منبر کو بھی بزنس اسٹیج بنا دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سامعین بھی اب دین کے نام پر صرف تفریح چاہتے ہیں، سنجیدہ اور علمی باتوں کو برداشت کرنا ان کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔
نعت خوانی یا مشاعرہ بازی؟
دینی جلسوں کی ایک اور تشویشناک صورت یہ ہے کہ نعت خوانی اور شاعری کے نام پر ایسے افراد کو دعوت دی جاتی ہے، جو نہ دین کے مزاج سے واقف ہوتے ہیں، نہ ہی ادبِ اسلامی سے آشنا۔ ان کی شاعری کے اشعار بظاہر عشقِ رسول ﷺ سے لبریز ہوتے ہیں، مگر ان کا انداز، حرکات، لباس، اور اسٹیج پر ان کا طریقہ کار خود ان اشعار کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ جلسے ایک رات میں محض چھ گھنٹے کے ہوتے ہیں، جن میں تین چار مقررین، اور اتنے ہی شعراء موجود ہوں، تو اصلاحی گفتگو کے لیے کیا وقت بچے گا؟ نتیجتاً ان پروگراموں کی حیثیت "مشاعرہ" بن کر رہ جاتی ہے۔
اناؤنسروں کی زبان دانی
نئے زمانے کی بدعتوں میں سے ایک اناؤنسرز کا بے تحاشہ استعمال بھی ہے۔ بیشتر اناؤنسر حضرات نہ صرف زبان و بیان کی لطافت سے ناآشنا ہوتے ہیں بلکہ انھیں الفاظ کے محلِ استعمال، دینی الفاظ کے ادب، اور تقریری آداب کا بھی پاس نہیں ہوتا۔ جس مقرر نے قرآن و حدیث سے دلوں کو زندہ کرنا ہے، اس کا تعارف محض ایک سادہ سا جملہ۔ اور جس نے سٹیج پر ڈرامہ رچانا ہے، اس کے لیے قصیدہ گوئی کی انتہا کردی جاتی ہے۔ یہ عدم توازن جلسوں کی علمی و روحانی افادیت پر بدنما داغ ہے۔
یہ وراثت محض علمی نہیں بلکہ فکری، اخلاقی، روحانی اور عملی پہلوؤں کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ قرآن کریم نے بھی علم رکھنے والوں کو خصوصیت سے یاد کیا اور انہیں ممتاز مقام عطا فرمایا:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: 9)
علماء کا یہ رشتہ صرف علم حاصل کرنے یا سکھانے تک محدود نہیں بلکہ تبلیغ، تربیت، اصلاح اور معاشرتی رہنمائی کے وسیع تر دائرے کو بھی شامل ہے۔ وہ نہ صرف دین کے محافظ اور معلم ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کے فکری، اخلاقی اور روحانی معالج بھی ہوتے ہیں۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ جب بھی معاشرتی بگاڑ، فکری انحراف یا دینی کمزوری کا دور آیا، علمائے کرام ہی نے اپنے قول و فعل اور کردار کی روشنی سے اس تاریکی کو دور کیا
اسی نسبت سے امت مسلمہ کے وہ علمائے ربانی جو اپنی گفتار و کردار سے دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہمیشہ سے تبلیغِ دین کے مختلف ذرائع اختیار کرتے آئے ہیں۔ کبھی درس و تدریس کے ذریعے، کبھی تحریر و تصنیف کی صورت میں، کبھی دعوت و تبلیغ کی تحریکوں کے ذریعے اور کبھی عوامی اجتماعات (جلسوں) کے ذریعے دین کی شمع کو فروزاں رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
علماء کی ذمے داریاں
علماء امت کے وہ معزز افراد ہیں جن پر دین کے تحفظ، تعلیم، اشاعت اور اصلاحِ معاشرہ کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف علم حاصل کرنے والے اور اس کی ترسیل کرنے والے ہوتے ہیں بلکہ وہی قوم کے فکری و اخلاقی رہنما، روحانی معالج اور عملی نمونہ بھی بن کر سامنے آتے ہیں۔ ان کی زندگی نبوی صفات سے متصف ہوتی ہے، ان کا مقصد صرف تقریر یا تعلیم نہیں بلکہ عمل، تبلیغ، اور تربیت کے ذریعہ لوگوں کو دین کی اصل روح سے روشناس کرانا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے وہ علمائے ربانی، جو اپنی گفتار و کردار سے دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہمیشہ سے اصلاح و تبلیغ کے مختلف ذرائع اختیار کرتے رہے ہیں۔ کبھی درس و تدریس کے ذریعہ، کبھی دعوت و تبلیغ کی تحریکوں کے ذریعے، کبھی تحریر و تصنیف کی صورت میں، اور کبھی عوامی اجتماعات (جلسوں) کے ذریعے، دین کی شمع کو فروزاں رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
جلسے ایک تاریخی روایت
برصغیر ہند و پاک میں جلسوں کا رجحان کوئی نیا نہیں، بلکہ ایک طویل روایت کا حصہ ہے۔ خود نبی کریم ﷺ بھی اصحابِ صفہ، دیگر صحابہ کرامؓ اور وفود کے اجتماعات میں وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ یہ جلسے اسلامی تعلیمات کے فروغ، عامۃ الناس کی اصلاح، دینی شعور بیدار کرنے اور ایمان افروزی کا ایک مؤثر ذریعہ بنے۔ خاص طور پر ہندوستان میں دینِ اسلام کی عوامی سطح پر بیداری میں ان جلسوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔
موجودہ جلسوں کا المیہ
تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں ان جلسوں کا مزاج اور معیار شدید انحطاط کا شکار ہے۔ ایک طرف نیک نیتی کے ساتھ دین و سنیت کی خدمت کا دعویٰ، اور دوسری طرف ایسے عناصر کی یلغار، جنہوں نے دین کو ایک تفریحی اسٹیج شو میں تبدیل کردیا ہے۔
جعلی مقررین اور تفریحی مولوی
آج کل کے بیشتر جلسے ایسے خودساختہ، غیر معیاری اور غیر علمی مقررین سے مزین ہوتے ہیں جو چرب زبانی، من گھڑت قصے، اور مصنوعی جذبات کے ذریعہ عوام کو محض وقتی سرور دیتے ہیں۔ ان کی تقاریر میں نہ علمی گہرائی ہوتی ہے، نہ روحانی تاثیر، اور نہ ہی دینی فہم۔ وہ چند گھنٹوں کی لچھے دار باتیں کرکے جیبیں بھر کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد نے دین کے مقدس منبر کو بھی بزنس اسٹیج بنا دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سامعین بھی اب دین کے نام پر صرف تفریح چاہتے ہیں، سنجیدہ اور علمی باتوں کو برداشت کرنا ان کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔
نعت خوانی یا مشاعرہ بازی؟
دینی جلسوں کی ایک اور تشویشناک صورت یہ ہے کہ نعت خوانی اور شاعری کے نام پر ایسے افراد کو دعوت دی جاتی ہے، جو نہ دین کے مزاج سے واقف ہوتے ہیں، نہ ہی ادبِ اسلامی سے آشنا۔ ان کی شاعری کے اشعار بظاہر عشقِ رسول ﷺ سے لبریز ہوتے ہیں، مگر ان کا انداز، حرکات، لباس، اور اسٹیج پر ان کا طریقہ کار خود ان اشعار کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ جلسے ایک رات میں محض چھ گھنٹے کے ہوتے ہیں، جن میں تین چار مقررین، اور اتنے ہی شعراء موجود ہوں، تو اصلاحی گفتگو کے لیے کیا وقت بچے گا؟ نتیجتاً ان پروگراموں کی حیثیت "مشاعرہ" بن کر رہ جاتی ہے۔
اناؤنسروں کی زبان دانی
نئے زمانے کی بدعتوں میں سے ایک اناؤنسرز کا بے تحاشہ استعمال بھی ہے۔ بیشتر اناؤنسر حضرات نہ صرف زبان و بیان کی لطافت سے ناآشنا ہوتے ہیں بلکہ انھیں الفاظ کے محلِ استعمال، دینی الفاظ کے ادب، اور تقریری آداب کا بھی پاس نہیں ہوتا۔ جس مقرر نے قرآن و حدیث سے دلوں کو زندہ کرنا ہے، اس کا تعارف محض ایک سادہ سا جملہ۔ اور جس نے سٹیج پر ڈرامہ رچانا ہے، اس کے لیے قصیدہ گوئی کی انتہا کردی جاتی ہے۔ یہ عدم توازن جلسوں کی علمی و روحانی افادیت پر بدنما داغ ہے۔
ایک لمحۂ فکریہ
اب وقت آچکا ہے کہ ہم سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا واقعی ہم دینی جلسوں کے ذریعہ اصلاحِ امت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں یا نادانستہ طور پر ان جلسوں کے پردے میں معاشرتی و فکری فساد کو ہوا دے رہے ہیں؟ آج ایسے خطباء، شعراء اور منتظمین کی ایک بڑی جماعت میدان میں ہے جو نہ علم رکھتی ہے، نہ تقویٰ، نہ اخلاص، نہ بصیرت۔ وہ صرف اپنی شہرت، مالی مفادات، اور وقتی تالیاں حاصل کرنے کے لیے دین کی روح کو مجروح کر رہے ہیں۔
اگر ایک عام مسلمان اپنے علاقے میں کسی دینی جلسے کے لیے چندہ جمع کرتا ہے، اپنے وقت، محنت اور وسائل کو خرچ کرتا ہے، تو اس کا شرعی حق ہے کہ اسے اس جلسے میں صحیح دینی رہنمائی دی جائے، نہ کہ وقت گزاری کی باتیں اور سطحی تفریح۔
تجویز و حل
1. مخلص علماء سے رہنمائی: جلسہ منعقد کرنے سے پہلے اپنے علاقے کے معتبر و بااخلاص علماء سے مشورہ کرنا ضروری ہے تاکہ پروگرام کا مقصد، عنوان، مقررین اور نظامت کا معیار دین کے مزاج کے مطابق ہو۔
2. علمی و روحانی توازن: جلسوں کو نہ صرف اصلاحی بنائیں بلکہ علمی اور فکری سطح پر بھی مستند، بامقصد اور سنجیدہ خطوط پر استوار کریں۔
3. پیشہ ور مقررین کا بائیکاٹ: ان مقررین، شعراء اور اناؤنسرز کو کنارے لگایا جائے جو دین کو کاروبار بنا چکے ہیں۔
4. عوامی شعور کی بیداری: عام مسلمانوں کو بھی اس بات کا شعور دیا جائے کہ وہ دین کے نام پر تفریحی رجحانات کو ہوا نہ دیں، بلکہ اصلاحی ماحول اور دینی سنجیدگی کو فروغ دیں۔
دعا ہیکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات سمجھنے، ان پر عمل کرنے، اور ان کی درست ترجمانی کا شعور عطا فرمائے۔ ہمیں سنجیدہ دینی جلسوں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح اور فکری و روحانی بیداری کا ذریعہ بنائے۔
آمی ن یا رب العالمین، بجاہ سید المرسلین ﷺ
اب وقت آچکا ہے کہ ہم سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا واقعی ہم دینی جلسوں کے ذریعہ اصلاحِ امت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں یا نادانستہ طور پر ان جلسوں کے پردے میں معاشرتی و فکری فساد کو ہوا دے رہے ہیں؟ آج ایسے خطباء، شعراء اور منتظمین کی ایک بڑی جماعت میدان میں ہے جو نہ علم رکھتی ہے، نہ تقویٰ، نہ اخلاص، نہ بصیرت۔ وہ صرف اپنی شہرت، مالی مفادات، اور وقتی تالیاں حاصل کرنے کے لیے دین کی روح کو مجروح کر رہے ہیں۔
اگر ایک عام مسلمان اپنے علاقے میں کسی دینی جلسے کے لیے چندہ جمع کرتا ہے، اپنے وقت، محنت اور وسائل کو خرچ کرتا ہے، تو اس کا شرعی حق ہے کہ اسے اس جلسے میں صحیح دینی رہنمائی دی جائے، نہ کہ وقت گزاری کی باتیں اور سطحی تفریح۔
تجویز و حل
1. مخلص علماء سے رہنمائی: جلسہ منعقد کرنے سے پہلے اپنے علاقے کے معتبر و بااخلاص علماء سے مشورہ کرنا ضروری ہے تاکہ پروگرام کا مقصد، عنوان، مقررین اور نظامت کا معیار دین کے مزاج کے مطابق ہو۔
2. علمی و روحانی توازن: جلسوں کو نہ صرف اصلاحی بنائیں بلکہ علمی اور فکری سطح پر بھی مستند، بامقصد اور سنجیدہ خطوط پر استوار کریں۔
3. پیشہ ور مقررین کا بائیکاٹ: ان مقررین، شعراء اور اناؤنسرز کو کنارے لگایا جائے جو دین کو کاروبار بنا چکے ہیں۔
4. عوامی شعور کی بیداری: عام مسلمانوں کو بھی اس بات کا شعور دیا جائے کہ وہ دین کے نام پر تفریحی رجحانات کو ہوا نہ دیں، بلکہ اصلاحی ماحول اور دینی سنجیدگی کو فروغ دیں۔
دعا ہیکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات سمجھنے، ان پر عمل کرنے، اور ان کی درست ترجمانی کا شعور عطا فرمائے۔ ہمیں سنجیدہ دینی جلسوں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح اور فکری و روحانی بیداری کا ذریعہ بنائے۔
آمی ن یا رب العالمین، بجاہ سید المرسلین ﷺ