Type Here to Get Search Results !

اہل سنت کے خلاف دیوبندی مدارس کی محاذ آرائی اور ہماری ذمہ داری


اہل سنت کے خلاف دیوبندی مدارس کی محاذ آرائی اور ہماری ذمہ داری 🌹

 از : محمد عامر فضیل مرکزی 

فاضل جامعۃ الرضا بریلی شریف 

     آج ایک پرچہ دارالعلوم دیوبند کے ششماہی امتحان کا نظر سے گزرا جس کا عنوان تھا: "ردِّ رضاخانیت"۔(یعنی رد مسلک اعلیٰ حضرت بزعم دیابنہ) یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ ہمارے مخالفین کس قدر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ امام اہلِ سنت، مجددِ دین و ملت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ اور مسلکِ اہلِ سنت و جماعت کے خلاف پروپیگنڈا تیار کر رہے ہیں۔

    یہ کوئی اتفاقی امر نہیں، بلکہ یہ دیوبندی مدارس میں ایک منظم منصوبہ بندی ہے کہ طلبہ کی ذہن سازی امام اہلِ سنت کے خلاف کی جائے۔ ان کے نصاب میں صرف درسِ نظامی نہیں، بلکہ باقاعدہ "رد اہلِ سنت" اور "رد علماء مسلک اعلیٰ حضرت" کے عنوان سے کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ طلبہ کو اسی نہج پر تیار کیا جاتا ہے اور پھر امتحانات میں انہی موضوعات پر سوالات رکھے جاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں اعلیٰ حضرت اور اہلِ سنت کے خلاف نفرت اور بغض ہمیشہ کے لیے بٹھا دیا جائے۔ گویا ان اداروں میں محض تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ ذہن سازی ایک خاص مقصد کے تحت کی جاتی ہے کہ یہ مستقبل میں اہل سنت پر بھونڈے اعتراضات کرے اور علماء اہلسنت کو بدنام کرنے کی ناکام جسارت کرے جس کا نمونہ سوشل میڈیا پر اکثر دیکھنےکو ملتا رہتا ہے ۔


🌹ہماری کوتاہی🌹

      اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بدمذہب ہمارے خلاف اس قدر منظم محاذ آرا ہیں، تو کیا ہم اہلِ سنت اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ کافی ہے کہ ہمارے مدارس صرف درسِ نظامی کی تکمیل پر اکتفا کریں اور تحقیقی و مناظرانہ تیاری کو پسِ پشت ڈال دیں؟

یقیناً نہیں!

حقیقت یہ ہے کہ ہماری غفلت ہی نے ان عناصر کو جرأت بخشی کہ وہ ہمارے امام پر انگلیاں اٹھائیں، ہمارے خلاف پرچے تیار کریں اور اپنی نئی نسل کے ذہنوں کو زہر آلود کریں۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو صرف روایتی تعلیم دیں اور دفاعی و تحقیقی پہلو کو چھوڑ دیں تو یہ علمی میدان یک طرفہ ہوتا جائے گا۔اور ہمارے مدارس سے بجاۓ ماہرین فارغ ہونے کے، علم کے کوڑے حضرات فارغ ہونگے ۔


🌹ہماری ذمہ داریاں🌹

        اس لۓ اہلِ سنت کے علما اور مدارس پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی پالیسی کو محض روایتی نہ رکھیں بلکہ اسے دفاعی، تحقیقی اور مناظرانہ بنیادوں پر استوار کریں۔ چند نکات درج ذیل ہیں:

1. افکارِ امام احمد رضا کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

اعلیٰ حضرت کے علمی و تحقیقی کارنامے، فتاویٰ رضویہ کے مباحث، اور ان کے مناظرانہ جوابات کو طلبہ کے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ طلبہ براہِ راست اپنے امام کی تحریروں سے روشناس ہو۔

2. مناظرانہ و تحقیقی تیاری۔

طلبہ کو محض فقہ، تفسیر اور حدیث کے دروس نہ دیے جائیں بلکہ انہیں اس انداز میں بھی تیار کیا جائے کہ وہ بدمزہب کےہر اعتراض کا علمی اور مدلل جواب دے سکیں۔

3عقائد بدمذہب سے روشناس کرایا جائے ۔

یعنی نصاب میں ایسی کتابیں شامل کی جائے جو بدمذہبوں کے عقائد کو اجاگر کرے خصوصاََ عصر حاضر میں رد دیوبندیت ووہابیت،رد رافضیت اور رد الحاد پر مشتمل کتابوں کو مدارس کے نصاب میں شامل کیا جائے ۔


3. دفاعِ اہلِ سنت کے مستقل پرچے۔

یعنی جس طرح درسی کتابوں کے امتحانات مدارس میں لۓ جاتے ہیں اسی طرح بدمذہبوں کی تردید پر مشتمل کتابوں کا امتحان لیا جائے اور کامیاب طلبا کو انعامات سے بھی نوازا جائے تاکہ دلچسپی بڑھے۔


4. علمی و تحقیقی مواد کا اضافہ۔

اعلیٰ حضرت اور دیگر اکابرِ اہلِ سنت کی تصانیف، مقالات اور تحقیقی رسائل کو باقاعدہ درس کا حصہ بنایا جائے تاکہ طلبہ کے اندر تحقیقی مزاج پیدا ہو۔

5. عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق تیاری۔

آج بدمذہب صرف مدارس کی چار دیواری تک محدود نہیں رہے بلکہ میڈیا، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیاپلیٹ فارمز پر بھی خاصہ پکڑ بناۓ ہوۓ ہیں۔ اس لۓاہلِ سنت کو چاہیے کہ ان پلیٹ فارمز پر بھی مضبوط اور مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کریں۔تاکہ عوام الناس ان ہلاکت خیز عناصر کے دلدل میں نہ پھنسیں۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں بدمذہبوں کے شر سے محفوظ فرمائے اور تا دم حیات مسلک اعلیٰ حضرت پر قائم رکھے آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم 

جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area