قسط نمبر دوم
(1) حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وسیم اکرم رضوی مصباحی صاحب مدظلہ العالی کے ایک فتوی کا دس مفتیان کرام کی کتابوں سے رد کامل
: قارئین کرام :
آپ کے سامنے کافی دلائل اور تاریخ کی روشنی میں قسط اول پیش کرنے کا شرف حاصل کرچکا ہوں امید ہے کہ آپ سب نے مطالعہ کیا ہوگا اب یہ دوسری قسط پیش کرنے کا شرف حاصل کررہا ہوں
اگر کوئی شخص ہر سال مالک نصاب ہے تو اس پر ہر سال اپنے نام قربانی واجب ہے ایسا نہیں کہ ایک سال قربانی کردیا تو دوسرے سال اس کے ذمہ سے ساقط ہوگئی ۔ایسا سمجھنا محض غلط ہے ہاں اپنے نام سے قربانی کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے کوئی حرج نہیں ۔مگر اپنی طرف سے واجب کو ادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے اور وہ سخت گنہگار ہوگا اپنے نام سے نہ کرکے دوسروں کے نام سے کیا تو اس کا واجب ساقط نہ ہوگا مگر جو قربانی دوسروں کی طرف سے کی گئی وہ قربانی صحیح ہوگئی
ہاں ردالمختار اور فتاوی قاضی خان کی ایک عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنے پر اس کا اپنا وجوب ساقط ہوجاتا ہے اسے پھر اپنی طرف سے قربانی نہیں کرنی ہے لیکن شرنبلانی نے کہا “لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل” یعنی اس سے قربانی ساقط ہونے میں تامل ہے یعنی شک وشبہ ہے ۔خیال رہے کہ شرنبلانی بھی بہت بڑے محقق تھے
واجب ساقط ہونے کی دلیل :
درمختار میں ہے
“وعن میت بالامر الزم تصدقا والافکل منھا وھذا المنیر” یعنی میت کی جانب سے اس امر سے قربانی کی گئی ہوتو اس کا صدقہ کرنا لازم ہے ۔ورنہ اس میں سے کھاؤ ۔یہ اختیار دیا گیا
اور اس عبارت کے تحت علامہ شامی ردالمحتار میں فرماتے ہیں کہ
"(قَوْلُهُ وَعَنْ مَيِّتٍ) أَيْ لَوْ ضَحَّى عَنْ مَيِّتٍ وَارِثُهُ بِأَمْرِهِ أَلْزَمَهُ بِالتَّصَدُّقِ بِهَا وَعَدَمِ الْأَكْلِ مِنْهَا، وَإِنْ تَبَرَّعَ بِهَا عَنْهُ لَهُ الْأَكْلُ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَلَى مِلْكِ الذَّابِحِ وَالثَّوَابُ لِلْمَيِّتِ، *وَلِهَذَا لَوْ كَانَ عَلَى الذَّابِحِ وَاحِدَةٌ سَقَطَتْ عَنْهُ أُضْحِيَّتُهُ كَمَا فِي الْأَجْنَاسِ ، قَالَ الشُّرُنْبُلَانيُّ: لَكِنْ فِي سُقُوطِ الْأُضْحِيَّةَ عَنْهُ تَأَمُّلٌ اهـ. أَقُولُ: صَرَّحَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ فِي الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ بِلَا أَمْرٍ أَنَّهُ يَقَعُ عَن ِالْفَاعِلِ فَيَسْقُطُ بِهِ الْفَرْضُ عَنْهُ وَلِلْآخَرِ الثَّوَابُ فَرَاجِعْهُ".
[ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٣٥/٦]
یعنی اگر میت کی جانب سے اس کے وارث نے اس کے امر سے قربانی دی تو اس پر اس کا صدقہ کرنا اور اس سے کچھ نہ کھانا لازم ہوگا ۔اگر اس کی جانب سے بطور نفل قربانی دے تو اس سے کھانے کی اجازت ہوگی ۔کیونکہ یہ ذابح کی ملکیت پر واقع ہوگی اور ثواب میت کے لئے ہوگا ۔اسی وجہ سے اگر ذابح پر ایک قربانی لازم ہوتو اس سے قربانی ساقط ہو جائے گی جس طرح "اجناس " میں ہے "شرنبلانی نے کہا :
“لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل” یعنی اس سے قربانی ہونے میں تامل ہے
میں کہتا ہوں:فتح القدیر میں باب الحج عن الغیر لغیرہ بلا امر میں اس امر کی تصریح کی ہے کہ یہ حج فاعل کی جانب سے واقع ہوگا ۔پس اس سے فرض ساقط ہو جائے گا اور دوسرے کے لئے ثواب ہوگا ۔پس اس کی طرف رجوع کیجئے
فتاوی قاضی خان میں ہے
“لو ضحى عن ميت من مال نفسه بغير أمر المیت جاز وله أن يتناول منه ولا يلزمه أن يتصدق به لأنها لم تصر ملكا للميت بل الذبح حصل على ملکه.ولهذا لو كان على الذابح أضحية سقطت عنه وإن ضحى عن ميت من مال الميت بأمر الميت يلزمه التصدّق بلحمه ولا يتناول منه لأن الأضحية تقع عن الميت
یعنی:اور اگر اس نے میت کے حکم کے بغیر کسی میت کی طرف سے اپنے مال سے قربانی کی تو جائز ہے اور وہ اس قربانی میں سے کھا سکتا ہے اور اس پر اس گوشت کو صدقہ دینا واجب نہیں ہے کیونکہ وہ قربانی وہ میت کی ملک نہیں ہے بلکہ وہ ذبح کرنے والے کی ملک ہے اور اس وجہ سے اگر ذبح کرنے والے پر قربانی واجب ہو تو اس کی طرف سے قربانی ساقط ہوجائےگی اور اگر اس نے میت کےحکم سے میت کے مال سے میت کے لیے قربانی کی تو وہ سارا گوشت صدقہ کردے اورخود بھی اس سے نہ کھائے کیونکہ قربانی میت کی طرف سے ہوتی ہے (فتاوى قاضي خان فصل: فيمایجوز في الضحاياو مالا يجوز من كتاب الاضحية جلد3صفحہ239)
ردالمختار اور فتاوی قاضی خان کی عبارت سے واضح ہوا ک اگر قربانی کرنے والے پر قربانی واجب ہو تو اس کی طرف سے قربانی ساقط ہوجایے گی
اور اسی دونوں کتابوں سے مفتی موصوف صاحب نے جزیہ لیا اور فرمایا کہ
قارئین کرام :-:
واجب ساقط نہ ہونے کے ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں
(1) دلیل اول :-
: قارئین کرام :
آپ کے سامنے کافی دلائل اور تاریخ کی روشنی میں قسط اول پیش کرنے کا شرف حاصل کرچکا ہوں امید ہے کہ آپ سب نے مطالعہ کیا ہوگا اب یہ دوسری قسط پیش کرنے کا شرف حاصل کررہا ہوں
اگر کوئی شخص ہر سال مالک نصاب ہے تو اس پر ہر سال اپنے نام قربانی واجب ہے ایسا نہیں کہ ایک سال قربانی کردیا تو دوسرے سال اس کے ذمہ سے ساقط ہوگئی ۔ایسا سمجھنا محض غلط ہے ہاں اپنے نام سے قربانی کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے کوئی حرج نہیں ۔مگر اپنی طرف سے واجب کو ادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے اور وہ سخت گنہگار ہوگا اپنے نام سے نہ کرکے دوسروں کے نام سے کیا تو اس کا واجب ساقط نہ ہوگا مگر جو قربانی دوسروں کی طرف سے کی گئی وہ قربانی صحیح ہوگئی
ہاں ردالمختار اور فتاوی قاضی خان کی ایک عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنے پر اس کا اپنا وجوب ساقط ہوجاتا ہے اسے پھر اپنی طرف سے قربانی نہیں کرنی ہے لیکن شرنبلانی نے کہا “لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل” یعنی اس سے قربانی ساقط ہونے میں تامل ہے یعنی شک وشبہ ہے ۔خیال رہے کہ شرنبلانی بھی بہت بڑے محقق تھے
واجب ساقط ہونے کی دلیل :
درمختار میں ہے
“وعن میت بالامر الزم تصدقا والافکل منھا وھذا المنیر” یعنی میت کی جانب سے اس امر سے قربانی کی گئی ہوتو اس کا صدقہ کرنا لازم ہے ۔ورنہ اس میں سے کھاؤ ۔یہ اختیار دیا گیا
اور اس عبارت کے تحت علامہ شامی ردالمحتار میں فرماتے ہیں کہ
"(قَوْلُهُ وَعَنْ مَيِّتٍ) أَيْ لَوْ ضَحَّى عَنْ مَيِّتٍ وَارِثُهُ بِأَمْرِهِ أَلْزَمَهُ بِالتَّصَدُّقِ بِهَا وَعَدَمِ الْأَكْلِ مِنْهَا، وَإِنْ تَبَرَّعَ بِهَا عَنْهُ لَهُ الْأَكْلُ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَلَى مِلْكِ الذَّابِحِ وَالثَّوَابُ لِلْمَيِّتِ، *وَلِهَذَا لَوْ كَانَ عَلَى الذَّابِحِ وَاحِدَةٌ سَقَطَتْ عَنْهُ أُضْحِيَّتُهُ كَمَا فِي الْأَجْنَاسِ ، قَالَ الشُّرُنْبُلَانيُّ: لَكِنْ فِي سُقُوطِ الْأُضْحِيَّةَ عَنْهُ تَأَمُّلٌ اهـ. أَقُولُ: صَرَّحَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ فِي الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ بِلَا أَمْرٍ أَنَّهُ يَقَعُ عَن ِالْفَاعِلِ فَيَسْقُطُ بِهِ الْفَرْضُ عَنْهُ وَلِلْآخَرِ الثَّوَابُ فَرَاجِعْهُ".
[ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٣٥/٦]
یعنی اگر میت کی جانب سے اس کے وارث نے اس کے امر سے قربانی دی تو اس پر اس کا صدقہ کرنا اور اس سے کچھ نہ کھانا لازم ہوگا ۔اگر اس کی جانب سے بطور نفل قربانی دے تو اس سے کھانے کی اجازت ہوگی ۔کیونکہ یہ ذابح کی ملکیت پر واقع ہوگی اور ثواب میت کے لئے ہوگا ۔اسی وجہ سے اگر ذابح پر ایک قربانی لازم ہوتو اس سے قربانی ساقط ہو جائے گی جس طرح "اجناس " میں ہے "شرنبلانی نے کہا :
“لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل” یعنی اس سے قربانی ہونے میں تامل ہے
میں کہتا ہوں:فتح القدیر میں باب الحج عن الغیر لغیرہ بلا امر میں اس امر کی تصریح کی ہے کہ یہ حج فاعل کی جانب سے واقع ہوگا ۔پس اس سے فرض ساقط ہو جائے گا اور دوسرے کے لئے ثواب ہوگا ۔پس اس کی طرف رجوع کیجئے
فتاوی قاضی خان میں ہے
“لو ضحى عن ميت من مال نفسه بغير أمر المیت جاز وله أن يتناول منه ولا يلزمه أن يتصدق به لأنها لم تصر ملكا للميت بل الذبح حصل على ملکه.ولهذا لو كان على الذابح أضحية سقطت عنه وإن ضحى عن ميت من مال الميت بأمر الميت يلزمه التصدّق بلحمه ولا يتناول منه لأن الأضحية تقع عن الميت
یعنی:اور اگر اس نے میت کے حکم کے بغیر کسی میت کی طرف سے اپنے مال سے قربانی کی تو جائز ہے اور وہ اس قربانی میں سے کھا سکتا ہے اور اس پر اس گوشت کو صدقہ دینا واجب نہیں ہے کیونکہ وہ قربانی وہ میت کی ملک نہیں ہے بلکہ وہ ذبح کرنے والے کی ملک ہے اور اس وجہ سے اگر ذبح کرنے والے پر قربانی واجب ہو تو اس کی طرف سے قربانی ساقط ہوجائےگی اور اگر اس نے میت کےحکم سے میت کے مال سے میت کے لیے قربانی کی تو وہ سارا گوشت صدقہ کردے اورخود بھی اس سے نہ کھائے کیونکہ قربانی میت کی طرف سے ہوتی ہے (فتاوى قاضي خان فصل: فيمایجوز في الضحاياو مالا يجوز من كتاب الاضحية جلد3صفحہ239)
ردالمختار اور فتاوی قاضی خان کی عبارت سے واضح ہوا ک اگر قربانی کرنے والے پر قربانی واجب ہو تو اس کی طرف سے قربانی ساقط ہوجایے گی
اور اسی دونوں کتابوں سے مفتی موصوف صاحب نے جزیہ لیا اور فرمایا کہ
قارئین کرام :-:
واجب ساقط نہ ہونے کے ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں
(1) دلیل اول :-
حضور صدر الشریعہ سے ایک سائل مولوی عبد العزیز نے 13 ذی الحجہ 1346ھ کو ایک سوال کیا کہ : جس پر قربانی واجب ہے وہ اگر اپنے لڑکے یا بی بی وغیرہ کے نام سے کرے تو اس کے ذمہ کا واجب ساقط ہوگا یا نہیں ؟ اور یہ قربانی صحیح ہوگی یا اس کی صحت معلق رہے گی اس پر کہ وہ خود اپنے نام سے بھی قربانی کرے یا ایام نحر گزرنے کے بعد قیمت صدقہ کرے ؟
اس سوال کے جواب میں حضور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی رضوی علیہ الرحمۃ والرضوان ارشاد فرماتے ہیں کہ: جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہیے لڑکے یا زوجہ کی طرف سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا اپنے نام سے کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے مضائقہ نہیں مگر واجب کو ادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے پھر بھی دوسروں کی طرف سے جو قربانی کی ، ہو گئی اور ایام نحر باقی ہوں تو یہ خود قربانی کرے گزرنے پر قیمت اضحیہ صدقہ کرے( فتاویٰ امجدیہ کتاب الاضحیۃ جلد سوم صفحہ ٣١٤ -٣١٥)
اس جواب پر غور کریں تو واضح ہوگا کہ جس پر قربانی واجب ہے وہ اگر اپنے نام سے نہ کرکے دوسروں کے نام سے کریگا تو واجب ساقط نہ ہوگا
(2) دلیل دوم : -
اس سوال کے جواب میں حضور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی رضوی علیہ الرحمۃ والرضوان ارشاد فرماتے ہیں کہ: جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہیے لڑکے یا زوجہ کی طرف سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا اپنے نام سے کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے مضائقہ نہیں مگر واجب کو ادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے پھر بھی دوسروں کی طرف سے جو قربانی کی ، ہو گئی اور ایام نحر باقی ہوں تو یہ خود قربانی کرے گزرنے پر قیمت اضحیہ صدقہ کرے( فتاویٰ امجدیہ کتاب الاضحیۃ جلد سوم صفحہ ٣١٤ -٣١٥)
اس جواب پر غور کریں تو واضح ہوگا کہ جس پر قربانی واجب ہے وہ اگر اپنے نام سے نہ کرکے دوسروں کے نام سے کریگا تو واجب ساقط نہ ہوگا
(2) دلیل دوم : -
حضور ملک العلما حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ظفر الدین قادری رضوی بہاری علیہ الرحمہ والرضوان سے ایک سوال ہوا کہ حدیث فعلی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے خصی ابلق سنگدار اپنی طرف سے قربانی کئے اور دوسرا خصی بصفت مذکورہ ساری امت کی طرف سے کئے ۔پس ہم لوگ امتان جط کو دو چار آدمی شریک ہوکر ناجائز ہونے کی کون سی قولی حدیث ودلیل ہے ؟ جواب مدلل تحریر فرمایا جائے
اس سوال کے جواب میں حضور ملک العلما ظفر الدین بہاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث قولی وفعلی سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے ۔بے شک اس پر عمل کرنا چاہیے ۔اور سنت جان کر عمل کرنے والوں کو بہت ثواب ملے گا ۔یعنی ہر شخص ایک خصی بصفات قربانی اپنی طرف سے کرے اور دوسرا خصی اپنے تمام بھائی مسلمانوں کی طرف سے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ حضور نے یہ تو نہیں کہا کہ چند اشخاص جن پر قربانی واجب ہے ۔ان سب کو فرمایا ہو کہ تم کو الگ الگ خصی کرنے کی ضرورت نہیں ۔ایک ہی میں شریک ہوجاؤ ۔ایک کار خیر میں لوگوں کو شریک کرلینا اور ایک پر سے سقوط واجب جاننا ۔ان دونوں میں آسمان وزمین کا فرق ہے” وھذا ظاھر لمن لہ عقل کامل وفھم سالم” ۔(فتاوی ملک العلماء ص 277)
حضور ملک العلما کے قول سے بھی ظاہر ہوگیا کہ واجب ساقط نہیں ہوگا کسی کے نام سے قربانی کرنا اور اپنے اوپر سے واجب کا ساقط جاننے میں آسمان و زمین کا فرق ہے پس ظاہر ہوا کہ اگر کوئی شخص جن پر قربانی واجب ہے ان کو کسی بزرگ یا اپنے والدین یا عزیز واقارب یا جمیع امۃ محمدیہ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے سے پہلے اپنی طرف سے قربانی کرنا ہوگا کیونکہ اس پر قربانی واجب ہے حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ ساری امت کی طرف سے قربانی کرنے کے بعد تمہیں اپنی قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(3) دلیل سوم :-
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین امجدی اوجھا گنج رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی صاحب نصاب اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے دوسرے کی طرف سے کردے اور اپنے نام سے نہ کرے تو سخت گنہگار ہوگا لہذا اگر دوسرے کی طرف سے بھی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک دوسری قربانی کا انتظام کرے ( انوار الحدیث ص 363)
اس سے صاف طور پر واضح ہوا کہ صاحب نصاب اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے اگر دوسرے کی طرف سے قربانی کردے اور اپنے نام سے نہ کرے تو سخت گنہگار ہوگا اس سے واضح ہوا کہ اس پر سے واجب ساقط نہیں ہوا اگر ہوتا تو پھر وہ سخت گنہگار کیوں ہوگا ؟ لہذا یہ بات کہ اب اس پر قربانی واجب نہیں ہے یہ شرعا غلط اور بے بنیاد ہے
(4) دلیل چہارم :-
علامہ یٰسین قصوری نقشبندی لاہوری شرح مسند امام اعظم کے” باب ماجاء فی اضحیۃ النبی ﷺ عن امتہ” کے تحت جو حدیث شریف ہے یعنی
“عن جابر بن عبداللہ ان النبی ﷺ ضح بکبشین اشعرین املحین احدھما عن نفسہ والاخر عن من شھد ان لاالہ الااللہ من امتہ” یعنی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے بالوں والے ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے ہر کلمہ گو کی طرف سے ذبح کیا۔
اس سوال کے جواب میں حضور ملک العلما ظفر الدین بہاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث قولی وفعلی سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے ۔بے شک اس پر عمل کرنا چاہیے ۔اور سنت جان کر عمل کرنے والوں کو بہت ثواب ملے گا ۔یعنی ہر شخص ایک خصی بصفات قربانی اپنی طرف سے کرے اور دوسرا خصی اپنے تمام بھائی مسلمانوں کی طرف سے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ حضور نے یہ تو نہیں کہا کہ چند اشخاص جن پر قربانی واجب ہے ۔ان سب کو فرمایا ہو کہ تم کو الگ الگ خصی کرنے کی ضرورت نہیں ۔ایک ہی میں شریک ہوجاؤ ۔ایک کار خیر میں لوگوں کو شریک کرلینا اور ایک پر سے سقوط واجب جاننا ۔ان دونوں میں آسمان وزمین کا فرق ہے” وھذا ظاھر لمن لہ عقل کامل وفھم سالم” ۔(فتاوی ملک العلماء ص 277)
حضور ملک العلما کے قول سے بھی ظاہر ہوگیا کہ واجب ساقط نہیں ہوگا کسی کے نام سے قربانی کرنا اور اپنے اوپر سے واجب کا ساقط جاننے میں آسمان و زمین کا فرق ہے پس ظاہر ہوا کہ اگر کوئی شخص جن پر قربانی واجب ہے ان کو کسی بزرگ یا اپنے والدین یا عزیز واقارب یا جمیع امۃ محمدیہ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے سے پہلے اپنی طرف سے قربانی کرنا ہوگا کیونکہ اس پر قربانی واجب ہے حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ ساری امت کی طرف سے قربانی کرنے کے بعد تمہیں اپنی قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(3) دلیل سوم :-
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین امجدی اوجھا گنج رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی صاحب نصاب اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے دوسرے کی طرف سے کردے اور اپنے نام سے نہ کرے تو سخت گنہگار ہوگا لہذا اگر دوسرے کی طرف سے بھی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک دوسری قربانی کا انتظام کرے ( انوار الحدیث ص 363)
اس سے صاف طور پر واضح ہوا کہ صاحب نصاب اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے اگر دوسرے کی طرف سے قربانی کردے اور اپنے نام سے نہ کرے تو سخت گنہگار ہوگا اس سے واضح ہوا کہ اس پر سے واجب ساقط نہیں ہوا اگر ہوتا تو پھر وہ سخت گنہگار کیوں ہوگا ؟ لہذا یہ بات کہ اب اس پر قربانی واجب نہیں ہے یہ شرعا غلط اور بے بنیاد ہے
(4) دلیل چہارم :-
علامہ یٰسین قصوری نقشبندی لاہوری شرح مسند امام اعظم کے” باب ماجاء فی اضحیۃ النبی ﷺ عن امتہ” کے تحت جو حدیث شریف ہے یعنی
“عن جابر بن عبداللہ ان النبی ﷺ ضح بکبشین اشعرین املحین احدھما عن نفسہ والاخر عن من شھد ان لاالہ الااللہ من امتہ” یعنی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے بالوں والے ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے ہر کلمہ گو کی طرف سے ذبح کیا۔
(شرح امام اعظم ص 775)
اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
(1) اگر کوئی شخص غیر کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کرے لیکن اپنی طرف سے قربانی علیحدہ ہونی چاہئے اور دوسرے کی جانب سے الگ ہونی چاہئے (شرح امام اعظم ص 775)
“عن حنش قال رایت علیا یضحی بکبشین فقلت لہ ماھذا فقال ان رسول اللہ ﷺ اوصانی ان اضحی عنہ فانا اضحی عنہ “
اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
(1) اگر کوئی شخص غیر کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کرے لیکن اپنی طرف سے قربانی علیحدہ ہونی چاہئے اور دوسرے کی جانب سے الگ ہونی چاہئے (شرح امام اعظم ص 775)
“عن حنش قال رایت علیا یضحی بکبشین فقلت لہ ماھذا فقال ان رسول اللہ ﷺ اوصانی ان اضحی عنہ فانا اضحی عنہ “
(ابوداؤد شریف)
یعنی حضرت حنش رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دو دنبے ذبح کرتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں حضور کی جانب سے قربانی کیا کروں تو میں دوسرا دنبہ حضور ﷺ کی جانب سے قربانی کررہا ہوں ۔
(ابوداؤد شریف)
اس سے بھی واضح ہوا کہ اس پر اپنے نام سے قربانی واجب ہے
(5) دلیل پنجم : -
شارح مسند امام اعظم علامہ یٰسین قصوری نقشبندی لاہوری تحریر فرماتے ہیں کہ
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر سال دو قربانیاں کیا کرتے تھے ۔کسی نے سوال کیا : حضور ! قربانی تو ایک واجب ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو کیوں کرتے ہیں؟ اس پر خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا : ایک قربانی میں اپنی طرف سے کرتا ہوں جبکہ دوسری حضور اقدس ﷺ کی طرف سے کرتا ہوں کیوں کہ آپ ﷺ نے مجھے آپ کی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی (شرح مسند امام اعظم ص 776)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ایک قربانی حضور ﷺ کی جانب سے کرتے تھے اور ایک اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے کہ آپ پر واجب تھا اس سے واضح ہوا کہ حضور ﷺ کی جانب سے قربانی کرنے کے بعد واجب ساقط نہیں ہوا اس لئے دوسری قربانی اپنی طرف سے کرتے تھے ۔
(6) دلیل ششم :-
شارح موطا امام محمد محقق اسلام حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ہمیشہ دو قربانیاں کیا کرتے تھے ۔ایک اپنی امت کی طرف سے اور دوسری اپنی اور اپنی آل کی طرف سے ۔اس سے معلوم ہوا کہ غیر کی طرف سے قربانی کرنا اچھا عمل ہے ۔لہذا فوت شدہ والدین دیگر عزیز واقارب اساتذہ اور شیوخ کی طرف سے قربانی کرنا اسی روایت کے پیش نظر بہت اچھا عمل ہے اور حضور ﷺ کی طرف سے قربانی دینا اور بھی افضل ہے ۔
(7) دلیل ہفتم :-
محقق اسلام علامہ مولانا محمد علی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 28 صفر 1418 ھ بمطابق 14 جولائی 1996ء فرماتے ہیں کہ
غیر کی طرف سے قربانی کرتے وقت اپنی طرف سے قربانی کرنا پہلے واجب ہے ۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اپنی واجب قربانی چھوڑ دی اور دوسرے کی طرف سے قربانی کرکے گناہ اپنے سر مول لے لیا ۔اس لئے اپنی طرف سے قربانی لازم ہے ۔اس کے ساتھ اگر توفیق ہو تو دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا بہت اچھا عمل ہے ( شرح موطا امام محمد جلد دوم ص 255)
اس سے بھی واضح ہوا کہ اس کو اپنے نام سے قربانی واجب ہے
(8) دلیل ہشتم : -
مصباح الفقہاء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عالمگیر صاحب قبلہ رضوی مصباحی امجدی مدظلہ العالی سے 23 ذی الحجہ 1422 ھ کو ایک سوال ہوا کہ
اگر مرحوم کے نام سے قربانی کرنا ہوتو کیا دو قربانی ساتھ میں کرنی ہوگی ایک اپنے نام سے دوسری مرحوم کے نام سے کسی کو دو قربانی کرنے کی حیثیت نہیں ہے تو کیا وہ قربانی مرحوم کے نام سے نہیں کرسکتا ۔کچھ علماء حضرات کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو مرحوم کے نام سے قربانی کرنی ہے تو آپ کو دو قربانی کرنی ہوگی ایک اپنے نام سے اور دوسری مرحوم کے نام سے ۔جب تو یہ قربانی جائز ہوگی ۔
بینوا و توجروا
اس کے جواب میں مصباح الفقہاء حضرت علامہ الحاج مفتی محمد عالمگیر رضوی مصباحی امجدی فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے وفات شدہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو وہ شخص اپنے مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرسکتا ہے مگر؛ اگر اس کو اپنے مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرنی ہے تو الگ سے اس کے لئے قربانی کا بکرا خریدے ۔قربانی کرے یا پھر بڑے جانور میں حصہ لے کر قربانی کرے ۔اگر جو قربانی اپنی طرف سے کرنی تھی وہ قربانی اپنے مرحوم شخص کی جانب سے کی وہ قربانی از روئے شرع اس کی طرف سے تو ہوگئی مگر اس نے اپنی طرف سے اس کو نہیں کی جس کے سبب وہ گنہگار ہوگا ۔ لہٰذا جو علماے اہل سنت نے فرمایا ہے وہ صحیح ہے اور اس کو اگر مرحومہ کی طرف سے قربانی کرنی ہے تو اس کی طرف سے قربانی کرنے لکے لئے الگ بکرا خریدے اور اپنی طرف سے قربانی کرنے کے لئے الگ بکرا خریدے ۔ورنہ اپنی طرف سے قربانی کردے ۔
جیسا کہ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہیے لڑکے یا زوجہ کی طرف سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا اپنے نام سے کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے مضائقہ نہیں مگر واجب کو ادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے پھر بھی دوسروں کی طرف سے جو قربانی کی، ہوگئی اور ایام نحر باقی ہوں تو قربانی کردے ۔
(فتاوی اسحاقیہ جلد دوم ص 576 ۔577 خیال رہے کہ فتاوی اسحاقیہ کی تصدیق و تائید ۔حضور مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ و حضرت شیر راجستھان قبلہ جودھپور راجستھان نے کی )
فتاوی اسحاقیہ کتاب الاضحیۃ میں تقریبا قربانی کے متعلق تیس سوالات ہیں ان میں بارہ دفعہ درمختار مع ردالمحتار سے جزیہ پیش کیا گیا ہے وہ بھی جلد پنجم کتاب الاضحیۃ سے تو کیا مفتی موصوف صاحب کو اس سوال کے جواب میں ردالمحتار کا وہ جزیہ نہیں ملا کہ فتاوی امجدیہ سے جزیہ نقل فرماریے ہیں یقینا مفتی موصوف صاحب کو وہ جزیہ معلوم ہوگا لیکن اس میں تامل ہونے کی وجہ سے نقل نہیں فرمائیں اور اس پر فتویٰ بھی نہیں ہونے کی وجہ سے اس جزیہ سے جواب نہیں دیئے
(9) دلیل نہم :-
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد فضل کریم صاحب حامدی رضوی رحمتہ اللہ علیہ مظفر پوری مفتی دارالافتاء ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ 6 ستمبر 1982 ء کو ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ
فتاوی ادارہ شرعیہ میں ہے کہ قربانی صاحب نصاب پر واجب ہے ۔زید جب گھر کا مالک و مختار اور صاحب نصاب ہے تو قربانی کرنا زید کے لئے واجب ضروری ہے ۔اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بعد اگر وہ چاہے تو گھر کے دوسرے افراد کی طرفہ سے کرسکتا ہے دوسروں کی طرف سے قربانی کرنا زید کے لئے ضروری نہیں ۔ہاں گھر کے دوسرے
افراد اگر بذات خود صاحب نصاب ہوں جیسے والد ۔والدہ ۔بیوی ۔بچے وغیرہ اگر ان کے پاس بقدر نصاب مال موجود ہو تو ان لوگوں پر بھی اپنی اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہوگا ۔مختصر یہ کہ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بعد مردہ یا زندہ جس کی طرف سے بھی شرعا تبرعا قربانی کرنا چایئے کرسکتا ہے۔اکثر مسائل شرعیہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اپنے نام سے قربانی نہ کرکے دوسرے رشتہ داروں کے نام قربانی کرلیتے ہیں ۔ایسا کرنا درست نہیں ۔ایسی صورت میں صاحب نصاب کے ذمہ قربانی رہ جاتی ہے
اگر صاحب نصاب ایک خصی یا ایک حصہ سے زیادہ قربانی کی وسعت و صلاحیت نہیں رکھتا تو صرف اپنی ہی نام سے قربانی کرے دوسروں کی طرف سے قربانی کرنا ضروری نہیں۔
یعنی حضرت حنش رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دو دنبے ذبح کرتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں حضور کی جانب سے قربانی کیا کروں تو میں دوسرا دنبہ حضور ﷺ کی جانب سے قربانی کررہا ہوں ۔
(ابوداؤد شریف)
اس سے بھی واضح ہوا کہ اس پر اپنے نام سے قربانی واجب ہے
(5) دلیل پنجم : -
شارح مسند امام اعظم علامہ یٰسین قصوری نقشبندی لاہوری تحریر فرماتے ہیں کہ
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر سال دو قربانیاں کیا کرتے تھے ۔کسی نے سوال کیا : حضور ! قربانی تو ایک واجب ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو کیوں کرتے ہیں؟ اس پر خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا : ایک قربانی میں اپنی طرف سے کرتا ہوں جبکہ دوسری حضور اقدس ﷺ کی طرف سے کرتا ہوں کیوں کہ آپ ﷺ نے مجھے آپ کی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی (شرح مسند امام اعظم ص 776)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ایک قربانی حضور ﷺ کی جانب سے کرتے تھے اور ایک اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے کہ آپ پر واجب تھا اس سے واضح ہوا کہ حضور ﷺ کی جانب سے قربانی کرنے کے بعد واجب ساقط نہیں ہوا اس لئے دوسری قربانی اپنی طرف سے کرتے تھے ۔
(6) دلیل ششم :-
شارح موطا امام محمد محقق اسلام حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ہمیشہ دو قربانیاں کیا کرتے تھے ۔ایک اپنی امت کی طرف سے اور دوسری اپنی اور اپنی آل کی طرف سے ۔اس سے معلوم ہوا کہ غیر کی طرف سے قربانی کرنا اچھا عمل ہے ۔لہذا فوت شدہ والدین دیگر عزیز واقارب اساتذہ اور شیوخ کی طرف سے قربانی کرنا اسی روایت کے پیش نظر بہت اچھا عمل ہے اور حضور ﷺ کی طرف سے قربانی دینا اور بھی افضل ہے ۔
(7) دلیل ہفتم :-
محقق اسلام علامہ مولانا محمد علی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 28 صفر 1418 ھ بمطابق 14 جولائی 1996ء فرماتے ہیں کہ
غیر کی طرف سے قربانی کرتے وقت اپنی طرف سے قربانی کرنا پہلے واجب ہے ۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اپنی واجب قربانی چھوڑ دی اور دوسرے کی طرف سے قربانی کرکے گناہ اپنے سر مول لے لیا ۔اس لئے اپنی طرف سے قربانی لازم ہے ۔اس کے ساتھ اگر توفیق ہو تو دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا بہت اچھا عمل ہے ( شرح موطا امام محمد جلد دوم ص 255)
اس سے بھی واضح ہوا کہ اس کو اپنے نام سے قربانی واجب ہے
(8) دلیل ہشتم : -
مصباح الفقہاء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عالمگیر صاحب قبلہ رضوی مصباحی امجدی مدظلہ العالی سے 23 ذی الحجہ 1422 ھ کو ایک سوال ہوا کہ
اگر مرحوم کے نام سے قربانی کرنا ہوتو کیا دو قربانی ساتھ میں کرنی ہوگی ایک اپنے نام سے دوسری مرحوم کے نام سے کسی کو دو قربانی کرنے کی حیثیت نہیں ہے تو کیا وہ قربانی مرحوم کے نام سے نہیں کرسکتا ۔کچھ علماء حضرات کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو مرحوم کے نام سے قربانی کرنی ہے تو آپ کو دو قربانی کرنی ہوگی ایک اپنے نام سے اور دوسری مرحوم کے نام سے ۔جب تو یہ قربانی جائز ہوگی ۔
بینوا و توجروا
اس کے جواب میں مصباح الفقہاء حضرت علامہ الحاج مفتی محمد عالمگیر رضوی مصباحی امجدی فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے وفات شدہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو وہ شخص اپنے مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرسکتا ہے مگر؛ اگر اس کو اپنے مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرنی ہے تو الگ سے اس کے لئے قربانی کا بکرا خریدے ۔قربانی کرے یا پھر بڑے جانور میں حصہ لے کر قربانی کرے ۔اگر جو قربانی اپنی طرف سے کرنی تھی وہ قربانی اپنے مرحوم شخص کی جانب سے کی وہ قربانی از روئے شرع اس کی طرف سے تو ہوگئی مگر اس نے اپنی طرف سے اس کو نہیں کی جس کے سبب وہ گنہگار ہوگا ۔ لہٰذا جو علماے اہل سنت نے فرمایا ہے وہ صحیح ہے اور اس کو اگر مرحومہ کی طرف سے قربانی کرنی ہے تو اس کی طرف سے قربانی کرنے لکے لئے الگ بکرا خریدے اور اپنی طرف سے قربانی کرنے کے لئے الگ بکرا خریدے ۔ورنہ اپنی طرف سے قربانی کردے ۔
جیسا کہ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہیے لڑکے یا زوجہ کی طرف سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا اپنے نام سے کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے مضائقہ نہیں مگر واجب کو ادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے پھر بھی دوسروں کی طرف سے جو قربانی کی، ہوگئی اور ایام نحر باقی ہوں تو قربانی کردے ۔
(فتاوی اسحاقیہ جلد دوم ص 576 ۔577 خیال رہے کہ فتاوی اسحاقیہ کی تصدیق و تائید ۔حضور مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ و حضرت شیر راجستھان قبلہ جودھپور راجستھان نے کی )
فتاوی اسحاقیہ کتاب الاضحیۃ میں تقریبا قربانی کے متعلق تیس سوالات ہیں ان میں بارہ دفعہ درمختار مع ردالمحتار سے جزیہ پیش کیا گیا ہے وہ بھی جلد پنجم کتاب الاضحیۃ سے تو کیا مفتی موصوف صاحب کو اس سوال کے جواب میں ردالمحتار کا وہ جزیہ نہیں ملا کہ فتاوی امجدیہ سے جزیہ نقل فرماریے ہیں یقینا مفتی موصوف صاحب کو وہ جزیہ معلوم ہوگا لیکن اس میں تامل ہونے کی وجہ سے نقل نہیں فرمائیں اور اس پر فتویٰ بھی نہیں ہونے کی وجہ سے اس جزیہ سے جواب نہیں دیئے
(9) دلیل نہم :-
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد فضل کریم صاحب حامدی رضوی رحمتہ اللہ علیہ مظفر پوری مفتی دارالافتاء ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ 6 ستمبر 1982 ء کو ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ
فتاوی ادارہ شرعیہ میں ہے کہ قربانی صاحب نصاب پر واجب ہے ۔زید جب گھر کا مالک و مختار اور صاحب نصاب ہے تو قربانی کرنا زید کے لئے واجب ضروری ہے ۔اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بعد اگر وہ چاہے تو گھر کے دوسرے افراد کی طرفہ سے کرسکتا ہے دوسروں کی طرف سے قربانی کرنا زید کے لئے ضروری نہیں ۔ہاں گھر کے دوسرے
افراد اگر بذات خود صاحب نصاب ہوں جیسے والد ۔والدہ ۔بیوی ۔بچے وغیرہ اگر ان کے پاس بقدر نصاب مال موجود ہو تو ان لوگوں پر بھی اپنی اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہوگا ۔مختصر یہ کہ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بعد مردہ یا زندہ جس کی طرف سے بھی شرعا تبرعا قربانی کرنا چایئے کرسکتا ہے۔اکثر مسائل شرعیہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اپنے نام سے قربانی نہ کرکے دوسرے رشتہ داروں کے نام قربانی کرلیتے ہیں ۔ایسا کرنا درست نہیں ۔ایسی صورت میں صاحب نصاب کے ذمہ قربانی رہ جاتی ہے
اگر صاحب نصاب ایک خصی یا ایک حصہ سے زیادہ قربانی کی وسعت و صلاحیت نہیں رکھتا تو صرف اپنی ہی نام سے قربانی کرے دوسروں کی طرف سے قربانی کرنا ضروری نہیں۔
(فتاوی ادارہ شرعیہ جلد دوم ص 408)
(دہم) دلیل دہم :-
حضور فقیہ ملت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جس طرح مالک نصاب پر ہر سال اپنی طرف سے زکاۃ وفطرہ دینا واجب ہوتا ہے ایسے ہی مالک نصاب پر اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہوتا ہے ۔تو جس طرح کہ دوسرے کی طرف سے زکاۃ و فطرہ ادا کرنے سے بری الذمہ نہ ہوگا ایسے ہی دوسرے کی طرف سے قربانی کرنے پر بھی واجب اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوگا (فتاوی فیض رسول جلد دوم ص 441)
اس سے بھی واضح ہوا کہ اگر کوئی مالک نصاب دوسرے کی طرف سے قربانی کردے تو بھی واجب اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوگا
کسی دوسرے شخص کی طرف سے قربانی کرے تو وہ قربانی صحیح ہے لیکن اسے اپنے نام کی بھی قربانی کرنی واجب ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگسی صاحب نصاب نے دوسرے زندہ یا مردہ کے نام سے قربانی کرے تو قربانی ہوجایے گی یعنی جس کے نام سے قربانی کیا اسے ثواب مل جائے گا اور اگر اپنی قربانی نہیں کیا تو اس فعل سے وہ گنہگار ہوگا لفظ گنہگار ہونا اس بات پر دلالت ہے کہ واقعی میں اس پر سے واجب ساقط نہیں ہوا اگر ہوتا تو وہ گنہگار کیسے کہلاتا ؟
(11)۔حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہں کہ عمر کا کہنا ہے کہ قربانی شوہر کے نام سے ہوچکی ہے ۔اپ میری عورت کے نام سے قربانی کردیجیے مگر حافظ صاحب کہتے ہیں کہ بغیر دو قربانی کئے ہوئے قربانی عورت کے نام سے نہیں ہوگی ؟
الجواب ؛ اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب قبلہ اعظمی رحمتہ اللہ علیہ 21 ذوالحجہ 1409 ھ کو فرماتے ہیں کہ
دیہاتوں میں عام طور سے گھر کا مالک شوہر ہوتا ہے جس پر قربانی واجب ہوتی ہے اور وہ بجائے اپنی طرف سے کرنے کو کہتا ہے پار سال (یعنی پچھلے سال ): ہمارے نام ہوچکی ہے امسال عورت کے نام سے کرادیں ۔اس پر اس کو یہ مسئلہ بتایا جاتا ہے کہ تم مالک ہو تو عورت کے نام سے قریبی کردینے سے تمہارا وجوب تمہارے سر سے اترے گا نہیں اس لئے تم بھی اپنے نام کرو (فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 174)
(12 ) دلیل پانزدہم : -
حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ بیٹا صاحب نصاب ہے تو اپنے نام پر قربانی نہ دے کر والد کے نام پر قربانی دینا کیسا ہے ،؟
الجواب : حضور بحر العلوم عبد المنان رحمتہ اللہ علیہ صورت مسئولہ میں فرماتے ہیں بیٹا واجب ترک کرنے کا گناہگار ہوگا باپ کے نام پر جو قربانی کی وہ باپ کی طرف سے صحیح ہوئی لیکن خود اپنے واجب کے ترک کا مجرم ہوا۔
(دہم) دلیل دہم :-
حضور فقیہ ملت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جس طرح مالک نصاب پر ہر سال اپنی طرف سے زکاۃ وفطرہ دینا واجب ہوتا ہے ایسے ہی مالک نصاب پر اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہوتا ہے ۔تو جس طرح کہ دوسرے کی طرف سے زکاۃ و فطرہ ادا کرنے سے بری الذمہ نہ ہوگا ایسے ہی دوسرے کی طرف سے قربانی کرنے پر بھی واجب اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوگا (فتاوی فیض رسول جلد دوم ص 441)
اس سے بھی واضح ہوا کہ اگر کوئی مالک نصاب دوسرے کی طرف سے قربانی کردے تو بھی واجب اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوگا
کسی دوسرے شخص کی طرف سے قربانی کرے تو وہ قربانی صحیح ہے لیکن اسے اپنے نام کی بھی قربانی کرنی واجب ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگسی صاحب نصاب نے دوسرے زندہ یا مردہ کے نام سے قربانی کرے تو قربانی ہوجایے گی یعنی جس کے نام سے قربانی کیا اسے ثواب مل جائے گا اور اگر اپنی قربانی نہیں کیا تو اس فعل سے وہ گنہگار ہوگا لفظ گنہگار ہونا اس بات پر دلالت ہے کہ واقعی میں اس پر سے واجب ساقط نہیں ہوا اگر ہوتا تو وہ گنہگار کیسے کہلاتا ؟
(11)۔حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہں کہ عمر کا کہنا ہے کہ قربانی شوہر کے نام سے ہوچکی ہے ۔اپ میری عورت کے نام سے قربانی کردیجیے مگر حافظ صاحب کہتے ہیں کہ بغیر دو قربانی کئے ہوئے قربانی عورت کے نام سے نہیں ہوگی ؟
الجواب ؛ اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب قبلہ اعظمی رحمتہ اللہ علیہ 21 ذوالحجہ 1409 ھ کو فرماتے ہیں کہ
دیہاتوں میں عام طور سے گھر کا مالک شوہر ہوتا ہے جس پر قربانی واجب ہوتی ہے اور وہ بجائے اپنی طرف سے کرنے کو کہتا ہے پار سال (یعنی پچھلے سال ): ہمارے نام ہوچکی ہے امسال عورت کے نام سے کرادیں ۔اس پر اس کو یہ مسئلہ بتایا جاتا ہے کہ تم مالک ہو تو عورت کے نام سے قریبی کردینے سے تمہارا وجوب تمہارے سر سے اترے گا نہیں اس لئے تم بھی اپنے نام کرو (فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 174)
(12 ) دلیل پانزدہم : -
حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ بیٹا صاحب نصاب ہے تو اپنے نام پر قربانی نہ دے کر والد کے نام پر قربانی دینا کیسا ہے ،؟
الجواب : حضور بحر العلوم عبد المنان رحمتہ اللہ علیہ صورت مسئولہ میں فرماتے ہیں بیٹا واجب ترک کرنے کا گناہگار ہوگا باپ کے نام پر جو قربانی کی وہ باپ کی طرف سے صحیح ہوئی لیکن خود اپنے واجب کے ترک کا مجرم ہوا۔
(فتاوی بحرالعلوم جلد پنجم ص 176.)
(13)حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ زید مالک نصاب ہے خصی کی قربانی ہمیشہ کرتا ہے اگر اس خصی کو دوسرے کے نام سے قربانی کرے اور اپنے نام نہ کرے تو جس کے نام قربانی کرے گا تو ہوگی یا نہیں ؟
اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم فرماتے ہیں کہ قربانی دوسرے کے نام ہوجایے گی لیکن نصاب کا مالک جس پر قربانی واجب تھی اگر اس نے اپنے نام کی قربانی نہ کی تو اس کا وجوب اس کے اوپر رہ جائے گا (فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 184)
(14) حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ زید مالک نصاب ہے خصی کی قربانی ہمیشہ کرتا ہے اگر اس خصی کو دوسرے کے نام سے قربانی کرے اور اپنے نام نہ کرے تو جس کے نام قربانی کرے گا تو ہوگی یا نہیں ؟
اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم فرماتے ہیں کہ قربانی دوسرے کے نام ہوجایے گی لیکن نصاب کا مالک جس پر قربانی واجب تھی اگر اس نے اپنے نام کی قربانی نہ کی تو اس کا وجوب اس کے اوپر رہ جائے گا۔
(13)حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ زید مالک نصاب ہے خصی کی قربانی ہمیشہ کرتا ہے اگر اس خصی کو دوسرے کے نام سے قربانی کرے اور اپنے نام نہ کرے تو جس کے نام قربانی کرے گا تو ہوگی یا نہیں ؟
اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم فرماتے ہیں کہ قربانی دوسرے کے نام ہوجایے گی لیکن نصاب کا مالک جس پر قربانی واجب تھی اگر اس نے اپنے نام کی قربانی نہ کی تو اس کا وجوب اس کے اوپر رہ جائے گا (فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 184)
(14) حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ زید مالک نصاب ہے خصی کی قربانی ہمیشہ کرتا ہے اگر اس خصی کو دوسرے کے نام سے قربانی کرے اور اپنے نام نہ کرے تو جس کے نام قربانی کرے گا تو ہوگی یا نہیں ؟
اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم فرماتے ہیں کہ قربانی دوسرے کے نام ہوجایے گی لیکن نصاب کا مالک جس پر قربانی واجب تھی اگر اس نے اپنے نام کی قربانی نہ کی تو اس کا وجوب اس کے اوپر رہ جائے گا۔
(فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 184)
اگر آپ دوسرے کے نام سے جو مالک نصاب نہ ہو ان کے نام سے نفل قربانی کرتے ہیں اور اپنا واجب ادا نہیں کرتے ہیں تو آپ ویل وخسارے میں گرفتار ہوں گے کہ جو قربانی واجب تھی وہ ادا نہیں کیا اور جو واجب نہ تھی اس کو کیا ۔خیال فرمایئے وہ آدمی کتنے گھاٹے میں ہے جو روانہ ہر نماز کے وقت فرض چھوڑ کر صرف نفل پڑھے چلا جائے ہماری ان تفصیل سے غالبا مسئلہ قربانی کی نوعیت آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ جو مالک نصاب ہوں تو ہر سال اپنے نام ہی کی قربانی کریں اور اپنی واجب ادا نہ کرکے کسی میت کی طرف سے کرنا کتنا نقصان کی بات ہے آپ اپنے نام سے واجب ادا نہ کرکے دوسرے کے نام سے قربانی کررہے ہیں
صورت مسئولہ میں دو چیز میں سے ایک چیز ضرور واقع ہوگی اولا جس پر قربانی واجب ہے اور وہ اپنی طرف سے قربانی نہ کرکے دوسرے کی طرف سے قربانی کیا تو اس صورت میں اس سے واجب ساقط ہوگیا جیسا کہ رد المحتار اور فتاوی قاضی خان سے واضح ہوا لیکن شرنبلانی کے نزدیک اس قول میں شک وشبہ ہے یعنی وہ اس سے متفق نہیں ہے اور دوسری صورت میں اس کا واجب ساقط نہیں ہوگا اس کو اسی ایام نحر میں دوسری قربانی کرنی ہوگی یا بعد قربانی ایک صدقہ کرنا ہوگا جیسا کہ فتاوی امجدیہ ۔انوار الحدیث ۔فتاوی ملک العلماء ۔شرح مسند امام اعظم ۔شرح موطا امام محمد ۔فتاوی اسحاقیہ فتاوی ادارہ شرعیہ اور فتاوی فیض رسول۔ فتاوی بحر العلوم سے معلوم ہوا
اپنی قربانی جو اس پر ہے پہلے اس کو کرے اور اگر نہیں کیا تو وہ گنہگار ہوگا یہی موقف رکھنے میں راہ سلامت ہے ۔
صاحب ردالمحتار کے بعد کے تمام مفتیان کرام اپنے جوابات میں انہی کتابوں سے بطور دلیل جزیہ پیش کرتے آرہے ہیں پھر اس جزیہ سے غافل کیسے ہوسکتے ہیں ؟
قارئین کرام
ان تمام مفتیان کرام کی تحریرات کو اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ غیر کی طرف سے قربانی کرتے وقت اپنی طرف سے قربانی کرنا پہلے واجب ہے اور فتاوی شامی کا جزیہ پر شرنبلانی کو تامل ہے اس لیے اس پر فتویٰ نہیں ہے علامہ سید امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ اور صاحب فتاوی قاضی خان علامہ فقیہ النفس حسن بن منصور اوزجندی متوفی 592,ھ فرماتے ہیں کہ واجب ساقط ہوگیا لیکن علامہ حسن بن عمار وفائی شرنبلانی متوفی 1069 ھ صاحب نورالایضاح اور مراقی الفلاح کو اس موقف میں تامل ہے یعنی شک و شبہ ہے اور جس کام میں شرعی اعتبار شک وشبہ ہو اسے ترک کرنا ہی مناسب ہے ۔اب اس صورت میں اس قول پر عمل کرنا احسن ہوگا جو اکثر علما کا موقف ہے ؛ اسی لئے
علماء فرماتے ہیں کہ فقہی احکام غالب حالات پر مبنی ہوتے ہیں لہذا نادر الوقوع پر نگاہ نہیں کی جاتی اس لئے ممانعت کا فیصلہ ہی کیا جائے گا ( فتاوی رضویہ جلد جدید 24 ص 76)
یعنی احکام فقہیہ میں غالب کا لحاظ ہوتا ہے
اور اکثر علما کا موقف یہ ہے کہ واجب ساقط نہیں ہوگا ۔ جیسا کہ آپ نے دلائل ملاحظہ فرمایا ۔
یہ علما ء حضرات بھی ردالمختار اور فتاوی قاضی خان کی عبارت ضرور پڑھیں ہوں گے اس کے باوجود بھی فرماتے ہیں کہ واجب ساقط نہیں ہوگا اور ترک قربانی کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور اسے ایام نحر میں قربانی کرنا واجب ہے اور اگر ایام قربانی گزر گئے اور قربانی کا جانور خریدا تھا تو اسی کو صدقہ کردے اور اگر نہیں خریدا تھا یا نہیں رکھا تھا تو اس صورت میں ایک خصی کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے ورنہ گنہگار ہوگا اور ہمارے علاقہ میں بھی علما اور عوام کا یہی طریقہ ہے کہ وہ دو قربانی کرتے ہیں ایک اپنی طرف سے جو اس پر واجب ہے اور دوسری حضور ﷺ کی جانب سے یا والدین یا عزیز واقارب یا اولیا اللہ خصوصا غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے ۔لہذا اس تعامل کا بھی خیال رکھنا ہوگا اور اس میں کوئی شرعی خرابی بھی نہیں ہے بلکہ علمائے اہل سنت کے اقوال پر عمل ہوگا اور احتیاطی پہلو بھی ہوگا اس لئے اس کے خلاف فتوی دینا اپنی شہرت چاہنا ہوا جو شرعاً ناپسند ہے شرع مطہر نے عرف وعادت کا بڑا اعتبار فرمایا ہے۔
امام اجل قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: “خروجہ عن العادۃ شھرۃ و مکروہ” یعنی جس جگہ جو طریقہ لوگوں میں رائج ہے اس کی مخالفت کرنا اپنے آپ کو مشہور بنانا ہے جوکہ شرعا مکروہ و ناپسند ہے۔
فتاوی شامی کے بعد فتاوی رضویہ۔ فتاوی امجدیہ ۔فتاوی ملک العلماء ۔فتاوی فیض رسول ۔انوار الحدیث ۔فتاوی اسحاقیہ ۔فتاوی ادارہ شرعیہ پٹنہ ۔شرح مسند امام اعظم ۔شرح موطا امام محمدم فتاوی بحر العلوم وغیرہا کتب معتمدہ ہیں کہ اس دور میں ہندوستان کے مفتیان کرام کا ان کتابوں پر کافی اعتماد ہے اور مفتیان کرام فتاوی شامی کے بعد جو جوابات سے سندیں لاتے ہیں خود حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ کے کتاب الاضحیۃ میں تنویر الابصار درمختار اور ردالمحتار سے بطور دلیل تقریبا تیرہ (13) جزیات نقل فرماتے ہیں اس ظاہر ہوگیا کہ ہمارے ان تمام مفتیان کرام ردالمحتار کتاب الاضحیۃ کی جزیات سے غافل نہیں تھے اس کے باوجود بھی اس جزیہ کے برعکس فتاوی دیتے تھے اور دے رہے ہیں یہی قابل غور بات ہے
ان تمام فتاوی کی کتابوں کے فقہی عبارات و تصریحات سے روز روشن کی طرح عیاں اور ثابت ہوگیا کہ جس پر قربانی واجب ہے اس کو خور اپنے نام سے قربانی کرنی چایئے اور اپنے نام سے نہ کر کے دوسروں کی طرف سے خواہ وہ زندہ ہو یا میت ہو کریگا تو اس کا اپنا واجب ساقط نہ ہوگا اور وہ سخت گنہگار ہوگا اس لئے پہلے اپنے نام سے کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے مضائقہ نہیں
لہذا ان تمام فقہائے کرام کے اقوال کے خلاف فتوی نہیں دینا چاہئے
ایک اعتراض اور اس کا جواب:-
حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے جواب میں کسی کتاب سے کوئی جزیہ بطور دلیل نقل نہیں فرماتے ہیں اور اصول ہے کہ بغیر دلیل کے کوئی جواب قابل قبول نہیں تو پھر فتاوی امجدیہ کے اس فتوی ہر عمل کرنا کیوں کر جائز ہوگا ؟
الجواب : حضور صدر الشریعہ کا وہ مقام ہے جن کا فتوی بغیر دلیل کے بھی قبول کیا جاسکتا ہے اگر ان کے مقام فقہی سمجھا ہے تو (1) سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی کی یہ بات سنیں کہ اعلی حضرت قدس سرہ العزیز آپ ہی کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ
اپ یہاں کے موجودین میں تفقہ جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی صاحب میں زیادہ پائے گا
(2) بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان صاحب اعظمی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت صدر الشریعہ قدس سرہ العزیز کا مقام فقہ میں کتنا بلند تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ایک شاگرد رشید سید العلماء مولانا سید غلام جیلانی صاحب میرٹھی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
:آپ کو فقہ کے جمیع ابواب کے تمام جزیات ان کی تفصیل دلائل کے ساتھ مستحضر تھے
(3 ) محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیۃ مبارک پور فرماتے ہیں کہ اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد قضا وافتاء میں یکتا ہے روز گار شمار کئے جاتے یہی وجہ ہے کہ اعلی حضرت عظیم البرکت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد بلانکیر حضرت صدر الشریعہ ہی خدمت آفتا کے امام مانے جاتے تھے اس دور کے اجلہ علماء بھی آپ ہی کی طرف رجوع فرماتے
(4) آپ ہی کی کتاب بہار شریعت ہے کسی نے کیا خوب فرمایا کہ جس کسی نے بھی فقہ حنفی کی مشہور کتاب بہار شریعت کا مطالعہ کیا ہوگا اس کے لئے فتاوی امجدیہ کی جامعیت اور اس کی معنوی خوبیوں اور علمی محاسن کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے فتاوی امجدیہ دراصل مسائل واحکام کے اعتبار سے ایک دوسری بہار شریعت ہے اور دلائل وعلل کی وجہ کی حیثیت سے فتاوی رضویہ کا نچوڑ ہے
(5) اور آج بھی اجلہ علماء بہار شریعت اور فتاوی امجدیہ سے بطور دلیل جزیہ لکھتے ہیں سندیں لاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کے فتاوی ہر عمل جائز ہے اگرچہ بغیر جزیہ کے ہو کیونکہ آپ کو فقہ کے جمیع ابواب کے تمام جزیات ان کی تفصیل دلائل کے ساتھ مستحضر تھے
(6) حضرت صدر الشریعہ قدس سرہ نے اس مسئلہ کو حدیث سے ثابت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے ذبح کیا
(7) پھر حضرت اس حدیث شریف سے دلیل لیتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم دو قربانیاں کیا کرتے تھے ۔کسی نے سوال کیا: حضور قربانی تو ایک واجب ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو کیوں کرتے ہیں ؟ اس پر آپ نے جواب دیا ؛ ایک قربانی میں اپنی طرف سے کرتا ہوں جبکہ دوسری حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کرتا ہوں کیونکہ آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آپ کی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی
،پڑھا آپ نے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کی طرف سے قربانی کرتے تھے پھر اپنی طرف سے بھی کرتے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ایک قربانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے مال سے قربانی کرتے تھے اس کے باوجود بھی اپنے نام سے بھی کرتے تھے اس سے واضح ہوا کہ دوسروں کی طرف سے قربانی کرنے کے بعد اپنا واجب ساقط نہ ہوتا ہے اگر واجب کو ادا نہ کرے گا تو وہ گنہگار ہوگا
ایک مختصر تاریخی دلائل :
(1) غالبا سب سے پہلے اس مسئلہ کو حضرت ابوالعباس بن احمد بن محمد الناطفی متوفی 446 ھ کو کتاب الاجناس میں لاتے ہیں
(2) پھر اس جزیہ کو امام فخرالدین بن منصور اوزجندی متوفی 592 ھ میں فتاوی قاضی خان میں لاتے ہیں
(3) ان دونوں کے درمیان کی کتابوں میں یعنی 446 ھ کے بعد سے 592 ج تک کی کتاب میں یہ جزیہ نقل نہیں ہے
(4) پھر علامہ شرنبلانی متوفی جن کی پیدائش 994 ھ میں ہوئی اور وفات 1069 ھ میں ہوئی آپ بہت بڑے محقق تھے نورالایضاح اور مراقی الفلاح آپ ہی کی تصنیف ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں اس جزیہ پر شک وشبہ ظاہر کیا گیا یعنی قبول نہیں کیا
(5) پھر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ جن کی تاریخ ولادت 1198 ھ ہے اور تاریخ وفات 1252 ھ ہے آپ نے ان دونوں جزیہ کو لاتے ہیں
(6) اس کے بعد فتاوی رضویہ میں اس کا ذکر نہیں کیونکہ حضور مجدداعظم قدس سرہ سے اس طرح کا سوال ہی نہیں کیا گیا
(7) اس کے بعد فتاوی امجدیہ میں یہ مسئلہ صراحتاً کے ساتھ ذکر ہے خیال رہے کہ
حضور صدر الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ 1296 ھ بمطابق 1878 ء میں پیدا ہوئے اور دو ذیقعدہ 1367 ھ بمطابق 6 ستمبر 1948 ء رات کو بارہ بجکر 26 منٹ پر عالم جاددانی کی طرف تشریف لے گئے اس کتاب سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ صراحتا واجب ساقط نہ ہونے کی دلیل ہے
(8) پھر فتاوی ملک العلماء میں بھی یہی ذکر ہے ایک اپنی طرف سے کرے دوسری دوسرے کی طرف سے کرے اس کتاب سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(9) فتاوی فیض رسول میں یہ مسئلہ صراحتاً کے ساتھ ذکر ہے اور خیال رہے کہ
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا ع مفتی جلال الدین احمد امجدی آپ کی ولادت 1352/ ھ1933ء میں اوجھاگنج ضلع بستی میں ہوئی اور وفات 1423 ھ بمطابق 2001ء میں ہوئی گویا کہ یہ کتاب اسی دور کی ہے اس کتاب سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(10) انوار الحدیث سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(11) پھر شرح مسند امام اعظم میں جو تقریظ لکھا ہوا ہے اس میں 5 اکتوبر 2013 ء ہے گویا کہ شرح مسند امام اعظم 2013 ء کی تصنیف ہے اس میں بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(12) پھر شرح امام محمد اس کے مصنف محقق اسلام علامہ مولانا محمد علی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 28 صفر 1418 ھ بمطابق 14 جولائی 1996 ء ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب 1996 ء کے پہلی کی ہے اس میں بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(13) پھر فتاوی شرعیہ پٹنہ اس کے مصنف حضرت علامہ مولانا مفتی محمد فضل کریم صاحب حامدی رضوی رحمتہ اللہ علیہ مظفر پوری مفتی دارالافتاء ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ 6 ستمبر 1982 ء کو ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں اس میں بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(14) فتاوی اسحاقیہ میں
مصباح الفقہاء حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی محمد عالمگیر صاحب قبلہ رضوی فتاوی سے 23 ذی الحجہ 1422 ھ میں جو فتاوی دیا اس سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(15) فتاوی بحر العلوم میں جو فتاوی ہیں وہ 21 صفر المظفر 1423 ھ کا ہے اس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ جو اپنے نام سے قربانی نہ کرکے دوسروں کے نام سے کرتا ہے تو وہ ویل وخسارے میں گرفتار ہوں گے کہ جو قربانی واجب تھی وہ ادا نہیں کیا اور جو واجب نہیں تھی اس کو کیا خیال فرمائیے وہ آدمی کتنے گھاٹے میں ہے جو روانہ ہر نماز کے وقت فرض چھوڑ کر صرف نفل پڑھے چلا جائے اس تحریر سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
الحاصل کہ علامہ شامی متوفی 1252 ھ کے بعد اب تک یعنی 1446ھ تک ان گیارہ مفتیان کرام نے ردالمحتار اور فتاوی قاضی خان کی اس دلیل کو قبول نہیں کیا اور نہ اس پر فتویٰ دیا جبکہ ان سب کے سامنے یہ جزیہ تھا یعنی ردالمحتار 1252 ھ سے لے کر اب تک یعنی 1446 ھ تک 194 ایک سو چورانویں سال ہوگئے مگر کسی کتاب سے واجب ساقط ہونے کی دلیل حاصل نہیں ہوئی ہے تعجب ہے کہ حضرت علامہ مولانا مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی صاحب مدظلہ العالی کی نگاہ ان تمام مشہور و معروف کتابوں پر کیوں نہیں گئی ؟
ان تمام کتابوں سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ جو مالک نصاب ہوگا اسی کے نام قربانی واجب ہوگی اگر وہ شخص ہر سال مالک نصاب ہے تو اس پر ہر سال قربانی واجب ہوگی ایسا نہیں کہ ایک سال قربانی کردیا تو دوسرے سال وہ فوت شدہ بزرگوں یا زندہ کی طرف سے اپنے ہی مال سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا اور اسی ہر فتویٰ ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
اگر آپ دوسرے کے نام سے جو مالک نصاب نہ ہو ان کے نام سے نفل قربانی کرتے ہیں اور اپنا واجب ادا نہیں کرتے ہیں تو آپ ویل وخسارے میں گرفتار ہوں گے کہ جو قربانی واجب تھی وہ ادا نہیں کیا اور جو واجب نہ تھی اس کو کیا ۔خیال فرمایئے وہ آدمی کتنے گھاٹے میں ہے جو روانہ ہر نماز کے وقت فرض چھوڑ کر صرف نفل پڑھے چلا جائے ہماری ان تفصیل سے غالبا مسئلہ قربانی کی نوعیت آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ جو مالک نصاب ہوں تو ہر سال اپنے نام ہی کی قربانی کریں اور اپنی واجب ادا نہ کرکے کسی میت کی طرف سے کرنا کتنا نقصان کی بات ہے آپ اپنے نام سے واجب ادا نہ کرکے دوسرے کے نام سے قربانی کررہے ہیں
صورت مسئولہ میں دو چیز میں سے ایک چیز ضرور واقع ہوگی اولا جس پر قربانی واجب ہے اور وہ اپنی طرف سے قربانی نہ کرکے دوسرے کی طرف سے قربانی کیا تو اس صورت میں اس سے واجب ساقط ہوگیا جیسا کہ رد المحتار اور فتاوی قاضی خان سے واضح ہوا لیکن شرنبلانی کے نزدیک اس قول میں شک وشبہ ہے یعنی وہ اس سے متفق نہیں ہے اور دوسری صورت میں اس کا واجب ساقط نہیں ہوگا اس کو اسی ایام نحر میں دوسری قربانی کرنی ہوگی یا بعد قربانی ایک صدقہ کرنا ہوگا جیسا کہ فتاوی امجدیہ ۔انوار الحدیث ۔فتاوی ملک العلماء ۔شرح مسند امام اعظم ۔شرح موطا امام محمد ۔فتاوی اسحاقیہ فتاوی ادارہ شرعیہ اور فتاوی فیض رسول۔ فتاوی بحر العلوم سے معلوم ہوا
اپنی قربانی جو اس پر ہے پہلے اس کو کرے اور اگر نہیں کیا تو وہ گنہگار ہوگا یہی موقف رکھنے میں راہ سلامت ہے ۔
صاحب ردالمحتار کے بعد کے تمام مفتیان کرام اپنے جوابات میں انہی کتابوں سے بطور دلیل جزیہ پیش کرتے آرہے ہیں پھر اس جزیہ سے غافل کیسے ہوسکتے ہیں ؟
قارئین کرام
ان تمام مفتیان کرام کی تحریرات کو اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ غیر کی طرف سے قربانی کرتے وقت اپنی طرف سے قربانی کرنا پہلے واجب ہے اور فتاوی شامی کا جزیہ پر شرنبلانی کو تامل ہے اس لیے اس پر فتویٰ نہیں ہے علامہ سید امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ اور صاحب فتاوی قاضی خان علامہ فقیہ النفس حسن بن منصور اوزجندی متوفی 592,ھ فرماتے ہیں کہ واجب ساقط ہوگیا لیکن علامہ حسن بن عمار وفائی شرنبلانی متوفی 1069 ھ صاحب نورالایضاح اور مراقی الفلاح کو اس موقف میں تامل ہے یعنی شک و شبہ ہے اور جس کام میں شرعی اعتبار شک وشبہ ہو اسے ترک کرنا ہی مناسب ہے ۔اب اس صورت میں اس قول پر عمل کرنا احسن ہوگا جو اکثر علما کا موقف ہے ؛ اسی لئے
علماء فرماتے ہیں کہ فقہی احکام غالب حالات پر مبنی ہوتے ہیں لہذا نادر الوقوع پر نگاہ نہیں کی جاتی اس لئے ممانعت کا فیصلہ ہی کیا جائے گا ( فتاوی رضویہ جلد جدید 24 ص 76)
یعنی احکام فقہیہ میں غالب کا لحاظ ہوتا ہے
اور اکثر علما کا موقف یہ ہے کہ واجب ساقط نہیں ہوگا ۔ جیسا کہ آپ نے دلائل ملاحظہ فرمایا ۔
یہ علما ء حضرات بھی ردالمختار اور فتاوی قاضی خان کی عبارت ضرور پڑھیں ہوں گے اس کے باوجود بھی فرماتے ہیں کہ واجب ساقط نہیں ہوگا اور ترک قربانی کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور اسے ایام نحر میں قربانی کرنا واجب ہے اور اگر ایام قربانی گزر گئے اور قربانی کا جانور خریدا تھا تو اسی کو صدقہ کردے اور اگر نہیں خریدا تھا یا نہیں رکھا تھا تو اس صورت میں ایک خصی کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے ورنہ گنہگار ہوگا اور ہمارے علاقہ میں بھی علما اور عوام کا یہی طریقہ ہے کہ وہ دو قربانی کرتے ہیں ایک اپنی طرف سے جو اس پر واجب ہے اور دوسری حضور ﷺ کی جانب سے یا والدین یا عزیز واقارب یا اولیا اللہ خصوصا غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے ۔لہذا اس تعامل کا بھی خیال رکھنا ہوگا اور اس میں کوئی شرعی خرابی بھی نہیں ہے بلکہ علمائے اہل سنت کے اقوال پر عمل ہوگا اور احتیاطی پہلو بھی ہوگا اس لئے اس کے خلاف فتوی دینا اپنی شہرت چاہنا ہوا جو شرعاً ناپسند ہے شرع مطہر نے عرف وعادت کا بڑا اعتبار فرمایا ہے۔
امام اجل قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: “خروجہ عن العادۃ شھرۃ و مکروہ” یعنی جس جگہ جو طریقہ لوگوں میں رائج ہے اس کی مخالفت کرنا اپنے آپ کو مشہور بنانا ہے جوکہ شرعا مکروہ و ناپسند ہے۔
فتاوی شامی کے بعد فتاوی رضویہ۔ فتاوی امجدیہ ۔فتاوی ملک العلماء ۔فتاوی فیض رسول ۔انوار الحدیث ۔فتاوی اسحاقیہ ۔فتاوی ادارہ شرعیہ پٹنہ ۔شرح مسند امام اعظم ۔شرح موطا امام محمدم فتاوی بحر العلوم وغیرہا کتب معتمدہ ہیں کہ اس دور میں ہندوستان کے مفتیان کرام کا ان کتابوں پر کافی اعتماد ہے اور مفتیان کرام فتاوی شامی کے بعد جو جوابات سے سندیں لاتے ہیں خود حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ کے کتاب الاضحیۃ میں تنویر الابصار درمختار اور ردالمحتار سے بطور دلیل تقریبا تیرہ (13) جزیات نقل فرماتے ہیں اس ظاہر ہوگیا کہ ہمارے ان تمام مفتیان کرام ردالمحتار کتاب الاضحیۃ کی جزیات سے غافل نہیں تھے اس کے باوجود بھی اس جزیہ کے برعکس فتاوی دیتے تھے اور دے رہے ہیں یہی قابل غور بات ہے
ان تمام فتاوی کی کتابوں کے فقہی عبارات و تصریحات سے روز روشن کی طرح عیاں اور ثابت ہوگیا کہ جس پر قربانی واجب ہے اس کو خور اپنے نام سے قربانی کرنی چایئے اور اپنے نام سے نہ کر کے دوسروں کی طرف سے خواہ وہ زندہ ہو یا میت ہو کریگا تو اس کا اپنا واجب ساقط نہ ہوگا اور وہ سخت گنہگار ہوگا اس لئے پہلے اپنے نام سے کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے مضائقہ نہیں
لہذا ان تمام فقہائے کرام کے اقوال کے خلاف فتوی نہیں دینا چاہئے
ایک اعتراض اور اس کا جواب:-
حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے جواب میں کسی کتاب سے کوئی جزیہ بطور دلیل نقل نہیں فرماتے ہیں اور اصول ہے کہ بغیر دلیل کے کوئی جواب قابل قبول نہیں تو پھر فتاوی امجدیہ کے اس فتوی ہر عمل کرنا کیوں کر جائز ہوگا ؟
الجواب : حضور صدر الشریعہ کا وہ مقام ہے جن کا فتوی بغیر دلیل کے بھی قبول کیا جاسکتا ہے اگر ان کے مقام فقہی سمجھا ہے تو (1) سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی کی یہ بات سنیں کہ اعلی حضرت قدس سرہ العزیز آپ ہی کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ
اپ یہاں کے موجودین میں تفقہ جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی صاحب میں زیادہ پائے گا
(2) بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان صاحب اعظمی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت صدر الشریعہ قدس سرہ العزیز کا مقام فقہ میں کتنا بلند تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ایک شاگرد رشید سید العلماء مولانا سید غلام جیلانی صاحب میرٹھی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
:آپ کو فقہ کے جمیع ابواب کے تمام جزیات ان کی تفصیل دلائل کے ساتھ مستحضر تھے
(3 ) محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیۃ مبارک پور فرماتے ہیں کہ اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد قضا وافتاء میں یکتا ہے روز گار شمار کئے جاتے یہی وجہ ہے کہ اعلی حضرت عظیم البرکت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد بلانکیر حضرت صدر الشریعہ ہی خدمت آفتا کے امام مانے جاتے تھے اس دور کے اجلہ علماء بھی آپ ہی کی طرف رجوع فرماتے
(4) آپ ہی کی کتاب بہار شریعت ہے کسی نے کیا خوب فرمایا کہ جس کسی نے بھی فقہ حنفی کی مشہور کتاب بہار شریعت کا مطالعہ کیا ہوگا اس کے لئے فتاوی امجدیہ کی جامعیت اور اس کی معنوی خوبیوں اور علمی محاسن کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے فتاوی امجدیہ دراصل مسائل واحکام کے اعتبار سے ایک دوسری بہار شریعت ہے اور دلائل وعلل کی وجہ کی حیثیت سے فتاوی رضویہ کا نچوڑ ہے
(5) اور آج بھی اجلہ علماء بہار شریعت اور فتاوی امجدیہ سے بطور دلیل جزیہ لکھتے ہیں سندیں لاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کے فتاوی ہر عمل جائز ہے اگرچہ بغیر جزیہ کے ہو کیونکہ آپ کو فقہ کے جمیع ابواب کے تمام جزیات ان کی تفصیل دلائل کے ساتھ مستحضر تھے
(6) حضرت صدر الشریعہ قدس سرہ نے اس مسئلہ کو حدیث سے ثابت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے ذبح کیا
(7) پھر حضرت اس حدیث شریف سے دلیل لیتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم دو قربانیاں کیا کرتے تھے ۔کسی نے سوال کیا: حضور قربانی تو ایک واجب ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو کیوں کرتے ہیں ؟ اس پر آپ نے جواب دیا ؛ ایک قربانی میں اپنی طرف سے کرتا ہوں جبکہ دوسری حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کرتا ہوں کیونکہ آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آپ کی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی
،پڑھا آپ نے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کی طرف سے قربانی کرتے تھے پھر اپنی طرف سے بھی کرتے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ایک قربانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے مال سے قربانی کرتے تھے اس کے باوجود بھی اپنے نام سے بھی کرتے تھے اس سے واضح ہوا کہ دوسروں کی طرف سے قربانی کرنے کے بعد اپنا واجب ساقط نہ ہوتا ہے اگر واجب کو ادا نہ کرے گا تو وہ گنہگار ہوگا
ایک مختصر تاریخی دلائل :
(1) غالبا سب سے پہلے اس مسئلہ کو حضرت ابوالعباس بن احمد بن محمد الناطفی متوفی 446 ھ کو کتاب الاجناس میں لاتے ہیں
(2) پھر اس جزیہ کو امام فخرالدین بن منصور اوزجندی متوفی 592 ھ میں فتاوی قاضی خان میں لاتے ہیں
(3) ان دونوں کے درمیان کی کتابوں میں یعنی 446 ھ کے بعد سے 592 ج تک کی کتاب میں یہ جزیہ نقل نہیں ہے
(4) پھر علامہ شرنبلانی متوفی جن کی پیدائش 994 ھ میں ہوئی اور وفات 1069 ھ میں ہوئی آپ بہت بڑے محقق تھے نورالایضاح اور مراقی الفلاح آپ ہی کی تصنیف ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں اس جزیہ پر شک وشبہ ظاہر کیا گیا یعنی قبول نہیں کیا
(5) پھر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ جن کی تاریخ ولادت 1198 ھ ہے اور تاریخ وفات 1252 ھ ہے آپ نے ان دونوں جزیہ کو لاتے ہیں
(6) اس کے بعد فتاوی رضویہ میں اس کا ذکر نہیں کیونکہ حضور مجدداعظم قدس سرہ سے اس طرح کا سوال ہی نہیں کیا گیا
(7) اس کے بعد فتاوی امجدیہ میں یہ مسئلہ صراحتاً کے ساتھ ذکر ہے خیال رہے کہ
حضور صدر الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ 1296 ھ بمطابق 1878 ء میں پیدا ہوئے اور دو ذیقعدہ 1367 ھ بمطابق 6 ستمبر 1948 ء رات کو بارہ بجکر 26 منٹ پر عالم جاددانی کی طرف تشریف لے گئے اس کتاب سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ صراحتا واجب ساقط نہ ہونے کی دلیل ہے
(8) پھر فتاوی ملک العلماء میں بھی یہی ذکر ہے ایک اپنی طرف سے کرے دوسری دوسرے کی طرف سے کرے اس کتاب سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(9) فتاوی فیض رسول میں یہ مسئلہ صراحتاً کے ساتھ ذکر ہے اور خیال رہے کہ
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا ع مفتی جلال الدین احمد امجدی آپ کی ولادت 1352/ ھ1933ء میں اوجھاگنج ضلع بستی میں ہوئی اور وفات 1423 ھ بمطابق 2001ء میں ہوئی گویا کہ یہ کتاب اسی دور کی ہے اس کتاب سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(10) انوار الحدیث سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(11) پھر شرح مسند امام اعظم میں جو تقریظ لکھا ہوا ہے اس میں 5 اکتوبر 2013 ء ہے گویا کہ شرح مسند امام اعظم 2013 ء کی تصنیف ہے اس میں بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(12) پھر شرح امام محمد اس کے مصنف محقق اسلام علامہ مولانا محمد علی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 28 صفر 1418 ھ بمطابق 14 جولائی 1996 ء ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب 1996 ء کے پہلی کی ہے اس میں بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(13) پھر فتاوی شرعیہ پٹنہ اس کے مصنف حضرت علامہ مولانا مفتی محمد فضل کریم صاحب حامدی رضوی رحمتہ اللہ علیہ مظفر پوری مفتی دارالافتاء ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ 6 ستمبر 1982 ء کو ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں اس میں بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(14) فتاوی اسحاقیہ میں
مصباح الفقہاء حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی محمد عالمگیر صاحب قبلہ رضوی فتاوی سے 23 ذی الحجہ 1422 ھ میں جو فتاوی دیا اس سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
(15) فتاوی بحر العلوم میں جو فتاوی ہیں وہ 21 صفر المظفر 1423 ھ کا ہے اس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ جو اپنے نام سے قربانی نہ کرکے دوسروں کے نام سے کرتا ہے تو وہ ویل وخسارے میں گرفتار ہوں گے کہ جو قربانی واجب تھی وہ ادا نہیں کیا اور جو واجب نہیں تھی اس کو کیا خیال فرمائیے وہ آدمی کتنے گھاٹے میں ہے جو روانہ ہر نماز کے وقت فرض چھوڑ کر صرف نفل پڑھے چلا جائے اس تحریر سے بھی واجب ساقط ہونے کی دلیل نہیں ہے
الحاصل کہ علامہ شامی متوفی 1252 ھ کے بعد اب تک یعنی 1446ھ تک ان گیارہ مفتیان کرام نے ردالمحتار اور فتاوی قاضی خان کی اس دلیل کو قبول نہیں کیا اور نہ اس پر فتویٰ دیا جبکہ ان سب کے سامنے یہ جزیہ تھا یعنی ردالمحتار 1252 ھ سے لے کر اب تک یعنی 1446 ھ تک 194 ایک سو چورانویں سال ہوگئے مگر کسی کتاب سے واجب ساقط ہونے کی دلیل حاصل نہیں ہوئی ہے تعجب ہے کہ حضرت علامہ مولانا مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی صاحب مدظلہ العالی کی نگاہ ان تمام مشہور و معروف کتابوں پر کیوں نہیں گئی ؟
ان تمام کتابوں سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ جو مالک نصاب ہوگا اسی کے نام قربانی واجب ہوگی اگر وہ شخص ہر سال مالک نصاب ہے تو اس پر ہر سال قربانی واجب ہوگی ایسا نہیں کہ ایک سال قربانی کردیا تو دوسرے سال وہ فوت شدہ بزرگوں یا زندہ کی طرف سے اپنے ہی مال سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا اور اسی ہر فتویٰ ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
8 ربیع الاخر 1446
12 اکتوبر 2024 دن سنیچر
آخری تیسری قسط کا انتظار کریں
8 ربیع الاخر 1446
12 اکتوبر 2024 دن سنیچر
آخری تیسری قسط کا انتظار کریں