آخری قسط سوم
ایک اعتراض اور اس کا جواب۔
جو مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے قربانی نہیں ہوئی بلکہ ذابح کی قربانی ہوئی اور ذابح سے واجب ساقط ہوگیا ان کے دلائل یہ بھی ہیں کہ
قربانی صحیح ہونے کے لئے دو باتیں ضروری ہے
(1) ایک یہ کہ وہ جانور کا مالک ہو
(2) دوسری یہ کہ اس کی طرف سے قربانی کی نیت ہو
اور یہاں یہ تو بہت واضح ہے کہ میت جانور کا مالک نہیں ۔نہ پہلے سے مالک تھا نہ اب ہے ۔اور اس کی طرف سے قربانی کی نیت بھی نہیں کیوں کہ مرحوم ہونے کے بعد وہ نیت کر نہیں سکتا اور زندگی میں اس نے قربانی کے لئے وصیت نہیں کی ۔جب میت کی طرف سے نہ قربانی کی نیت پائی گئی نہ ہی جانور کا مالک ہے تو یہ واضح ہوگیا کہ قربانی اس کی طرف سے نہیں ہوگی ۔البتہ وارث نے قربانی میت کی طرف سے کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی اورگوشت صدقہ کرنے کا ثواب پہنچے گا۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ قربانی ذابح کی طرف سے ہو کیونکہ وہ جانور کا مالک ہے ساتھ ہی اس نے قربانی کی نیت سے ذبح کیا ہے۔
الجواب :اس فقیر نے قسط اول تمام دلائل پر تفصیل سے گفتگو کرنے کا شرف حاصل کیا اور قسط دوم میں دس فقہی کتب سے اور تیرہ اقوال علماء سے دلیل دیا کہ وہ واجب سے سبک دوش نہیں ہوسکتا اور یہ آخری تیسری قسط میں اس میں وہ دلیل ہے فتوی کا نجوڑ ہے اب اس پر فقیر بحمدہ سبحانہ وتعالی گفتگو کا بہترین شرف حاصل کرنے جارہا ہوں
ملاحظہ فرمائیں:
۔بے شک قربانی کے لئے جانور کا مالک ہونا اور قربانی کی نیت سے ذبح کرنا ضروری ہے اور یہ دونوں باتیں میت میں مفقود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ کسی فقہ کی کتابوں میں یہ نہیں لکھا ہوا
(1) کہ میت کا خود جانور کا مالک ہونا ضروری ہے کیونکہ جب وہ زندہ ہی نہیں ہے وہ جانور کا مالک کیسے بنے گا ؟
بلکہ مالک سے مراد یہ ہے کہ جو قربانی کررہا ہے اس کو جانور کا مالک ہونا ضروری ہے اور یہ وہ زندہ شخص اس جانور کا مالک ہے یہی مراد ملکیت کا بھی ہے اور اس کی ملکیت ہی کافی ہے
(2) اب رہی دوسری بات کہ قربانی میں نیت بھی ضروری ہے کہ میں اپنے لئے یا فلاں کے لئے قربانی کرتا ہوں لہذا یہاں تو واضح ہے کہ مردہ شخص نیت نہیں کرسکتا یہ استدلال ہی غلط ہے ہاں قربانی صحیح ہونے کے لئے نیت ضروری ہے جیسا کہ درمختار میں ہے۔
مع صحۃ النیۃ اذ لا ثواب بدونھا یعنی ساتھ ہی نیت کا صحیح ہونا ضروری ہے کیونکہ نیت کے بغیر ثواب نہیں۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب۔
جو مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے قربانی نہیں ہوئی بلکہ ذابح کی قربانی ہوئی اور ذابح سے واجب ساقط ہوگیا ان کے دلائل یہ بھی ہیں کہ
قربانی صحیح ہونے کے لئے دو باتیں ضروری ہے
(1) ایک یہ کہ وہ جانور کا مالک ہو
(2) دوسری یہ کہ اس کی طرف سے قربانی کی نیت ہو
اور یہاں یہ تو بہت واضح ہے کہ میت جانور کا مالک نہیں ۔نہ پہلے سے مالک تھا نہ اب ہے ۔اور اس کی طرف سے قربانی کی نیت بھی نہیں کیوں کہ مرحوم ہونے کے بعد وہ نیت کر نہیں سکتا اور زندگی میں اس نے قربانی کے لئے وصیت نہیں کی ۔جب میت کی طرف سے نہ قربانی کی نیت پائی گئی نہ ہی جانور کا مالک ہے تو یہ واضح ہوگیا کہ قربانی اس کی طرف سے نہیں ہوگی ۔البتہ وارث نے قربانی میت کی طرف سے کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی اورگوشت صدقہ کرنے کا ثواب پہنچے گا۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ قربانی ذابح کی طرف سے ہو کیونکہ وہ جانور کا مالک ہے ساتھ ہی اس نے قربانی کی نیت سے ذبح کیا ہے۔
الجواب :اس فقیر نے قسط اول تمام دلائل پر تفصیل سے گفتگو کرنے کا شرف حاصل کیا اور قسط دوم میں دس فقہی کتب سے اور تیرہ اقوال علماء سے دلیل دیا کہ وہ واجب سے سبک دوش نہیں ہوسکتا اور یہ آخری تیسری قسط میں اس میں وہ دلیل ہے فتوی کا نجوڑ ہے اب اس پر فقیر بحمدہ سبحانہ وتعالی گفتگو کا بہترین شرف حاصل کرنے جارہا ہوں
ملاحظہ فرمائیں:
۔بے شک قربانی کے لئے جانور کا مالک ہونا اور قربانی کی نیت سے ذبح کرنا ضروری ہے اور یہ دونوں باتیں میت میں مفقود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ کسی فقہ کی کتابوں میں یہ نہیں لکھا ہوا
(1) کہ میت کا خود جانور کا مالک ہونا ضروری ہے کیونکہ جب وہ زندہ ہی نہیں ہے وہ جانور کا مالک کیسے بنے گا ؟
بلکہ مالک سے مراد یہ ہے کہ جو قربانی کررہا ہے اس کو جانور کا مالک ہونا ضروری ہے اور یہ وہ زندہ شخص اس جانور کا مالک ہے یہی مراد ملکیت کا بھی ہے اور اس کی ملکیت ہی کافی ہے
(2) اب رہی دوسری بات کہ قربانی میں نیت بھی ضروری ہے کہ میں اپنے لئے یا فلاں کے لئے قربانی کرتا ہوں لہذا یہاں تو واضح ہے کہ مردہ شخص نیت نہیں کرسکتا یہ استدلال ہی غلط ہے ہاں قربانی صحیح ہونے کے لئے نیت ضروری ہے جیسا کہ درمختار میں ہے۔
مع صحۃ النیۃ اذ لا ثواب بدونھا یعنی ساتھ ہی نیت کا صحیح ہونا ضروری ہے کیونکہ نیت کے بغیر ثواب نہیں۔
(درمختار کتاب الاضحیۃ)
اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قربانی اور صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلا اجازت ناممکن۔
اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قربانی اور صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلا اجازت ناممکن۔
(فتویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 453)
اس مسئلہ میں حق یہ ہے کہ نیت ذابح کا اعتبار ہے اور یہاں ذبح اللہ عزوجل کے نام پر کیا جاتا ہے اور دعا الھم تقبل فلاں پڑھی جاتی ہے اور فلاں کی جگہ اسی مردہ کا نام لیا جاتا ہے ذابح کا مقصود یہی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نام پر میت کے ارواح کے ایصال کے لئے قربانی کررہا ہوں نہ کہ اپنا واجب ادا کرنے کی نیت سے کررہا ہوں
قربانی اپنی واجب کی کرے یا کسی مردہ کی طرف سے کرے یا کسی دوسرے زندہ کی طرف سے کرے نیت ذابح کے ذمہ ہے نہ کہ مردہ کے ذمہ
ذبح میں ذابح کی نیت شرط ہے نہ کہ مردہ کی سرکاری اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ ذبح میں ذابح کی نیت شرط ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 261)
جب معلوم ہوگیا کہ قربانی میں نیت ضروری ہے اور مردہ نیت نہیں کرسکتا ہے تو پھر جو شخص قربانی کررہا ہے اس کی نیت ہی کافی ہے ۔حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی علیہ الرحمہ والرضوان فرماتے ہیں کہ :
قربانی میں شرکت کے لئے نیت تقرب شرط ہے ان میں سے کوئی ایسا نہ ہو جس کا مقصود صرف گوشت ہو اور اور میت کی طرف سے نیتِ قربت ہوسکتی ہے اور شرکت بھی جائز۔
اس مسئلہ میں حق یہ ہے کہ نیت ذابح کا اعتبار ہے اور یہاں ذبح اللہ عزوجل کے نام پر کیا جاتا ہے اور دعا الھم تقبل فلاں پڑھی جاتی ہے اور فلاں کی جگہ اسی مردہ کا نام لیا جاتا ہے ذابح کا مقصود یہی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نام پر میت کے ارواح کے ایصال کے لئے قربانی کررہا ہوں نہ کہ اپنا واجب ادا کرنے کی نیت سے کررہا ہوں
قربانی اپنی واجب کی کرے یا کسی مردہ کی طرف سے کرے یا کسی دوسرے زندہ کی طرف سے کرے نیت ذابح کے ذمہ ہے نہ کہ مردہ کے ذمہ
ذبح میں ذابح کی نیت شرط ہے نہ کہ مردہ کی سرکاری اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ ذبح میں ذابح کی نیت شرط ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 261)
جب معلوم ہوگیا کہ قربانی میں نیت ضروری ہے اور مردہ نیت نہیں کرسکتا ہے تو پھر جو شخص قربانی کررہا ہے اس کی نیت ہی کافی ہے ۔حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی علیہ الرحمہ والرضوان فرماتے ہیں کہ :
قربانی میں شرکت کے لئے نیت تقرب شرط ہے ان میں سے کوئی ایسا نہ ہو جس کا مقصود صرف گوشت ہو اور اور میت کی طرف سے نیتِ قربت ہوسکتی ہے اور شرکت بھی جائز۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد سوم ص 308)
پھر حضور صدر الشریعہ فرماتے ہیں کہ ایک گائے میں زندہ و مردہ دونوں شریک ہوسکتے ہیں جبکہ مردہ کی طرف سے اس کا ولی وغیرہ کوئی زندہ قربانی کراتا ہو قربانی میں شرکت کے جواز کے لئے یہ ضرور ہے کہ وہ سب حصہ دار کی طرف سے قربت کی نیت سے ذبح ہو ( ص 306)
بدائع الصنائع میں ہے
ان الموت لایمنع التقرب عن المیت بدلیل انہ یجوز ان یصدق عنہ ویحج عنہ وقدصح ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ضحی بکبشین احدھما عن نفسہ و الاخر عمن لایذبح من امتہ وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح فدل ان المیت یجوز ان یتقرب عنہ فاذا ذبح عنہ صار نمیسیہ للقرب
یعنی میت کی طرف سے حصول تقرب کو موت ختم نہیں کرتی اس پر دلیل یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا اور میت کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو مینڈھے کی قربانی کی ایک اپنی طرف سے دوسرا اپنی ان امتیوں کی طرف سے جو قربانی دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اگرچہ ان میں سے وہ حضرات بھی تھے جن کا انتقال ذبح سے پہلے ہوچکا تھا ۔یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ میت کی طرف سے تقرب جائز ہے لہٰذا میت کی طرف سے ذبح کیا جائے تو قربت میں اس کا حصہ ہوگا۔
پھر حضور صدر الشریعہ فرماتے ہیں کہ ایک گائے میں زندہ و مردہ دونوں شریک ہوسکتے ہیں جبکہ مردہ کی طرف سے اس کا ولی وغیرہ کوئی زندہ قربانی کراتا ہو قربانی میں شرکت کے جواز کے لئے یہ ضرور ہے کہ وہ سب حصہ دار کی طرف سے قربت کی نیت سے ذبح ہو ( ص 306)
بدائع الصنائع میں ہے
ان الموت لایمنع التقرب عن المیت بدلیل انہ یجوز ان یصدق عنہ ویحج عنہ وقدصح ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ضحی بکبشین احدھما عن نفسہ و الاخر عمن لایذبح من امتہ وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح فدل ان المیت یجوز ان یتقرب عنہ فاذا ذبح عنہ صار نمیسیہ للقرب
یعنی میت کی طرف سے حصول تقرب کو موت ختم نہیں کرتی اس پر دلیل یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا اور میت کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو مینڈھے کی قربانی کی ایک اپنی طرف سے دوسرا اپنی ان امتیوں کی طرف سے جو قربانی دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اگرچہ ان میں سے وہ حضرات بھی تھے جن کا انتقال ذبح سے پہلے ہوچکا تھا ۔یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ میت کی طرف سے تقرب جائز ہے لہٰذا میت کی طرف سے ذبح کیا جائے تو قربت میں اس کا حصہ ہوگا۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد سوم ص 324 بحوالہ بدائع الصنائع جلد پنجم ص 72)
اس سے واضح ہوا کہ میت کی طرف سے تقرب جائز ہے لہٰذا میت کی طرف سے ذبح کیا جائے تو قربت میں اس کا حصہ ہوگا اور فتاویٰ امجدیہ سے واضح ہوا ک جو زندہ شخص میت کی طرف سے قربانی کررہا ہے اس کی نیت معتبر وکافی ہے کہ وہی نیت کرے گا کیونکہ نیت قربانی کرانے والے یا کرنے والے زندہ شخص کو کرنا ہے خواہ وہ صاحب نصاب ہو یا نہ ہو اور یہاں مردہ شخص قربانی نہیں کررہا ہے کہ اس کی نیت ضروری ہو، مردہ کو اس کا ثواب ملے گا اور قربانی کرنے والے کو بھی ۔
لہٰذا مردہ کا جانور کا مالک ہونا ضروری نہیں اور نہ نیت قربانی ضروری ہے جو زندہ شخص قربانی کرےگا؛ وہ قربانی مردہ کی طرف سے جائز ہوجائےگی کیونکہ وہ اس جانور کا مالک ہے اور نیت بھی مردہ کی طرف سے کیا ہے اور دعا میں بھی میت کا نام لیا جاتا ہے جیسے اللھم تقبل فلاں۔ ظاہر ہوا کہ فلاں سے مراد وہ ہے جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے لہٰذا وہ قربانی صحیح ہے اور اس سے قربانی کرانے والے کا وجوب ساقط نہیں ہوگا اور اگر قربانی نہیں کیا تو ایام نحر گزرنے کے بعد ایک خصی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہوگا۔
امام دارقطنی روایت کرتے ہیں کہ عن جابر بن عبداللہ قال قال رسول اللہ ﷺ من حج ابیہ او امہ فقد قضی عنہ حجتہ وکان لہ فضل عشر حجج یعنی سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے والد ین کی طرف سے حج کیا یقیناً اس نے ان کی جانب سے حج ادا کرلیا اور اسے دس حج کی ادائیگی کی فضیلت حاصل ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ میت کی طرف سے تقرب جائز ہے لہٰذا میت کی طرف سے ذبح کیا جائے تو قربت میں اس کا حصہ ہوگا اور فتاویٰ امجدیہ سے واضح ہوا ک جو زندہ شخص میت کی طرف سے قربانی کررہا ہے اس کی نیت معتبر وکافی ہے کہ وہی نیت کرے گا کیونکہ نیت قربانی کرانے والے یا کرنے والے زندہ شخص کو کرنا ہے خواہ وہ صاحب نصاب ہو یا نہ ہو اور یہاں مردہ شخص قربانی نہیں کررہا ہے کہ اس کی نیت ضروری ہو، مردہ کو اس کا ثواب ملے گا اور قربانی کرنے والے کو بھی ۔
لہٰذا مردہ کا جانور کا مالک ہونا ضروری نہیں اور نہ نیت قربانی ضروری ہے جو زندہ شخص قربانی کرےگا؛ وہ قربانی مردہ کی طرف سے جائز ہوجائےگی کیونکہ وہ اس جانور کا مالک ہے اور نیت بھی مردہ کی طرف سے کیا ہے اور دعا میں بھی میت کا نام لیا جاتا ہے جیسے اللھم تقبل فلاں۔ ظاہر ہوا کہ فلاں سے مراد وہ ہے جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے لہٰذا وہ قربانی صحیح ہے اور اس سے قربانی کرانے والے کا وجوب ساقط نہیں ہوگا اور اگر قربانی نہیں کیا تو ایام نحر گزرنے کے بعد ایک خصی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہوگا۔
امام دارقطنی روایت کرتے ہیں کہ عن جابر بن عبداللہ قال قال رسول اللہ ﷺ من حج ابیہ او امہ فقد قضی عنہ حجتہ وکان لہ فضل عشر حجج یعنی سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے والد ین کی طرف سے حج کیا یقیناً اس نے ان کی جانب سے حج ادا کرلیا اور اسے دس حج کی ادائیگی کی فضیلت حاصل ہے۔
(سنن الدار قطنی کتاب الحج رقم الحدیث 2641)
دیکھا یہاں نہ مردہ روپے کا مالک ہے اور نہ حج کی نیت کر رہا ہے نہ تلبیہ پڑھ رہا ہے نہ طواف کعبہ کررہا ہے نہ سعی وغیرہ ارکان حج ادا کر رہا ہے لیکن کسی زندہ نے اس کی طرف سے حج کیا تو اس کا ثواب مردہ کو حاصل ہوگا
اس میں کوئی شک نہیں کہ جانور کا مالک ذابح ہے۔ لیکن ذابح نے اس جانور کو میت کے نام سے ذبح کیا تو قربانی جائز ہوگئی کیونکہ اس شخص کو جانور پر ملکیت حاصل ہے اور ملکیت حاصل ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کا اپنا واجب ساقط ہوگیا بلکہ یہاں ملکیت سے مراد یہ ہے کہ اس جانور کے گوشت پوست کو وہ تقسیم بھی کرسکتا ہے اور نہ بھی کرسکتا ہے خود کھا سکتا ہے دوسروں کو کھلا سکتا ہے یعنی جس طرح اپنی قربانی کے جانور پر کھال پر گوشت پر حق ہوتا ہے اسی طرح کا حق اس قربانی پر بھی حاصل ہوتا ہے یہی مراد ملکیت کی ہے
ہاں ردالمختار اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ ملکیت کی وجہ سے اس سے واجب ساقط ہوگیا لیکن حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی متوفی 1069 ھ کو اس پر تامل ہے یعنی شک وشبہ جیسا کہ ردالمختار میں علامہ محمد امین بن عابدین شامی متوفی 1252ھ نے نقل کیا
لہذا شرنبلانی کی بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے
اور جس کام میں شک وشبہ ہو وہ کام نہ کیا جائے کیونکہ ترک واجب کی دلیل مشکوک و موہوم بات سے نہ ہوگی کیونکہ فرض کے بعد واجب ہے اور واجب پر عمل کرنا واجب ہے اس کے ترک پر گناہ ہوتا ہے اسی لئے اس کو ترک کرنے کی دلیل میں مشکوک وموہوم جزیہ قبول کرنا مناسب نہیں ہے اور حضور صدر الشریعہ اور دیگر مفتیان کی کتب میں بھی اس جزیہ پر فتوی نہیں ہے لہذا روش علماء کے خلاف بھی فتویٰ دینا بھی مناسب نہیں ہوتا ہے
اسی لئے آج کے جن مفتی صاحبان نے فرمایا کہ ہاں مختار یہ ہے کہ قربانی اس لڑکے کی طرف سے ہوگی اور وہ قربانی کے وجوب سے سبک دوش ہو جائے گا ۔والد کو صرف قربانی کا ثواب ملے گا وہ مفتی صاحب اپنے اس موقف کی تائید میں فتح المعین ۔بزازیہ فتاوے تار تار خانیہ ردالمحتار اور فتاوی قاضی خان سے جزیہ نقل فرماتے ہیں نقل فرماکر پھر آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ( ان سب کے باوجود علامہ طحطاوی رحمتہ اللہ کا تامل قابل لحاظ ہے اس لئے بے مایہ کے ذہن میں جو توجیہ آئی اس کے پیش نظر میں نے یہی فتویٰ دینا پسند کیا)
قابل غور بات یہ ہے کہ جب ان کے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ اس ذابح سے اپنا واجب ساقط ہو جائے گا تو پھر علامہ طحطاوی کا قول قابل لحاظ کیوں ہوگا؟ کیونکہ جو مختار قول ہوگا وہ قابل لحاظ قول نہیں ہوگا اور جو قابل لحاظ قول ہوگا وہ قابل مختار قول نہیں ہوگا بلکہ قابل قبول ہوگا۔ لہٰذا یہ استدلال ہی غلط ہے کیونکہ اس جزیہ ہر شرنبلانی کا تامل ہے اور جس قول میں شک وشبہ ہو اس کو جزیہ میں کے کر فتوی دینا مناسب نہیں یہ اس فقیر کے ذہن کی بات ہے
الحاصل :
جس شخص نے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یا سرکار غوث پاک یا کسی دوسرے بزرگ یا اپنے ماں باپ کے نام سے قربانی کی تو وہ قربانی صحیح ہے ۔لیکن اگر وہ شخص خود مالک نصاب ہے تو اسے پہلے اپنے نام سے قربانی کرنی واجب ہے نہیں کرے گا تو گنہگار ہوگا۔
جس پر قربانی واجب ہے اگر اس نے اپنے نام سے,قربانی نہ کرکے کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کیا تو واجب ساقط نہ ہوگا
ملکیت سے کیا مراد ہے ؟
حضور بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے جو قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی وہی حکم ہے کہ خود کھائے اور دوست احباب کو دے ۔ یہ ضروری نہیں کہ سارا گوشت فقیروں ہی کو دے
کیونکہ گوشت اس کی ملک ہے یہ سب کچھ کرسکتا ہے اور اگر میت نے کہہ دیا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس میں سے نہ کھائے بلکہ کل گوشت صدقہ کردے
شامی میں ہے :
من ضحی عن المیت کما یصنع فی اضحیۃ نفسہ من التصدق والاکل والاجر للمیت والملک للذابح. قال الصدر والمختار انہ یامر المیت لایکل کل منھا والایاکل۔
دیکھا یہاں نہ مردہ روپے کا مالک ہے اور نہ حج کی نیت کر رہا ہے نہ تلبیہ پڑھ رہا ہے نہ طواف کعبہ کررہا ہے نہ سعی وغیرہ ارکان حج ادا کر رہا ہے لیکن کسی زندہ نے اس کی طرف سے حج کیا تو اس کا ثواب مردہ کو حاصل ہوگا
اس میں کوئی شک نہیں کہ جانور کا مالک ذابح ہے۔ لیکن ذابح نے اس جانور کو میت کے نام سے ذبح کیا تو قربانی جائز ہوگئی کیونکہ اس شخص کو جانور پر ملکیت حاصل ہے اور ملکیت حاصل ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کا اپنا واجب ساقط ہوگیا بلکہ یہاں ملکیت سے مراد یہ ہے کہ اس جانور کے گوشت پوست کو وہ تقسیم بھی کرسکتا ہے اور نہ بھی کرسکتا ہے خود کھا سکتا ہے دوسروں کو کھلا سکتا ہے یعنی جس طرح اپنی قربانی کے جانور پر کھال پر گوشت پر حق ہوتا ہے اسی طرح کا حق اس قربانی پر بھی حاصل ہوتا ہے یہی مراد ملکیت کی ہے
ہاں ردالمختار اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ ملکیت کی وجہ سے اس سے واجب ساقط ہوگیا لیکن حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی متوفی 1069 ھ کو اس پر تامل ہے یعنی شک وشبہ جیسا کہ ردالمختار میں علامہ محمد امین بن عابدین شامی متوفی 1252ھ نے نقل کیا
لہذا شرنبلانی کی بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے
اور جس کام میں شک وشبہ ہو وہ کام نہ کیا جائے کیونکہ ترک واجب کی دلیل مشکوک و موہوم بات سے نہ ہوگی کیونکہ فرض کے بعد واجب ہے اور واجب پر عمل کرنا واجب ہے اس کے ترک پر گناہ ہوتا ہے اسی لئے اس کو ترک کرنے کی دلیل میں مشکوک وموہوم جزیہ قبول کرنا مناسب نہیں ہے اور حضور صدر الشریعہ اور دیگر مفتیان کی کتب میں بھی اس جزیہ پر فتوی نہیں ہے لہذا روش علماء کے خلاف بھی فتویٰ دینا بھی مناسب نہیں ہوتا ہے
اسی لئے آج کے جن مفتی صاحبان نے فرمایا کہ ہاں مختار یہ ہے کہ قربانی اس لڑکے کی طرف سے ہوگی اور وہ قربانی کے وجوب سے سبک دوش ہو جائے گا ۔والد کو صرف قربانی کا ثواب ملے گا وہ مفتی صاحب اپنے اس موقف کی تائید میں فتح المعین ۔بزازیہ فتاوے تار تار خانیہ ردالمحتار اور فتاوی قاضی خان سے جزیہ نقل فرماتے ہیں نقل فرماکر پھر آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ( ان سب کے باوجود علامہ طحطاوی رحمتہ اللہ کا تامل قابل لحاظ ہے اس لئے بے مایہ کے ذہن میں جو توجیہ آئی اس کے پیش نظر میں نے یہی فتویٰ دینا پسند کیا)
قابل غور بات یہ ہے کہ جب ان کے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ اس ذابح سے اپنا واجب ساقط ہو جائے گا تو پھر علامہ طحطاوی کا قول قابل لحاظ کیوں ہوگا؟ کیونکہ جو مختار قول ہوگا وہ قابل لحاظ قول نہیں ہوگا اور جو قابل لحاظ قول ہوگا وہ قابل مختار قول نہیں ہوگا بلکہ قابل قبول ہوگا۔ لہٰذا یہ استدلال ہی غلط ہے کیونکہ اس جزیہ ہر شرنبلانی کا تامل ہے اور جس قول میں شک وشبہ ہو اس کو جزیہ میں کے کر فتوی دینا مناسب نہیں یہ اس فقیر کے ذہن کی بات ہے
الحاصل :
جس شخص نے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یا سرکار غوث پاک یا کسی دوسرے بزرگ یا اپنے ماں باپ کے نام سے قربانی کی تو وہ قربانی صحیح ہے ۔لیکن اگر وہ شخص خود مالک نصاب ہے تو اسے پہلے اپنے نام سے قربانی کرنی واجب ہے نہیں کرے گا تو گنہگار ہوگا۔
جس پر قربانی واجب ہے اگر اس نے اپنے نام سے,قربانی نہ کرکے کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کیا تو واجب ساقط نہ ہوگا
ملکیت سے کیا مراد ہے ؟
حضور بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے جو قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی وہی حکم ہے کہ خود کھائے اور دوست احباب کو دے ۔ یہ ضروری نہیں کہ سارا گوشت فقیروں ہی کو دے
کیونکہ گوشت اس کی ملک ہے یہ سب کچھ کرسکتا ہے اور اگر میت نے کہہ دیا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس میں سے نہ کھائے بلکہ کل گوشت صدقہ کردے
شامی میں ہے :
من ضحی عن المیت کما یصنع فی اضحیۃ نفسہ من التصدق والاکل والاجر للمیت والملک للذابح. قال الصدر والمختار انہ یامر المیت لایکل کل منھا والایاکل۔
(فتاویٰ بحر العلوم جلد پنجم ص 185 بحوالہ شامی جلد 9 ص 395)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ ثواب میت کے لئے اور ملکیت ذابح کے لئے اس ملکیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ ثواب میت کے لئے اور اس قربانی سے ذابح واجب سے سبک دوش ہوگیا بلکہ یہ مراد ہے کہ گوشت پر کلی اختیار ہے کیونکہ حضور بحر العلوم سے ایک سوال ہوا کہ زید مالک نصاب ہے خصی کی قربانی ہمیشہ کرتا ہے ۔اگر اس خصی کو دوسرے کے نام کرے اور اپنے نام نہ کرے تو جس کے نام قربانی کرے گا تو ہوگی یا نہیں ؟
اس کے جواب میں حضرت بحر العلوم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قربانی دوسرے کے نام ہو جائے گی لیکن نصاب کا مالک جس پر قربانی واجب تھی اگر اس نے اپنے نام کی قربانی نہ کی تو اس کا وجوب اس کے اوپر رہ جائے گا۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ ثواب میت کے لئے اور ملکیت ذابح کے لئے اس ملکیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ ثواب میت کے لئے اور اس قربانی سے ذابح واجب سے سبک دوش ہوگیا بلکہ یہ مراد ہے کہ گوشت پر کلی اختیار ہے کیونکہ حضور بحر العلوم سے ایک سوال ہوا کہ زید مالک نصاب ہے خصی کی قربانی ہمیشہ کرتا ہے ۔اگر اس خصی کو دوسرے کے نام کرے اور اپنے نام نہ کرے تو جس کے نام قربانی کرے گا تو ہوگی یا نہیں ؟
اس کے جواب میں حضرت بحر العلوم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قربانی دوسرے کے نام ہو جائے گی لیکن نصاب کا مالک جس پر قربانی واجب تھی اگر اس نے اپنے نام کی قربانی نہ کی تو اس کا وجوب اس کے اوپر رہ جائے گا۔
(فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 184)
دیکھا یہاں صاف واضح ہے کہ اس کا وجوب اس کے اوپر رہ جائے گا
پھر حضرت بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
مالک نصاب قربانی اپنے نام سے نہ کراکر اپنے گھر کے کسی آدمی کے نام سے قربانی کریں قربانی تو ہو جائے گی کیونکہ قربانی تو جس کے نام سے کریں ہو جائے گی ۔لیکن مالک نصاب کے سر پر قربانی نہ کرنے کا گناہ لادا جائے گا ۔کیونکہ واجب اسی پر تھی (فتاویٰ بحر العلوم جلد پنجم ص 174)
یہاں بھی وہی حکم ہے پھر فتوی بحر العلوم میں فتاوی رضویہ سے ہے کہ
فتاوی رضویہ میں ہے کہ ایک قربانی نہ سب کی طرف سے ہوسکتی ہے ۔نہ سوا مالک نصاب کے کسی اور پر واجب ہے تو گھر کا مالک جس پر واجب تھی اس نے کیا نہیں اور جس پر واجب نہیں اس کے نام سے کردیا تو اس کے سر سے بوجھ نہیں اترا
(فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 173)
اس سے صاف واضح ہوا کہ فوت شدہ بزرگ یا جس زندہ پر واجب نہیں ان لوگوں کے نام سے قربانی کرکے اور جو خود پر واجب تھی اس کو نہیں کیا تو سر سے بوجھ نہ اترا یعنی قربانی واجب ساقط نہیں ہوئی
آپ مالک نصاب ہیں اس لیے آپ پر قربانی واجب ہے لہٰذا دوسرے کے نام سے قربانی کرادینے سے آپ کا وجوب آپ کے سر سے اترے گا نہیں یعنی خود اپنے واجب کے ترک کا مجرم ہوا۔
دیکھا یہاں صاف واضح ہے کہ اس کا وجوب اس کے اوپر رہ جائے گا
پھر حضرت بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
مالک نصاب قربانی اپنے نام سے نہ کراکر اپنے گھر کے کسی آدمی کے نام سے قربانی کریں قربانی تو ہو جائے گی کیونکہ قربانی تو جس کے نام سے کریں ہو جائے گی ۔لیکن مالک نصاب کے سر پر قربانی نہ کرنے کا گناہ لادا جائے گا ۔کیونکہ واجب اسی پر تھی (فتاویٰ بحر العلوم جلد پنجم ص 174)
یہاں بھی وہی حکم ہے پھر فتوی بحر العلوم میں فتاوی رضویہ سے ہے کہ
فتاوی رضویہ میں ہے کہ ایک قربانی نہ سب کی طرف سے ہوسکتی ہے ۔نہ سوا مالک نصاب کے کسی اور پر واجب ہے تو گھر کا مالک جس پر واجب تھی اس نے کیا نہیں اور جس پر واجب نہیں اس کے نام سے کردیا تو اس کے سر سے بوجھ نہیں اترا
(فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 173)
اس سے صاف واضح ہوا کہ فوت شدہ بزرگ یا جس زندہ پر واجب نہیں ان لوگوں کے نام سے قربانی کرکے اور جو خود پر واجب تھی اس کو نہیں کیا تو سر سے بوجھ نہ اترا یعنی قربانی واجب ساقط نہیں ہوئی
آپ مالک نصاب ہیں اس لیے آپ پر قربانی واجب ہے لہٰذا دوسرے کے نام سے قربانی کرادینے سے آپ کا وجوب آپ کے سر سے اترے گا نہیں یعنی خود اپنے واجب کے ترک کا مجرم ہوا۔
(فتویٰ بحر العلوم جلد پنجم ص 176)
اس عبارت سے صاف واضح ہوا کہ وہ خود اپنے واجب کے ترک کا مجرم ہوگا ۔
پھر حضور بحر العلوم فرماتے ہیں کہ
قربانی ہر مالک نصاب پر مستقلاً واجب ہے کہ وہ اپنی طرف کرے تو واجب کا بوجھ اترے اور اپنی طرف سے نہ کرے یا اپنے بجائے دوسرے کی طرف سے کرے تو خود صاحب نصاب پر قربانی کا بوجھ لادا رہے گا
اور قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تو نے اپنی قربانی کیوں نہیں کی۔
اس عبارت سے صاف واضح ہوا کہ وہ خود اپنے واجب کے ترک کا مجرم ہوگا ۔
پھر حضور بحر العلوم فرماتے ہیں کہ
قربانی ہر مالک نصاب پر مستقلاً واجب ہے کہ وہ اپنی طرف کرے تو واجب کا بوجھ اترے اور اپنی طرف سے نہ کرے یا اپنے بجائے دوسرے کی طرف سے کرے تو خود صاحب نصاب پر قربانی کا بوجھ لادا رہے گا
اور قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تو نے اپنی قربانی کیوں نہیں کی۔
(فتاویٰ بحر العلوم جلد پنجم ص 178)
اللہ اکبر برادران اسلام:
کتنا سخت حکم ہے کہ جو مالک نصاب اپنی قربانی نہ کرکے کسی دوسرے کے نام سے کیا تو کل قیامت کے دن اس سے سوال ہوگا کہ اپنی قربانی کیوں نہیں کی۔ اب اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہو
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ سے ایک سوال ہوا کہ من جانب میت جو قربانی دی جائےاس گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے ۔اس کا رواج ہے کہ ایک حصہ خویش واقرباء اور ایک حصہ وقف علی المساکین اور تیسرا حصہ وقف کیا جاتا مع دلیل جواب ارشاد ہو
اس پر امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ اس کے بھی یہی حکم ہیں جو اپنی قربانی کے ۔کہ کھانے ۔کھلانے ۔تصدق ۔سب کا اختیار ہے ۔اور مستحب تین حصے ہیں ۔ایک اپنا۔ ایک اقارب کا ۔ ایک مساکین ہے ۔ ہاں اگر میت کی طرف سے بحکم میت کرے ۔ تو وہ سب تصدق کرے ردالمحتار میں ہے
من ضحی عن المیت یصنع کما یصنع فی اضحیۃ نفسہ من التصدق والاکل والاجر للمیت والملک الذابح قال الصدر والمختار انہ بامر المیت لایاکل منھا والایاکل : بزازیہ: یعنی اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو صدقہ کرے اور اپنے طرف سے کرے تو کھانے میں اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے اور اجر وثواب میت کے ہوگا اور ملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی فرمایا صدر نے اور مختار یہ ہے اگر میت کی وصیت پر قربانی اس کے لئے کی تو خود نہ کھائے ورنہ کھائے (فتویٰ رضویہ جلد 20 ص 456)
بعد قربانی اس جانور کے لحم و جلد اس کی ملک ہے اس میں ہر تصرف مالکانہ کرسکتا ہے صرف تمول ممنوع ہے
قربانی بعد موت کسی میت کے لئے کسی ائمہ کے نزدیک لازم نہیں ۔ ہاں ان کی طرف سے کرے تو ان کو ثواب ملے گا (فتاویٰ رضویہ جلد 20 ص 597)
ملکیت سے مراد سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کی نگاہ
آپ فرماتے ہیں کہ
اس کا بھی یہی حکم ہے جو اپنی قربانی کے ۔کھانے ۔کھلانے ۔تصدق ۔سب کا اختیار ہے
اپنی قربانی کا یعنی جو اختیار آپ کو اپنی قربانی کا ہے وہی اختیار اس قربانی پر بھی ہے اور اس کی دلیل میں ردالمحتار کے اسی جزیہ کو لاتے ہیں مگر یہ نہیں فرماتے ہیں کہ اس کا اپنا واجب ساقط ہوگیا ۔ اور ردالمحتار کا یہ جزیہ
والاجر للمیت والملک للذابح۔
اس کا فتاویٰ رضویہ میں مترجم نے یہ ترجمہ کیا کہ اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو صدقہ کرے اور اپنے طرف سے کرے تو کھانے میں اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے اور اجر و ثواب میت کے لئے ہوگا کیونکہ قربانی ایصال ثواب ہی تو ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قربانی ایصال ثواب ہے۔
اللہ اکبر برادران اسلام:
کتنا سخت حکم ہے کہ جو مالک نصاب اپنی قربانی نہ کرکے کسی دوسرے کے نام سے کیا تو کل قیامت کے دن اس سے سوال ہوگا کہ اپنی قربانی کیوں نہیں کی۔ اب اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہو
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ سے ایک سوال ہوا کہ من جانب میت جو قربانی دی جائےاس گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے ۔اس کا رواج ہے کہ ایک حصہ خویش واقرباء اور ایک حصہ وقف علی المساکین اور تیسرا حصہ وقف کیا جاتا مع دلیل جواب ارشاد ہو
اس پر امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ اس کے بھی یہی حکم ہیں جو اپنی قربانی کے ۔کہ کھانے ۔کھلانے ۔تصدق ۔سب کا اختیار ہے ۔اور مستحب تین حصے ہیں ۔ایک اپنا۔ ایک اقارب کا ۔ ایک مساکین ہے ۔ ہاں اگر میت کی طرف سے بحکم میت کرے ۔ تو وہ سب تصدق کرے ردالمحتار میں ہے
من ضحی عن المیت یصنع کما یصنع فی اضحیۃ نفسہ من التصدق والاکل والاجر للمیت والملک الذابح قال الصدر والمختار انہ بامر المیت لایاکل منھا والایاکل : بزازیہ: یعنی اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو صدقہ کرے اور اپنے طرف سے کرے تو کھانے میں اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے اور اجر وثواب میت کے ہوگا اور ملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی فرمایا صدر نے اور مختار یہ ہے اگر میت کی وصیت پر قربانی اس کے لئے کی تو خود نہ کھائے ورنہ کھائے (فتویٰ رضویہ جلد 20 ص 456)
بعد قربانی اس جانور کے لحم و جلد اس کی ملک ہے اس میں ہر تصرف مالکانہ کرسکتا ہے صرف تمول ممنوع ہے
قربانی بعد موت کسی میت کے لئے کسی ائمہ کے نزدیک لازم نہیں ۔ ہاں ان کی طرف سے کرے تو ان کو ثواب ملے گا (فتاویٰ رضویہ جلد 20 ص 597)
ملکیت سے مراد سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کی نگاہ
آپ فرماتے ہیں کہ
اس کا بھی یہی حکم ہے جو اپنی قربانی کے ۔کھانے ۔کھلانے ۔تصدق ۔سب کا اختیار ہے
اپنی قربانی کا یعنی جو اختیار آپ کو اپنی قربانی کا ہے وہی اختیار اس قربانی پر بھی ہے اور اس کی دلیل میں ردالمحتار کے اسی جزیہ کو لاتے ہیں مگر یہ نہیں فرماتے ہیں کہ اس کا اپنا واجب ساقط ہوگیا ۔ اور ردالمحتار کا یہ جزیہ
والاجر للمیت والملک للذابح۔
اس کا فتاویٰ رضویہ میں مترجم نے یہ ترجمہ کیا کہ اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو صدقہ کرے اور اپنے طرف سے کرے تو کھانے میں اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے اور اجر و ثواب میت کے لئے ہوگا کیونکہ قربانی ایصال ثواب ہی تو ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قربانی ایصال ثواب ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 593)
مردہ کے لئے قربانی واجب بھی نہیں ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ بعد مرگ کسی کے نزدیک واجب نہیں ۔ہاں ان کی طرف سے کرے تو ان کو ثواب پہنچے گا ۔یونہی ماں باپ کی طرف سے قربانی کرنا اجر عظیم ہے اس کے لئے بھی اور اس کے والدین کے لئے بھی۔
مردہ کے لئے قربانی واجب بھی نہیں ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ بعد مرگ کسی کے نزدیک واجب نہیں ۔ہاں ان کی طرف سے کرے تو ان کو ثواب پہنچے گا ۔یونہی ماں باپ کی طرف سے قربانی کرنا اجر عظیم ہے اس کے لئے بھی اور اس کے والدین کے لئے بھی۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 597)
بلکہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مردہ کی طرف سے قربانی بلاشبہ جائز ہے ولہذا اموات بلکہ ان کی طرف سے جو اب تک پیدا نہ ہوئے قربانی ثابت ہے۔
بلکہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مردہ کی طرف سے قربانی بلاشبہ جائز ہے ولہذا اموات بلکہ ان کی طرف سے جو اب تک پیدا نہ ہوئے قربانی ثابت ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 592)
اور ملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی
اس کو سمجھیں کہ اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے یعنی یہ نہیں کہ اس سے آپ کا واجب ساقط ہوگیا
سرکار سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
کل ماخوذ من قولہ و مردود علیہ الا صاحب ھذہ القبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یعنی یہ تمام حضور اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ہر ایک قول پر ماخوذ ہوگا اور قول کو اس پر رد کیا جائے گا۔
اور ملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی
اس کو سمجھیں کہ اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے یعنی یہ نہیں کہ اس سے آپ کا واجب ساقط ہوگیا
سرکار سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
کل ماخوذ من قولہ و مردود علیہ الا صاحب ھذہ القبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یعنی یہ تمام حضور اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ہر ایک قول پر ماخوذ ہوگا اور قول کو اس پر رد کیا جائے گا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 296)
یعنی امام مالک فرماتے ہیں کہ بے دلیل تو صرف رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا قول مقبول ہے ۔بقیہ کوئی عالم معصوم نہیں
ردالمختار اور قاضی خان میں بھی اختلاف ہے جیسے گھوڑے کے گوشت کے متعلق قاضی خان حرمت کی طرف گئے اور درمختار میں جواز کو وجہ قرار دیا ہے۔
یعنی امام مالک فرماتے ہیں کہ بے دلیل تو صرف رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا قول مقبول ہے ۔بقیہ کوئی عالم معصوم نہیں
ردالمختار اور قاضی خان میں بھی اختلاف ہے جیسے گھوڑے کے گوشت کے متعلق قاضی خان حرمت کی طرف گئے اور درمختار میں جواز کو وجہ قرار دیا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 311)
اگرچہ مفتی موصوف نے ردالمحتار اور فتاویٰ قاضی خان سے اپنی دلیل میں جزیہ لیا لیکن ردالمحتار کے بعد کے حضور صدر الشریعہ نے اور دیگر مفتیان کرام نے اپنی کتب میں فرمایا کہ واجب ساقط نہ ہوگا اور ہمارے تمام مفتیان کرام نے اپنے فتاویٰ میں اس جزیہ سے فتویٰ نہیں دیا جیسا کہ آپ نے قسط دوم میں پڑھا ہوگا اور ہمارے ان سب علماء کی دلیل اتباع حدیث ہے اور من حیث الدلیل قوی ہے اور مفتی بہ قول ہے
مفتی موصوف کے علاؤہ تمام کتب فقہ میں یہی ہے کہ واجب ساقط نہ ہوگا اگر اس کو اختلاف علماء کہا جائے تب تو اس قول پر عمل نہ کرنے کا سخت حکم ہوگا کہ
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف کی ایک دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف علماء سے بچنا موکد ہے۔
اگرچہ مفتی موصوف نے ردالمحتار اور فتاویٰ قاضی خان سے اپنی دلیل میں جزیہ لیا لیکن ردالمحتار کے بعد کے حضور صدر الشریعہ نے اور دیگر مفتیان کرام نے اپنی کتب میں فرمایا کہ واجب ساقط نہ ہوگا اور ہمارے تمام مفتیان کرام نے اپنے فتاویٰ میں اس جزیہ سے فتویٰ نہیں دیا جیسا کہ آپ نے قسط دوم میں پڑھا ہوگا اور ہمارے ان سب علماء کی دلیل اتباع حدیث ہے اور من حیث الدلیل قوی ہے اور مفتی بہ قول ہے
مفتی موصوف کے علاؤہ تمام کتب فقہ میں یہی ہے کہ واجب ساقط نہ ہوگا اگر اس کو اختلاف علماء کہا جائے تب تو اس قول پر عمل نہ کرنے کا سخت حکم ہوگا کہ
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف کی ایک دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف علماء سے بچنا موکد ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 217)
اس لئے جو فرمارہے ہیں کہ وہ واجب سے سبک دوش ہوگیا یہ صحیح نہیں ہے اس قول سے سختی سے بچاجائے اور مسلمانوں کو بھی بچایا جائے کیونکہ آپ نے اوپر پڑھا ہوگا کہ کل قیامت میں سوال ہوگا کہ تم نے اپنی قربانی کیوں نہیں کی اگر واجب سے سبک دوش ہونے کی بات صحیح ہوتی تو ہمارے حضور بحر العلوم رحمتہ اللہ علیہ یہ سخت جملہ ارشاد نہیں فرماتے کہ اس سے اس بابت سوال کیا جائے گا
اس لئے واجب ساقط نہ ہوا اور اسی قول پر فتویٰ دینا احتیاط اور صحیح ہوگا اور ہمارے علمائے کرام کے روش کے خلاف بھی نہیں ہوگا اور لوگوں کا بھی اسی طریقہ پر عمل ہوتے ہوئے آرہا ہے لہذا اس کا بھی خلاف نہ ہوگا
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
اس لئے جو فرمارہے ہیں کہ وہ واجب سے سبک دوش ہوگیا یہ صحیح نہیں ہے اس قول سے سختی سے بچاجائے اور مسلمانوں کو بھی بچایا جائے کیونکہ آپ نے اوپر پڑھا ہوگا کہ کل قیامت میں سوال ہوگا کہ تم نے اپنی قربانی کیوں نہیں کی اگر واجب سے سبک دوش ہونے کی بات صحیح ہوتی تو ہمارے حضور بحر العلوم رحمتہ اللہ علیہ یہ سخت جملہ ارشاد نہیں فرماتے کہ اس سے اس بابت سوال کیا جائے گا
اس لئے واجب ساقط نہ ہوا اور اسی قول پر فتویٰ دینا احتیاط اور صحیح ہوگا اور ہمارے علمائے کرام کے روش کے خلاف بھی نہیں ہوگا اور لوگوں کا بھی اسی طریقہ پر عمل ہوتے ہوئے آرہا ہے لہذا اس کا بھی خلاف نہ ہوگا
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
11ربیع الاخر 1446
15, اکتوبر 2024
11ربیع الاخر 1446
15, اکتوبر 2024