لاؤڈ اسپیکر سے نماز کا حکم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں کہ ملک نیپال شہر بیر گنج میں مدینہ جامع مسجد ہے جس میں جمعہ کی نماز میں کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں نماز جمعہ و عیدین ابھی تک مائک سے نہیں ہوئی ہے ہاں مکبر رکھا جاتا ہے اب لوگوں کا اصرار ہے کہ نماز جمعہ و عیدین مائک سے پڑھائی جائے تاکہ لوگوں تک آواز پہنچ جائے ۔مزید لوگ وہاں کا مثال دیتے ہیں جہاں اہل سنت کی مسجد میں مائک سے نمازیں ہوتی ہیں کہ فلاں فلاں جگہ مائک سے نمازیں ہوتی ہیں ایسی صورت میں مائک کا استعمال درست ہوگا یا نہیں شریعت کی رو سے جواب عنایت فرمائیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں کہ ملک نیپال شہر بیر گنج میں مدینہ جامع مسجد ہے جس میں جمعہ کی نماز میں کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں نماز جمعہ و عیدین ابھی تک مائک سے نہیں ہوئی ہے ہاں مکبر رکھا جاتا ہے اب لوگوں کا اصرار ہے کہ نماز جمعہ و عیدین مائک سے پڑھائی جائے تاکہ لوگوں تک آواز پہنچ جائے ۔مزید لوگ وہاں کا مثال دیتے ہیں جہاں اہل سنت کی مسجد میں مائک سے نمازیں ہوتی ہیں کہ فلاں فلاں جگہ مائک سے نمازیں ہوتی ہیں ایسی صورت میں مائک کا استعمال درست ہوگا یا نہیں شریعت کی رو سے جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد شاکر رضا نوری مدینہ جامع مسجد بیر گنج
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
(یہ سوال فیضان مفتی اعظم بہار و نیپال گروپ کا ہے اس کے بعد اخی الکریم عالم باعمل ناشر مسلک اعلی حضرت عظیم الشان محرک شخصیت حضرت مولانا مفتی محمد رفیق احمد مصباحی صاحب مدظلہ العالی کا حکم ہوتا ہے کہ اس مختلف فیہ مسئلہ پر مفتی اعظم بہار صاحب قبلہ کی تحقیق کا مجھے بھی انتظار ہے
لہذا حکم کہ تعمیل کرتے ہوئے جلد جواب لکھنے کا شرف حاصل کیا) نوٹ تین قسطوں میں جواب دیا جائے گا
(یہ سوال فیضان مفتی اعظم بہار و نیپال گروپ کا ہے اس کے بعد اخی الکریم عالم باعمل ناشر مسلک اعلی حضرت عظیم الشان محرک شخصیت حضرت مولانا مفتی محمد رفیق احمد مصباحی صاحب مدظلہ العالی کا حکم ہوتا ہے کہ اس مختلف فیہ مسئلہ پر مفتی اعظم بہار صاحب قبلہ کی تحقیق کا مجھے بھی انتظار ہے
لہذا حکم کہ تعمیل کرتے ہوئے جلد جواب لکھنے کا شرف حاصل کیا) نوٹ تین قسطوں میں جواب دیا جائے گا
••────────••⊰❤️⊱••───────••
قسط اول لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا حکم
قسط اول لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا حکم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی
کتابوں کے مطالعہ سے مجھ پر واضح ہوا کہ اس صورت مسئولہ میں تین احکام ہیں
(1) کثیر التعداد علماے کرام کے نزدیک نماز میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہیں ہوتی ہے کہ یہ مفسد نماز ہے
(2) قلیل التعداد علماے کرام کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر سے نماز ہوجایے گی
(3) کچھ علمائے کرام فرماتے ہیں
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی
کتابوں کے مطالعہ سے مجھ پر واضح ہوا کہ اس صورت مسئولہ میں تین احکام ہیں
(1) کثیر التعداد علماے کرام کے نزدیک نماز میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہیں ہوتی ہے کہ یہ مفسد نماز ہے
(2) قلیل التعداد علماے کرام کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر سے نماز ہوجایے گی
(3) کچھ علمائے کرام فرماتے ہیں
کہ اختلاف کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہے کہ بچنا بہتر ہے۔
(1) لاؤڈ اسپیکر ایک نو ایجاد مشین ہے۔
(2) لاؤڈ اسپیکر ایک نو ایجاد مشین ہونے کی وجہ سے کہ , اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس سے نماز جائز ہوگی یا نہیں ہوگی اس وجہ سے یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے
لاؤڈ اسپیکر ایک نو ایجاد چیز ہے ۔فقہاء ۔مجتہدین اور ائمہ و مشائخ متاخرین کے عہد میں اس کا وجود نہیں تھا ۔اس لئے فقہ کی متد اول کتابوں میں اس کا کوئی جزیہ مذکور نہیں بلکہ عالمگیری ۔فتاوی شامی اور فتاوی رضویہ تک کتابوں میں اس کے متعلق نہ کوئی سوال و جواب ہے اور نہ اس کی حلت و حرمت پر کوئی جزیہ مذکور ہے تو ۔ایسی کوئی چیز جب ظہور میں آتی ہے اس میں اختلاف ہوجاتا ہے اس لئے یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے
اس لئے امام صاحب کی آواز کو لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ سن کر اقتداء کرنے والے کی نماز کے صحیح ہونے اور صحیح نہ ہونے کے سلسلہ میں ہندوستان میں علماء اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے ۔بڑی تعداد علماء کی ایسی اقتداء کو غلط اور اس طرح پڑھی جانے والی نماز کو ناجائز کہتی ہے ۔اور کم تعداد میں علمائے کرام اس کو جائز قرار دیتے ہیں
(3) اختلاف کی وجہ
اختلاف کہ بنیاد اس پر ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ امام کی آواز ہے یا نہیں ۔اگر بعینہ امام کی آواز ہے تو اس کی اقتداء میں نماز جائز ہے یا نہیں؟
(4) اختلاف اور مختلف فیہ کی وجوہات
جو لوگ جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز چونکہ بعینہ امام کی آواز ہے اس لئے اس کی آواز پر اقتداء جائز ہے
اور جو لوگ کہ ناجائز کہتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ امام کہ آواز نہیں ہے اس لئے اس کی آواز پر رکوع و سجود جائز نہیں ہے کہ یہ خارج تلقن ہے جو مفسد نماز ہے
(5) نماز کا حکم
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین امجدی رحمتہ اللہ علیہ بہت تحقیق انیق کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ
ماہرین سائنس کی تحقیقات اور فقہائے معتمدین کے اقوال سے یہ امر پورے طور پر متحقق ہوگیا کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر رکوع سجود کرنے والوں کی نماز فاسد ہوجاتی ہے اور ایسی نماز کا پھر سے پڑھنا فرض ہوتا ہے۔
(1) لاؤڈ اسپیکر ایک نو ایجاد مشین ہے۔
(2) لاؤڈ اسپیکر ایک نو ایجاد مشین ہونے کی وجہ سے کہ , اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس سے نماز جائز ہوگی یا نہیں ہوگی اس وجہ سے یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے
لاؤڈ اسپیکر ایک نو ایجاد چیز ہے ۔فقہاء ۔مجتہدین اور ائمہ و مشائخ متاخرین کے عہد میں اس کا وجود نہیں تھا ۔اس لئے فقہ کی متد اول کتابوں میں اس کا کوئی جزیہ مذکور نہیں بلکہ عالمگیری ۔فتاوی شامی اور فتاوی رضویہ تک کتابوں میں اس کے متعلق نہ کوئی سوال و جواب ہے اور نہ اس کی حلت و حرمت پر کوئی جزیہ مذکور ہے تو ۔ایسی کوئی چیز جب ظہور میں آتی ہے اس میں اختلاف ہوجاتا ہے اس لئے یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے
اس لئے امام صاحب کی آواز کو لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ سن کر اقتداء کرنے والے کی نماز کے صحیح ہونے اور صحیح نہ ہونے کے سلسلہ میں ہندوستان میں علماء اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے ۔بڑی تعداد علماء کی ایسی اقتداء کو غلط اور اس طرح پڑھی جانے والی نماز کو ناجائز کہتی ہے ۔اور کم تعداد میں علمائے کرام اس کو جائز قرار دیتے ہیں
(3) اختلاف کی وجہ
اختلاف کہ بنیاد اس پر ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ امام کی آواز ہے یا نہیں ۔اگر بعینہ امام کی آواز ہے تو اس کی اقتداء میں نماز جائز ہے یا نہیں؟
(4) اختلاف اور مختلف فیہ کی وجوہات
جو لوگ جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز چونکہ بعینہ امام کی آواز ہے اس لئے اس کی آواز پر اقتداء جائز ہے
اور جو لوگ کہ ناجائز کہتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ امام کہ آواز نہیں ہے اس لئے اس کی آواز پر رکوع و سجود جائز نہیں ہے کہ یہ خارج تلقن ہے جو مفسد نماز ہے
(5) نماز کا حکم
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین امجدی رحمتہ اللہ علیہ بہت تحقیق انیق کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ
ماہرین سائنس کی تحقیقات اور فقہائے معتمدین کے اقوال سے یہ امر پورے طور پر متحقق ہوگیا کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر رکوع سجود کرنے والوں کی نماز فاسد ہوجاتی ہے اور ایسی نماز کا پھر سے پڑھنا فرض ہوتا ہے۔
(ضروری مسائل ص 18)
(6) لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا حکم
اس اختلاف کی وجہ سے حضور بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
ہمارے نزدیک نماز میں میں لاؤڈ اسپیکر سے بچنا ہی بہتر ہے۔ (فتاوی بحرالعلوم جلد اول ص 331)
اور ایک جگہ حضور بحر العلوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
میرے استاد حضور حافظ ملت لکھا کرتے تھے ۔اس مسئلہ میں احتیاط یہی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر نماز میں نہ استعمال کیا جائے۔
۔وجہ یہ تھی کہ اگر لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہ پڑھی جاتی تو دونوں فریق اس کو جائز کہیں گے کوئی ناجائز نہیں کہے گا ۔جب ایک بڑا گروہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے کی صورت میں عدم جواز کا فتویٰ دے گا تو کام وہی کیا جائے کہ جس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہ ہو۔
(6) لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا حکم
اس اختلاف کی وجہ سے حضور بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
ہمارے نزدیک نماز میں میں لاؤڈ اسپیکر سے بچنا ہی بہتر ہے۔ (فتاوی بحرالعلوم جلد اول ص 331)
اور ایک جگہ حضور بحر العلوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
میرے استاد حضور حافظ ملت لکھا کرتے تھے ۔اس مسئلہ میں احتیاط یہی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر نماز میں نہ استعمال کیا جائے۔
۔وجہ یہ تھی کہ اگر لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہ پڑھی جاتی تو دونوں فریق اس کو جائز کہیں گے کوئی ناجائز نہیں کہے گا ۔جب ایک بڑا گروہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے کی صورت میں عدم جواز کا فتویٰ دے گا تو کام وہی کیا جائے کہ جس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہ ہو۔
(فتاوی بحر العلوم جلد اول ص 323)
(7) حضور بحرالعلوم ایک سوال ہوا کہ امام صاحب نے الوداع جمعہ کا خطبہ مائک سے پڑھا اور مکبر ین کی تقرری بھی مائک کے ذریعہ بالا علان کی ۔بعدہ مائک منبر کے اتر جانب رکھ دیا گیا اور کپڑا سے ڈھاک بھی دیا گیا ۔مگر موذن صاحب سے مائک اچھی طرح سے بند نہیں ہوسکا ۔جس کی وجہ سے نماز کے بعد معلوم ہوا کہ مائک امام صاحب کی آواز پکڑ رہا تھا مکبرین کرام نے امام صاحب کی آواز پر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا ہیں ۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں نماز ہوئی یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا عبد المنان صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کے وہاں امام کی آواز پہونچانے کے مسنون طریقہ پر بھی عمل ہوا کہ مکبرین بھی مقرر کئے گئے ۔اور انہوں نے امام کی تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقالات پہنچائیں بھی ۔مگر مشین پوری بند نہ ہونے سے لاؤڈ اسپیکر بھی جاری رہا اور امام صاحب کی آواز اس سے بھی نشر ہوتی رہی
ایسی صورت میں جن قلیل التعداد کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی آواز عین امام کی آواز ہے ان کے نزدیک تو سب مقتدیوں کی نماز ہوگئی ۔اور جن کثیر التعداد علماء کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی آواز ( امام بولنے والے ) کی آواز کے غیر ہے ان کے قول پر بھی امام اور اس کے آس پاس کے وہ لوگ جنہوں نے امام کی آواز سنی اور اس پر اقتداء کی ان کی بھی نماز ہوگئی ۔اور جن لوگوں نے امام کی آواز نقل کرنے والے مبلغین کی آواز پر اقتداء کی ان کی نماز بھی صحیح ہوگئی ۔البتہ جن لوگوں نے بالقصد لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتداء کی ان کی نماز صحیح نہیں ہوئی ۔وہ لوگ اس دن کی چار رکعت ظہر کی نیت سے قضاء کریں۔ اور آئندہ پوری احتیاط سے نماز کے وقت لاؤڈ اسپیکر بند رکھا جائے۔ تاکہ کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہ ہو۔
(7) حضور بحرالعلوم ایک سوال ہوا کہ امام صاحب نے الوداع جمعہ کا خطبہ مائک سے پڑھا اور مکبر ین کی تقرری بھی مائک کے ذریعہ بالا علان کی ۔بعدہ مائک منبر کے اتر جانب رکھ دیا گیا اور کپڑا سے ڈھاک بھی دیا گیا ۔مگر موذن صاحب سے مائک اچھی طرح سے بند نہیں ہوسکا ۔جس کی وجہ سے نماز کے بعد معلوم ہوا کہ مائک امام صاحب کی آواز پکڑ رہا تھا مکبرین کرام نے امام صاحب کی آواز پر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا ہیں ۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں نماز ہوئی یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا عبد المنان صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کے وہاں امام کی آواز پہونچانے کے مسنون طریقہ پر بھی عمل ہوا کہ مکبرین بھی مقرر کئے گئے ۔اور انہوں نے امام کی تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقالات پہنچائیں بھی ۔مگر مشین پوری بند نہ ہونے سے لاؤڈ اسپیکر بھی جاری رہا اور امام صاحب کی آواز اس سے بھی نشر ہوتی رہی
ایسی صورت میں جن قلیل التعداد کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی آواز عین امام کی آواز ہے ان کے نزدیک تو سب مقتدیوں کی نماز ہوگئی ۔اور جن کثیر التعداد علماء کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی آواز ( امام بولنے والے ) کی آواز کے غیر ہے ان کے قول پر بھی امام اور اس کے آس پاس کے وہ لوگ جنہوں نے امام کی آواز سنی اور اس پر اقتداء کی ان کی بھی نماز ہوگئی ۔اور جن لوگوں نے امام کی آواز نقل کرنے والے مبلغین کی آواز پر اقتداء کی ان کی نماز بھی صحیح ہوگئی ۔البتہ جن لوگوں نے بالقصد لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتداء کی ان کی نماز صحیح نہیں ہوئی ۔وہ لوگ اس دن کی چار رکعت ظہر کی نیت سے قضاء کریں۔ اور آئندہ پوری احتیاط سے نماز کے وقت لاؤڈ اسپیکر بند رکھا جائے۔ تاکہ کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہ ہو۔
(فتاویٰ بحر العلوم جلد اول ص 325)
(8) حضور مفتی اعظم ہالینڈ سابق آمین شریعت اداری شرعیہ پٹنہ فرماتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر ایجادات نو میں سے ایک نو ایجاد آلہ ہے جس کا حکم شرع شریف میں منصوص نہیں ۔ لہذا اس کے ذریعہ نکلی ہوئی آواز کو صداء بازگشت یا تلقین عن الخارج پر محمول کرتے ہوئے بعض علماء نے اس کے اتباع کو ناجائز اور مفسد نماز قرار دیا اور بعض علماء نے ذرا نرم گو شہ اختیار کرتے ہوئے اسے ہادم سنت بدعت مکروہہ اور عبث قرار دیا ۔جبک بعض علماء اس کی اباحت و جواز کے قائل ہوئے بلکہ مفید و معاون ہونے کی وجہ سے بڑی جماعتوں کے لئے اسے مستحسن گردانا ۔
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ بریلی شریف تا حین حیات نماز میں اس کے استعمال کو ناجائز و عبث اور اس کی صداء پر انتقالات ہے ارکان نماز کو مفسد نماز فرماتے رہے ۔ہند و پاک کے بیشتر علماء اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی پیروی کرتے ہوئے اس کے عدم جواز کے قائل رہے ۔
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ بریلی شریف کے تربیت یافتہ اور مجاز و ماذون خلافت بحر العلوم حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق صدر المدرسین دارالعلوم رضویہ منظر اسلام بریلی شریف لاؤڈ اسپیکر پر نمازوں کے جواز و صحت پر فتوی دیتے رہے
ہند وپاک کے مقتدر اور صاحبان افتاء حضرات بحر العلوم کی پیروی میں اسپیکر کی صدا پر جواز و صحت کے قائل رہے ۔فقیر ہمچدان 1376ھ سے اب تک 1423ھ مکبر الصوت اور اس کی صدا پر اقتداء کا وہی حکم سائلین کو بتاتا رہا جو حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کا تھا ۔لیکن ہالینڈ میں مقیم علماء ہند و پاک اور ائمۃ مساجد اتراک و مقاریہ کی آپسی بحث و تمحیص کے بعد لاؤڈ اسپیکر سے متعلق یہ مآل و نتیجہ سامنے آیا کہ عالمی طور پر مائک کے استعمال نے عموم بلوی کی شکل اختیار کرلی ہے اور جہاں اس مسئلہ میں شدت ہے وہاں عام طور پر مسلمانوں میں افتراق و انتشار ہے اور شریعت میں عموم بلوی کو نصوص کی حیثیت حاصل ہے
پھر لاؤڈ اسپیکر کا بدعت مکروہہ ہونا بھی اصول شرع کے مطابق ثابت نہیں کہ مکبرین کا نصب کرنا اور اس کی سنت نبویہ ہونا ثابت نہیں ہوا کہ وہ ہادم سنت قرار پائے ۔باقی رہی اس کی آواز کا صدا ہونا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ صداء پر سجدہ تلاوت واجب نہیں لیکن اگر کوئی سجدہ کرلے یا پوری جماعت آیت سجدہ کی صداء پر سجدہ تلاوت کرلے تو کیا یہ سجدہ کرنا ناجائز و گناہ ہوگا ؟ ہر گز نہیں۔بر صغیر کی پرانی بیشتر مسجدیں اور ترکی جو مسجدوں کا ملک ہے اس کی اکثر مسجدیں گنبد دار ہیں ۔جن میں تلاوت کے علاؤہ تکبیروں کی آوازیں بھی گونجتی ہیں ۔ اور مقتدی ان آوازوں یا امام و صدا کی مشترک آوازوں پر رکوع و سجود کرتے ہیں ۔لیکن آج تک کسی عالم دین یا مفتی نے مسجدوں میں گنبدوں کی تعمیر کو ناجائز نہیں کہا ۔نہ ہی اس کی صدا پر پر پڑھیں گئی نمازوں کو لوٹانے کا حکم دیا ۔لہذا احتیاط اس میں نہیں ہے کہ عامۃ المسلمین کی نمازوں کو فاسد قرار دیکر مسلمانوں کو گنہگار ثابت کیا جائے ۔بلکہ مسلمانوں کی بہی خواہی اور احتیاط اس میں ہے کہ نمازوں کو فساد اور مسلمانوں کو گنہگار ہونے سے بچایا جائے اس لئے میں اس میں بھلائی دیکھتا ہوں کہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو آذان و خطبات جمعہ واعیاد وغیرہم کی طرح نماز با جماعت (جبکہ امام کی آواز مقتدیوں تک نہ پہنچتی ہو) میں جائز قرار دیا جائے
لاؤڈ اسپیکر سے متعلق مقدمہ بالا تمہید اس کی آواز پر نماز کے ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کے جواز وصحت کی جانب رہنمائی کرتا ہے اس لئے جو حضرات نماز میں اسے استعمال کرتے ہیں میں اسے منع کرکے عند الشرع زیر بار ہونا نہیں چاہتا کہ ممانعت دلیل شرع کی محتاج ہے اور اباحت کے لئے سکوت شرع کافی۔
(8) حضور مفتی اعظم ہالینڈ سابق آمین شریعت اداری شرعیہ پٹنہ فرماتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر ایجادات نو میں سے ایک نو ایجاد آلہ ہے جس کا حکم شرع شریف میں منصوص نہیں ۔ لہذا اس کے ذریعہ نکلی ہوئی آواز کو صداء بازگشت یا تلقین عن الخارج پر محمول کرتے ہوئے بعض علماء نے اس کے اتباع کو ناجائز اور مفسد نماز قرار دیا اور بعض علماء نے ذرا نرم گو شہ اختیار کرتے ہوئے اسے ہادم سنت بدعت مکروہہ اور عبث قرار دیا ۔جبک بعض علماء اس کی اباحت و جواز کے قائل ہوئے بلکہ مفید و معاون ہونے کی وجہ سے بڑی جماعتوں کے لئے اسے مستحسن گردانا ۔
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ بریلی شریف تا حین حیات نماز میں اس کے استعمال کو ناجائز و عبث اور اس کی صداء پر انتقالات ہے ارکان نماز کو مفسد نماز فرماتے رہے ۔ہند و پاک کے بیشتر علماء اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی پیروی کرتے ہوئے اس کے عدم جواز کے قائل رہے ۔
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ بریلی شریف کے تربیت یافتہ اور مجاز و ماذون خلافت بحر العلوم حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق صدر المدرسین دارالعلوم رضویہ منظر اسلام بریلی شریف لاؤڈ اسپیکر پر نمازوں کے جواز و صحت پر فتوی دیتے رہے
ہند وپاک کے مقتدر اور صاحبان افتاء حضرات بحر العلوم کی پیروی میں اسپیکر کی صدا پر جواز و صحت کے قائل رہے ۔فقیر ہمچدان 1376ھ سے اب تک 1423ھ مکبر الصوت اور اس کی صدا پر اقتداء کا وہی حکم سائلین کو بتاتا رہا جو حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کا تھا ۔لیکن ہالینڈ میں مقیم علماء ہند و پاک اور ائمۃ مساجد اتراک و مقاریہ کی آپسی بحث و تمحیص کے بعد لاؤڈ اسپیکر سے متعلق یہ مآل و نتیجہ سامنے آیا کہ عالمی طور پر مائک کے استعمال نے عموم بلوی کی شکل اختیار کرلی ہے اور جہاں اس مسئلہ میں شدت ہے وہاں عام طور پر مسلمانوں میں افتراق و انتشار ہے اور شریعت میں عموم بلوی کو نصوص کی حیثیت حاصل ہے
پھر لاؤڈ اسپیکر کا بدعت مکروہہ ہونا بھی اصول شرع کے مطابق ثابت نہیں کہ مکبرین کا نصب کرنا اور اس کی سنت نبویہ ہونا ثابت نہیں ہوا کہ وہ ہادم سنت قرار پائے ۔باقی رہی اس کی آواز کا صدا ہونا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ صداء پر سجدہ تلاوت واجب نہیں لیکن اگر کوئی سجدہ کرلے یا پوری جماعت آیت سجدہ کی صداء پر سجدہ تلاوت کرلے تو کیا یہ سجدہ کرنا ناجائز و گناہ ہوگا ؟ ہر گز نہیں۔بر صغیر کی پرانی بیشتر مسجدیں اور ترکی جو مسجدوں کا ملک ہے اس کی اکثر مسجدیں گنبد دار ہیں ۔جن میں تلاوت کے علاؤہ تکبیروں کی آوازیں بھی گونجتی ہیں ۔ اور مقتدی ان آوازوں یا امام و صدا کی مشترک آوازوں پر رکوع و سجود کرتے ہیں ۔لیکن آج تک کسی عالم دین یا مفتی نے مسجدوں میں گنبدوں کی تعمیر کو ناجائز نہیں کہا ۔نہ ہی اس کی صدا پر پر پڑھیں گئی نمازوں کو لوٹانے کا حکم دیا ۔لہذا احتیاط اس میں نہیں ہے کہ عامۃ المسلمین کی نمازوں کو فاسد قرار دیکر مسلمانوں کو گنہگار ثابت کیا جائے ۔بلکہ مسلمانوں کی بہی خواہی اور احتیاط اس میں ہے کہ نمازوں کو فساد اور مسلمانوں کو گنہگار ہونے سے بچایا جائے اس لئے میں اس میں بھلائی دیکھتا ہوں کہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو آذان و خطبات جمعہ واعیاد وغیرہم کی طرح نماز با جماعت (جبکہ امام کی آواز مقتدیوں تک نہ پہنچتی ہو) میں جائز قرار دیا جائے
لاؤڈ اسپیکر سے متعلق مقدمہ بالا تمہید اس کی آواز پر نماز کے ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کے جواز وصحت کی جانب رہنمائی کرتا ہے اس لئے جو حضرات نماز میں اسے استعمال کرتے ہیں میں اسے منع کرکے عند الشرع زیر بار ہونا نہیں چاہتا کہ ممانعت دلیل شرع کی محتاج ہے اور اباحت کے لئے سکوت شرع کافی۔
(فتاویٰ یورپ ص 200 سے 202)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
12, رمضان المبارک 1446
13 مارچ 2025
(قسط جاری ہے لہذا قسط دوم و سوم کے بعد فیصلہ کریں)
12, رمضان المبارک 1446
13 مارچ 2025
(قسط جاری ہے لہذا قسط دوم و سوم کے بعد فیصلہ کریں)