Type Here to Get Search Results !

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی قید و بند، اسلاف، سلمان ازہری


 آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
[قید و بند، اسلاف، سلمان ازہری]
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مہینوں بعد امید کی کرن پھوٹی غنچۂ دل کھل اٹھا پژمردہ چمن شاداب ہوا کشت ویراں میں بہار آئی یعنی مبلغ دین خدا محافظ ناموس مصطفی گلِ سر سبدِ جامعۃ الرضا مفتی محمد سلمان ازہری حفظہ اللہ جل و علا کو تقریبا آٹھ دس ماہ بعد رہائی ملی جس سے ہر طرف خوشیوں کی لہر دوڑ گئی مرجھائے ہوئے چہرے گلابوں کی طرح کھل اٹھے ہر طرف عجب ہی رنگت چھائی ہوئی تھی جس کی نقشہ کشی حقیر فقیر جسیم اکرم مرکزی پورنوی غفر لہ المولی القدیر نے اس طرح سے کی 
 گلشن و گلزار کی پھر تازہ رنگت ہو گئی
چاند نکلا چاندنی سے دور ظلمت ہو گئی
شکر ہے اللہ تعالیٰ کا جسیم قادری
   مفتی سلماں شیر دوراں کی ضمانت ہو گئی
     جس پر بعض حضرات نے بطور طعن و تشنیع کہا کہ "یہ شیر پھر دھاڑے گا اور اندر چلا جائے گا" جس سے دلی تکلیف ہوئی اور میں گھنٹوں سوچتا رہا کہ سنی کہلانے والوں میں بھی اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں کیا انھیں پتہ نہیں؟
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو 
عجب چیز ہے لذت آشنائی
جس کے دل میں عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع فروزاں ہو جس کے وجود میں حب نبی کا رنگ چڑھا ہو پھر وہ کسی اور رنگ کی طرف نظر نہیں کرتا کیونکہ
اُنہیں کی بُو مایۂ سمن ہے اُنہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
اُنہیں سے گلشن مہک رہے ہیں اُنہیں کی رنگت گلاب میں ہے
اس عشق کا مزہ اسی کو ملے گا جس نے اپنی زندگی حضور کے لیے وقف کر دی ہو بیوی اولاد ماں باپ سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو فوقیت دی ہو تو اس کی صدا یہی ہوتی ہے
جلی جلی بُو سے اُس کی پیدا ہے سوزش عشقِ چشم والا
کبابِ آہُو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے
      جو لذت آشنا نہیں ہے عشق سرکار میں سرشار نہیں ہے مدینے والے کی محبت میں گرفتار نہیں ہے وہی کہتا ہے کہ "شیر دھاڑے گا پھر اندر چلا جائے گا چلا جائے گا" میں کہتا ہوں اگر چلا بھی گیا تو کیا ہوا یہ جان تو آقا کی محبت میں قربان ہونے کے لیے ہمیشہ تیار ہے بلکہ مفتی اعظم ہند رضی اللہ عنہ کے عشق کی زبان میں سنو
یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروروں
ترے نام پر سب کو ورا کروں میں 
نیز حضور اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کی زبان فیض ترجمان سے یوں سنو 
کروں تیرے نام پہ جاں فدانہ بس ایک جاں دو جہاں فِدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں
عاشقان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک بار نہیں بلکہ ان کے عشق میں ہزار بار بھی جیل جانے کو تیار ہیں کیونکہ 
       زندگی جینا ہے جس کو وہ جیے شوق سے پر
        ہم تو پیدا ہی ہوئے آپ پہ مرنے کے لیے
    پھر کس چیز کا خوف کس چیز کا ڈر ہمیں اپنی جان سے بھی پیاری ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہے 
     کسی کو دوستی پیاری کسی کو زندگی پیاری
     خدا کا شکر ہے ہم کو ہے ناموس نبی پیاری
      احقاق حقائق کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا یہ تو انبیاء کرام و اولیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنتیں ہیں
    حضرت یوسف علیہ السلام اور قید خانہ :- 
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں قرآن مقدس سورۂ یوسف آیت نمبر ٣٣_٣٤_٣٥ میں ہے 
       یوسف نے عرض کی اے میرے رب مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا۔تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکر پھیردیا بیشک وہی ہے سنتا جانتا ۔پھر سب کچھ نشانیاں دیکھ دکھا کر پچھلی مت انہیں یہی آئی کہ ضرور ایک مدت تک اسے قیدخانہ میں ڈالیں۔ [کنز الایمان]
       حضرت یوسف علیہ السلام سات سال یا اس سے زائد قید میں رہے پھر باہر تشریف لائے۔
       لیکن سوال یہ ہے کہ آخر حضرت یوسف علیہ السلام نے قید و بند کی صعوبتیں کیوں برداشت کیں تو جواب یہی ہے کہ صرف رضائے الٰہی کے لیے 
اس سے ثابت ہوتا ہے رضائے الٰہی کے لیے قید و بند اختیار کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے اسی لیے جب تک جان میں جان ہے ہے تو ناموس رسالت پر پہرا دیں گے اللہ کی رضا کے لیے جیں گے ایک بار کیا ہزار بار بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالیں گے تو جانے کے لیے تیار ہیں یہی عاشقوں کی آواز صدائے دلنواز ہے 
ناموس رسالت کی حفاظت کے واسطے
ہم جام شہادت کا بصد شان پییں گے
حضرت امام مالک اور حق گوئی :- 
حق گوئی و بے با کی امام مالک رضی اللہ عنہ کا طرۂ امتیاز تھا، وہ جابر امرا اور خلفا کے رو برو حق بات کہنے سے باز نہ رہتے، بلکہ ان لوگوں سے ملنے کا بنیادی مقصد ان کی تنبیہ اور ان کے سامنے کلمۂ حق کا اعلان کرنا ہوتا ، ان سے پوچھا گیا، آپ اہل دول سے کیوں ملتے ہیں ، تو فرمایا کہ يرحمك الله فاين التكلم بالحق “ ان کے یہاں نہیں تو کہاں حق بات کہی جائے گی ؟ حق گوئی کے نتیجے میں آپ پر شاہی عتاب ہوا، مگر حق و صداقت کی راہ میں آپ کے قدموں میں لغزش نہ آئی، امام صاحب کے حاسدوں نے ایک مرتبہ ابو جعفر منصور کے پاس جا کر کہا، کہ مالک ! آپ لوگوں کی بیعت کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اور عباسی خلافت کے منکر ہیں، یہ سن کر ابو جعفر منصور غصہ ہوا اور امام صاحب کے کپڑے اتروا کر کوڑے مارے اس میں آپ کا ہا تھ اکھڑ گیا اور بڑی زیادتی کی۔ (ابن خلکان ج ۲ ص ۳۰۱)
      اتنے ظلم و ستم کے باوجود آپ خوف نہیں کھائے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے دوبارہ سزا دی جائے گی لہذا حق گوئی سے باز آجاتے ہیں بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا 
       مرد حق باطل کے آگے مات کھا سکتا نہیں 
      سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں
حضرت امام احمد بن حنبل اور حق گوئی :- 
 کتب سیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اسحاق بن ابراہیم نے مامون کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، فقہا و محدثین اور اصحاب فتوی کو بلا کر دھمکی دی، کہ اگر انہوں نے خلق قرآن کے عقیدے کو نہ مانا تو انہیں شدید آلام و مصائب سے دوچار ہونا پڑے گا، چنانچہ سب نے بلا روک ٹوک یہ باطل نظریہ تسلیم کر لیا اور اعلانیہ خلق قرآن کے قائل ہو گئے۔ 
       لیکن اس کڑی آزمائش میں صرف چار علمی شخصیتیں اپنے موقف پر جمی رہیں وہ حکم خداوندی پر قانع رہے، ان کے پایۂ ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ آئی ، وہ چار بزرگ یہ تھے (۱) امام احمد بن خلیل (۲) محمد بن نوح (۳) قواریری (۴) سجادہ۔
ان چاروں کو بیڑیاں پہنا کر قید خانے میں بھیج دیا گیا، جہاں انہوں نے رات گزاری، جب صبح ہوئی، تو سجادہ نے معتزلہ کی دعوت پر لبیک کہہ دی اور وہ بیڑیوں سے آزاد کر دیا گیا، باقی اسی طرح مقید رہے، اگلے دن ان سے خلق قرآن کے بارے میں دریافت کیا گیا، قواریری کا عقیدہ متزلزل ہو گیا اور اس نے نظریۂ خلق قرآن قبول کر لیا، اسے بھی آزادی مل گئی ، اب صرف دو مردان حق قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے لیے باقی رہ گئے، جنہیں طوق و سلاسل میں جکڑ کر مامون کے پاس روانہ کیا گیا، جو اس وقت طرطوس میں مقیم تھا۔
یہ لوگ کوفہ کے علاقے میں تھے، تو بدووں کا ایک غلام جابر بن عامر ان کے پاس آیا اور اس نے سلام کیا اور کہنے لگا، آپ ارباب اقتدار کے پاس جانے والے ہیں، ان کے لیے منحوس نہ بنیں، آج آپ مسلمانوں کے سردار ہیں اور جس بات کی طرف آپ کو دعوت دیتے ہیں، اس کا جواب دینے سے بچیں، ورنہ قیامت کے دن آپ ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھائیں گے اور اگر آپ اللہ سے محبت کرتے ہیں، تو آپ جس حالت میں ہیں، اس پر صبر کیجیے، آپ کے بعد جنت کے درمیان صرف آپ کا قتل ہونا ہی باقی ہے اور اگر آپ زندہ رہے، تو قابل تعریف حالت میں زندہ رہیں گے۔
(ابن کثیر ج ۱۰ ص ۸۸۵)
امام احمد کا بیان ہے، کہ اس غلام کی گفتگو نے میرے عقیدے اور عزم کو قوت عطا کی ، آپ کہتے ہیں:
      سمعت كلمة منذ وقعت في هذا الأمر الذي وقعت فيه اقوى من كلمة اعرابي كلمنى فيها في رحبة طوق قال لي يا احمد ان يقتلك الحق مت شهيدا وان عشت عشت حميدا قال فقوی قلبی - (مناقب ص (۳۹) 
جب سے میں اس آزمائش میں مبتلا کیا گیا اس اعرابی کی گفتگو سے زیادہ قوت دینے والی کوئی بات نہیں سنی ، جس نے مجھ سے اسیری کی حالت میں کہا ، احمد ! اگر حق پر قتل کیے جاؤ گے تو شہید ہو گے اور اگر زندہ رہے تو تمہاری ستائش کی جائے گی احمد کہتے ہیں اس بات نے میرے دل کو مضبوط کر دیا۔ راہ حق کے دونوں با عظمت قیدی جب خلیفہ کی قیام گاہ سے ایک دن کی مسافت پر تھے، تو ایک خادم اپنے آنسو پوچھتے ہوئے حاضر ہوا اور کہنے لگا اے ابو عبد اللہ ! مجھ پر یہ بات گراں گزرتی ہے، کہ مامون نے ایک تلوار سونتی ہے، جو اس سے پہلے کبھی نہیں سونتی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قرابت داری کی قسم کھا کر کہتا ہے، کہ احمد بن حنبل نے اگر خلق قرآن کے قول کو قبول نہ کیا تو اسے اپنی تلوار سے قتل کر دے گا۔
امام صاحب اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور آپ نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا، اے میرے اللہ ! تیرے حلم نے اس فاجر کو فریب دیا ہے، حتی کہ اس نے تیرے اولیا کے ضرب و قتل پر جرات کی ہے، اے اللہ ! اگر قرآن جو تیرا کلام ہے، غیر مخلوق ہے، تو ہمیں اس کی مشقت سے کفایت کر۔
        رات کے آخری پہر خبر آئی، کہ مامون مر گیا اور معتصم کو خلیفہ بنا دیا گیا۔
(ابن کثیر ج ۱۰ ص ۸۸۹ ماخوز از سیرت امام احمد بن حنبل)
      یہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کی ذات مبارکہ ہے کہ قتل کی دھمکی سننے کے باوجود حق گوئی سے باز نہ آئے بلکہ دنیا کو بتا دیا 
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
حضور تاج الشریعہ کی حق گوئی :-
   تیسری مرتبہ١٩٨٦ء/١٤٠٦ھ حج کے موقع پرسعودی حکومت نے حضور تاج الشریعہ رضی اللہ عنہ کو بیجا گرفتار کرلیا اس موقع پر آپ نے حق گوئی و بے باکی کا جو مظاہرہ کیا وہ آپ ہی کا حصہ تھا۔ سعودی مظالم کے متعلق حضور تاج الشریعہ خود فرماتے ہیں:
    ”مختصر یہ کہ مسلسل سوالات کے باوجود میرا جرم میرے بار بار پوچھنے کے بعد بھی مجھے نہ بتایا بلکہ یہی کہتے رہے کہ ”میرا معاملہ اہمیت نہیں رکھتا۔” لیکن اس کے باوجود میری رہائی میں تاخیر کی گئی اور بغیر اظہار جرم مجھے مدینہ منورہ کی حاضری سے موقوف رکھا اور١١/ دنوں کے بعد جب مجھے جدہ روانہ کیا گیا تو میرے ہاتھوں میں جدہ ائیر پورٹ تک ہتھکڑی پہنائے رکھی اور راستے میں نماز ظہر کے لیے موقع بھی نہ دیا گیا اس وجہ سے میری نماز ظہر قضاہو گئی۔”
 [مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء صفحہ :١٥٠/جلد :١]
اسی کی عکاسی کرتے ہوئے سرکار تاج الشریعہ نے فرمایا ۔
  نہ رکھا مجھ کو طیبہ کی قفس میں اس ستم گر نے
    ستم کیسا ہوا بلبل پہ یہ قید ستم گر میں
     ستم سے اپنے مٹ جاؤ گے تم خود اے ستمگارو
    سنو ہم کہہ رہے ہیں بے خطر دورِ ستم گر میں
     مدینے سے رہیں خود دور اس کو روکنے والے 
     مدینے میں خود اختر ہے مدینہ چشم اختر میں
اسی مرد خدا قلندر بریلوی سیدنا سندنا مرشدنا سرکار تاج الشریعہ رضی اللہ عنہ کے تلمیذ رشید مفتی سلمان ازہری دام ظلہ العالی کو بغیر جرم کے تقریبا آٹھ دس مہینے تک جیل میں رکھا بالآخر بحمدہ تعالیٰ ١٤ ربیع الآخر ١٤٤٦ھ بمطابق ١٨ اکتوبر ٢٠٢٤ء بروز جمعہ ضمانت ملی اور ١٥ ربیع الآخر اپنے گھر تشریف لائے جس میں لوگوں نے اسقبالیہ نعرہ لگاتے ہوئے کہا شیر آیا شیر آیا تو اس کے جواب میں مفتی سلمان ازہری صاحب نے فرمایا "شور بھی آئے گا" جو اس بات کی طرف مشیر ہے کہ یہ شیر پھر دھاڑے گا اور اگر ایسی آزمائشیں لاکھوں بھی آ جائیں تو سب کو ہنستے ہوئے گلے سے لگا لے گا کیونکہ 
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
دار ؤ سکندر سے وہ مرد فقیر اولی
      ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- محمد جسیم اکرم مرکزی
جامعۃ الرضا بریلی شریف

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area