(سوال نمبر 4784)
کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر کا دروازہ جلادیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شر ع اس مسئلہ کے بارے میں کہ شیعہ حضرات بہتان باندھتے ہیں کہ ابوبکر صدیق یا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما سیدنا فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کا دروازہ جلا کر ان پر پھینک دیا اس کی کتنی حقیقت ہے جواب عنایت فرمائیں
سائل:-محمد عمران خان پاکستان ضلع میانوالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ باتیں من گھڑت اور بے اصل ہے
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق جو شیعہ بکواس بکتے ہیں کہ سقیفہ کے واقعہ کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بیعت دینے سے انکار کیا تھا اور سیدنا ابوبکر نے سیدنا عمر اور چند دوسرے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ سیدہ فاطمہ کے گھر جاؤ اور سیدنا علی کو پکڑ کر لے آؤ۔ صحابہ کرام نے سیدنا عمر کی قیادت میں گھر کا دروازہ توڑا اور سیدنا علی کو گھسیٹتے ہوئے سیدنا ابوبکر کی طرف لے گئے اور زبردستی سیدنا ابوبکر کی بیعت کروائی ۔
اور اس من گھڑت افسانے میں مزید اضافہ اس طرح ہے کہ سیدنا علی کے گرد گھیرا ڈال کے کھڑے ہوئے ان کے گھر کا دروازہ جلایا اور ان کی مرضی کے خلاف ان کو گھر سے نکالا اور گھر میں موجود سیدہ فاطمہ کو دروازے کے درمیان دبایا اور اس طرح محسن جن سے فاطمہ پانچ یا چھ مہینے کی حاملہ تھیں کو مار ڈالا۔ (معاذاللہ)
یہ افسانہ سبائی ٹولہ اہلسنت کی کتابوں کا حوالہ دے کر عوام الناس کو دھوکہ دیتا آیا ہے کہ اہلسنت کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے جب ان کتابوں کو کھنگالا گیا تو ہمیں ایسا کوئی من گھڑت افسانہ نہ ملا البتہ ایک مصنف ابن ابی شیبہ اور کنز العمال میں موجود ہے اس کے متعلق یہ دھوکہ دیا جاتا ہے اور روایت کے خلاف معنی بیان کیا جاتا ہے۔
اب مصنف ابن ابی شیبہ اور کنز العمال میں روایت کس طرح ہے وہ ملاحظہ فرمائیں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو جلانے کی تہمت لگانا صریح جھوٹ و بہتان ہے
اس روایت میں یہ درج ہے کہ عمر نے فاطمہ کو کہا کہ اے دخترِ رسولﷺ، تمام لوگوں میں سے کوئی مجھے آپ کے باپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور اس کے بعد آپ سے زیادہ پیارا کوئی نہیں میرے پاس یہ بری خبر آئی ہے کہ یہ یہ لوگ آپ کے گھر میں جمع ہوئے ہیں اور ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کررہے ہیں اگر ان لوگوں کو روکا نہیں گیا تو خدا کی قسم میں ان کے گھر جلادوں گا یہ کہہ کر حضرت عمر لوٹ آئے اور جب علی اور زبیر گھر واپس آئے تو حضرت فاطمہؓ نے ان لوگوں سے یہ کہا کیا آپ کو پتہ ہے کہ عمر یہاں آئے تھے اور مجھ سے ایک عہد لیا کہ اگر ان لوگوں نے ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کی تو ان لوگوں کے گھر جلادیں گے؟ خدا کی قسم عمر اپنے عہد کو پورا کریں گے اس لئے میرے گھر سے اس ارادے سے آپ لوگ چلے جائیں اور اپنے ارادے اور خیالات کو ملتوی کردیں اور دوبارہ میرے گھر اس ارادے سے نہیں آئیں حضرت علی اور حضرت زبیر گھر چھوڑ کر آگئے اور دوبارہ وہاں جمع نہیں ہوئے جب تک انہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت نہ کر لی ۔ اسی واقعہ کو اہل تشع بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ اس میں حضرت فاطمہ کے گھر کو یا دروازے کو جلا دیا اس کا کپہں ذکر نہیں ہے۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں اس قصہ کی بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ (گھر یا دروازے جلادئے)
یہ قصہ سراسر بہتان اور بدترین افتراء اور جھوٹ ہے، اس کی کوئی اصلیت نہیں، اس لیے امامیہ حضرات کی اکثریت اس قصہ کی قائل ہی نہیں ہے۔
کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر کا دروازہ جلادیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شر ع اس مسئلہ کے بارے میں کہ شیعہ حضرات بہتان باندھتے ہیں کہ ابوبکر صدیق یا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما سیدنا فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کا دروازہ جلا کر ان پر پھینک دیا اس کی کتنی حقیقت ہے جواب عنایت فرمائیں
سائل:-محمد عمران خان پاکستان ضلع میانوالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ باتیں من گھڑت اور بے اصل ہے
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق جو شیعہ بکواس بکتے ہیں کہ سقیفہ کے واقعہ کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بیعت دینے سے انکار کیا تھا اور سیدنا ابوبکر نے سیدنا عمر اور چند دوسرے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ سیدہ فاطمہ کے گھر جاؤ اور سیدنا علی کو پکڑ کر لے آؤ۔ صحابہ کرام نے سیدنا عمر کی قیادت میں گھر کا دروازہ توڑا اور سیدنا علی کو گھسیٹتے ہوئے سیدنا ابوبکر کی طرف لے گئے اور زبردستی سیدنا ابوبکر کی بیعت کروائی ۔
اور اس من گھڑت افسانے میں مزید اضافہ اس طرح ہے کہ سیدنا علی کے گرد گھیرا ڈال کے کھڑے ہوئے ان کے گھر کا دروازہ جلایا اور ان کی مرضی کے خلاف ان کو گھر سے نکالا اور گھر میں موجود سیدہ فاطمہ کو دروازے کے درمیان دبایا اور اس طرح محسن جن سے فاطمہ پانچ یا چھ مہینے کی حاملہ تھیں کو مار ڈالا۔ (معاذاللہ)
یہ افسانہ سبائی ٹولہ اہلسنت کی کتابوں کا حوالہ دے کر عوام الناس کو دھوکہ دیتا آیا ہے کہ اہلسنت کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے جب ان کتابوں کو کھنگالا گیا تو ہمیں ایسا کوئی من گھڑت افسانہ نہ ملا البتہ ایک مصنف ابن ابی شیبہ اور کنز العمال میں موجود ہے اس کے متعلق یہ دھوکہ دیا جاتا ہے اور روایت کے خلاف معنی بیان کیا جاتا ہے۔
اب مصنف ابن ابی شیبہ اور کنز العمال میں روایت کس طرح ہے وہ ملاحظہ فرمائیں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو جلانے کی تہمت لگانا صریح جھوٹ و بہتان ہے
اس روایت میں یہ درج ہے کہ عمر نے فاطمہ کو کہا کہ اے دخترِ رسولﷺ، تمام لوگوں میں سے کوئی مجھے آپ کے باپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور اس کے بعد آپ سے زیادہ پیارا کوئی نہیں میرے پاس یہ بری خبر آئی ہے کہ یہ یہ لوگ آپ کے گھر میں جمع ہوئے ہیں اور ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کررہے ہیں اگر ان لوگوں کو روکا نہیں گیا تو خدا کی قسم میں ان کے گھر جلادوں گا یہ کہہ کر حضرت عمر لوٹ آئے اور جب علی اور زبیر گھر واپس آئے تو حضرت فاطمہؓ نے ان لوگوں سے یہ کہا کیا آپ کو پتہ ہے کہ عمر یہاں آئے تھے اور مجھ سے ایک عہد لیا کہ اگر ان لوگوں نے ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کی تو ان لوگوں کے گھر جلادیں گے؟ خدا کی قسم عمر اپنے عہد کو پورا کریں گے اس لئے میرے گھر سے اس ارادے سے آپ لوگ چلے جائیں اور اپنے ارادے اور خیالات کو ملتوی کردیں اور دوبارہ میرے گھر اس ارادے سے نہیں آئیں حضرت علی اور حضرت زبیر گھر چھوڑ کر آگئے اور دوبارہ وہاں جمع نہیں ہوئے جب تک انہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت نہ کر لی ۔ اسی واقعہ کو اہل تشع بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ اس میں حضرت فاطمہ کے گھر کو یا دروازے کو جلا دیا اس کا کپہں ذکر نہیں ہے۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں اس قصہ کی بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ (گھر یا دروازے جلادئے)
یہ قصہ سراسر بہتان اور بدترین افتراء اور جھوٹ ہے، اس کی کوئی اصلیت نہیں، اس لیے امامیہ حضرات کی اکثریت اس قصہ کی قائل ہی نہیں ہے۔
(تحفہ اثنا عشریہ مترجم،باب 10: خلفاء ثلاثہ اور کبارِ صحابہ پر مطاعن اور ان کے جواب، ص:568، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
23/10/2023
23/10/2023