حدیث: الدنیا جیفۃ و طلابھا الکلاب، موضوع ہے یا ضعیف؟
(از: ابن فقیہ ملت)
(از: ابن فقیہ ملت)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ الدنیا جیفة و طلابھا الکلاب، اس حدیث کی حقیقت کیا ہے، موضوع ہے یا ضعیف؟ برائے تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ الدنیا جیفة و طلابھا الکلاب، اس حدیث کی حقیقت کیا ہے، موضوع ہے یا ضعیف؟ برائے تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی: محمد مصباحی، دہلی۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
حدیث و علوم حدیث کے ماہرین و ناقدین کی رائے ہے کہ: ’’الدنیا جیفة و طلابھا الکلاب‘‘۔ کا معنی اگرچہ صحیح ہے مگر یہ حدیث نہیں یا یہ کہ ان الفاظ کے ساتھ، حدیث مرفوع موجود نہیں، البتہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اس مفہوم کی روایت موقوفا و مرفوعا موجود ہے۔
کشف الخفاء میں ہے: ’’الدنيا جِيفة، وطلابها كلاب. قال الصغاني: موضوع، أقول: وإن كان معناه صحيحًا لكنه ليس بحديث، وقال النجم: ليس بهذا اللفظ في المرفوع، وعند أبي نعيم عن يوسف بن أسباط، قال: قال علي بن أبي طالب: ((الدنيا جيفة، فمن أرادها فليصبر على مخالطة الكلاب)) وأخرجه ابن أبي شيبة عنه مرفوعا ورواه البزار عن أنس بلفظ: ((ينادي منادٍ: دعوا الدنيا لأهلها -ثلاثًا- من أخذ من الدنيا فوق ما يكفيه أخذ حتفه وهو لا يشعر)) وذكره السيوطي في الدرر بلفظ: الدنيا جيفة، والناس كلابها، رواه أبو الشيخ في تفسيره عن علي موقوفا، ثم قال: وأخرج الديلمي عن علي مرفوعا: أوحى الله إلى داود: ((يا داود مثل الدنيا كمثل جيفة جمعت عليها الكلاب يجرونها، أفتحب أن تكون مثلهم فتجرها معهم))‘‘۔ (کشف الخفاء و مزیل الإلباس، امام اسماعیل بن محمد عجلونی، ج۱ص۴۶۸، رقم: ۱۳۱۳، ط: المکتبۃ العصریۃ)
المزكيات میں ہے: ’’حدثنا ابن المسيب قال: سمعت عبد الله بن خبيق يقول: قال يوسف بن أسباط: ((الدنيا دار نعيم الظالمين)) قال: وقال علي بن أبي طالب عليه السلام: ((الدنيا جيفة، فمن أرادها فليصبر على مخالطة الكلاب))‘‘۔
کشف الخفاء میں ہے: ’’الدنيا جِيفة، وطلابها كلاب. قال الصغاني: موضوع، أقول: وإن كان معناه صحيحًا لكنه ليس بحديث، وقال النجم: ليس بهذا اللفظ في المرفوع، وعند أبي نعيم عن يوسف بن أسباط، قال: قال علي بن أبي طالب: ((الدنيا جيفة، فمن أرادها فليصبر على مخالطة الكلاب)) وأخرجه ابن أبي شيبة عنه مرفوعا ورواه البزار عن أنس بلفظ: ((ينادي منادٍ: دعوا الدنيا لأهلها -ثلاثًا- من أخذ من الدنيا فوق ما يكفيه أخذ حتفه وهو لا يشعر)) وذكره السيوطي في الدرر بلفظ: الدنيا جيفة، والناس كلابها، رواه أبو الشيخ في تفسيره عن علي موقوفا، ثم قال: وأخرج الديلمي عن علي مرفوعا: أوحى الله إلى داود: ((يا داود مثل الدنيا كمثل جيفة جمعت عليها الكلاب يجرونها، أفتحب أن تكون مثلهم فتجرها معهم))‘‘۔ (کشف الخفاء و مزیل الإلباس، امام اسماعیل بن محمد عجلونی، ج۱ص۴۶۸، رقم: ۱۳۱۳، ط: المکتبۃ العصریۃ)
المزكيات میں ہے: ’’حدثنا ابن المسيب قال: سمعت عبد الله بن خبيق يقول: قال يوسف بن أسباط: ((الدنيا دار نعيم الظالمين)) قال: وقال علي بن أبي طالب عليه السلام: ((الدنيا جيفة، فمن أرادها فليصبر على مخالطة الكلاب))‘‘۔
(المزکیات، امام ابراہیم بن محمد نیساپوری مزکی، ص۲۵۰، رقم: ۱۷۶، ط: دار البشائر الإسلامیۃ)
حلیۃ الأولیاء میں ہے: ’’حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّبَيْرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ خُبَيْقٍ، سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ أَسْبَاطٍ، يَقُولُ: ((الدُّنْيَا دَارُ نَعِيمٍ لِلظَّالِمِينَ)) قَالَ: وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: ((الدُّنْيَا جِيفَةٌ فَمَنْ أَرَادَهَا فَلْيَصْبِرْ عَلَى مُخَالَطَةِ الْكِلَابِ))‘‘۔
حلیۃ الأولیاء میں ہے: ’’حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّبَيْرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ خُبَيْقٍ، سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ أَسْبَاطٍ، يَقُولُ: ((الدُّنْيَا دَارُ نَعِيمٍ لِلظَّالِمِينَ)) قَالَ: وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: ((الدُّنْيَا جِيفَةٌ فَمَنْ أَرَادَهَا فَلْيَصْبِرْ عَلَى مُخَالَطَةِ الْكِلَابِ))‘‘۔
(حلیۃ الأولیاء، امام ابو نعیم اصفہانی، ج۸ص۲۳۸، ط: دار الکتاب العربی، بیروت)
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو روایت، مرفوعا مروی ہے، اس کی سند مجھے نہیں مل سکی، البتہ آپ سے جو موقوفا مروی ہے، اس کی سند ’المزکیات‘ اور ’حلیۃ الأولیا‘ میں موجود ہے، دنوں کی سند ایک ہے، صرف حلیۃ الأولیاء میں امام اصفہانی کے شیخ کا اضافہ ہے، یہاں ’المزکیات‘ کی سند پر کلام کرلینا مناسب ہے، المزکیات کی سند میں مندرجہ ذیل راوی ہیں:
(۱)ابن المسیب: یہ حافظ بارع ابو عبد اللہ محمد بن المسیب بن إسحاق ہیں۔ بعض اساتذہ: اسحاق بن منصور، محمد بن رافع اور عبد الجبار بن علا وغیرہ۔ بعض تلامذہ: امام ابن خزیمہ، ابو عبد اللہ بن اخرم اور ابو علی حافظ وغیرہ۔
ابو عبد اللہ حاکم کہتے ہیں: میں نے اپنے متعدد مشایخ سے سنا کہ ارغیانی نے کہا: ’’اسلام کے منبر میں سے کوئی ایسا منبر باقی نہیں، جہاں میں حدیث سننے کے لیے نہیں گیا‘‘۔ نیز ابو علی حافظ کہتے ہیں: ’’محمد بن المسیب مصر میں چلتے، اس حال میں کہ ان کی آستین میں ایک لاکھ حدیث ہوتی، آپ کی تحریر بہت باریک تھی، یہ چیز آپ کے بارے میں بالکل مشہور تھی‘‘۔ آپ کی وفات، جمادی الألی، ۳۱۵ھ میں ہوئی۔
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو روایت، مرفوعا مروی ہے، اس کی سند مجھے نہیں مل سکی، البتہ آپ سے جو موقوفا مروی ہے، اس کی سند ’المزکیات‘ اور ’حلیۃ الأولیا‘ میں موجود ہے، دنوں کی سند ایک ہے، صرف حلیۃ الأولیاء میں امام اصفہانی کے شیخ کا اضافہ ہے، یہاں ’المزکیات‘ کی سند پر کلام کرلینا مناسب ہے، المزکیات کی سند میں مندرجہ ذیل راوی ہیں:
(۱)ابن المسیب: یہ حافظ بارع ابو عبد اللہ محمد بن المسیب بن إسحاق ہیں۔ بعض اساتذہ: اسحاق بن منصور، محمد بن رافع اور عبد الجبار بن علا وغیرہ۔ بعض تلامذہ: امام ابن خزیمہ، ابو عبد اللہ بن اخرم اور ابو علی حافظ وغیرہ۔
ابو عبد اللہ حاکم کہتے ہیں: میں نے اپنے متعدد مشایخ سے سنا کہ ارغیانی نے کہا: ’’اسلام کے منبر میں سے کوئی ایسا منبر باقی نہیں، جہاں میں حدیث سننے کے لیے نہیں گیا‘‘۔ نیز ابو علی حافظ کہتے ہیں: ’’محمد بن المسیب مصر میں چلتے، اس حال میں کہ ان کی آستین میں ایک لاکھ حدیث ہوتی، آپ کی تحریر بہت باریک تھی، یہ چیز آپ کے بارے میں بالکل مشہور تھی‘‘۔ آپ کی وفات، جمادی الألی، ۳۱۵ھ میں ہوئی۔
(تذکرۃ الحفاظ، امام ذہبی، الطبقۃ الحادیۃ عشرۃ، ج۳ص۹، رقم: ۷۸۲، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
(۲) عبد اللہ بن خبیق: یہ عابد و زاہد عبد اللہ بن خُبَیْق اَنطاکی ہیں۔ بعض اساتذہ: یوسف بن اسباط، تمیم بن سلمہ اور عبد اللہ بن عبد الغفار کرمانی وغیرہ۔ بعض تلامذہ: احمد بن یوسف بن اسحاق منبجی، عبد اللہ بن جابر طرسوسی اور محمد بن المسیب ارغیانی وغیرہ۔
(۲) عبد اللہ بن خبیق: یہ عابد و زاہد عبد اللہ بن خُبَیْق اَنطاکی ہیں۔ بعض اساتذہ: یوسف بن اسباط، تمیم بن سلمہ اور عبد اللہ بن عبد الغفار کرمانی وغیرہ۔ بعض تلامذہ: احمد بن یوسف بن اسحاق منبجی، عبد اللہ بن جابر طرسوسی اور محمد بن المسیب ارغیانی وغیرہ۔
(إکمال الإکمال، امام ابن نقطہ، باب خبیق و حبیق، ج۲ص۳۹۸، رقم: ۱۸۵۳، ط: جامعۃ أم القری، مکۃ المکرمۃ)
تصوف اور معاملہ سے متعلق، آپ کے بہترین کلمات ہیں، آپ نے لمبی عمر پائی، آپ کی وفات ۲۶۰ھ میں ہوئی۔
تصوف اور معاملہ سے متعلق، آپ کے بہترین کلمات ہیں، آپ نے لمبی عمر پائی، آپ کی وفات ۲۶۰ھ میں ہوئی۔
(تاریخ الإسلام، امام ذہبی، ج۶ص۱۰۲، رقم: ۲۸۱، ط: دار الغرب الإسلامی)
امام ابن الملقن کی مایہ ناز کتاب ’طبقات الأولیاء‘ میں بھی آپ کا ذکر موجود ہے۔
(۳) یوسف بن اسباط: یہ صاحب حکم، عابد و زاہد ابو یعقوب یوسف بن اسباط بن واصل شیبانی ہیں۔ بعض شیوخ: مُحِلّ بن خلیفہ، سفیان ثوری اور زائدہ وغیرہ۔ بعض تلامذہ: مسیب بن واضح، عبد اللہ بن خبیق وغیرہ۔
(۳) یوسف بن اسباط: یہ صاحب حکم، عابد و زاہد ابو یعقوب یوسف بن اسباط بن واصل شیبانی ہیں۔ بعض شیوخ: مُحِلّ بن خلیفہ، سفیان ثوری اور زائدہ وغیرہ۔ بعض تلامذہ: مسیب بن واضح، عبد اللہ بن خبیق وغیرہ۔
شعیب بن حرب کہتے ہیں: یوسف بن اسباط پر میں کسی کو مقدم نہیں رکھتا۔ امام یحی بن معین نے آپ کو ثقہ فرمایا، امام ابو حاتم نے آپ کو ’لایحتج بہ‘ قرار دیا، امام بخاری نے فرمایا: آپ کی کتابیں دفن کردی گئی تھیں؛ جس کے سبب جیسے حدیث راویت کرنی چاہیے، ویسے نہیں کرتے تھے۔
(تاریخ الإسلام، امام ذہبی، ج۴ص۱۲۵۵، رقم: ۳۶۴، ط: دار الغرب الإسلامی)
امام عجلی کی ’الثقات‘ میں ہے: ’’یوسف بن اسباط کوفی، ثقہ، صاحب سنت اور صاحب خیر ہیں‘‘۔
(الثقات، امام عجلی، ج۲ص۳۷۴، رقم: ۱۸۷۳، ط: مکتبۃ الدار، المدینۃ المنورۃ)
امام ابن حبان کی ’الثقات‘ میں ہے: ’’ابو یعقوب یوسف بن اسباط، مستقیم الحدیث ہیں، آپ سے کبھی کبھی خطا ہوئی ہے، آپ کی وفات ۱۹۵ھ میں ہوئی‘‘۔
(الثقات، امام ابن حبان، باب الیاء، ج۷ص۶۳۸، رقم: ۱۱۸۴۹، ط : دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد)
الکامل میں ہے: ’’یوسف بن اسباط، میرے نزدیک اہل صدق سے ہیں، البتہ جب آپ کی کتابیں معدوم ہوگئیں؛ تو آپ سے اپنے حافظہ پر اعتماد کرنے کی وجہ سے غلطی ہوئی اور اشتباہ واقع ہوا، آپ سے قصدا غلطی کا صدور نہیں ہوا‘‘۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال، امام ابن عدی، ج۸ص۴۸۹، رقم: ۲۰۶۶، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام ابو داؤد فرماتے ہیں: میں نے امام احمد بن حنبل سے یوسف بن اسباط کے بارے میں پوچھا؛ تو آپ نے فرمایا: ثقہ ہیں، آپ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ان کی کتابیں تو دفن کردی گئیں تھیں، آپ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ ایسا کہا جاتا ہے، پھر فرمایا: اور یوسف بن اسباط کے مثل کون ہے؟
(الجامع لعلوم الإمام أحمد، الرجال، ج۱۹ص۵۷۰، ط: دار الفلاح، مصر)
عابد و زاہد یوسف بن اسباط کے متعلق مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ آپ سے کبھی کبھی غلطی ہوتی تھی اور قصدا غلطی نہیں کرتے تھے؛ لہذا آپ کے بار میں امام ابو حاتم کا ’لایحتج بہ‘ کہنا قابل قبول نہیں؛ کیوں کہ کبھی کبھی غلطی کرنا، ثقاہت کو ختم نہیں کرتا؛ یہی وجہ کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نے آپ کو ثقہ قرار دیا؛ لہذا قول فیصل آپ کے بارے میں یہ ہے کہ آپ ثقہ ہیں۔
(۴) امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ۔ آپ کی وفات ۱۷؍رمضان المبارک ۴۰ھ میں ہوئی۔
(الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، امام ابن حجر عسقلانی، ج۴ص۴۶۸، رقم: ۵۷۰۴، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اس سند کا حکم: یہ سند محدثین کے نزدیک، یوسف بن اسباط اور امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے؛ کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات ۴۰ھ میں ہوئی اور یوسف بن اسباط کی پیدائش کے بارے میں اگرچہ کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکی، مگر آپ تبع تابعین میں سے ہیں؛ کیوں کہ آپ نے محل بن خلیفہ سے روایت کی ہے اور محل بن خلیفہ تابعی ہیں، آپ کی وفات ۱۱۱ھ سے ۱۲۰ھ کے درمیان ہوئی ہے۔
(تاریخ الإسلام، امام ذہبی، ج۳ص۳۰۶، رقم: ۲۳۵، ط: دار الغرب الإسلامی)
اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ راوی یوسف بن اسباط کی پیدائش، کم و بیش ۱۰۰ھ کے آس پاس ہوئی ہوگی، اگر ۱۰۰ھ بھی مان لیتے ہیں؛ تو بھی یوسف بن اسباط کی پیدائش اور امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کی وفات کے درمیان تقریبا ۶۰ سال کا فاصلہ ہے؛ لہذا اس انقطاع کی وجہ سے محدثین کے نزدیک یہ سند ضعیف ہے۔
البتہ اگر احناف کے اصول کے مطابق دیکھا جائے؛ تو یہ سند کم از کم قابل قبول ضرور ہونی چاہیے؛ کیوں کہ اگرچہ راوی یوسف بن اسباط اور امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے درمیان، طویل فاصلہ ہے مگر چوں کہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کی طرف، روایت میں مذکور بات، منسوب کرنے والے، یوسف بن اسباط ثقہ ہیں اور باقی رواۃ بھی کم از کم قابل قبول ضرور ہیں؛ اس لیے یہ سند بھی قابل قبول ضرور ہونی چاہیے۔
الفصول فی الأصول میں ہے: ’’قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَالصَّحِيحُ عِنْدِي، وَمَا يَدُلُّ عَلَيْهِ مَذْهَبُ أَصْحَابِنَا: أَنَّ مُرْسَلَ التَّابِعِينَ وَأَتْبَاعِهِمْ مَقْبُولٌ، مَا لَمْ يَكُنْ الرَّاوِي مِمَّنْ يُرْسِلُ الْحَدِيثَ عَنْ غَيْرِ الثِّقَاتِ، فَإِنَّ مَنْ اسْتَجَازَ ذَلِكَ لَمْ تُقْبَلْ رِوَايَتُهُ، لَا لِمُسْنَدٍ وَلَا لِمُرْسَلٍ‘‘۔
(الفصول فی الأصول، امام ابوبکر جصاص، باب القول فی الخبر المرسل، ج۳ص۱۴۶، ناشر: وزارۃ الأقاف الکویتیۃ)
اسی میں ہے: ’’قَالَ أَبُو بَكْرٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: وَالصَّحِيحُ عِنْدِي وَمَا يَدُلُّ عَلَيْهِ مَذْهَبُ أَصْحَابِنَا: أَنَّ مُرْسَلَ التَّابِعِينَ وَأَتْبَاعِهِمْ مَقْبُولٌ، مَا لَمْ يَظْهَرْ مِنْهُمْ رِيبَةٌ، وَكَذَلِكَ كَانَ مَذْهَبُ أَبِي حَنِيفَةَ، فَإِنَّ الَّذِي لَا شَكَّ فِيهِ: أَنَّ مَرَاسِيلَ غَيْرِ الْعُلَمَاءِ وَالْمَوْثُوقِ بِعِلْمِهِمْ وَدِينِهِمْ وَمَنْ يُعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُرْسِلُ إلَّا عَنْ غَيْرِ الثِّقَاتِ - غَيْرُ مَقْبُولٍ‘‘۔ (ایضا، ص۱۴۷)
و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبۂ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۴؍محرم الحرام ۱۴۴۵ھ