Type Here to Get Search Results !

ناموسِ رسالت ﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں قسط-2


 ناموسِ رسالت ﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند
 علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں قسط-2
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- غلام مصطفیٰ رضوی نوری مشن، مالیگاؤں
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
نبی اکرم ﷺ کی محبت اور وہابیت کی صحبت:
  اب ذرا دل تھام رکھ کر وہابیت کی صحبت کے اعتقادی نقصانات بھی ایسے بزرگ کے قلم سے پڑھ لیں؛
جنھیں دیابنہ کا بڑا حلقہ اپنے سلسلۂ طریقت کا اہم ستون مانتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی کی نسل سے حضرت شاہ احمد سعید مجددی کے فرزند گرامی حضرت شاہ محمد مظہر نقشبندی مجددی مہاجر مدنی فرماتے ہیں:
  ولم یذکراحدابالسوء الاالفرقۃالضالۃ الوہابیۃ لتحذیرالناس من قباحۃ افعالھم واقوالھم
  پھر اسی صفحہ پر حاشیہ میں لکھتے ہیں:
وکان قدس سرہ یقول ادنی ضررصحبتھم ان محبۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم التی ھی من اعظم ارکان الایمان تنقص ساعۃ فساعۃحتی لایبقٰی منھا غیر الاسم والرسم فکیف یکون اعلاہ فالحذر الحذر عن صحبتہم ثم الحذر الحذر عن رؤیتھم ۔اہ فاحفظہ (منہ)
  حضرت شاہ احمد سعید قدس سرہٗ کسی کی برائی نہیں کرتے تھے سواے وہابیہ کے گم راہ فرقہ کے، تاکہ لوگوں کو ان کے افعال واقوال کی قباحت سے ڈرائیں، حضرت فرمایا کرتے تھے کہ وہابیوں کی صحبت کا معمولی نقصان یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت جو ایمان کے بڑے ارکان میں سے ہے، لحظہ بہ لحظہ کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نام ونشان کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا، جب معمولی ضَرر کا یہ حال ہے تو بڑے نقصان کا کیا عالَم ہوگا؟ لہٰذا ان کی صحبت سے بچو، ضرور بچو، بلکہ ان کی صورت تک دیکھنے سے ضرور بالضرور اجتناب کرو۔
(المناقب الاحمدیہ والمقامات السعیدیہ، محمد مظہر مہاجر مدنی، مطبوعہ قزان ۱۸۹۶ء، ص ۱۷۶- تحقیق الفتویٰ، مقدمہ از علامہ عبدالحکیم شرف قادری، المجمع الاسلامی مبارک پور ۱۴۲۵ھ/ ۲۰۰۴ء،ص۳۵۔۳۶)
  آج کل پیری مریدی میں دیوبندی فرقہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے، جن میں ایک بڑا طبقہ اپنا شجرۂ طریقت حضرت شاہ احمد سعید مجددی سے جوڑتا ہے، حضرت شاہ احمد سعید مجددی کا یہ جملہ دیابنہ کو بار بار پڑھنا چاہیے اور خود کو ٹٹولنا چاہیے کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں؛ جہاں توہین رسالت ﷺکے بڑے بڑے طوق ان کے اکابر کی گردنوں میں پڑے ہوئے ہیں:
  ’’ وہابیوں کی صحبت کا معمولی نقصان یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت جوایمان کے بڑے ارکان میں سے ہے، لحظہ بہ لحظہ کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نام ونشان کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔‘‘ (نفس مصدر)
  وہابیت کی صحبت کا نقصان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کم ہو جاتی ہے بلکہ ختم ہو جاتی ہے، پھر جھولی میں توہین ہی بچتی ہے، جہاں محبت رسول ﷺ کا نام و نشان نہیں ہوگا وہاں ’’ناموسِ رسالتﷺ‘‘ میں بے ادبی و گستاخی کا ارتکاب جائے تعجب نہیں۔ یہی کچھ ڈسپلن ڈیلی مالیگاؤں، ۹ ؍جولائی۲۰۲۴ء کے صفحہ۲ پر مولانا سراج احمد قاسمی نے کیا اور رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ ناز میں ’’گناہ‘‘ کا انتساب کیا۔
  بوئے توہین کہاں سے آئی؟ اِس کے جواب میں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ جناب میثم عباس قادری کے نشان زد چند حوالے درج کر دیے جائیں۔ موصوف لکھتے ہیں: 
  عصمت انبیا علیہم السلام کے متعلق مولوی اسماعیل دہلوی صاحب کے ہم خیال علما کے عقائد مختصراً ملاحظہ کریں تاکہ ان کے باطل عقائد قارئین پر واضح ہو جائیں۔
  مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی صاحب انبیاے کرام کو صریح جھوٹ بولنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
  ’’دروغ صریح (صاف جھوٹ) بھی کئی طرح پر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کا حکم یکساں نہیں اور ہر قسم (کے جھوٹ) سے نبی کو معصوم ہونا ضرور نہیں۔‘‘
(تصفیۃ العقائد ،صفحہ ۲۲، مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارن پور، ایضاً ،صفحہ ۲۵، مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار ،کراچی)
  اس کے بعد مزید لکھتے ہیں کہ:
  ’’بالجملہ علی العموم کذب (جھوٹ) کو منافی شانِ نبوت (شانِ نبوت کے خلاف) بایں معنی (اس طرح) سمجھنا کہ یہ معصیت (گناہ) ہے اور انبیاے کرام معاصی (گناہوں) سے معصوم ہیں خالی غلطی سے نہیں۔‘‘
(تصفیۃ العقائد، صفحہ ۲۴، مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارن پور، ایضاً، مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار ،کراچی)
  یعنی نانوتوی صاحب کے نزدیک جھوٹ کو گناہ سمجھتے ہوئے شانِ نبوت کے منافی سمجھنا اور یہ کہنا کہ انبیائے کرام گناہ سے پاک ہیں غلط ہے۔ (نعوذ باللہ)
  ان عبارات کی بنا پر قاسم نانوتوی صاحب پر مفتیانِ دیوبند کی طرف سے فتویٰ جاری ہو چکا ہے کہ ’’ان عبارتوں کا مصنف کافر گم راہ ہے اور اس کا نکاح فاسد ہوا۔‘‘
(ماہ نامہ تجلی دیوبند، مئی ۱۹۵۶ء، صفحہ۳)
  مولوی حسین احمد مدنی دیوبندی صاحب کے شاگرد اور مولوی شبیر عثمانی دیوبندی صاحب کے بھتیجے مولوی عامر عثمانی فاضل دیوبند عصمت انبیائے کرام کے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ انبیائے کرام کی ’’عصمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انبیائے کرام سے کبھی کسی قسم کا گناہ اور قصور سرزد ہی نہیں ہوتا، ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے۔‘‘
(تجلیات صحابہ، صفحہ ۶۴۳، مکتبہ الحجاز پاکستان، اے ۲۱۹ بلاک ’’سی‘‘ الحیدری شمالی ناظم آباد کراچی)
  ان دلائل سے خیالات کے دھارے صاف ظاہر ہوتے ہیں۔ نہاں خانۂ دل میں جب عصمتِ انبیا سے متعلق ارتکابِ گناہ کا عقیدہ پیوست ہو تو یہی کچھ اُن زبان و قلم سے بھی نمودار ہوگا جو ان اکابرِ دیوبند کے دامنِ عقیدت سے وابستہ ہوں گے۔اِس لیے مولانا سراج احمد قاسمی نے رسول اللہ ﷺ کی توہین میں ’’گناہ‘‘ کا انتساب کیا وہ وراثۃً منتقل ہونے والے عقیدے کی صداے بازگشت معلوم ہوتا ہے؛ پھر ان کی تائید میں ایک دیوبندی عالم نے کئی کئی صفحات لکھ ڈالے اور جو لکھا وہ پڑھ کر حیرت بھی محوِ حیرت ہے؛ لکھتے ہیں:
  ’’حیرت ہے گستاخ بریلویہ اس موقع پر اپنی خصلت سے مجبور ہو کر ایک بار پھر علماے دیوبند کو گستاخ کہنے کی مکارانہ کوشش کر رہے ہیں، اس موقع پر کیا مثل یاد آگئی،چھاج بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جس میں سو سو چھید۔‘‘
(سوشل میڈیائی پوسٹ سے مقتبس)
    سطورِ بالا میں یہ ثابت ہو چکا کہ جس پہلو کو وہ مکارانہ کوشش باور کرا رہے ہیں وہ ان کا عقیدہ بن چکا ہے یعنی’’ توہین رسالت ﷺ‘‘۔ ان کے اکابر کے قلم گستاخی کےقول لکھ لکھ کر بے لگام ہو چکے۔ ان کے اداروں سے چھپنے والی کتابیں چیخ چیخ کر بے ادبی و توہین کا چہرہ نمایاں کر رہی ہیں۔ کتابوں کا یہ انبار انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ گستاخیوں کی قطاریں نظر نہیں آتیں! جرأتوں کا تسلسل دکھائی نہیں پڑتا! سادی سی بات ہے گستاخی کی تائید میں آنے والا مواد بھی گستاخ یا گستاخی کا ترجمان ہی ہوگا!
   حقیقت حال یہی ہے کہ عصمتِ انبیا علیہم السلام میں بے ادبی کی فکر ان کی خانہ ساز ہے۔ ان کے گھر کے حوالے نقل کیے گئے۔ ان کے اکابر کا عقیدہ بتا دیا گیا۔ توہین کے بول بول کر اور لکھ لکھ کر بھی محبت رسول ﷺ کا دعویٰ محض دھوکہ ہے۔ چوں کہ مذکورہ حوالوں میں بانی مدرسہ دیوبند نانوتوی صاحب کا بھی اقتباس موجود ہے اِس لیے ان پر مزید چند نکات درج کر دیے جاتے ہیں۔ 
ایک مثال:
  قارئین! رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک سے’’گناہ‘‘ کا انتساب کرنے والے مولوی صاحب کا لاحقہ ’’قاسمی‘‘ ہے جو ان کے فاضل دیوبند ہونے کا غماز ہے؛ تو ان کے رشتۂ فکر کا تجزیہ مدرسۂ دیوبند کے مولانا قاسم نانوتوی کی فکر کی روشنی میں کرتے ہیں۔
  اِس سے قبل کہ ہم یہاں مولانا نانوتوی کی عبارت نقل کریں یہ ضرور کہیں گے کہ دیانت و انصاف اور غور و فکر کے ساتھ پیش کردہ اقتباسات کو پڑھیے اور تجزیہ کیجیے۔ عقیدۂ خاتمیت مصطفیٰﷺ میں جرأت کرتے ہوئے مولانا قاسم نانوتوی لکھتے ہیں:
  ’’بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور رہتا ہے۔‘‘ 
(تحذیر الناس ،قاسم نانوتوی، ص۱۸ )
  ’’بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘
( نفس مرجع،ص ۳۴)
  ’’ عوام کے خیال میں تو رسول ﷲ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں (بالذات) کچھ فضیلت نہیں۔‘‘
(نفس مرجع ،ص ۴۔۵)
  کیا آپ نے کبھی غور کیا اور سوچا کہ کیسا دل آزار لمحہ ہوگا جب اِس طرح کی عبارتیں لکھی گئیں۔ ’’ختم نبوت‘‘ یعنی رسول اللہ ﷺ کا آخری نبی ہونا ’’عوام کا خیال‘‘ بتایا جا رہا ہے۔ تقدم (شانِ اولیت) یا تاخر (ختم نبوت) کی فضیلت کا صاف انکار کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ حیلے بہانے سے عقیدۂ ختم نبوت پر ضرب نہیں؟ وہ کون سے جذبات تھے جن کے دوش پر اِس طرح کی توہین آمیز عبارتیں لکھی گئیں اور اختلافات کا ماحول بنایا گیا! ایسی اختلافی کتابیں شائع کی گئیں! یہ سوچنے کا مقام ہے! یہ وہ مقام نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے! اختلاف ختم کرنے کا اگر معمولی بھی جذبہ موجود ہے تو وجہِ اختلاف کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ 
  ’’تحذیرالناس‘‘ کی عبارتوں پر ’’حسام الحرمین‘‘ میں علماے حرمین نے کفر کا فتویٰ صادر کیا۔علماے حرمین مناصبِ جلیلہ کے حامل تھے۔ حرمین کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ ان علما نے تحقیق کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ’’توہین‘‘ سے مملو عبارتوں پر حکم شرع جاری کیا۔اس اعتبار سے شاعر مشرق اقبالؔ کا یہ تاثر حقائق سے قریب معلوم ہوتا ہے:
  ’’قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں، لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے،اور دونوں اس تحریک کی پیداوار ہیں جسے عرف عام میں -وہابیت- کہا جاتا ہے۔‘‘
( اقبالؔ کے حضور، سید نذیر نیازی، اقبال اکادمی کراچی، س ن، ص۲۶۱)
    بات جب قادیانی فکر کی چل پڑی ہے تو لگے ہاتھوں مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی کے خیالات بھی دیکھ لیے جائیں-
(جاری۔۔۔۔)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area