یہ امت خرافات میں کھو گئی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
رافضیت کے مبلغین اہلسنت کے اندر اعمال و عقائد رفض داخل کرنے کے لیے کب سے پر تول رہے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ شیعان علی کے نام اور کام سے متأثر اہلسنت کے کچھ درگاہی لوگ رافضیانہ نقل و حرکت کو عین حسینیت سمجھ کر تشیع کے کام پر لگ گئے ہیں۔محرم آتے ہی اہل وفا کو مذہبی شعبدے باز کئی طرح سے دھوکے دیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر الگ الگ چیزیں ٹرینڈ کرائی جاتی ہیں۔معمولات و عقائد اہلسنت کے برخلاف شگوفے چھوڑے جاتے ہیں۔پھر ملت کی ساری انرجی اسی مجادلہ و مناظرہ کی نذر ہو کر رہ جاتی ہے۔خلافت و اولیت بوبکر و علی کا قضیہ کریدا جانا، باغ فدک پر بحث کا دور چلانا اسی سرکش ذہنیت کی پیداوار ہے۔
ادھر امام شافعی سے منسوب ایک قول خوب پروسا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ "اگر محبت اہل بیت رفض ہے تو لو میں رافضی ہوں"۔ سارے بیماران خانقاہ اسے دھڑا دھڑ شیئر کرنے لگتے ہیں۔جب کہ اس کے پیچھے ایک بڑی سازش پنہاں ہے۔کیا امام شافعی پر رفض کا کیس کرنے والے علما اتنے بے دین بے مودت تھے کہ محبت اہل بیت کو رافضیت کے خانے میں ڈال کر چلے گئے؟ کیا امام شافعی جیسے مجتہد و متکلم کو مودت اہل بیت میں رافضی کہنا رافضیت کو فروغ دینا نہیں ہے؟ہرچند کہ یہ قول تحقیق سے امام کا ہی ہے مگر آج کے وساوس و سفسطہ بھرے ماحول میں اس کی تشہیر سے فائدہ کم، نقصان زیادہ ہے۔
خانقاہی طبقہ(اس میں دو چار کا استثنا بھی ہے)ہوس عیش و عشرت اور حرص جاہ و عزت کے چکر میں دین کی ناصرف غلط تعبیر و تصویر پیش کر رہا ہے بلکہ دین کو خرافات و رسومات کا اڈہ بنانے کا کام کر رہا ہے۔ایسے میں ایک باشعور شخص کے لیے خانقاہ و درگاہ کو دین و شریعت کی آماجگاہ تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ہم نے تو اب تک یہاں دین کی پامالی دیکھی ہے۔مزاج شریعت سے اعراض کا کوئی ایک بھی پہلو، مسخ دین کی کوشش مانا جاۓ گا۔تصوف بحالی کی راہ میں، روایات کی تعمیل کے وقت شرع کی ادنی قسم کی بھی اندیکھی سالکین و عارفین کی نظر میں بڑا جرم ہے۔خانقاہوں کی بھیڑ میں بندے کو حق یاب کرنے والا در دریافت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ایسا در جس کی چال ڈھال سے لگے کہ وہ تجارت پر نہیں، شریعت پر فوکس کر رہا ہے۔یہاں تو ارادت و بیعت کا بازار بھی اسی لیے گرم ہے کہ اپنی جیب گرم رہے۔ اپنا بندہ بنانے پر زور زیادہ ہے۔اب خدا کے بندے تو تلاش بسیار سے ہی ملتے ہیں۔بال جبریل کے ساقی نامہ کے مطابق
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
داؤودی بوہرے کا عقیدہ ہے کہ خدا مجرد بیٹھا ہے۔اب کائنات میں جو کچھ کرنا ہے ان کے پیر و داعی ہی کرتے ہیں(نعوذ باللہ من ھذہ السفسطہ)کیا اس دین کش عقیدے کے وبائی جراثیم اہلسنت کے خانقاہی درگاہی طبقے میں بھی سرایت کر چکے ہیں؟ آج ہماری جماعت کا عوامی طبقہ بس یہی خیال کرتا ہے کہ ان کے پیر جو بول دیں وہی شریعت ہے۔اہل خانقاہ نے اسی بھولے پن کا فائدہ اٹھا کر خود کو اشرف و اعلی طبقہ منوا لیا۔برہمنوں کی طرح عقیدت میں ڈوبے دلت شودر عوام سے جو چاہا کروا لیا۔
یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر علما اور پیران جماعت متحد ہو کر ٹھان لیں کہ ہمیں دین میں در آئی گڑبڑی ختم کرنی ہے تو تھوڑے وقفے میں عوام لائن پہ آ جاۓ گی۔آج تعزیہ داری کرنے میں عوام تو بس مہرہ ہے اصل بازیگر تو ہمارا خانقاہی سماج ہے۔
پہلے ہم نے تو یہی سنا پڑھا تھا کہ عزا داری اہل تشیع کا شعار ہے۔مگر بڑی چالاکی سے رفض و تشیع سے متأثر درگاہیں، اہل سنت کے اندر بھی اسے رواج دینے میں جٹ گئیں۔اور اس تعزیہ کو علی و اولاد علی سے اس قدر مربوط و موسوم کیا کہ عوامی طبقہ کو لگا کہ مودت اہل بیت کا یہی پہلا و آخری راستہ ہے۔کربلا و نجف کا ٹکٹ اسی تعزیہ سے ملتا ہے سو وہ اس میں جی جان سے کود پڑا۔کل کو ممکن ہے جماعت توابین کی اتباع شروع نہ کر دی جاۓ۔اثنا عشری کی پیروی میں سلاب پہن کر نوحہ و ماتم کو بھی قبول نا کر لیا جاۓ۔
اگر تعزیہ معیار شرع کے مطابق بھی رہے تب بھی میں اسے مستحسن یا مستحب کا درجہ نہ دوں چہ جائیکہ اسے نجات و شفاعت کا ذریعہ تصور کروں۔یہ کس قدر بد بختی ہے کہ مودت اہل بیت کے اظہار کے لیے دسہرے کی درگا پوجا کی طرح مورت سازی کی جاۓ۔شرع کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے دین میں اس کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔
حیرت بالاۓ حیرت! تعزیہ بازی کر رہے ہیں، کچھوچھہ والے، مکن پور والے،دیوہ والے، کلیر والے اور ان کی ذیلی تمام شاخیں، بدنام پوری بریلوی جماعت ہے۔آج دیوبندی وہابی جماعت کی طرف سے کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ یہ سب مولوی احمد رضا کا کیا کرایا ہے۔جب کہ فاضل بریلوی نے ان خرافات پر کہیں بھی چھوٹ نہیں دی۔
دیکھا دیکھی اس سلسلے میں خانقاہ بریلی سے جڑے لوگ بھی کہیں پیچھے نہیں ہیں۔یہ لوگ بھی اپنے علما و ائمہ کی بات یا تو سنتے ہی نہیں، یا پھر ان سنی کر کے وہی کرتے ہیں جو دیگر رفض زدہ خانقاہ کے منسلکین و معتقدین کر رہے ہیں۔آپ کو حیرت ہوگی کہ میرے برادر نسبتی مفتی رضا علی نعیمی دہلی کی ایک مسجد میں امامت کر رہے ہیں۔انہوں نے سنایا کہ دسویں کو مروجہ تعزیہ کے خلاف ان کی تقریر ہوئی تو لوگ آپے سے باہر آ گئے۔صبح ہوتے ہی ان کو اس جرم کی پاداش میں امامت سے برطرف کرنے کے لیے انتظامیہ و عوام کی کئی میٹنگ ہو گئیں۔دین چڑھتے چڑھتے حالات مزید یزیدی ہو گئے۔پھر مفتی صاحب نے فتاوی رضویہ سے مسائل کھول کر دکھاۓ تب جا کر امامت برقرار رہی۔جبکہ یہ سارے لوگ اعلی حضرت کے عقیدت مند اور تاج الشریعہ کے ہی مرید ہیں۔(رحمھما اللہ) مگر مسئلہ حق ہنوز معلوم نہیں ہے، یہ حیرتناک ہے۔
تعزیہ کی بگڑتی شکلوں سے آنے والے کچھ سالوں میں لوگ کہیں گے وہی بریلوی جو محرم میں بت پرستی بھی کرتے ہیں اور خود کو پکے حسینی بھی بتاتے ہیں۔
اس بار مختلف علاقوں کے تعزیے کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر ہم جیسے خدا پرستوں کی روح کانپ گئی تھی۔اگر مان بھی لیا جائے کہ درگاہوں نے حصول تبرک کے لیے اسے پروموٹ کیا اور کچھ علما نے درگاہی مزاج کے مطابق جواز سے آگے جا کر مستحب کا فتوی دینے میں اخلاص و للہیت سے کام لیا ہے تو پھر موجودہ صورتحال تو بہت بھیانک ہے۔اس کا ذمے دار کون ہے؟لوگوں نے ذریعہ نجات مان کر تعزیہ بازی میں مورتی سازی کی تمام تر ترکیب برت ڈالی ہے۔مستقبل میں بت گری کے ہنر دکھانے کے لیے مزید سنگ تراشے جائیں گے۔آج آپ دیکھ لیں کہ یہ تعزیہ کس کس شکل میں ملتے ہیں۔کئی تعزیے دیکھ کر لگا دسہرا کی درگا کی ہو بہو کاپی کی گئی ہے۔اور یہ تعزیہ باز اسے حضرت فاطمہ یا حضرت زینب (علیہما السلام) کی شبیہ بتاتے ہیں(نعوذ باللہ)ایک تعزیہ کی تصویر دیکھ کر پہلی نظر میں محسوس ہوا کہ رام لکشمن کی نقل کی گئی ہے۔کسی علاقے کے لوگوں پر حسینی ہونے کا جنون کچھ زیادہ چڑھا تو سب سے الگ کرنے کا سوچا۔اور دس سروں والے لنکا کے راون کی کاپی کرتے ہوۓ شام والے یزید کو راون کی شکل دے دی۔بس سر ایک رکھا۔اگر امسال کا حسینی تجربہ کامیاب رہا تو اگلے سال بڑھاۓ جانے کا فل امکان ہے۔راون دہن (راون کو جلانے کا عمل) کی طرح یزید دہن بھی ہو سکتا ہے۔
کئی تعزیوں میں ہندوانہ رسوم کی مکمل پیروی کا دین کش تعمیل دیکھ کر لگا ہی نہیں کہ یہ لوگ کہیں سے مسلمان بھی ہیں۔عجب حیرت تو تب ہوتی جب ان تعزیوں کو ہندؤوں کے "مورتی وسرجن" پروگرام کی طرح ندی،جھیل پوکھر یا تالاب میں بہایا ڈبایا بھی جاتا ہے۔اس تعزیہ داری میں کئی افعال شنیعہ کھلے شرک سے مشابہت رکھتے ہیں۔
ہمارے علاقے میں ایک کہاوت ہے کہ چوری کرے داڑھی والا اور پکڑا جاۓ مونچھ والا۔ٹھیک اسی طرح غم کربلا کے نام پر تعزیہ داری کوئی اور کرتا ہے، بدنامی اور اتہام کسی دوسرے کے سر جاتا ہے۔ان تعزیوں سے اہل درگاہ کی حلقہ سازی تو ہوتی ہے مگر بدنام صرف اعلی حضرت فاضل بریلوی ہوتے ہیں۔مخالفین سارا الزام ان پر رکھ دیتے ہیں۔عرب ملکوں میں جس طرح قبر پرست بتا کر جماعت کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی۔عین خدشہ ہے ہمارے تعزیوں کے بے دینی ویڈیوز دکھا کر ہمیں ہندوانہ طرز عبادت والا مسلمان باور کرایا جاۓ گا۔
مجھے اندیشہ ہے مستقبل میں کہیں بت برست بتا کر دین بدر نہ کر دیا جاۓ۔آخر قادیانی بھی تو کہیں گے جناب ہم صرف ختم نبوت کے منکر ہونے سے اسلامی نہیں ہو پاۓ اور آپ پوجا پاٹھ کر کے بھی پکے سچے حسینی مسلمان ہیں۔یہ کیسا انصاف ہے۔
اگلے بیس سال ٹرننگ پوائنٹ ہے۔یہ وقت اصلاح و احساب کا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اہل خانقاہ، اندوہ و دلگیری سے نکل کر رسم شبیری کا صحیح مفہوم عوام کو بتاتے ہیں یا اسی بے ڈھنگی چال کو جاری رکھتے ہیں۔اگر خانقاہیں واقعی اس مسئلہ میں مخلص ہیں تو اگلے محرم کا چاند طلوع ہونے سے پہلے پہلے یہ اعلان نامہ نشر کریں کہ جو بھی ان خرافات و بدعات کا حصہ بنے گا وہ خود کو ہماری بیعت و ارادت اور خلافت و امامت سے معزول، مسلوب و معطل سمجھے۔ہم اس سے بری ہیں فقط مع السلام۔کیا ہماری خانقاہوں میں اقبال مرحوم لاہوری کا وہ "صوفی" ملے گا جو خدمت حق میں مرد،محبت میں یکتا، حمیت میں فرد ہو۔جو عجم کے خیالات و مقامات میں الجھے بغیر خسرو کی زبان میں ببانگ دہل یہ اعلان کرے
ناخدا در کشتئ ما گر نباشد، گو مباش
ما خدا داریم، مارا ناخدا درکار نیست
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
رافضیت کے مبلغین اہلسنت کے اندر اعمال و عقائد رفض داخل کرنے کے لیے کب سے پر تول رہے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ شیعان علی کے نام اور کام سے متأثر اہلسنت کے کچھ درگاہی لوگ رافضیانہ نقل و حرکت کو عین حسینیت سمجھ کر تشیع کے کام پر لگ گئے ہیں۔محرم آتے ہی اہل وفا کو مذہبی شعبدے باز کئی طرح سے دھوکے دیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر الگ الگ چیزیں ٹرینڈ کرائی جاتی ہیں۔معمولات و عقائد اہلسنت کے برخلاف شگوفے چھوڑے جاتے ہیں۔پھر ملت کی ساری انرجی اسی مجادلہ و مناظرہ کی نذر ہو کر رہ جاتی ہے۔خلافت و اولیت بوبکر و علی کا قضیہ کریدا جانا، باغ فدک پر بحث کا دور چلانا اسی سرکش ذہنیت کی پیداوار ہے۔
ادھر امام شافعی سے منسوب ایک قول خوب پروسا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ "اگر محبت اہل بیت رفض ہے تو لو میں رافضی ہوں"۔ سارے بیماران خانقاہ اسے دھڑا دھڑ شیئر کرنے لگتے ہیں۔جب کہ اس کے پیچھے ایک بڑی سازش پنہاں ہے۔کیا امام شافعی پر رفض کا کیس کرنے والے علما اتنے بے دین بے مودت تھے کہ محبت اہل بیت کو رافضیت کے خانے میں ڈال کر چلے گئے؟ کیا امام شافعی جیسے مجتہد و متکلم کو مودت اہل بیت میں رافضی کہنا رافضیت کو فروغ دینا نہیں ہے؟ہرچند کہ یہ قول تحقیق سے امام کا ہی ہے مگر آج کے وساوس و سفسطہ بھرے ماحول میں اس کی تشہیر سے فائدہ کم، نقصان زیادہ ہے۔
خانقاہی طبقہ(اس میں دو چار کا استثنا بھی ہے)ہوس عیش و عشرت اور حرص جاہ و عزت کے چکر میں دین کی ناصرف غلط تعبیر و تصویر پیش کر رہا ہے بلکہ دین کو خرافات و رسومات کا اڈہ بنانے کا کام کر رہا ہے۔ایسے میں ایک باشعور شخص کے لیے خانقاہ و درگاہ کو دین و شریعت کی آماجگاہ تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ہم نے تو اب تک یہاں دین کی پامالی دیکھی ہے۔مزاج شریعت سے اعراض کا کوئی ایک بھی پہلو، مسخ دین کی کوشش مانا جاۓ گا۔تصوف بحالی کی راہ میں، روایات کی تعمیل کے وقت شرع کی ادنی قسم کی بھی اندیکھی سالکین و عارفین کی نظر میں بڑا جرم ہے۔خانقاہوں کی بھیڑ میں بندے کو حق یاب کرنے والا در دریافت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ایسا در جس کی چال ڈھال سے لگے کہ وہ تجارت پر نہیں، شریعت پر فوکس کر رہا ہے۔یہاں تو ارادت و بیعت کا بازار بھی اسی لیے گرم ہے کہ اپنی جیب گرم رہے۔ اپنا بندہ بنانے پر زور زیادہ ہے۔اب خدا کے بندے تو تلاش بسیار سے ہی ملتے ہیں۔بال جبریل کے ساقی نامہ کے مطابق
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
داؤودی بوہرے کا عقیدہ ہے کہ خدا مجرد بیٹھا ہے۔اب کائنات میں جو کچھ کرنا ہے ان کے پیر و داعی ہی کرتے ہیں(نعوذ باللہ من ھذہ السفسطہ)کیا اس دین کش عقیدے کے وبائی جراثیم اہلسنت کے خانقاہی درگاہی طبقے میں بھی سرایت کر چکے ہیں؟ آج ہماری جماعت کا عوامی طبقہ بس یہی خیال کرتا ہے کہ ان کے پیر جو بول دیں وہی شریعت ہے۔اہل خانقاہ نے اسی بھولے پن کا فائدہ اٹھا کر خود کو اشرف و اعلی طبقہ منوا لیا۔برہمنوں کی طرح عقیدت میں ڈوبے دلت شودر عوام سے جو چاہا کروا لیا۔
یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر علما اور پیران جماعت متحد ہو کر ٹھان لیں کہ ہمیں دین میں در آئی گڑبڑی ختم کرنی ہے تو تھوڑے وقفے میں عوام لائن پہ آ جاۓ گی۔آج تعزیہ داری کرنے میں عوام تو بس مہرہ ہے اصل بازیگر تو ہمارا خانقاہی سماج ہے۔
پہلے ہم نے تو یہی سنا پڑھا تھا کہ عزا داری اہل تشیع کا شعار ہے۔مگر بڑی چالاکی سے رفض و تشیع سے متأثر درگاہیں، اہل سنت کے اندر بھی اسے رواج دینے میں جٹ گئیں۔اور اس تعزیہ کو علی و اولاد علی سے اس قدر مربوط و موسوم کیا کہ عوامی طبقہ کو لگا کہ مودت اہل بیت کا یہی پہلا و آخری راستہ ہے۔کربلا و نجف کا ٹکٹ اسی تعزیہ سے ملتا ہے سو وہ اس میں جی جان سے کود پڑا۔کل کو ممکن ہے جماعت توابین کی اتباع شروع نہ کر دی جاۓ۔اثنا عشری کی پیروی میں سلاب پہن کر نوحہ و ماتم کو بھی قبول نا کر لیا جاۓ۔
اگر تعزیہ معیار شرع کے مطابق بھی رہے تب بھی میں اسے مستحسن یا مستحب کا درجہ نہ دوں چہ جائیکہ اسے نجات و شفاعت کا ذریعہ تصور کروں۔یہ کس قدر بد بختی ہے کہ مودت اہل بیت کے اظہار کے لیے دسہرے کی درگا پوجا کی طرح مورت سازی کی جاۓ۔شرع کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے دین میں اس کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔
حیرت بالاۓ حیرت! تعزیہ بازی کر رہے ہیں، کچھوچھہ والے، مکن پور والے،دیوہ والے، کلیر والے اور ان کی ذیلی تمام شاخیں، بدنام پوری بریلوی جماعت ہے۔آج دیوبندی وہابی جماعت کی طرف سے کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ یہ سب مولوی احمد رضا کا کیا کرایا ہے۔جب کہ فاضل بریلوی نے ان خرافات پر کہیں بھی چھوٹ نہیں دی۔
دیکھا دیکھی اس سلسلے میں خانقاہ بریلی سے جڑے لوگ بھی کہیں پیچھے نہیں ہیں۔یہ لوگ بھی اپنے علما و ائمہ کی بات یا تو سنتے ہی نہیں، یا پھر ان سنی کر کے وہی کرتے ہیں جو دیگر رفض زدہ خانقاہ کے منسلکین و معتقدین کر رہے ہیں۔آپ کو حیرت ہوگی کہ میرے برادر نسبتی مفتی رضا علی نعیمی دہلی کی ایک مسجد میں امامت کر رہے ہیں۔انہوں نے سنایا کہ دسویں کو مروجہ تعزیہ کے خلاف ان کی تقریر ہوئی تو لوگ آپے سے باہر آ گئے۔صبح ہوتے ہی ان کو اس جرم کی پاداش میں امامت سے برطرف کرنے کے لیے انتظامیہ و عوام کی کئی میٹنگ ہو گئیں۔دین چڑھتے چڑھتے حالات مزید یزیدی ہو گئے۔پھر مفتی صاحب نے فتاوی رضویہ سے مسائل کھول کر دکھاۓ تب جا کر امامت برقرار رہی۔جبکہ یہ سارے لوگ اعلی حضرت کے عقیدت مند اور تاج الشریعہ کے ہی مرید ہیں۔(رحمھما اللہ) مگر مسئلہ حق ہنوز معلوم نہیں ہے، یہ حیرتناک ہے۔
تعزیہ کی بگڑتی شکلوں سے آنے والے کچھ سالوں میں لوگ کہیں گے وہی بریلوی جو محرم میں بت پرستی بھی کرتے ہیں اور خود کو پکے حسینی بھی بتاتے ہیں۔
اس بار مختلف علاقوں کے تعزیے کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر ہم جیسے خدا پرستوں کی روح کانپ گئی تھی۔اگر مان بھی لیا جائے کہ درگاہوں نے حصول تبرک کے لیے اسے پروموٹ کیا اور کچھ علما نے درگاہی مزاج کے مطابق جواز سے آگے جا کر مستحب کا فتوی دینے میں اخلاص و للہیت سے کام لیا ہے تو پھر موجودہ صورتحال تو بہت بھیانک ہے۔اس کا ذمے دار کون ہے؟لوگوں نے ذریعہ نجات مان کر تعزیہ بازی میں مورتی سازی کی تمام تر ترکیب برت ڈالی ہے۔مستقبل میں بت گری کے ہنر دکھانے کے لیے مزید سنگ تراشے جائیں گے۔آج آپ دیکھ لیں کہ یہ تعزیہ کس کس شکل میں ملتے ہیں۔کئی تعزیے دیکھ کر لگا دسہرا کی درگا کی ہو بہو کاپی کی گئی ہے۔اور یہ تعزیہ باز اسے حضرت فاطمہ یا حضرت زینب (علیہما السلام) کی شبیہ بتاتے ہیں(نعوذ باللہ)ایک تعزیہ کی تصویر دیکھ کر پہلی نظر میں محسوس ہوا کہ رام لکشمن کی نقل کی گئی ہے۔کسی علاقے کے لوگوں پر حسینی ہونے کا جنون کچھ زیادہ چڑھا تو سب سے الگ کرنے کا سوچا۔اور دس سروں والے لنکا کے راون کی کاپی کرتے ہوۓ شام والے یزید کو راون کی شکل دے دی۔بس سر ایک رکھا۔اگر امسال کا حسینی تجربہ کامیاب رہا تو اگلے سال بڑھاۓ جانے کا فل امکان ہے۔راون دہن (راون کو جلانے کا عمل) کی طرح یزید دہن بھی ہو سکتا ہے۔
کئی تعزیوں میں ہندوانہ رسوم کی مکمل پیروی کا دین کش تعمیل دیکھ کر لگا ہی نہیں کہ یہ لوگ کہیں سے مسلمان بھی ہیں۔عجب حیرت تو تب ہوتی جب ان تعزیوں کو ہندؤوں کے "مورتی وسرجن" پروگرام کی طرح ندی،جھیل پوکھر یا تالاب میں بہایا ڈبایا بھی جاتا ہے۔اس تعزیہ داری میں کئی افعال شنیعہ کھلے شرک سے مشابہت رکھتے ہیں۔
ہمارے علاقے میں ایک کہاوت ہے کہ چوری کرے داڑھی والا اور پکڑا جاۓ مونچھ والا۔ٹھیک اسی طرح غم کربلا کے نام پر تعزیہ داری کوئی اور کرتا ہے، بدنامی اور اتہام کسی دوسرے کے سر جاتا ہے۔ان تعزیوں سے اہل درگاہ کی حلقہ سازی تو ہوتی ہے مگر بدنام صرف اعلی حضرت فاضل بریلوی ہوتے ہیں۔مخالفین سارا الزام ان پر رکھ دیتے ہیں۔عرب ملکوں میں جس طرح قبر پرست بتا کر جماعت کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی۔عین خدشہ ہے ہمارے تعزیوں کے بے دینی ویڈیوز دکھا کر ہمیں ہندوانہ طرز عبادت والا مسلمان باور کرایا جاۓ گا۔
مجھے اندیشہ ہے مستقبل میں کہیں بت برست بتا کر دین بدر نہ کر دیا جاۓ۔آخر قادیانی بھی تو کہیں گے جناب ہم صرف ختم نبوت کے منکر ہونے سے اسلامی نہیں ہو پاۓ اور آپ پوجا پاٹھ کر کے بھی پکے سچے حسینی مسلمان ہیں۔یہ کیسا انصاف ہے۔
اگلے بیس سال ٹرننگ پوائنٹ ہے۔یہ وقت اصلاح و احساب کا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اہل خانقاہ، اندوہ و دلگیری سے نکل کر رسم شبیری کا صحیح مفہوم عوام کو بتاتے ہیں یا اسی بے ڈھنگی چال کو جاری رکھتے ہیں۔اگر خانقاہیں واقعی اس مسئلہ میں مخلص ہیں تو اگلے محرم کا چاند طلوع ہونے سے پہلے پہلے یہ اعلان نامہ نشر کریں کہ جو بھی ان خرافات و بدعات کا حصہ بنے گا وہ خود کو ہماری بیعت و ارادت اور خلافت و امامت سے معزول، مسلوب و معطل سمجھے۔ہم اس سے بری ہیں فقط مع السلام۔کیا ہماری خانقاہوں میں اقبال مرحوم لاہوری کا وہ "صوفی" ملے گا جو خدمت حق میں مرد،محبت میں یکتا، حمیت میں فرد ہو۔جو عجم کے خیالات و مقامات میں الجھے بغیر خسرو کی زبان میں ببانگ دہل یہ اعلان کرے
ناخدا در کشتئ ما گر نباشد، گو مباش
ما خدا داریم، مارا ناخدا درکار نیست
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- مشتاق نوری
۲۱؍جولائی ۲۰۲۴ء
از قلم:- مشتاق نوری
۲۱؍جولائی ۲۰۲۴ء