Type Here to Get Search Results !

اعلی حضرت کی شاعری قرآن و حدیث کی ترجمانی


اعلی حضرت کی شاعری قرآن و حدیث کی ترجمانی

◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بحمدہ تعالیٰ! امام عشق و محبّت سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری قرآن و حدیث کی ترجمانی ہے کہ جس میں حُسنِ شعر کے ساتھ ساتھ شریعت کا لحاظ بھی مکمل ہوتا ہے، اور ہو بھی کیوں نہ! کہ آپ خود فرماتے ہیں:
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے اَحکامِ شریعت مَلحوظ
نیز اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فن شاعری میں اپنا رہبر بھی کمال کا بنایا کہ جس کی رہبری نے آپ کو حسان الہند کہلایا، اپنے رہبر کے تعلق سے آپ خود فرماتے ہیں:
رہبر کی رہِ نعت میں گر حاجت ہو
نقشِ قدمِ حضرتِ حَسّاں بس ہے
سبحان اللہ! آپ نے اس راہ میں حضرت حسان بن ثابت رضى اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلنے کو ہی کافی سمجھا، کیوں کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثنا خواں ہیں، جن کے نقش قدم پر چلنے ہی نے اعلی حضرت کے کلام کو کلاموں کا امام بنا دیا۔
کچھ شعراء کا یہ ذہن ہوتا ہے کہ شاعری میں اگر شعر کا حسن چاہیے تو معاذاللہ شریعت کا لحاظ نہ رکھا جائے، کیوں کہ اگر شاعری میں شریعت کا لحاظ کیا جائے تو شاعری کا حسن باقی نہیں رہ سکتا، شاید اس طرح کہنے والوں نے حسان الہند اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کبھی دیکھی نہ تھی، تو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایسے لوگوں کو پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کا حُسن کیوں کر آئے
لا اسے پیشِ جلوہ زمزمۂ رضاؔ کہ یُوں
یعنی آپ نے فرما دیا کہ جو بھی ایسی سوچ رکھتا ہے کہ حسنِ شعر اور شریعت کا لحاظ ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، تو اسے میرے کلام کے سامنے لاؤ اور دکھاؤ کہ یوں دونوں کا جمع ہونا ممکن ہے کیوں کہ احمد رضا کی شاعری میں تمہیں حسنِ شعر بھی ملے گا اور شریعت کا لحاظ بھی مکمل ہوگا۔ صدقتَ یا سیدی 
شروع میں جو میں نے بات کہی تھی کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری قرآن و حدیث کی ترجمانی ہے، تو یہ بات ہر اس شخص پر روز روشن کی طرح عیاں ہے جس کی نظر قرآن و حدیث پر ہونے کے ساتھ ساتھ امام اہلسنت کے نعتیہ دیوان "حدائق بخشش" پر بھی ہوگی، سبھی اشعار کو ایک ہی مضمون میں بیان کر دینا تو بہت مشکل امر ہے، نیز اس کے لیے وقت بھی کافی درکار، مختصراً اس مضمون میں بطور دلیل 25 ایسی آیات و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ پیش کرتا ہوں جس کا مفہوم و مضمون اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک نہیں بلکہ کئی کئی اشعار میں بیان فرمایا۔ ملاحظہ کریں:
آیات قرآنی 
 (1) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا.
 ترجمۂ کنز العرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• سب تمہاری ہی خبر تھے
تم مُؤخَّر مُبتَدا ہو
• فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود
ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام
• نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جَا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا
 (2) ومَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ
 ترجمۂ کنز العرفان: اور یہ نبی غیب بتانے پر ہر گز بخیل نہیں۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• فضل خدا سے غیب شہادت ہوا اِنھیں 
اس پر شہادت آیت و وحی و اَثر کی ہے
• اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروروں درود
• خدا نے کیا تجھ کو آگاہ سب سے
دو عالم میں جو کچھ خفی و جلی ہے
 (3) وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَر
ترجمۂ کنز العرفان: اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑ کو۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• مومن ہوں مومنوں پہ رؤفٌ رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لَا نَہَرکی ہے
• دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانیٔ دل و جاں نہیں 
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک "نہیں" کہ وہ ہاں نہیں
• واہ کیا جُود و کرم ہے شَہِ بَطْحا تیرا
نہیں ُسنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
• مانگیں گے مانگے جائیں گے منھ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ ’’لا‘‘ ہے نہ حاجت ’’اگر‘‘ کی ہے
 لب وا ہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں 
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک دَر کی ہے
 (4) وَ الضُّحٰى وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰى
ترجمہ کنز العرفان: چڑھتے دن کے وقت کی قسم۔اور رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔
مفسرین کرام نے اس آیت کی مختلف تفاسیر بیان کی ہیں، بعض مفسرین نے فرمایا کہ چاشت سے جمالِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی طرف اشارہ ہے، اور رات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنبرین گیسو کی طرف اشارہ ہے۔
(روح البیان)
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
• ہے کلامِ الہٰی میں شمس وضُحٰے ترے چہرۂ نور فزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلفِ دوتا کی قسم
 (5) قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ
 ترجمۂ کنز العرفان: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ خازن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یَعْنِیْ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِنَّمَا سَمَّاہُ اللہُ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُھْتَدٰی بِہٖ کَمَا یُھْتَدٰی بِالنُّوْرِ فِیْ الظُّلَامِ۔
ترجمہ: نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نور اس لیے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔
(تفسیر خازن)
علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَھُوَ نُوْرُ الْاَنْوَارِ وَالنَّبِیُّ الْمُخْتَارُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ.
ترجمہ: اس نور سے مراد تمام نوروں کے نور، نبی مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ (روح المعانی)
اعلی حضرت نے ایک دو شعر نہیں بلکہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور ہونے کے تعلق سے پورا قصیدۂ نور ہی تحریر فرما دیا۔
چند شعر ملاحظہ کریں:
• صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
• شمع دل مِشکوٰۃ تن سینہ زُجا جَہ نور کا
تیری صورت کے لئے آیا ہے سُورہ نور کا
• یہ جو مِہر و مَہ پہ ہے اِطلاق آتا نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے اِستِعارَہ نور کا
• تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
 (6) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کثیر اشعار میں حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "رحمت" فرمایا، چند اشعار یہ ہیں:
• ان کی امت میں بنایا اُنھیں رَحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ تِرا رَحم میں دعویٰ کیا ہے
• نبی رحمت شفیعِ اُمّت! رضاؔ پہ لِلّٰہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رَحمت کے واں بٹے تھے
• ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہو گی یا روزِ جزا
دی اُن کی رحمت نے صدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
 (7) لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
اعلی حضرت فرماتے ہیں: 
• تم ہو جواد و کریم تم ہو رؤف و رحیم
بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروڑوں درود
• وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا
رؤف و رحیم و علیم و علی ہے
• مومن ہوں مومنوں پہ رؤفٌ رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لَا نَہَرکی ہے
 (8) اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ
 ترجمۂ کنز العرفان: اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر
ساری کثرت پاتے یہ ہیں
 (9) وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى 
ترجمۂ کنز العرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
 (10) وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
 ترجمۂ کنز العرفان: اور بیشک تم یقینا عظیم اخلاق پر ہو۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• تِرے خُلْق کو حق نے عظیم کہا تِری خِلْق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا ترے خالقِ حُسن و ادا کی قسم
 (11) لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ
ترجمۂ کنز العرفان: مجھے اِس شہر کی قسم۔جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ
 (12) ترجمۂ کنز العرفان: رسول کے اس کہنے کی قسم کہ اے میرے رب!یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
 (13) لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
ترجمۂ کنز العرفان: اے حبیب! تمہاری جان کی قسم! بیشک وہ کافر یقینااپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
 وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسِی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم
مذکورہ آیات میں جو شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کی گئی ہے، اسے امام عشق و محبّت سیدی اعلی حضرت کی زبانی بطور نثر بھی سنیں، چنانچہ فتاویٰ رضویہ شریف میں آپ فرماتے ہیں:
اے مسلمان! یہ مرتبۂ جلیلہ اس جانِ محبوبیت کے سوا کسے میسر ہوا کہ قرآنِ عظیم نے ان کے شہر کی قسم کھائی، ان کی باتوں کی قسم کھائی، ان کے زمانے کی قسم کھائی، ان کی جان کی قسم کھائی، صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ ہاں اے مسلمان! محبوبیتِ کبریٰ کے یہی معنی ہیں۔ ابنِ مردویہ اپنی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی، حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: اللّٰہ تعالیٰ نے کبھی کسی کی زندگی کی قسم یاد نہ فرمائی سوائے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کے کہ آیۂ لَعَمْرُكَ میں فرمایا :تیری جان کی قسم، اے محمد!
ابو یعلیٰ، ابن جریر، ابن مردویہ ، بیہقی، ابو نعیم، ابن عساکر، بغوی حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے راوی: اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نہ بنایا، نہ پیدا کیا، نہ آفرینش فرمایا جو اسے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے زیادہ عزیز ہو، نہ کبھی ان کی جان کے سوا کسی جان کی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے: مجھے تیری جان کی قسم وہ کافر اپنی مستی میں بہک رہے ہیں۔
امام حجۃ الاسلام محمد غزالی احیاء العلوم اور امام محمد بن الحاج عبدری مکی مدخل اور امام احمد محمد خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ اور علامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض میں ناقل حضرت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک حدیثِ طویل میں حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کرتے ہیں: یارسولَ اللّٰہ! میرے ماں باپ حضور پر قربان، بیشک حضور کی بزرگی خدا تعالیٰ کے نزدیک اس حد کو پہنچی کہ حضور کی زندگی کی قسم یاد فرمائی، نہ باقی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی۔ اور تحقیق حضور کی فضلیت خدا کے یہاں اس نہایت کی ٹھہری کہ حضور کی خاکِ پا کی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے: مجھے قسم اس شہر کی۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 30، صفحہ 159، 161، رضا فاؤنڈیشن)
 (14) سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
 ترجمۂ کنز العرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی 
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
 (15) فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى
ترجمہ کنز العرفان: پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• غنچے مَا اَوْحٰی کے جو چٹکے دَنٰی کے باغ میں 
بلبلِ سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی محرم نہیں
• زبان کو اِنتظارِ گُفْتَن تو گوش کو حسرتِ شنیدن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
• نہ رُوحِ امیں نہ عرشِ بَریں نہ لَوحِ مُبیں کوئی بھی کہیں 
خبر ہی نہیں جو رَمزیں کھلیں ازل کی نِہاں تمہارے لئے
 (16) وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
• بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
• وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
 (17) یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(32)هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ.
ترجمہ کنز العرفان: یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہ مانے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
• تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
• وہی دُھوم ان کی ہے ما شآء اللہ
مِٹ گئے آپ مِٹانے والے
(18) وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں: 
• وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذِکر ہے اُونچا تیرا
 (19) وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ
 ترجمۂ کنز العرفان: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں: 
• اَنْتَ فِیْہِمْ نے عَدُوْ کو بھی لیا دامن میں 
عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
 (20) عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ
ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• اُن پر کتاب اُتری بَیَانًا لِّکُلِّ شَیْء
تفصیل جس میں مَا عَبَرو مَا غَبَر کی ہے
احادیث مبارکہ 
 (21) بخاری شریف کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إنما أنا قاسم والله يعطي
ترجمہ: تقسیم کرنے والا میں ہی ہوں، اللہ عطا فرمانے والا ہے۔
(صحیح البخاری، جلد 1، صفحہ 25، دار طوق النجاۃ)
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• رب ہے مُعْطِی یہ ہیں قاسم
رِزْق اُس کا ہے کھلاتے یہ ہیں
• تمہِیں حاکمِ برایا تمہِیں قاسمِ عطایا
تمہِیں دافعِ بلایا تمہِیں شافعِ خطایا
کوئی تم سا کون آیا
• کون دیتا ہے دینے کو منھ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمَارا نبی
• لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو مِلا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
• مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں 
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
 (22) کنزل العمال کی حدیث پاک میں ہے: قال لي جبريل: قلبت مشارق الأرض ومغاربها فلم أجد رجلا أفضل من محمد.
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: مجھ سے جبریل امیں نے کہا: میں نے زمین کے مشرق و مغرب چھان ڈالے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افضل کسی کو نہ پایا۔
(کنز العمال، جلد 11 صفحۃ 409، مؤسسة الرسالة، بيروت)
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
وہ کنواری پاک مریم وہ نَفَخْتُ فِیْہکا دم
ہے عجب نشانِ اعظم مگر آمنہ کا جایا
وہی سب سے افضل آیا
یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
 (23) مسلم شریف کی طویل حدیث پاک کا جز ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے دعا فرمائی: اللهم اغفر لأمتي، اللهم اغفر لأمتي، وأخرت الثالثة ليوم يرغب إلي الخلق كلهم، حتى إبراهيم.
ترجمہ: اے اللہ میری امت کو بخش دے، اے اللہ میری امت کو بخش دے، اور ایک دعا میں نے اس دن کے لیے مؤخر کر دی جس دن تمام مخلوق میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی۔
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحۃ 561، دار احیاء التراث العربي،بيروت)
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
وہ جہنم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہوا
ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی
مَا و شُما تو کیا کہ خلیلِ جلیل کو
کل دیکھنا کہ اُن سے تمنّا نظر کی ہے
 (24) حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
 لولاك يا محمد ما خلقت الدنيا.
ترجمہ: اے محمد! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ نے ہوتے تو میں دنیا کو نہ بناتا۔
(مختصر تاریخ دمشق، جلد 2، صفحۃ 137، دار الفكر، بيروت) 
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
• ہے اُنھیں کے دم قدم کی باغِ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گر وہ نہ ہوں عالَم نہیں
• زمین و زماں تمہارے لئے مَکِین و مکاں تمہارے لئے
چُنین و چُناں تمہارے لئے بنے دو جہاں تمہارے لئے
(25) بخاری و مسلم کی حدیث پاک میں ہے: عن أنس بن مالك رضي الله عنه، «أن أهل مكة سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يريهم آية، فأراهم القمر شقتين، حتى رأوا حراء بينهما.
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ مکہ والوں نے رسول الله صلی الله علیہ و سلم سے عرض کیا کہ انہیں حضور کوئی معجزہ دکھائیں، تو حضور نے انہیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھایا، حتی کہ انہوں نے حراء پہاڑ کو ان دونوں (ٹکڑوں) کے بیچ میں دیکھا۔
(صحیح البخاری، جلد 5، صفحۃ 49، دار طوق النجاۃ)
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
• اشارے سے چاند چیر دیا چھپے ہوئے خور کو پھیر لیا
گئے ہوئے دن کو عصر کیا یہ تاب و تَواں تمہارے لئے
• سُورج اُلٹے پاؤں پلٹے چاند اِشارے سے ہو چاک
اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہ کی
• تیری مرضی پاگیا سورج پِھرا اُلٹے قدم
تیری اُنگلی اُٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا
الحمد للہ! 25 آیات و احادیث کا وعدہ بہت آسانی کے ساتھ پورا ہوا کہ جس کلام پر بھی نظر ڈالی اسے قرآن و حدیث کی ترجمانی کرتا پایا، مگر ایک ہی مضمون میں سب کو جمع کر دینے کے بعد وہ مضمون نہیں پوری کتاب ہوتی، لہذا 25 پر ہی اکتفا کرنا مناسب جانا۔ اللہ تعالیٰ امام عشق و محبّت سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمیں بھی صدقہ عطا فرمائے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍🏻: مولانا بلال رضا عطاری مدنی
29 اگست، 2024ء / 23 صفر المظفر، 1446ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area