Type Here to Get Search Results !

کیا ہمیں ہندوستان کی اس صورت حال میں گاۓ کی قربانی کرنی چاہئے؟


کیا ہمیں ہندوستان کی اس صورت حال میں گاۓ کی قربانی کرنی چاہئے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسںٔلہ ذیل میں کہ ہمارے یہاں گائے کی قربانی پر حکومت کی جانب سے پابندی ہے گائے کی قربانی کرنے کی صورت میں حکومت کو اگر پتہ چل جاۓ تو قانوناً سزا کے مستحق ہوں گے اب اس صورت میں ہم کیا کریں قرآن و حدیث کے روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ 
 احسان شاکر سون بھدر یوپی   
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
  وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
قربانی شعائر اسلام سے ہے ہر صاحب نصاب مومن بندے پر اس کا بجا لانا ضروری ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں خاص طور سے آٹھ قسم کے حلال جانوروں کا ذکر فرمایا اور ان کے گوشت کو کھانے کا حکم بھی صادر فرمایا ہے ۔
(١) اونٹ نرومادہ (٢) گائے نرومادہ (٣) بکری نرومادہ (٤) بھیڑ نرومادہ ۔
قرآن کریم میں ہے:
ثمنية ازواج من الضان اثنين ومن المعز اثنين الآية..... ومن الابل اثنين ومن البقر اثنين الآية...
(سورۂ انعام آیت نمبر ٤٣/٤٢)

اور شریعت مطہرہ نے انہیں مذکورہ بالا مخصوص جانوروں کو قربانی کے لئے بھی چن لیا ہے ۔ ان کے سوا کسی دوسرے جانور کی قربانی جائز بھی نہیں۔
لانه الاضحیة شرعاً اسم لما یذبح ایام النحر بنیة القربة لله تعالى وهى من الانعام خاصة الابل والبقر والغنم۔
(الفقہ الحنفی والادلہ ج٣ص١٨٦)
 حدیث شریف میں مذکورہ بالا جانوروں میں سے ہر ایک کی قربانی کا ذکر ملتا ہے بس فرق اتنا ہے کے بھیڑ و بکری کی قربانی ایک ہی آدمی کی طرف سے کی جا سکتی ہے اور اونٹ و گائے میں سات آدمی کی شرکت ہو سکتی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے۔
عن عبدالله ابن عباس رضی الله عنہما قال کنا مع رسول الله صلی الله علیه وسلم فی سفرٍ فحضر الاضحیٰ فا شتر کنا فی البقرۃ سبعة۔
ترجمہ ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ بقرعید آئی تو ہم ایک گائے میں سات آدمی شریک ہوئے۔
( ترمذی نسائی ابن ماجہ)
  بلا شبہ مذہب اسلام میں گائے کی قربانی جائزو درست ہے لیکن ابھی ملک ہند کے اکثرہا جگہوں میں اہل ہنود اور حکومت کی جانب سے گائے کی قربانی پر پابندی ہے ، گاؤ کشی کو آئین ہند کے خلاف اور قانوناً جرم سمجھا جا رہا ہے اس لئے جب تک یہ پابندی ختم نہ ہو جائے گائے کی قربانی سے بچنا ہی بہتر ہے۔
 سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے بھی اسی طرح کا ایک سوال گائے کی قربانی کے بارے میں ہوا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ:
 باقی رہا سائل کا یہ کہنا کہ "اس فعل کے ارتکاب سے ثوران فتنہ و فساد ہو "ہم کہتے ہیں کہ جن مواضع میں مثل بازار و شارع عام وغیر ھما گاؤ کشی کی قانوناً ممانعت ہے (١) وہاں جو مسلمان گاۓ ذبح کرے گا البتہ اثارت فتنہ و فساد اس کی طرف منسوب ہو سکتی ہے اور قانوناً مجرم قرار پائے گا اور اس کو ہماری شریعت مطہرہ بھی روا نہیں رکھتی۔ 
(فتاویٰ رضویہ ج ٨ صفہ ٤٨۔ ٤٤٧ ق )
اسی فتویٰ کے حاصل بحث میں حضور امام اہلسنت یوں رقمطراز ہیں:
بالجملہ خلاصۂ جواب یہ ہے کہ بازار و شارع عام جہاں قانوناً ممانعت ہے، براہِ جہالت ذبح گاؤ کا مرتکب ہونا بیشک اسلام کو توہین و ذلت کے لئے پیش کرنا ہے، کہ شرعاً حرام ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٨ص٤٤٨ق)
جہاں فتاویٰ رضویہ کی یہ عبارت ،،گاؤ کشی کی قانوناً ممانعت ہے،، وہاں پر میں نے (١) نمبر ڈالا ہے۔ وہ اس لئے کہ اس عبارت کے تحت بحر العلوم حضرت علامہ عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ نے حاشیہ لگایا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ:
*فی الحال یہی صورت حال ہے کہ مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے صوبے میں ذبیحۂ گاؤ مطلقاً خلاف قانون قرار دیا ہے لہذا باز رہا جائے۔
اور محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ و مولانا مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی صاحب قبلہ دامت برکاتہ العالیہ صدر مفتی الجامعة الاشرفيه مبارک پور سے طلباء اشرفیہ نے کم وبیش پچیس سے تیس سوالات کںٔے۔ ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ حضور اس دور میں گاۓ کی قربانی کیسی؟ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ:
اور آج تو پابندی لگائی جا چکی ہے کل میں اور آج میں فرق ہے۔ اور شریعت کا مسںٔلہ یہ ہے کہ"جو بات قانوناً جرم ہوتی ہے وہ شرعاً بھی ممنوع ہوتی ہے" جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ لہذا پابندی لگ گئی ہے تو جب تک پابندی ہے تب تک اس سے بچنا چاہیے۔
(ماہنامہ اشرفیہ ستمبر ٢٠١٨)
لہٰذا جس جانور پر پابندی ہے اس کی قربانی سے باز رہا جائے اور اس کی جگہ پر ان جانوروں کی قربانی کی جائے جس پر پابندی عائد نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ۔ رضوان احمد مصباحی رامگڑھ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area