تجھ میں رب دِکھتا ہے،یارا میں کیا کروں
سجدے سر جھکتا ہے، یارا میں کیا کروں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اس شعر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
تجھ میں رب دِکھتا ہے،یارا میں کیا کروں
سجدے سر جھکتا ہے، یارا میں کیا کروں
برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:محمد فیضان ریاض،تلہ گنگ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
یہ شعر پڑھنا ناجائز و حرام ہے،یہ شعر معنی کفر پر بھی مشتمل ہے اگرچہ قابل تاویل ہے مگر اس پر حکم حرمت کئی وجوہ سے ثابت ہے۔
مِصرعہ اول میں ہے"تجھ میں رب دِکھتا ہے"قاٸل اپنے دوست سے مخاطِب ہے اور اسے کہہ رہا ہےکہ تجھ میں رب دِکھتا ہے۔
یہاں "رب"سے مراد"اللہ"ہے۔ کیونکہ لفظ "رب" بغیر اضافت کے ذاتِ باری تعالٰی کے ساتھ خاص ہے،دوسری وجہ یہ ہے کہ مذکورہ شعر کے مصرعہ ثانی میں موجود کلام"سجدے سر جھکتا ہے"اِس معنی کو تقویت دیتا ہے کہ یہاں رب سے مراد اللہ پاک کی ذات ہے۔
یہ کلام کہ "تجھ میں رب دکھتا ہے"ضرور حرام ہے۔اس کلام میں چند توجیہات ممکن ہیں۔
توجیہ اول!مراد یہ ہے کہ تو عینِ ذاتِ خدا ہے۔
توجیہ ثانی!تو عینِ ذاتِ خدا تو نہیں مگر اللہ پاک نے تجھ میں حُلُول فرمالیا۔
توجیہ ثالث!"تجھ میں رب دِکھتا ہے"سے مراد تجھ میں رب کی شان دِکھتی ہے۔
معنی اول و ثانی کے اعتبار سے یہ کلام کفریہ ہے اولا غیر خدا کو خدا کہنا و جاننا حرام و کفر ہے، ثانیا رب تعالٰی کا کسی بندے کے جسم میں حُلُول کرنا مَحال ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
عقیدہ! اِس دنیا میں بحالتِ بیداری اللّٰہ عزوجل کو دیکھنا نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے۔
توجیہ اول کا کفریہ ہونا تو بدیہی ہے اور توجیہ ثانی اس لیے کفر ہے کہ اس صورت میں اللّٰہ پاک کے لیے مکان و جسم ثابت ہورہا ہے،جبکہ اللہ پاک لیے جسم و مکان ثابت کرنا کفر ہے۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:"اللّٰہ تعالی جہت ومکان وزمان وحرکت وسکون وشکل وصورت وجمیع حوادث سے پاک ہے"۔
(بہارشریعت،ج1،ص19،مکتبۃ المدینہ)
مَزید فرماتے ہیں کہ:"اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مکان ثابِت کرنا کُفْر ہے کہ وہ مکان سے پاک ہے۔
(بہارِ شریعت، حصہ9، ص 180)
توجیہ ثالث کے اعتبار سے معنی تو درست ہے مگر یہ شعر پڑھنے کی اجازت نہیں کہ اگرچہ کفریہ معنی متعین نہ ہونے کی وجہ سے حکم کفر تو عاٸد نہ ہوگا مگر اس کے حرام ہونے میں شک نہیں۔
مصرعہ ثانی میں ہے"سجدے سر جھکتا ہے"یہاں شاعر اپنے دوست کو سجدہ کرنے کی بات کررہا ہے حالانکہ یہ بات ضروریات دین میں سے ہے کہ لاٸقِ عبادت محض خدا تعالٰی کی ذات ہے۔اللّٰہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کو سجدہ تعبدی کرنا کفر اور سجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے۔
چونکہ یہاں بھی دو معنی(کفر اور حرام) میں سے کوٸی ایک معنی متعین نہیں لہذا حکم کفر تو نہیں مگر حرام ضرور ہے۔
لہذا مذکورہ شعر پڑھنا شرعا جاٸز نہیں،قاٸل کو چاہیے کہ وہ توبہ کرے اور بربناۓ احتیاط تجدید ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدید نکاح بھی کرلے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
یہ شعر پڑھنا ناجائز و حرام ہے،یہ شعر معنی کفر پر بھی مشتمل ہے اگرچہ قابل تاویل ہے مگر اس پر حکم حرمت کئی وجوہ سے ثابت ہے۔
مِصرعہ اول میں ہے"تجھ میں رب دِکھتا ہے"قاٸل اپنے دوست سے مخاطِب ہے اور اسے کہہ رہا ہےکہ تجھ میں رب دِکھتا ہے۔
یہاں "رب"سے مراد"اللہ"ہے۔ کیونکہ لفظ "رب" بغیر اضافت کے ذاتِ باری تعالٰی کے ساتھ خاص ہے،دوسری وجہ یہ ہے کہ مذکورہ شعر کے مصرعہ ثانی میں موجود کلام"سجدے سر جھکتا ہے"اِس معنی کو تقویت دیتا ہے کہ یہاں رب سے مراد اللہ پاک کی ذات ہے۔
یہ کلام کہ "تجھ میں رب دکھتا ہے"ضرور حرام ہے۔اس کلام میں چند توجیہات ممکن ہیں۔
توجیہ اول!مراد یہ ہے کہ تو عینِ ذاتِ خدا ہے۔
توجیہ ثانی!تو عینِ ذاتِ خدا تو نہیں مگر اللہ پاک نے تجھ میں حُلُول فرمالیا۔
توجیہ ثالث!"تجھ میں رب دِکھتا ہے"سے مراد تجھ میں رب کی شان دِکھتی ہے۔
معنی اول و ثانی کے اعتبار سے یہ کلام کفریہ ہے اولا غیر خدا کو خدا کہنا و جاننا حرام و کفر ہے، ثانیا رب تعالٰی کا کسی بندے کے جسم میں حُلُول کرنا مَحال ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
عقیدہ! اِس دنیا میں بحالتِ بیداری اللّٰہ عزوجل کو دیکھنا نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے۔
توجیہ اول کا کفریہ ہونا تو بدیہی ہے اور توجیہ ثانی اس لیے کفر ہے کہ اس صورت میں اللّٰہ پاک کے لیے مکان و جسم ثابت ہورہا ہے،جبکہ اللہ پاک لیے جسم و مکان ثابت کرنا کفر ہے۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:"اللّٰہ تعالی جہت ومکان وزمان وحرکت وسکون وشکل وصورت وجمیع حوادث سے پاک ہے"۔
(بہارشریعت،ج1،ص19،مکتبۃ المدینہ)
مَزید فرماتے ہیں کہ:"اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مکان ثابِت کرنا کُفْر ہے کہ وہ مکان سے پاک ہے۔
(بہارِ شریعت، حصہ9، ص 180)
توجیہ ثالث کے اعتبار سے معنی تو درست ہے مگر یہ شعر پڑھنے کی اجازت نہیں کہ اگرچہ کفریہ معنی متعین نہ ہونے کی وجہ سے حکم کفر تو عاٸد نہ ہوگا مگر اس کے حرام ہونے میں شک نہیں۔
مصرعہ ثانی میں ہے"سجدے سر جھکتا ہے"یہاں شاعر اپنے دوست کو سجدہ کرنے کی بات کررہا ہے حالانکہ یہ بات ضروریات دین میں سے ہے کہ لاٸقِ عبادت محض خدا تعالٰی کی ذات ہے۔اللّٰہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کو سجدہ تعبدی کرنا کفر اور سجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے۔
چونکہ یہاں بھی دو معنی(کفر اور حرام) میں سے کوٸی ایک معنی متعین نہیں لہذا حکم کفر تو نہیں مگر حرام ضرور ہے۔
لہذا مذکورہ شعر پڑھنا شرعا جاٸز نہیں،قاٸل کو چاہیے کہ وہ توبہ کرے اور بربناۓ احتیاط تجدید ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدید نکاح بھی کرلے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بلال احمد شاہ ہاشمی
1.الجواب صحیح
عمدة الفقہاءحضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم قادری دامت برکاتہم العالیہ
شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتاء جامعہ غوثیہ رضویہ،سکھر
2.الجواب صحیح
مفتی محمد رفیق الاسلام رضوی مصباحی
دارالعلوم رضائے مصطفٰی، مٹیابرج، کولکاتا، بنگال
بلال احمد شاہ ہاشمی
1.الجواب صحیح
عمدة الفقہاءحضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم قادری دامت برکاتہم العالیہ
شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتاء جامعہ غوثیہ رضویہ،سکھر
2.الجواب صحیح
مفتی محمد رفیق الاسلام رضوی مصباحی
دارالعلوم رضائے مصطفٰی، مٹیابرج، کولکاتا، بنگال