Type Here to Get Search Results !

طلبۂ مدارس کا حال و مستقبل کتنا اندھیرا و کتنا روشن


طلبۂ مدارس کا حال و مستقبل کتنا اندھیرا و کتنا روشن
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- حفیظ علیمی گونڈوی ممبئ
19/مئی شب دوشنبہ2024ء
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
طلبہ و ذمہ داران مدارس کی عصری تعلیم(ماڈرن ایجوکیشن) سے یکسرروگردانی، غیر سنجیدہ نظام تعلیم اور بدعنوانی و بدنظمی کا طوفانی سنگم ،سطحیت کا نہ تھمنے والا سیل رواں اور تقاضاۓ حال سے چشم پوشی کا مذموم رویہ!یہ غیر سنجیدہ افعال بتارہےہیں کہ مستقبل کے اندھیروں میں طلبہء مدارس کی قیمتی زندگیاں بھٹکنے پر مجبور ہوجائیں گی اور طلبہ خواہی نخواہی ذلت و رسوائی کی بیڑیوں میں بندھ کر حاجت رواؤں کی چوکھٹ پر جبیں سائی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
ہم نے غفلت و ناعاقبت شناسی کی کونسی پٹی اپنی آنکھوں پر باندھ لی ہے کہ ہمیں بالکل دکھائی نہیں دیتا،ہمارے دل و دماغ میں کیسی روشنی سنچالت ہے جو اسے روشن کرنے سے عاجز و قاصر ہے،کیا ہماری سوچ و فکر کی صلاحیت سلب ہوگئی کہ مجبور محض بنے بیٹھے ہیں، کیا ہمارے کانوں کے پردے پھٹ چکے ہیں جو زمانے کے ہنگامی تقاضوں کی پکار سننے سے بہرے ہیں،کیا ہماری آنکھوں کی بصارت اور دل کی بصیرت اچک لی گئی ہےکہ زمانے کی برق رفتاری و حیرت انگیز گہماگہمی دیکھنے سمجھنے سے مجبور ہیں؟
ایک نظر ادھر بھی
علماء کے سن2000ءپہلے کے معاشی و معاشرتی حالات دیکھیے تو علماء کم و بیش آمدنی و چرچ کے لحاظ سے 80%عوام کے ساتھ معاشی و معاشرتی طور پر کھڑے تھے اور تب یہ احساس بہت کم تھا کہ زندگی کی گاڑی آگے کیسے بڑھے گی لیکن جیسے جیسے دن و مہینہ اور سال بدلتے گئے عوام کی آمدنی خرچ سے بڑھتی گئی اور علماء کی آمدنی خرچ سے بہت کم ہوتی گئی یا کچھ فیصدی جہاں تھے وہیں رہ گئے اور پھر آسمان چھوتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ہی قلت آمدنی کے زبردست دھکے نے علما کو 80%عوام کی صف سے بھی بہت نیچے گرادیا مزید یہ جب کہ تعلیم بھی بالکل ضروری سبجیکٹ بن گئی،علاج و معالجہ میں بھی موٹی رقم فکس ہوگئی،شادی نکاح میں غلیظ و ناپاک رسم نے کمر کو دوہری کردیا اور پھر روز مرہ کے ضروری وسائل و اخراجات کی تکمیل کوہ گراں بن کر زندگی کے ہرشعبے کی خوشی غارت کردی نہایت کسم پرسی میں زندگی کی گاڑی چلتے چلتے 2024ء کے فلیٹ فارم پر رکی ہے اب اس اسٹاپ سے آگے گاڑی کیسے بڑھے گی یہ الله و رسول جانتے ہیں۔
 بہر حال علماء کا جو موجودہ صورت حال زار ہے اگر اسے کوہ ہمالہ کو سنادیاجاۓ تو وہ برداشت نہ کرکے شرمندگی سے پانی پانی ہوجاۓ گا۔
لیکن یہی عوام جسے اللہ تعالیٰ نے دولت غنا کے ذریعہ خوش حال بنادیا جو کبھی کبھی کہتے بھی ہیں کہ ہمارا 50000/100000میں بھی خرچہ نہیں پورا ہوتا اور یقینا نہیں پورا ہوتا تو علما حضرات کا خرچہ8000/10000/12000/15000 اور بیس ہزار میں کیسے پورا ہوتاہوگا؟
لیکن یہ بےحس اور دین و احسان کے جذبے سے دور و نفور قوم جب تک غریب و مفلس تھی تب تک علماء و دین کی خدمات کرتی رہی لیکن جب سے دولت و غنا سے مالا مال ہوئی علماء بیزاری کے خبیث جذبے نے اسے بےپروا کردیا۔
بات دوسری جانب چلی گئی اس کے لیے معافی چاہتاہوں!
ہاں!پچیس سالوں کی انقلابی تبدیلی اور برق رفتار ارتقائی نظام زندگی کو دیکھتے ہوۓ طلبہ و مدارس کے احوال و کوائف اور نظام و نصاب کو تقاضاۓ وقت کے سانچے میں نہیں ڈھالے تو آنے والا وقت دین بیزاری و دین غداری،مستقل ملت فروشی اور قیامت خیز بدعنوانی و فتنہ و فساد کا ہوگا،جبکہ ابھی بھی یہی سلسلہ ہے لیکن کم و بیش حیاتیاتی وسائل کے سبب پس پردہ ہے۔
اگر اشاعت دین و سنیت،فروغ قوم و ملت اور ملکی سیاست میں اقدام و استحکام کا جذبہ ہے تو مدارس اسلامیہ سنیہ اپنا قبلہ درست کرلیں اور زیادہ نہ سہی کم از کم طلبہ کو عربی زبان و ادب کا ماہر بنائیں تاکہ عربی زبان و ادب کی خدمات کرکے اپنی مفلسی دور کرسکیں اور ساتھ ہی ساتھ انگریزی زبان و ادب پر بھی خصوصی توجہات مبذول کریں اور کم از کم اتنی مہربانی اور کریں کہ مدارس سے طلبہ کو انٹر میڈیٹ کا انگریزی نصاب مکمل کرائیں تاکہ طلبہء مدارس ہایرایجوکیشن کی تکمیل کی طرف ارتقائی اقدام کرسکیں جس سے وہ اپنی کامیاب زندگی کے ذریعہ دین و ملت کی خالصتاً للہ خدمات کرسکیں۔
اگر ممکن ہوتو ضروری کمپیوٹر ڈپلوما کا بھی لازمی اہتمام کریں اور مدارس کے نصاب و نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلی لاکر مدارس کا معیار بلند کریں اور جو طلبہ ان سہولیات کی فراہمی سے روگردانی و غفلت کریں تو اولا انہیں مستقبل کی ہولناکیوں سے روشناس کرائیں اگر پھربھی سنجیدہ نہ ہوں تو ایسے غیر سنجیدہ طلبہ کا اخراج لازم کریں کیوں کہ ایسے واہیات و بےحس طلبہ نہ تو مدارس کے حق میں کارآمد ہیں اور ناہی آنے والے وقتوں میں دین و سنیت اور ملت اسلامیہ کے صحیح معنوں میں کام آسکتے ہیں ۔
اور ساتھ ہی طلبہ کو اسکول و کالج سے بھی جوڑیں تبھی ان کا مستقبل روشن ہوسکتاہے ورنہ تنزلی طلبہ کا مقدر ہوگا۔
اگر کوئی کہے کہ یہ نظام و نصاب تعلیم ممکن نہیں تو ہمارے حساب سے وہ بہرحال دقیانوسی فکر اور فریب خوردہ ذہنیت کامالک ہے یا دین و ملت کے ارتقائی جذبے سے محروم اور عاقبت شناسی کی صلاحیت سے محروم ہے اس نظام و نصاب تعلیم مدارس سنیہ کے لیے کامیاب نششتیں و باہمی مشاورت کریں،نصاب تعلیم کی مدت میں کمی زیادتی کی گنجائش نکالیں اور سنجیدگی دکھائیں پھر دیکھیے کیسے راستہ ہموار ہوتاہے!!
ہاں اس نظام و نصاب تعلیم کا آغاز!وسائل و اسباب سے لیث اداروں کی پہل سے ممکن ہے جو طلبہ کے روشن مستقبل اور مدارس کے اعلی معیار کا ضامن و باعث ہوگا اور اگر ابھی بھی سوۓ رہے اور زندگی کا ثبوت نہ دیا تو جس طرح سے طلبہء مدارس کا گراف ڈاؤن ہورہاہے اسے دیکھتے ہوۓ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مستقبل میں کرایے پر طلبہ کو لاکر مدارس کے تحفظ و بقا کا کام کیاجاۓگا، جب کہ یہ عمل ابھی بھی ارتقائی راہ پر ہے۔
لکھنے کو تو بہت کچھ ہے اور کارآمد فارمیٹ بھی ہے لیکن ابھی اتناہے،جب تقاضا ہوگا تو ضرور پیش کیاجاۓگا اور ان شاءاللہ تعالیٰ اس پر میں ضرور کام کروں گا۔۔
اللہ عزوجل ہمیں قبل از وقت عمل کی توفیق بخشے اور دارین میں سرخرو رکھے ۔۔۔
حفیظ علیمی۔۔۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area