Type Here to Get Search Results !

عشر کی رقم عیدگاہ میں لگانا کیسا ہے؟


عشر کی رقم عیدگاہ میں لگانا کیسا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ عشر گندم کی رقم عیدگاہ میں لگانا کیسا ہے اس کو تفصیل سے لکھ کر واضح فرمائیں۔
المستفتی: مولانا ارشاد نظامی بیجنتھا سدھارتھ نگر یوپی۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب
 عیدگاہ میں براہِ راست عشر کی رقم لگانا، جائز نہیں ہے اور اگر کسی نے ایسا کیا، تو عشر بھی ادا نہیں ہوگا، کیونکہ  جو احکام زکوۃ کی ادائیگی کے ہیں ، وہی احکام عشر کی ادائیگی کے بھی ہیں اور زکوۃ و عشر کی ادائیگی کے لیے کسی مستحقِ زکوۃ کو اس  رقم کا مالک بنانا شرط ہے، لہٰذا  اگر عیدگاہ کو ضرورت ہو کہ لوگ اس کی تعمیر وغیرہ میں دلچسپی نہیں رکھتے یا لوگوں کے پاس اتنے  وسائل ہی نہیں کہ وہ اس کو تعمیر کر سکیں ، تو  اس کا طریقہ کار یہ ہے  کہ کسی شرعی فقیر کو بنیتِ عشر رقم کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ فقیر شرعی اس رقم پر قبضہ کر کے  اپنی خوشی سے عیدگاہ میں صرف کرنے کے لئے دے تواب اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔
   الدرالمختار میں ہے:
" مصرف الزکاۃ و العشر۔۔۔(ھو فقیر و ھو من لہ ادنی شيئ)ای دون نصاب" اھ ملخصاً
(ص١٣٧، كتاب الزكاة باب المصرف، مطبوعہ دار الكتب العلميه بيروت لبنان)
یعنی زکوٰۃ اور عشر کا ایک مصرف فقیر بھی ہے اور فقیر سے مراد وہ شخص ہے، جونصاب سے کم مال کا مالک ہو۔
   امام فخر الدین قاضی خان حسن بن منصور علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"و یصرف العشر الی من یصرف الیہ الزکاۃ " اھ (فتاوی قاضی خان، ج١، ص٢٤٣، کتاب الزکاۃ، فصل في العشر، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
یعنی جس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے اس کو عشر بھی دیا جاسکتا ہے۔
 ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :
"وقد امراللہ تعالیٰ الملاك  بایتاء الزکوٰۃ لقولہ تعالی ﴿وَاٰتُواالزَّكٰوةَ﴾ والایتاء ھو التملیک ولذا سمّی اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ تعالیٰ ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ﴾والتصدق تملیک" اھ
(بدائع الصنائع، ج٢، ص٤٥٦، مطبوعہ دار الكتب العلميه بيروت لبنان)
یعنی اللہ پاک نے مال دار لوگوں کو اپنے اِس فرمان﴿ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ﴾کے ذریعے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم ارشاد فرمایا اور "الایتاء" کا معنیٰ تملیک (یعنی مالک بنانا) ہے، اِسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نےاپنے اس فرمان﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ﴾میں زکوٰۃ کو صدقہ کا نام دیااور تصدق (یعنی صدقہ کرنا) مالک بنانا ہے۔
   علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
"یشترط  ان یکون الصرف (تملیکا) لا اباحۃ كما مر (لا) یصرف (الی بناء) نحو (مسجد و)لا الی( کفن میت و قضاء دینہ)" اھ
(الدر المختار، ص١٣٧، كتاب الزكاة باب المصرف، مطبوعہ دار الكتب العلميه بيروت لبنان)
یعنی زکوۃ وعشر کی ادائیگی میں یہ شرط ہے کہ خرچ  بطور تملیک  ہو، بطور اباحت نہ ہو، لہذا کسی عمارت کی تعمیر جیسے مسجد، میت کے کفن اور قرض کی ادائیگی میں خرچ نہیں کر سکتے۔
   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
”پھر دینے میں تملیک شرط ہے،جہاں یہ نہیں ،جیسے محتاجوں کو بطورِاباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کِھلا دینا یا میّت کے کفن دفن میں لگانا یا مسجد، کنواں ، خانقاہ، مدرسہ، پُل، سرائے وغیرہ بنوانا ،ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔‘‘ اھ
(فتاوی رضویہ جدید، ج١٠، ص١١٤، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
علامہ علاؤ الدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلیہ تحریر فرماتے ہیں:
”ان الحیلۃ ان یتصدق علی الفقیر ثم یامرہ بفعل ھذہ الاشیاء “ اھ (الدر المختار، ص١٣٧، كتاب الزكاة باب المصرف، مطبوعہ دار الكتب العلميه بيروت لبنان)
زکوۃ و عشر کی رقم کو ان کاموں میں خرچ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شرعی فقیر پر صدقہ کرے ، پھر اُسے یہ امور بجا لانے کا حکم دے۔
وقار الفتاوی میں ہے:
”یہ حیلہ بھی مصارف خیر میں خرچ کرنے  کے لیے مجبوری کی حالت میں کرنا چاہیے کہ جب اس کام کےلیے پیسے حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو۔“
(ج٢، ص٤١٢، مطبوعہ بزم وقارالدین ، کراچی )
واللہ تعالیٰ ورسولہﷺ اعلم بالصواب۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ: محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
٩ ذی القعدہ ١٤٤٥ھ مطابق ١٨ مئی ٢٠٢٤ء

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area