مسئلہ تفضیل شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین پہ ناصر مباحی کا رد
تفضیل شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور ناصر مباحی کا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ پہ جھوٹ
تفضیل شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور ناصر مباحی کا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ پہ جھوٹ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم عبید الرضا ارسلان قادری رضوی
آج مورخہ 19 مئی 2024 بروز اتوار
از قلم عبید الرضا ارسلان قادری رضوی
آج مورخہ 19 مئی 2024 بروز اتوار
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
ناصر مباحی جو اپنے حرکات رذیلہ کی وجہ سے فتنہ سرواں میں ایک مقام رکھتا ہے اسکا کام سوشل میڈیا پہ نت نئے شوشے چھوڑنا اور عوام الناس کے اذہان کو متزلزل کرنا ہے جناب نے ایک پوسٹ تفضیل شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے حوالے سے لگائی جس میں جناب نے دجل و فریب کا خوب مظاہرہ کیا وہ ان شاءاللّٰہ عزوجل آپ اس پوسٹ میں ملاحظہ فرمائیں گے۔
سب سے اول یہ بات سمجھ لیں کہ تفضیل شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا مسئلہ ضروریات اہلسنت سے ہے جو شخص اسکا انکار کرے وہ "سنی" نہیں بلکہ رافضی ہے۔
موصوف نے یہ لن ترانی بھی کی کہ یہ مسئلہ ظنی ہےنہ کہ قطعی ۔ اور اسکا انتساب جناب مباحی میاں نے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی جانب کیا
پھر یہ شرلی بھی جناب نے چھوڑی کہ یہ مسلک کہ شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین افضل ہیں یہ جمہور کا مذہب ہے اجماع نہیں اسکا کو بھی موصوف نے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی جانب منسوب کیا ہم یہاں اس پہ چند معروضات آپ کے گوش گزار کریں جس سے حقیقت حال کھل کر واضح ہو جائے گی
افضلیت شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اہلسنت کا اجماعی عقیدہ ہے جو اس عقیدے سے انحراف کرے وہ شخص علمائے اسلام کے فتاوی جات کی روشنی میں پکا رافضی ہے افضلیت شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے متعلق شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
"در وقت مشاورت صحابہ مدار استخلاف افضلیت را نہادند و لفظ احق بہذا الامر گفتند و جمعے کہ مناقشہ داشتند در استخلاف صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ چوں خطائے رائے خود برایشاں ظاہر شد قائل شدند بافضلیت او واین متنبی است بر آنکہ استخلاف با افضلیت مساوق بود و افضلیت خلفائے اربعہ ثابت است بترتیب خلافت بادلہ بسیار اینجا"
ازالتہ الخفاء مقصد اول فصل دوم لوازم خلافت خاصہ
ترجمہ:
خلافت کے وقت مشورہ کرتے وقت صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے مدار استخلاف افضلیت کو رکھا اور لفظ احق بہذا الامر کہا اور جن لوگوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو خلیفہ بنانے پہ اعتراض کیا ان کو جب اپنی رائے کی غلطی کا احساس ہوا تو وہ بھی افضلیت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے قائل ہو گئے اور یہ اس بنا پہ تھا کہ خلافت خاصہ افضلیت کے ساتھ ساتھ بہ ترتیب افضلیت خلفائے اربعہ کئی دلیلوں سے ثابت ہے
اس کے بعد شاہ صاحب نے تین مسلک بیان فرمائے مسلک اول کا بیان فرماتے ہیں:
"آنکہ استخلاف ایں بزرگواراں بہ نص و اجماع ثابت شد و استخلاف کذا لازم است افضلیت"
ترجمہ:
استخلاف ان بزرگوں کا نص اور اجماع سے ثابت ہے اور ایسا استخلاف افضل ہونے کو لازم ہے
مسلک ثانی بیان فرمایا کہ:
"احادیث مرفوعہ ادلہ بر افضلیت ایشاں نصا از انجملہ حدیث ابن عمر کنا نخیر فی زمان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فنقول ابو بکر خیر ھذہ الامۃثم عمر ثم عثمان"
ترجمہ:
کئی احادیث مرفوع ان بزرگوں کی افضلیت پہ دلالت کرتی ہیں بعض بطور نص ہیں جیسا کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث ہے کہ ہم لوگ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب افضلیت کا تذکرہ کرتے تھے تو یہی کہتے تھے ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اس امت میں سب سے افضل پھر عمر پھر عثمان رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین
مسلک ثالث بیان فرماتے ہیں:
"اجماع صحابہ اجمالاً ر تفصیلاً و این قصہ بس دراز ست از ہر صحابی فقیہہ لفظ ھذہ الامۃ و احق بھذا الامر و مانند آں مروی شد"
ترجمہ:
ان بزرگوں کی افضلیت پہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا تفصیلاً اور اجمالاً اجماع ہے یہ بیان بہت طویل ہے ہر فقیہہ صحابی سے ان بزرگوں کی افضلیت پہ کہ یہ اس امت میں سب سے بہتر ہیں اور مستحق خلافت ہیں اس طرح کے الفاظ مروی ہیں
شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور امت کا اس بات پہ اجماع ہے کہ افضلیت شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کو حاصل ہے اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے وقت استخلاف بھی افضلیت کو ہی مد نظر رکھا۔
علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
"اعْلَمْ أَنَّ الَّذِي أَطْبَقَ عَلَيْهِ عُظَمَاءُ الْمِلَّةِ وَعُلَمَاءُ الْأُمَّةِ أَنَّ أَفْضَلَ هَذِهِ الْأُمَّةِ [أَبُو بَكْرٍ ) الصِّدِّيقُ ، ثُمَّ عُمَرُ ، ثُمَّ اخْتَلَفُوا ، فَالْأَكْثَرُونَ وَمِنْهُم الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَهُوَ المَشْهُورُ عَنْ مَالِكِ أَنَّ الْأَفْضَلَ بَعْدَهُمَا عُثْمَانُ ثُمَّ عَلِيٌّ ."
امت کے علماء و زعماء کا اتفاق کے ہے کہ نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت میں سب سے افضل سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ پھر سیدنا فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ ہیں اس کے بعد تفضیل سیدنا عثمان غنی و مولا علی رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین میں اختلاف ہے کہ کون افضل ہے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں
"عَنِ الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ تَفْضِيلَ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرَعَلَى بَقِيَّةِ الْأُمَّةِ قَطْعِيٌّ"
امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی افضلیت باقی امت پہ یہ قطعی ہے
الصواعق المحرقہ ص 179_180
اب اس عبارت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ افضلیت شیخین کریمین کا مسئلہ امت کے نزدیک قطعی مسئلہ ہےاور اسی پہ امت کا اجماع ہے۔
میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللّٰہ علیہ مسئلہ تفضیل کی تفصیل بیان فرماتے ہیں:
"فصل امام اعظم ابوحنیفہ کو فی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے لوگوں نے مذہب اہلسنت و جماعت کے متعلق پوچھا تو فرمایا ۔ وتفضیل الشيخين وتُحِبُّ الخَثنين وترى المسح على الخفين - یعنی مذہب اہلسنت یہ ہے کہ تم حضرت ابو بکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فضیلت دو اور حضرت عثمان غنی اور مولائے علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے محبت کرو اور موزوں پر مسح کو جائز جانو۔ اس سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور مولائے علی کرم اللّٰہ تعالی وجہہ الکریم فضیلت میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے اگر چہ کم ہیں مگر خود ان میں کوئی نقصان اور کمی نہیں اور شیخین یعنی حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فارق رضی اللّٰہ تعالی عنہما کی محبت ختنین یعنی حضرت عثمان غنی اور مولائے علی کی محبت کے برابر ہے اس میں کوئی فرق اور کبھی نہیں"
سبع سنابل اردو ص 60
حضرت مخدوم شہاب الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں:
"جو شخص کہ انہیں (یعنی مولا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو)حضرت امیر المومنین ابو بکر اور عمر رضی اللّٰہ عنہا پر فضیلت ، دے وہ رافضیوں میں سے ہے"
سبع سنابل ص 62
اب یہاں سے بھی اس مسئلہ کی حساسیت کا علم ہوتا ہے کہ اس کے انکار پہ اکابرین امت اور اولیائے امت نے اتنا سخت موقف کیوں اختیار فرمایا
مزید فرماتے ہیں:
"پس جب کہ صحابہ کا اجماع جو نبیوں کا وصف رکھتے ہیں اس امر پہ ہوا کہ شیخین کو فضیلت حاصل ہے ۔ اور علی مرتضے خود بھی اس اجماع سے متفق اور اس میں شریک ہیں تو تفضیلی اپنے اعتقاد میں ضرور غلطی پرہیں ۔"
سبع سنابل ص 73
لیجئے جناب! بزرگان دین کا موقف بھی واضح ہو چکا ہے کہ افضلیت شیخین کریمین پہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا اجماع واقع ہو چکا اور مولا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم بھی شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی افضلیت کے قائل تھے
اسکے بعد فرماتے ہیں:
"وه روایتیں اور وہ مسئلے جواجماع امت کے مخالف اور مناقض ہیں سراسر غیر مسموع ، ناقابل قبول اور محض غلط ہیں "
ص 75
یعنی اجماع امت کے خلاف اگر کسی کا کوئی قول مل بھی جائے تو وہ قابل قبول نہ ہو گا
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں ہیں:
"ونقل البيهقي في الاعتقاد بسنده إلى أبي ثور عن الشافعي أنه قال : أجمع الصحابة وأتباعهم على أفضلية أبي بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي ."
امام بیہقی نے الاعتقاد میں نقل فرمایا امام شافعی فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے و اتباع اسی پہ ہے کہ افضل سب سے ابو بکر ، پھر عمر ، پھر عثمان پھر علی رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین ۔
ان حوالہ جات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ تفضیل شیخین کریمین کا مسئلہ ظنی نہیں بلکہ قطعی ہے اور اس پہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور اکابرین امت کا اجماع واقع ہوا ہے۔
اب ناصر مباحی کو چاہئے کہ ان حوالہ جات کی جانب بھی غور کرے اب اس نے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ پہ جو بہتان باندھے ان کو دیکھیں پھر ہم شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ہی اس مسئلہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں
موصوف نے اپنی پوسٹ کی ابتدا ہی کذب بیانی سے کی دیکھیں کیا لکھتا ہے:
"مسئلۂ تفضیل قطعی نہیں ظنی ہے شیخ عبد الحق محدث دہلوی"
اب موصوف نے جو اسکین پیش کئے اس کے صفحہ نمبر 157 پہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس مسئلہ کی قطعیت کو واضح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
"یہ ابن سبا یہودی تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اظہار اسلام کیا تھا اور صحابہ کرام کو گالی دیتا تھا۔ روافض کی اس جماعت کا سردار تھا جو علی مرتضی کی شان میں الوہیت کا دعوی کرتی تھی، خدا کے ساتھ ان کی پرستش کرتی تھی۔ آپ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے انھیں اپنے پاس بلایا، سزادی اور اسے اپنی جماعت سے الگ کر دیا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہما کی مدح و ثنا میں حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے اتنے خطبے اور فضیلتیں آئمہ نے نقل فرمائی ہیں کہ ان پر اطلاع پانے کے بعد کسی سرکش کو بھی مجال انکار نہ ہو گا۔ اگر علمائے اہل سنت و جماعت ابو بکر و عمر کی افضلیت کے سلسلے میں بلکہ اس کی قطعیت میں بھی اسی پر اکتفاکریں اور اس سے استدلال کریں تو کافی و وافی ہو گا"
لیجئے جناب! شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی افضلیت کو یہاں شاہ صاحب نے قطعیت میں داخل فرمایا اب اسکی وجہ کیا تھی کہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے ابن سباء اینڈ پارٹی کی چھترول کی اور شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی افضلیت کو بر سرِ منبر بیان فرمایا
دوسری جانب مولائے کائنات کا فرمان کہ
"لا أجد أحداً فَضْلَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلَّا جَلَّدْتُهُ حَدَّ الْمُقْتَرِي "
میں کسی کو نہ پاؤں کہ کوئی مجھے ابو بکر و عمر پہ فضیلت دے کسی نے ایسا کیا تو اسے میں (علی) حد مفتری جاری کروں گا
اسی روایت کو شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی نقل فرمایا ملاحظہ فرمائیں:
"بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آگاہ ہو جاؤ، جان لو! مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ کچھ لوگ مجھے ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں، جو مجھے ان سے افضل کہے گا وہ مفتری ہے اس کی وہی سزا ہوگی جو ایک مفتری کو دی جاتی ہے۔ "
تکمیل الایمان ص 154
اب بتائیں مباحی میاں کہ ظنی معاملات میں بھی حد مفتری جاری ہوتی ہے؟
اس کے بعد شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
"خلفائے اربعہ کے بعد بقیہ عشرہ مبشرہ کی فضیلت اور اس کی قطعیت کا جائزہ فَبَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشِّرَةِ
خلفائے اربعہ کے بعد بقیہ عشرہ مبشرہ کے لیے فضیلت ہے،"
تکمیل الایمان ص 157
اب یہاں ہم فتنہ سرواں کا ایک اور دجل بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ موصوف مترجم ابو سعید سڑوای نے ص 145 پہ سرخی چڑھائی کہ:
"حضرت ابو بکر کی افضلیت اور اختلاف علماء"
حالانکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی افضلیت پہ کسی ہو اختلاف نہ ہوا اسی کتاب میں موجود ہے:
"امام نووی شرح اصول حدیث میں بھی فرماتے ہیں کہ علی الاطلاق باجماع اہل سنت افضل اصحاب ابو بکر صدیق ہیں، ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہما۔ خطابی جو کہ علمائے اہل سنت میں سے ہیں، اہل کوفہ سے نقل کرتے ہیں کہ علی ہی عثمان پر مقدم ہیں اور ابو بکر ابن خزیمہ نے بھی اسی کو اختیار فرمایا ہے"
تکمیل الایمان ص 146
اب یہاں واضح لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر و فاروق اعظم رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی افضلیت میں کسی کو شک نہ ہوا اختلاف مولا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم اور سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کی افضلیت میں ہوا
اسی سے آگے موجود ہے:
"امام قسطلانی شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں کہ سلف میں بعض عثمان پر علی کی تقدیم کی طرف گئے ہیں۔ سفیان ثوری بھی انھیں میں سے ہیں لیکن بعض نے کہا ہے کہ سفیان ثوری نے آخر میں اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔"
اب ہماری تشریح کی تائید بھی شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے دیکھیں
"امام بیہقی کتاب الاعتقاد میں فرماتے ہیں کہ ابو ثور امام شافعی سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب و تابعین میں سے کسی نے ابوبکر و عمر کی تفضیل اور ان کی تقدیم میں اختلاف نہیں کیا جو کچھ بھی اختلاف ہے علی و عثمان کے سلسلے میں ہے ۔"
اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ افضلیت شیخین اجماعی موقف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں
مزید فرماتے ہیں:
"الغرض جملہ مشائخ اہل سنت کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ تمام صحابہ میں ابوبکر و عمر کو تقدم و فضیلت حاصل ہے"
تکمیل الایمان ص 146
غرضیکہ اہلسنت کے نزدیک سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی افضلیت اجماعی و قطعی مسئلہ ہے ناصر مباحی نے اس مسئلہ میں عوام الناس کے اذہان کو متزلزل کرنے کے لئے جو دجل و فریب سے کام لیا اس کو ہم نے آشکار کر دیا اللّٰہ جل شانہ قبول حق کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم
ناصر مباحی جو اپنے حرکات رذیلہ کی وجہ سے فتنہ سرواں میں ایک مقام رکھتا ہے اسکا کام سوشل میڈیا پہ نت نئے شوشے چھوڑنا اور عوام الناس کے اذہان کو متزلزل کرنا ہے جناب نے ایک پوسٹ تفضیل شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے حوالے سے لگائی جس میں جناب نے دجل و فریب کا خوب مظاہرہ کیا وہ ان شاءاللّٰہ عزوجل آپ اس پوسٹ میں ملاحظہ فرمائیں گے۔
سب سے اول یہ بات سمجھ لیں کہ تفضیل شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا مسئلہ ضروریات اہلسنت سے ہے جو شخص اسکا انکار کرے وہ "سنی" نہیں بلکہ رافضی ہے۔
موصوف نے یہ لن ترانی بھی کی کہ یہ مسئلہ ظنی ہےنہ کہ قطعی ۔ اور اسکا انتساب جناب مباحی میاں نے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی جانب کیا
پھر یہ شرلی بھی جناب نے چھوڑی کہ یہ مسلک کہ شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین افضل ہیں یہ جمہور کا مذہب ہے اجماع نہیں اسکا کو بھی موصوف نے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی جانب منسوب کیا ہم یہاں اس پہ چند معروضات آپ کے گوش گزار کریں جس سے حقیقت حال کھل کر واضح ہو جائے گی
افضلیت شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اہلسنت کا اجماعی عقیدہ ہے جو اس عقیدے سے انحراف کرے وہ شخص علمائے اسلام کے فتاوی جات کی روشنی میں پکا رافضی ہے افضلیت شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے متعلق شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
"در وقت مشاورت صحابہ مدار استخلاف افضلیت را نہادند و لفظ احق بہذا الامر گفتند و جمعے کہ مناقشہ داشتند در استخلاف صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ چوں خطائے رائے خود برایشاں ظاہر شد قائل شدند بافضلیت او واین متنبی است بر آنکہ استخلاف با افضلیت مساوق بود و افضلیت خلفائے اربعہ ثابت است بترتیب خلافت بادلہ بسیار اینجا"
ازالتہ الخفاء مقصد اول فصل دوم لوازم خلافت خاصہ
ترجمہ:
خلافت کے وقت مشورہ کرتے وقت صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے مدار استخلاف افضلیت کو رکھا اور لفظ احق بہذا الامر کہا اور جن لوگوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو خلیفہ بنانے پہ اعتراض کیا ان کو جب اپنی رائے کی غلطی کا احساس ہوا تو وہ بھی افضلیت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے قائل ہو گئے اور یہ اس بنا پہ تھا کہ خلافت خاصہ افضلیت کے ساتھ ساتھ بہ ترتیب افضلیت خلفائے اربعہ کئی دلیلوں سے ثابت ہے
اس کے بعد شاہ صاحب نے تین مسلک بیان فرمائے مسلک اول کا بیان فرماتے ہیں:
"آنکہ استخلاف ایں بزرگواراں بہ نص و اجماع ثابت شد و استخلاف کذا لازم است افضلیت"
ترجمہ:
استخلاف ان بزرگوں کا نص اور اجماع سے ثابت ہے اور ایسا استخلاف افضل ہونے کو لازم ہے
مسلک ثانی بیان فرمایا کہ:
"احادیث مرفوعہ ادلہ بر افضلیت ایشاں نصا از انجملہ حدیث ابن عمر کنا نخیر فی زمان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فنقول ابو بکر خیر ھذہ الامۃثم عمر ثم عثمان"
ترجمہ:
کئی احادیث مرفوع ان بزرگوں کی افضلیت پہ دلالت کرتی ہیں بعض بطور نص ہیں جیسا کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث ہے کہ ہم لوگ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب افضلیت کا تذکرہ کرتے تھے تو یہی کہتے تھے ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اس امت میں سب سے افضل پھر عمر پھر عثمان رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین
مسلک ثالث بیان فرماتے ہیں:
"اجماع صحابہ اجمالاً ر تفصیلاً و این قصہ بس دراز ست از ہر صحابی فقیہہ لفظ ھذہ الامۃ و احق بھذا الامر و مانند آں مروی شد"
ترجمہ:
ان بزرگوں کی افضلیت پہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا تفصیلاً اور اجمالاً اجماع ہے یہ بیان بہت طویل ہے ہر فقیہہ صحابی سے ان بزرگوں کی افضلیت پہ کہ یہ اس امت میں سب سے بہتر ہیں اور مستحق خلافت ہیں اس طرح کے الفاظ مروی ہیں
شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور امت کا اس بات پہ اجماع ہے کہ افضلیت شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کو حاصل ہے اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے وقت استخلاف بھی افضلیت کو ہی مد نظر رکھا۔
علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
"اعْلَمْ أَنَّ الَّذِي أَطْبَقَ عَلَيْهِ عُظَمَاءُ الْمِلَّةِ وَعُلَمَاءُ الْأُمَّةِ أَنَّ أَفْضَلَ هَذِهِ الْأُمَّةِ [أَبُو بَكْرٍ ) الصِّدِّيقُ ، ثُمَّ عُمَرُ ، ثُمَّ اخْتَلَفُوا ، فَالْأَكْثَرُونَ وَمِنْهُم الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَهُوَ المَشْهُورُ عَنْ مَالِكِ أَنَّ الْأَفْضَلَ بَعْدَهُمَا عُثْمَانُ ثُمَّ عَلِيٌّ ."
امت کے علماء و زعماء کا اتفاق کے ہے کہ نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت میں سب سے افضل سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ پھر سیدنا فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ ہیں اس کے بعد تفضیل سیدنا عثمان غنی و مولا علی رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین میں اختلاف ہے کہ کون افضل ہے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں
"عَنِ الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ تَفْضِيلَ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرَعَلَى بَقِيَّةِ الْأُمَّةِ قَطْعِيٌّ"
امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی افضلیت باقی امت پہ یہ قطعی ہے
الصواعق المحرقہ ص 179_180
اب اس عبارت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ افضلیت شیخین کریمین کا مسئلہ امت کے نزدیک قطعی مسئلہ ہےاور اسی پہ امت کا اجماع ہے۔
میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللّٰہ علیہ مسئلہ تفضیل کی تفصیل بیان فرماتے ہیں:
"فصل امام اعظم ابوحنیفہ کو فی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے لوگوں نے مذہب اہلسنت و جماعت کے متعلق پوچھا تو فرمایا ۔ وتفضیل الشيخين وتُحِبُّ الخَثنين وترى المسح على الخفين - یعنی مذہب اہلسنت یہ ہے کہ تم حضرت ابو بکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فضیلت دو اور حضرت عثمان غنی اور مولائے علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے محبت کرو اور موزوں پر مسح کو جائز جانو۔ اس سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور مولائے علی کرم اللّٰہ تعالی وجہہ الکریم فضیلت میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے اگر چہ کم ہیں مگر خود ان میں کوئی نقصان اور کمی نہیں اور شیخین یعنی حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فارق رضی اللّٰہ تعالی عنہما کی محبت ختنین یعنی حضرت عثمان غنی اور مولائے علی کی محبت کے برابر ہے اس میں کوئی فرق اور کبھی نہیں"
سبع سنابل اردو ص 60
حضرت مخدوم شہاب الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں:
"جو شخص کہ انہیں (یعنی مولا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو)حضرت امیر المومنین ابو بکر اور عمر رضی اللّٰہ عنہا پر فضیلت ، دے وہ رافضیوں میں سے ہے"
سبع سنابل ص 62
اب یہاں سے بھی اس مسئلہ کی حساسیت کا علم ہوتا ہے کہ اس کے انکار پہ اکابرین امت اور اولیائے امت نے اتنا سخت موقف کیوں اختیار فرمایا
مزید فرماتے ہیں:
"پس جب کہ صحابہ کا اجماع جو نبیوں کا وصف رکھتے ہیں اس امر پہ ہوا کہ شیخین کو فضیلت حاصل ہے ۔ اور علی مرتضے خود بھی اس اجماع سے متفق اور اس میں شریک ہیں تو تفضیلی اپنے اعتقاد میں ضرور غلطی پرہیں ۔"
سبع سنابل ص 73
لیجئے جناب! بزرگان دین کا موقف بھی واضح ہو چکا ہے کہ افضلیت شیخین کریمین پہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا اجماع واقع ہو چکا اور مولا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم بھی شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی افضلیت کے قائل تھے
اسکے بعد فرماتے ہیں:
"وه روایتیں اور وہ مسئلے جواجماع امت کے مخالف اور مناقض ہیں سراسر غیر مسموع ، ناقابل قبول اور محض غلط ہیں "
ص 75
یعنی اجماع امت کے خلاف اگر کسی کا کوئی قول مل بھی جائے تو وہ قابل قبول نہ ہو گا
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں ہیں:
"ونقل البيهقي في الاعتقاد بسنده إلى أبي ثور عن الشافعي أنه قال : أجمع الصحابة وأتباعهم على أفضلية أبي بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي ."
امام بیہقی نے الاعتقاد میں نقل فرمایا امام شافعی فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے و اتباع اسی پہ ہے کہ افضل سب سے ابو بکر ، پھر عمر ، پھر عثمان پھر علی رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین ۔
ان حوالہ جات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ تفضیل شیخین کریمین کا مسئلہ ظنی نہیں بلکہ قطعی ہے اور اس پہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور اکابرین امت کا اجماع واقع ہوا ہے۔
اب ناصر مباحی کو چاہئے کہ ان حوالہ جات کی جانب بھی غور کرے اب اس نے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ پہ جو بہتان باندھے ان کو دیکھیں پھر ہم شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ہی اس مسئلہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں
موصوف نے اپنی پوسٹ کی ابتدا ہی کذب بیانی سے کی دیکھیں کیا لکھتا ہے:
"مسئلۂ تفضیل قطعی نہیں ظنی ہے شیخ عبد الحق محدث دہلوی"
اب موصوف نے جو اسکین پیش کئے اس کے صفحہ نمبر 157 پہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس مسئلہ کی قطعیت کو واضح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
"یہ ابن سبا یہودی تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اظہار اسلام کیا تھا اور صحابہ کرام کو گالی دیتا تھا۔ روافض کی اس جماعت کا سردار تھا جو علی مرتضی کی شان میں الوہیت کا دعوی کرتی تھی، خدا کے ساتھ ان کی پرستش کرتی تھی۔ آپ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے انھیں اپنے پاس بلایا، سزادی اور اسے اپنی جماعت سے الگ کر دیا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہما کی مدح و ثنا میں حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے اتنے خطبے اور فضیلتیں آئمہ نے نقل فرمائی ہیں کہ ان پر اطلاع پانے کے بعد کسی سرکش کو بھی مجال انکار نہ ہو گا۔ اگر علمائے اہل سنت و جماعت ابو بکر و عمر کی افضلیت کے سلسلے میں بلکہ اس کی قطعیت میں بھی اسی پر اکتفاکریں اور اس سے استدلال کریں تو کافی و وافی ہو گا"
لیجئے جناب! شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی افضلیت کو یہاں شاہ صاحب نے قطعیت میں داخل فرمایا اب اسکی وجہ کیا تھی کہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے ابن سباء اینڈ پارٹی کی چھترول کی اور شیخین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی افضلیت کو بر سرِ منبر بیان فرمایا
دوسری جانب مولائے کائنات کا فرمان کہ
"لا أجد أحداً فَضْلَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلَّا جَلَّدْتُهُ حَدَّ الْمُقْتَرِي "
میں کسی کو نہ پاؤں کہ کوئی مجھے ابو بکر و عمر پہ فضیلت دے کسی نے ایسا کیا تو اسے میں (علی) حد مفتری جاری کروں گا
اسی روایت کو شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی نقل فرمایا ملاحظہ فرمائیں:
"بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آگاہ ہو جاؤ، جان لو! مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ کچھ لوگ مجھے ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں، جو مجھے ان سے افضل کہے گا وہ مفتری ہے اس کی وہی سزا ہوگی جو ایک مفتری کو دی جاتی ہے۔ "
تکمیل الایمان ص 154
اب بتائیں مباحی میاں کہ ظنی معاملات میں بھی حد مفتری جاری ہوتی ہے؟
اس کے بعد شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
"خلفائے اربعہ کے بعد بقیہ عشرہ مبشرہ کی فضیلت اور اس کی قطعیت کا جائزہ فَبَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشِّرَةِ
خلفائے اربعہ کے بعد بقیہ عشرہ مبشرہ کے لیے فضیلت ہے،"
تکمیل الایمان ص 157
اب یہاں ہم فتنہ سرواں کا ایک اور دجل بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ موصوف مترجم ابو سعید سڑوای نے ص 145 پہ سرخی چڑھائی کہ:
"حضرت ابو بکر کی افضلیت اور اختلاف علماء"
حالانکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی افضلیت پہ کسی ہو اختلاف نہ ہوا اسی کتاب میں موجود ہے:
"امام نووی شرح اصول حدیث میں بھی فرماتے ہیں کہ علی الاطلاق باجماع اہل سنت افضل اصحاب ابو بکر صدیق ہیں، ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہما۔ خطابی جو کہ علمائے اہل سنت میں سے ہیں، اہل کوفہ سے نقل کرتے ہیں کہ علی ہی عثمان پر مقدم ہیں اور ابو بکر ابن خزیمہ نے بھی اسی کو اختیار فرمایا ہے"
تکمیل الایمان ص 146
اب یہاں واضح لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر و فاروق اعظم رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی افضلیت میں کسی کو شک نہ ہوا اختلاف مولا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم اور سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کی افضلیت میں ہوا
اسی سے آگے موجود ہے:
"امام قسطلانی شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں کہ سلف میں بعض عثمان پر علی کی تقدیم کی طرف گئے ہیں۔ سفیان ثوری بھی انھیں میں سے ہیں لیکن بعض نے کہا ہے کہ سفیان ثوری نے آخر میں اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔"
اب ہماری تشریح کی تائید بھی شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے دیکھیں
"امام بیہقی کتاب الاعتقاد میں فرماتے ہیں کہ ابو ثور امام شافعی سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب و تابعین میں سے کسی نے ابوبکر و عمر کی تفضیل اور ان کی تقدیم میں اختلاف نہیں کیا جو کچھ بھی اختلاف ہے علی و عثمان کے سلسلے میں ہے ۔"
اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ افضلیت شیخین اجماعی موقف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں
مزید فرماتے ہیں:
"الغرض جملہ مشائخ اہل سنت کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ تمام صحابہ میں ابوبکر و عمر کو تقدم و فضیلت حاصل ہے"
تکمیل الایمان ص 146
غرضیکہ اہلسنت کے نزدیک سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی افضلیت اجماعی و قطعی مسئلہ ہے ناصر مباحی نے اس مسئلہ میں عوام الناس کے اذہان کو متزلزل کرنے کے لئے جو دجل و فریب سے کام لیا اس کو ہم نے آشکار کر دیا اللّٰہ جل شانہ قبول حق کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم