Type Here to Get Search Results !

کیا بیوی کی خالہ کی بیٹی کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے؟

(سوال نمبر 5250)
کیا بیوی کی خالہ کی بیٹی کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے؟
........................................
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا بیوی کی خالہ کی بیٹی کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے اور کیا بہنوئی کی بہن سے نکاح ہوسکتا ہے 
جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی 
سائل:- محمد امین مقام بہرائچ شریف یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
اپنی خالہ کی بیٹی ہو یا بیوی کی خالہ کی بیٹی ہو یا بیوی کی خالہ کی بیٹی کی بیٹی ہو
یا بہنوئی کی بہن ہو یا بہنوائی کی دوسری بیوی کی بیٹی ہو
یہ سب غیر محرم ہے سب سے نکاح جائز یے جبکہ رضاعت ثابت نہ ہو ۔
یاد رہے کہ یہ کسی عورت سے نکاح اور صحبت کے نتیجے میں صرف اس کی ماں، دادی، نانی وغیرہ اور بیٹی، پوتی وغیرہ (اگر ہوں) حرام ہوتی ہیں، بیوی کی بہن اور ساس کی بہن وغیرہ حرام نہیں ہوتیں اس لیے بیوی کی خالہ اور کی بیٹی شرعاً اجنبیہ ہے اس سے پردہ کرنا لازم وضروری ہے۔
فتاوی شامی میں ہے 
 مستفاد: ویحل لأصول الزاني وفروعہ أصول المزني بھا وفروعھا اھ (عن البحر)، 
ومثلہ ما قدمناہ قریباً عن القھستاني عن النظم وغیرہ، وقولہ: ویحل الخ: کما یحل ذلک بالوطء الحلال وتقییدہ بالحرمات الأربع مخرج لما عداہا (رد المحتار، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ۴:۱۰۷،)
 ومقتضی تقییدہ بالفرع والأصل أنہ لا خلاف في عدم الحرمة علی غیرھما کالأخ والعم (المصدر السابق، ص ۱۰۶)
حتی کہ اپنے بہنوائی کی دوسری بیوی کی لڑکی سے نکاح جائز ودرست ہے بشرطیکہ حرمت نکاح کی کوئی دوسری وجہ مثلا رضاعت وغیرہ ثابت نہ ہو اس لئے کہ بہنوئی کی وہ لڑکی جوشخص مذکور کی اپنی بہن سے نہیں ہے بلکہ بہنوائی کی دوسری بیوی سے ہے اور یہ لڑکی شخص مذکور کی محرمات میں سے نہیں ہے بلکہ اجنبیہ ہے اور محرمات کے علاوہ تمام عورتوں سے نکا ح جائز ہے
اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
واحل لکم ماوراء ذٰلکم؛؛
(سورہ نساء آیت 24)
فتاوی رضویہ میں ہے 
سوتیلی ماں ماں نہیں۔
قال اللہ تعالی
ان امھتھم الا الٰئ ولدنھم
 اس کی سگی بہن سے نکاح جائز ہے
(فتاوی رضویہ ج 5 ؛ص 304)
 ہوسکتا ہے کسی کو یہ شبہ گزرے کہ بہنوائی کی دوسری بیوی کی لڑکی اور مذ کورہ بالاشخص ماموں بھانجی ہیں ؛مگر ایسا نہیں ہے یہ دونوں نہ توحقیقی ماموں بھانجی ہیں نہ اخیافی نہ علاتی اس لئے کہ یہ شخص نہ تو بہنوائی کی دوسری بیوی کا حقیقی بھائی ہے نہ اخیافی نہ علاتی یونہی مذکورہ لڑکی نہ تو اس شخص کی حقیقی بہن کی لڑ کی ہے نہ ہی اخیافی اور علاتی بہنوں اور ماموں بھانجی کی بس یہی تین قسمیں ہیں
( ایساہی فتاوی مر کز تر بیت افتاء ج اول ص 533 پر ہے )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area