مزار کی زمین پر زکوٰۃ صدقہ فطرہ کی رقم سے مدرسہ بنوانا کیسا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مزار کی زمین ہے ڈھائی منڈہ اس زمین میں مدرسہ بنوانا چاہتے ہیں گاؤں والے اس میں زکوٰۃ صدقہ فطرہ کی رقم سے عندالشرع کیا حکم ہے جواب سے نوازیں کرم ہوگا۔
سائل:- محمد سلیم رضوی ڈھڑ نی غازیپور یوپی بھارت
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
صورت مستفسرہ میں اگر زمین صرف دینی امور کے لیے ہو تو اس پر مدرسہ بنانا جائز ہے ۔اور ٗزکات وصدقات واجبہ وفطرہ کی رقوم حیلہ شرعی کرنے کے بعدتعمیر مدرسہ وغیرہ میں بھی استعمال کرناجایز ہے ۔اور اگر مزار کی زمین قبرستان کے لیے وقف ہوتواس پر مدرسہ ومسجد بنانا جائز نہیں ہے۔کیونکہ وقف میں تبدیلی جائز نہیں جو چیز جس مقصد کے لئے وقف ہے اسی میں صرف کرنا واجب ہے. جس طرح مسجد و مدرسہ کو قبرستان نہیں کر سکتے اسی طرح قبرستان میں مسجد و مدرسہ نہیں بنا سکتے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
لا يجوز تغيير الوقف عن ھیئته فلا یجعل الدار بستانًا ولا الخان حمامًا ولا الرباط دکانًا إلًا اذا جعل الواقف الی الناظر مايری فيه مصلحۃ الوقف كذا في السراج الوهاج
وقف کو اس کی ہیئت سے تبدیل کرنا جائز نہیں لہذا گھر کا باغ بنانا اور سرائے کا حمام بنانا اور رباط کا دکان بنانا جائز نہیں، ہاں جب واقف نے نگہبان پر معاملہ چھوڑ دیا ہو کہ وہ ہر وہ کام کرسکتا جس میں وقف کی مصلحت ہو تو جائز ہے۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
صورت مستفسرہ میں اگر زمین صرف دینی امور کے لیے ہو تو اس پر مدرسہ بنانا جائز ہے ۔اور ٗزکات وصدقات واجبہ وفطرہ کی رقوم حیلہ شرعی کرنے کے بعدتعمیر مدرسہ وغیرہ میں بھی استعمال کرناجایز ہے ۔اور اگر مزار کی زمین قبرستان کے لیے وقف ہوتواس پر مدرسہ ومسجد بنانا جائز نہیں ہے۔کیونکہ وقف میں تبدیلی جائز نہیں جو چیز جس مقصد کے لئے وقف ہے اسی میں صرف کرنا واجب ہے. جس طرح مسجد و مدرسہ کو قبرستان نہیں کر سکتے اسی طرح قبرستان میں مسجد و مدرسہ نہیں بنا سکتے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
لا يجوز تغيير الوقف عن ھیئته فلا یجعل الدار بستانًا ولا الخان حمامًا ولا الرباط دکانًا إلًا اذا جعل الواقف الی الناظر مايری فيه مصلحۃ الوقف كذا في السراج الوهاج
وقف کو اس کی ہیئت سے تبدیل کرنا جائز نہیں لہذا گھر کا باغ بنانا اور سرائے کا حمام بنانا اور رباط کا دکان بنانا جائز نہیں، ہاں جب واقف نے نگہبان پر معاملہ چھوڑ دیا ہو کہ وہ ہر وہ کام کرسکتا جس میں وقف کی مصلحت ہو تو جائز ہے۔
(الفتاوی الھندیہ ج ٢ الباب الرابع عشر فی المتفرقات ص ٤٤١ /دار الکتب العلمیہ بیروت)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں
اس پارہ قبرستان میں سو برس سے کوئی قبر نہ ہونا اسے قبرستان ہونے سے خارج نہیں کرسکتا
امام ابو یوسف رحمہ ﷲ تعالٰی کے قول مفتٰی بہ پر واقف کے صرف اتنا کہنے سے کہ میں نے یہ زمین مسلمان کیلئے وقف کی یا اس زمین کو مقبرۂ مسلمین کردیا، وہ تمام زمین قبرستان ہوجاتی ہے اگر چہ ہنوز ایك مردہ بھی دفن نہ ہوا ۔ اور امام محمد کے قول پر ایك شخص کے دفن سے ساری زمین قبرستان ہوجاتی ہے
پھر ردالمحتار میں ہے۔
تسليم کل شيئ بحسبہٖ ففی المقبرۃ بدفن واحد وفی السقایۃ بشربہ وفی الخان بنزولہ
ہر چیز کا سپرد کرنا اس کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے تو مقبرے میں ایك شخص کو دفن کرنا ہے اور سقایہ میں ایك گھونٹ پانی پینا ہے اور سرائے میں اترنا ہے
(ردالمحتار کتاب الوقف مصطفی البابی مصر ۳/ ۴۰۵)
مزید دلائل نقل فرمانے کے بعد خلاصہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
پس صورت مستفسرہ میں وہاں مدرسہ و کتب خانہ بنانا ہی جائز نہیں اگر چہ مُردے کی ہڈی نہ نکلے اور نکلنے کی حالت میں ممانعت اور اشد ہوجائے گی کہ قبر مسلم کی بے حرمتی ہوئی
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٩ ص ٤٥٧ تا ٤٥٨/مطبوعہ مرکز اہلسنت برکات رضا)
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمتہ والرضوان فتح القدیر کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں
الواجب ابقاء الوقف علی ما کان علیہ اور وقف کرنے کیلئے ملک شرط ہے تو جب زمین قبرستان کیلئے وقف ہوچکی تو ملک نہ رہی لہذا اب مسجد کیلئے وہ زمین وقف نہیں ہوسکتی
ہاں اگر وہ وقفی قبرستان نہ ہو تو قبروں کو بدستور باقی رکھ کر قبروں کے آس پاس سے ستون قائم کرکے اوپر چھت قائم کردیں کہ نیچے کے درجہ میں قبریں ہوں تو اوپر چھت پر مسجد و مدرسہ بنا سکتے ہیں کہ میت کا حق سطح قبر پر ہے
غنیہ میں ہے
یا ثم بوطأ القبور لان سقف القبر حق المیت
و ھـــــــکــــذا
فتاوی امجدیہ حصہ سوم ص 6/5 میں ہے
اور سیدنا اعلٰحضرت عظیم البرکت قاطع بدعت تہذیب و تادیب کے روشن مینار سنت مصطفی کے آئنہ دارالشاہ امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان بہ القوی تحریر فرماتے ہیں
قبرستان میں کوئی تصرف خلاف وقف جائز نہیں مدرسہ ہو خواہ مسجد یا کچھ اور اگر کسی کی ملک ہے تو قبور سے الگ جو چاہے بنا سکتاہے
فتاوی رضویہ شریف
جلد ششم ص 347
فتاویٰ فقیہ ملت
جلد دوم ص 180/ 181
صدقات واجبہ کی رقوم مدرسہ بعد حیلہ شرعی لگاسکتے ہیں جیساکہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی علیہ الرحمہ رقمطرازہیں
صدقہ فطر و زکوٰۃ نہ تعمیر مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے نہ تنخواہ مدرسین میں۔ یہ صرف فقراء اور مساکین کا اور ان لوگوں کا حق ہے جن کو قرآن پاک میں ذکر فرمایا گیا۔
مگر اگر اس قسم کی مدوں کو نکال دیا جائے تو مدرسے کی آمدنی اس زمانے میں اتنی کم رہ جائے گی جس سے اس کا چلنا دشوار ہو جائے گا اور تحصیل علم کا دروازہ بند ہوتا نظر آئے گا۔ لہذا ان چیزوں میں زکوۃ اور صدقہ فطر بطور حیلہ کے صرف کیا جائے کہ اس قسم کے امور خیر کے لیے حیلہ کرنے میں کسی قسم کی کراہت یا قباحت نہیں۔
اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ یہ رقمیں کسی فقیر یا مسکین کو بطور تملیک دے دی جائیں، وہ اپنی طرف سے مدرسے کو دے دے تو اب اس رقم کا تنخواہِ مدرسین و عمارت میں صرف کرنا جائز ہوجائے گا۔ اور زکاۃ و صدقہ فطر ادا ہو جائے گا چنانچہ عموماً مدارس میں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔
[فتاویٰ امجدیہ، ج: 1، ص: 376]
ایک مقام پر اورصدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "ہاں اگر ان میں زکوۃ صرف کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مال زکوۃ فقیر کو دے کر مالک کر دے پھر وہ فقیر ان امور میں وہ مال صرف کرے تو ان شاء اللہ ثواب دونوں کو ہو گا"
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں
اس پارہ قبرستان میں سو برس سے کوئی قبر نہ ہونا اسے قبرستان ہونے سے خارج نہیں کرسکتا
امام ابو یوسف رحمہ ﷲ تعالٰی کے قول مفتٰی بہ پر واقف کے صرف اتنا کہنے سے کہ میں نے یہ زمین مسلمان کیلئے وقف کی یا اس زمین کو مقبرۂ مسلمین کردیا، وہ تمام زمین قبرستان ہوجاتی ہے اگر چہ ہنوز ایك مردہ بھی دفن نہ ہوا ۔ اور امام محمد کے قول پر ایك شخص کے دفن سے ساری زمین قبرستان ہوجاتی ہے
پھر ردالمحتار میں ہے۔
تسليم کل شيئ بحسبہٖ ففی المقبرۃ بدفن واحد وفی السقایۃ بشربہ وفی الخان بنزولہ
ہر چیز کا سپرد کرنا اس کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے تو مقبرے میں ایك شخص کو دفن کرنا ہے اور سقایہ میں ایك گھونٹ پانی پینا ہے اور سرائے میں اترنا ہے
(ردالمحتار کتاب الوقف مصطفی البابی مصر ۳/ ۴۰۵)
مزید دلائل نقل فرمانے کے بعد خلاصہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
پس صورت مستفسرہ میں وہاں مدرسہ و کتب خانہ بنانا ہی جائز نہیں اگر چہ مُردے کی ہڈی نہ نکلے اور نکلنے کی حالت میں ممانعت اور اشد ہوجائے گی کہ قبر مسلم کی بے حرمتی ہوئی
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٩ ص ٤٥٧ تا ٤٥٨/مطبوعہ مرکز اہلسنت برکات رضا)
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمتہ والرضوان فتح القدیر کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں
الواجب ابقاء الوقف علی ما کان علیہ اور وقف کرنے کیلئے ملک شرط ہے تو جب زمین قبرستان کیلئے وقف ہوچکی تو ملک نہ رہی لہذا اب مسجد کیلئے وہ زمین وقف نہیں ہوسکتی
ہاں اگر وہ وقفی قبرستان نہ ہو تو قبروں کو بدستور باقی رکھ کر قبروں کے آس پاس سے ستون قائم کرکے اوپر چھت قائم کردیں کہ نیچے کے درجہ میں قبریں ہوں تو اوپر چھت پر مسجد و مدرسہ بنا سکتے ہیں کہ میت کا حق سطح قبر پر ہے
غنیہ میں ہے
یا ثم بوطأ القبور لان سقف القبر حق المیت
و ھـــــــکــــذا
فتاوی امجدیہ حصہ سوم ص 6/5 میں ہے
اور سیدنا اعلٰحضرت عظیم البرکت قاطع بدعت تہذیب و تادیب کے روشن مینار سنت مصطفی کے آئنہ دارالشاہ امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان بہ القوی تحریر فرماتے ہیں
قبرستان میں کوئی تصرف خلاف وقف جائز نہیں مدرسہ ہو خواہ مسجد یا کچھ اور اگر کسی کی ملک ہے تو قبور سے الگ جو چاہے بنا سکتاہے
فتاوی رضویہ شریف
جلد ششم ص 347
فتاویٰ فقیہ ملت
جلد دوم ص 180/ 181
صدقات واجبہ کی رقوم مدرسہ بعد حیلہ شرعی لگاسکتے ہیں جیساکہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی علیہ الرحمہ رقمطرازہیں
صدقہ فطر و زکوٰۃ نہ تعمیر مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے نہ تنخواہ مدرسین میں۔ یہ صرف فقراء اور مساکین کا اور ان لوگوں کا حق ہے جن کو قرآن پاک میں ذکر فرمایا گیا۔
مگر اگر اس قسم کی مدوں کو نکال دیا جائے تو مدرسے کی آمدنی اس زمانے میں اتنی کم رہ جائے گی جس سے اس کا چلنا دشوار ہو جائے گا اور تحصیل علم کا دروازہ بند ہوتا نظر آئے گا۔ لہذا ان چیزوں میں زکوۃ اور صدقہ فطر بطور حیلہ کے صرف کیا جائے کہ اس قسم کے امور خیر کے لیے حیلہ کرنے میں کسی قسم کی کراہت یا قباحت نہیں۔
اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ یہ رقمیں کسی فقیر یا مسکین کو بطور تملیک دے دی جائیں، وہ اپنی طرف سے مدرسے کو دے دے تو اب اس رقم کا تنخواہِ مدرسین و عمارت میں صرف کرنا جائز ہوجائے گا۔ اور زکاۃ و صدقہ فطر ادا ہو جائے گا چنانچہ عموماً مدارس میں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔
[فتاویٰ امجدیہ، ج: 1، ص: 376]
ایک مقام پر اورصدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "ہاں اگر ان میں زکوۃ صرف کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مال زکوۃ فقیر کو دے کر مالک کر دے پھر وہ فقیر ان امور میں وہ مال صرف کرے تو ان شاء اللہ ثواب دونوں کو ہو گا"
(فتاویٰ امجدیہ، ج1، ص370، مکتبہ رضویہ ،کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 09/ رمضان المبارک 1445ھ
مطابق 20/مارچ 24 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 09/ رمضان المبارک 1445ھ
مطابق 20/مارچ 24 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔