غصے کی حالت میں حمل والی بیوی کو تین طلاق دینا کیسا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں علماے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو حالت حمل میں تین طلاق دے دیاہے تو اس حاملہ عورت اورشوہر کے لیے کیاحکم ہے مفصل جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔
سائل:- حافظ عرفان خان رانی پور ضلع غازی پور
سائل:- حافظ عرفان خان رانی پور ضلع غازی پور
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسٸولہ میں مذکورہ عورت تین طلاقوں کے ساتھ مطلقہ ہوگٸ ہو وہ بے حلالہ ہرگز ہرگز شوہر اول کے نکاح میں نہیں آسکتی کیونکہ تین طلاقوں کے بعد عورت شوہرپر بحرمت مغلظہ حرام ہوجاتی ہے اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے نہ دوبارہ نکاح جب تک حلالہ نہ ہولے۔
اورجس عورت کو حالتِ حمل میں طلاق ہو اس کی عدت بچّے کی پیدائش ہے جب بچّہ پیدا ہوجائے گا تو اس کی عدت مکمل ہوجائے گی ۔
جیساکہ قرآن مجید میں حاملہ عورتوں کی عدت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
صورت مسٸولہ میں مذکورہ عورت تین طلاقوں کے ساتھ مطلقہ ہوگٸ ہو وہ بے حلالہ ہرگز ہرگز شوہر اول کے نکاح میں نہیں آسکتی کیونکہ تین طلاقوں کے بعد عورت شوہرپر بحرمت مغلظہ حرام ہوجاتی ہے اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے نہ دوبارہ نکاح جب تک حلالہ نہ ہولے۔
اورجس عورت کو حالتِ حمل میں طلاق ہو اس کی عدت بچّے کی پیدائش ہے جب بچّہ پیدا ہوجائے گا تو اس کی عدت مکمل ہوجائے گی ۔
جیساکہ قرآن مجید میں حاملہ عورتوں کی عدت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
ترجمہ کنزالایمان: اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں۔(پارہ28،سورۃ الطلاق،آیت4)
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا سے روایت ہے :
"أنها كانت تحت الزبير فطلقها و هي حامل فذهب الى المسجد فجاء و قد وضعت ما في بطنها فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر له ما صنع فقال : بلغ الكتاب أجله“
یعنی وہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں، انہوں نے حمل کی حالت میں انہیں طلاق دے دی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی طرف آرہے تھے، وہ مسجد میں پہنچے تو ام کلثوم نے اپنے پیٹ میں موجود بچے کو پیدا کیا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنا معاملہ عرض کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کتاب اپنی مدت کو پہنچ گئی۔(یعنی قرآن میں حاملہ کی عدت بچہ پیدا ہونا ہے، وہ عدت پوری ہوگئی۔)
(سنن کبری للبیهقی،باب عدۃ الحامل المطلقۃ، جلد 3، صفحہ 154، مطبوعہ کراچی)
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"و عدۃ الحامل أن تضع حملہا کذا فی الکافی”
اور حاملہ کی عدت یہ ہے کہ اس کا وضعِ حمل ہو جائے (یعنی بچہ پیدا ہوجائے) ایسے ہی کافی میں ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 528، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے :
"(و) فی حق (الحامل) مطلقاً۔۔(وضع) جمیع (حملھا) لان الحمل اسم لجمیع ما فی البطن”
اور عدت حاملہ کے حق میں (اس کے) اپنے پورے حمل کو وضع کرنا (جننا) ہے، اس لئے کہ حمل اس تمام کا نام ہے جو پیٹ میں ہے۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الطلاق، باب العدۃ، جلد 5، صفحہ 192، 193، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
المحیط البرہانی میں ہے”إن كانت ممن لا تحيض لصغر أو كبر طلقها متى شاء واحدة، و إن كان عقيب الجماع وكذلك الحامل“ترجمہ:اگرعورت کوکم سنی یابڑھاپے کی بناء پرحیض نہ آتاہوتواُسے جب چاہے ایک طلاق دے خواہ صحبت کے بعدہی سہی،یوں ہی حاملہ عورت کو بھی طلاق دیناجائزہے۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا سے روایت ہے :
"أنها كانت تحت الزبير فطلقها و هي حامل فذهب الى المسجد فجاء و قد وضعت ما في بطنها فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر له ما صنع فقال : بلغ الكتاب أجله“
یعنی وہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں، انہوں نے حمل کی حالت میں انہیں طلاق دے دی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی طرف آرہے تھے، وہ مسجد میں پہنچے تو ام کلثوم نے اپنے پیٹ میں موجود بچے کو پیدا کیا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنا معاملہ عرض کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کتاب اپنی مدت کو پہنچ گئی۔(یعنی قرآن میں حاملہ کی عدت بچہ پیدا ہونا ہے، وہ عدت پوری ہوگئی۔)
(سنن کبری للبیهقی،باب عدۃ الحامل المطلقۃ، جلد 3، صفحہ 154، مطبوعہ کراچی)
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"و عدۃ الحامل أن تضع حملہا کذا فی الکافی”
اور حاملہ کی عدت یہ ہے کہ اس کا وضعِ حمل ہو جائے (یعنی بچہ پیدا ہوجائے) ایسے ہی کافی میں ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 528، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے :
"(و) فی حق (الحامل) مطلقاً۔۔(وضع) جمیع (حملھا) لان الحمل اسم لجمیع ما فی البطن”
اور عدت حاملہ کے حق میں (اس کے) اپنے پورے حمل کو وضع کرنا (جننا) ہے، اس لئے کہ حمل اس تمام کا نام ہے جو پیٹ میں ہے۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الطلاق، باب العدۃ، جلد 5، صفحہ 192، 193، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
المحیط البرہانی میں ہے”إن كانت ممن لا تحيض لصغر أو كبر طلقها متى شاء واحدة، و إن كان عقيب الجماع وكذلك الحامل“ترجمہ:اگرعورت کوکم سنی یابڑھاپے کی بناء پرحیض نہ آتاہوتواُسے جب چاہے ایک طلاق دے خواہ صحبت کے بعدہی سہی،یوں ہی حاملہ عورت کو بھی طلاق دیناجائزہے۔
(المحیط البرہانی،کتاب الطلاق، الفصل فی بیان اَنواع الطلاق،ج3،ص200، بیروت)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ:" حمل کی حالت میں طلاق دینا جائز ہے یا نہیں؟"
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:"جائز و حلال ہے اگرچہ ایام حمل میں بلکہ آج ہی بلکہ ابھی ابھی اس سے جماع کرچکا ہو‘‘مزید ایک مقام پر فرمایا:’’ عورت کو حمل ہونا مانعِ وقوع طلاق نہیں۔‘‘
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ:" حمل کی حالت میں طلاق دینا جائز ہے یا نہیں؟"
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:"جائز و حلال ہے اگرچہ ایام حمل میں بلکہ آج ہی بلکہ ابھی ابھی اس سے جماع کرچکا ہو‘‘مزید ایک مقام پر فرمایا:’’ عورت کو حمل ہونا مانعِ وقوع طلاق نہیں۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ،ج12، ص 374 ،375 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوی رضویہ میں ہے (فارسی کاترجمہ)"تیسراقول یہ ہے کہ :اگرطلاق کی حاجت ہےتومباح ہے ورنہ ممنوع ہے ،یہی قول صحیح اوردلائل سےمویدہے ۔"
فتاوی رضویہ میں ہے (فارسی کاترجمہ)"تیسراقول یہ ہے کہ :اگرطلاق کی حاجت ہےتومباح ہے ورنہ ممنوع ہے ،یہی قول صحیح اوردلائل سےمویدہے ۔"
(فتاویٰ رضویہ،ج11،ص321-322،رضافاونڈیشن،لاہور)
مفتی حبیب اللہ نعیمی اشرفی بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"حمل مانعِ طلاق شرعاً نہیں ہے۔ بحالتِ حمل عورت پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
(حبیب الفتاویٰ، جلد 2، صفحہ 396، شبیر برادرز لاہور)
فتاوی بحرالعلوم میں ہے :
"عورت کو حمل ہو تو شوہر طلاق دے سکتا ہے،
مفتی حبیب اللہ نعیمی اشرفی بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"حمل مانعِ طلاق شرعاً نہیں ہے۔ بحالتِ حمل عورت پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
(حبیب الفتاویٰ، جلد 2، صفحہ 396، شبیر برادرز لاہور)
فتاوی بحرالعلوم میں ہے :
"عورت کو حمل ہو تو شوہر طلاق دے سکتا ہے،
"وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ” (الطلاق : 4)
حمل والی عورتوں کی عدت وضعِ حمل ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ حمل کی حالت میں طلاق ہو تو جائز ہے جبھی تو عدت وضع حمل بن سکتی ہے۔”
(فتاوی بحرالعلوم، جلد سوم، صفحہ 37، شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
ارشاد باری تعالٰی ہے:فان طلقھافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ"
ترجمہ: پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تواب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوندکےپاس نہ رہے
(فتاوی بحرالعلوم، جلد سوم، صفحہ 37، شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
ارشاد باری تعالٰی ہے:فان طلقھافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ"
ترجمہ: پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تواب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوندکےپاس نہ رہے
(کنزالایمان، سورة البقرة،آیت ،٢٣٠)
ایضاح الشکوری فی شرح مختصرالقدوری میں ہے:
وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرة او اثنتین فی الامة لم تحل لہ حتی تنکح زوجاغیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا اویموت"یعنی اگر طلاقیں تین ہوں حرہ میں یادو ہوں باندی میں تو اس کے لۓ عورت حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح صحیح کرے اور وہ صحبت کرکے طلاق دے یامرجاۓ (ج٢،ص١٤٩) فتاوی امجدیہ میں حلالہ کی صورت یہ ہے کہ طلاق کی عدت گزرنے کے بعد عورت دوسرے سے نکاح صحیح کرے پھروہ دوسراشوہر اس سے وطی کرنے کےبعد طلاق دیدے یامرجاۓ پھراس طلاق یا موت کی عدت گزرنے کے بعد شوہراول سے نکاح جاٸز ہوگا ۔حلالہ کے لۓ دوسرے شوہرکا وطی یعنی دخول کرنا ضروری ہے بغیر اس کے شوہراول کیلۓ حلال نہیں ہوسکتی ۔حدیث عسیلہ جو ایک مشہور حدیث ہے جس کو بخاری ومسلم ودیگرمحدثین نے ام المومنین عاٸشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا فرماتی ہیں: جا ٕت امرأة رفاعة القرظی الی رسول اللہ ﷺ فقالت انی کنت عند رفاعة فطلقنی فبت طلاقی فتزوجت بعدہ عبدالرحمن بن الزبیر ومامعہ الا کھدبة الثوب فقال اتریدین ان ترجعی الی رفاعة قالت نعم قال لاحتی تذوقی عسیلة ویذوق عسیلتک "رفاعہ قرظی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زوجہ کوتین طلاقیں دیدی تھی اس کے بعد اس عورت نے عبدالرحمن ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سےنکاح کیا پھرحضورکی خدمت میں حاضرہوکر اپنےشوہرثانی کی نامردی کی شکایت کی اورشوہر اول سے پھرنکاح کرناچاہا حضورﷺنے ارشادفرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ توشوہرثانی کا مزہ نہ چھکے اوروہ تیرا مزہ نہ چھکے یعنی جب تک دخول اورجماع نہ ہو توشوہراول سے نکاح نہیں ہوسکتا ۔
تنویرالابصار ودرمختار میں ہے :لاینکح مطلقہ بھاای بالثلث حتی یطأ غیرہ اھ ملتقطا.
(ج٢،ص ٢٧٦)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
تنویرالابصار ودرمختار میں ہے :لاینکح مطلقہ بھاای بالثلث حتی یطأ غیرہ اھ ملتقطا.
(ج٢،ص ٢٧٦)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 09/ رمضان المبارک 1445ھ
مطابق 20/مارچ 24 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 09/ رمضان المبارک 1445ھ
مطابق 20/مارچ 24 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔