پس پردہ دین میں آسانی ہے، آسانی میں دین نہیں
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
روزہ نہ رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ ذمہ دار علما سے رابطہ کرکے مسئلہ سمجھیں
روزہ نہ رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ ذمہ دار علما سے رابطہ کرکے مسئلہ سمجھیں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:-ڈاکٹر غلام زرقانی چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن امریکہ
کتبہ:-ڈاکٹر غلام زرقانی چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن امریکہ
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
اس وقت پورے عالم اسلام میں رمضان المبارک کی گہماگہمی شباب پر ہے ۔ ہر چہار جوانب سے پرکیف سماں نے مسحور کررکھا ہے ۔مساجد میں نمازیوں کی کثرت، قرآن کریم کی تلاوت میں انہماک ودلچسپی ، اوراد ووظائف کے روحانی فیوض وبرکات سے تر زبانیں ،افطارکی تیاری کے لیے بازاروں میں چہل پہل اور وقت سحر بلند ہوتے ہوئے تنبیہی اعلانات ۔ غرض یہ کہ ماہ رمضان المبارک کی ظاہری شبیہ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی ہوجاتی ہے ، جو اسے پورے بارہ مہینوں سے ممتاز کردیتی ہے ۔ اے کاش ہم اسے باطنی حیثیت سے بھی یادگاربنانے کی مخلصانہ جدوجہد کرتے توبات کچھ اور ہوتی ۔
خیال رہے کہ اسلامی شریعت کے مقررہ ضابطے بظاہرکبھی کبھی سخت محسوس ہوتے ہیں ، لیکن جب اس پر عمل کرنا دشوار ترہوجائے ، توپھر اس کی سختی غیر معمولی حدتک ختم ہوجاتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ کسی مسئلہ پر شریعت اسلامی سخت ضابطہ بناتی ہے ، تاہم کوئی صاحب جسمانی اعتبار سے یا طبی پس منظر میں اسے کماحقہ ادا کرنے سے قاصر ہیں، تووہ ضابطہ عارضی طورپر اس شخص کے حق میں ختم ہوجاتاہے ۔ اور بلاشبہ یہ سہولت رحمت الٰہی کی عکاسی بھی کرتی ہے اور انسانیت دوستی پر دلالت بھی ۔ ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ اگر ایک شخص نمازکے دوران سجدہ کرنے سے قاصر ہے ، تواب اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر نماز پڑھے اور اشارے سے سجدہ کرلے ۔ آپ محسوس کررہے ہیں کہ عام حالات میں سجدہ نماز کے فرائض میں سے ہے ، جس کے ترک کے بعد نماز کی درستگی کی کوئی سبیل نہیں ۔ فقہاءکرام کی رائے کے مطابق ایسے شخص کو اپنی نماز از سرنو پڑھنی ہوگی ۔ تاہم جب ایک مسلمان پر سجدہ کرنا دشوار تر ہوجائے ، تواب اس کے حق میں اجازت دی جارہی ہے کہ وہ اشارے سے سجدہ کرلے ۔
ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک کے ایام میں روزہ ہر عاقل بالغ مرد وزن پر فرض ہے ۔ لہذا اگر کسی وجہ شرعی سے وہ روزہ نہ رکھے ، تواسے از خود فیصلہ کرنے کی بجائے کسی مستند عالم دین سے استفسار کرناچاہیے ۔ موجودہ دور میں دیکھا یہ گیاہے کہ لوگ نہ صرف از خود اپنے لیے جواز کی صورت پیداکرلیتے ہیں ، بلکہ دوسروں پربھی اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مجھے بتایا گیا کہ خواتین عام طورپر دوران حمل روزہ رکھنے سے گریز کرتی ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح ستراسّی سال کی عمر کے بوڑھوں کے بارے میں مشہور کردیا گیا ہے کووہ روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ دے دیں ۔ یہی حال مریض کے حوالے سے رائج ہوگیا ہے ۔ ہلکے بخار یا نزلہ زکام سے متاثر شخص کو بھی مشورہ دیا جاتاہے کہ وہ روزہ چھوڑ دے ۔ یوں ہی بالغ بچے جب کسی مشکل ترین امتحان کی تیاری میں منہمک رہتے ہیں ، توگھر والے انھیں روزہ نہ رکھنےکی فہمائش کرتے ہیں ۔ یعنی قصہ مختصر یہ ہے کہ ترک روزہ کے لیے ہم نے خود ساختہ اعذار وموانع گھڑ لیے ہیں ، جب کہ فرضیت روزہ کے حوالےایک طرف غیر معمولی اجروثواب کی بشارت بھی دی گئی ہے اور دوسری طرف ترک روزہ پر وعید شدید بھی ۔ اور وعید شدید کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کبھی روزہ چھوڑنے کی نوبت آجائے ، توہم نہایت ہی توجہ کے ساتھ شریعت اسلامیہ کے سائے میںدی گئی سہولیات سے واقفیت حاصل کریں ۔ اس حوالے سے صاحب بہار شریعت صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ سفر، حمل ، بچہ کو دودھ پلانا ، مرض ، بڑھاپا، خوف ہلاک اورنقصان عقل کی وجہ سے اگرکوئی روزہ نہ رکھے توگناہگار نہیں ہے ۔ خیال رہے کہ متذکرہ اعذار ایجاز واختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، جب کہ عملی نفاذ قدرے تفصیل چاہتاہے۔یعنی حالت سفر کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ سفر کم ازکم ساڑھے سنتاون میل یا اس سے زیادہ کے لیے ہو۔ اسی طرح حمل اوربچے کو دودھ پلانے وغیرہ کے لیے شرط یہ ہے کہ کوئی ایسا مسلمان طبیب جو روزہ کی اہمیت کو اچھی طرح جانتاہو، وہ کہہ دے کہ اگر عورت دوران حمل یا بچے کو دودھ پلانے کے دوران روزہ رکھے ، تویہ اس کے لیے ضرررساں ہے ، تب اسے اجازت ہوگی کہ وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اس کی قضاکرلے ۔ اسی طرح اگر کوئی مریض ایسا ہو جو اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر یقین رکھتاہوکہ روزہ سے مرض بڑھ جائے گا، یاکوئی تجربہ کار مسلم طبیب کہہ دے کہ روزہ رکھنا اس کے لیے مضر ثابت ہوسکتاہے ، تواسے اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور صحت یاب ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزں کی قضا کرلے۔ بڑھاپے کے حوالے سے شرط یہ ہے کہ وہ اس قدر بوڑھا ہے کہ روزہ رکھنے کی سکت نہیں رکھتااورآئندہ بھی اس سے روزہ رکھنے کی توقع جاتی رہی ہے،تواسے بھی اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور فدیہ دے دے۔بلکہ فقہاءکرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر وہ بوڑھا رمضان المبارک کے موسم گرمامیں آنے کی وجہ اگر روزہ نہ رکھ سکے ، لیکن سردیوں میں روزہ رکھ لے ، تواسے چاہیے کہ وہ سردیوں میں روزوں کی قضا کرلے۔
آپ محسوس کررہے ہیں کہ رمضان المبارک کی خیرات وبرکات کے پیش نظر روزے بہ آسانی ترک نہیں کیے جاسکتے ، بلکہ لازمی طورپر اس بات کا یقین ضروری ہے کہ عارضی یا مستقل مسئلہ واقعی روزہ دار کے لیے ضرر رساں ہے ۔ اس حوالے سے مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پاک بھی سنتے چلیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے رمضان کا روزہ بغیر کسی عذر یا بیماری کے چھوڑدیا تو پھر ساری عمر بھی اگر وہ روزہ رکھے تو اُس روزہ کے ثواب کو نہیں پہنچ سکتا، جو رمضان المبارک میں اسے حاصل ہوجاتا۔ظاہرہے کہ رمضان المبارک میں روزہ اللہ رب العزت کو اس قدر عزیز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے رمضان المبار ک میں ایمان ویقین کے سائے میں روزہ رکھا، تواس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ اجر وثواب کی یہ بہتات صاف اشارہ کررہی ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت کس قدر ہے ؟ لہذا اسے ترک بھی صرف انھیں صورتوں میں کیا جاناچاہیے، جن کی اجازت شریعت اسلامیہ کے آئینے میں دی گئی ہے ۔
صاحبو! سچی بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے بے پناہ فضل وکرم سے ہمیں رمضان المبارک کی مقدس ساعتیں میسرآئی ہیں ، لہذا اسے کسی طور ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ جن پر روزے فرض ہیں ، انھیں چاہیے کہ وہ نہایت ہی پابندی کے ساتھ روزے رکھیں ، اور اگرکبھی ایسی صورت حال پیش آجائے کہ روزہ رکھنا مشکل ہورہاہو، توسب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ شرعی ضابطے کے مطابق ترک روزہ کی گنجائش ہے یا نہیں ۔ کیا یہ ہمارے معمولات میں سے نہیں ہے کہ ملکی قوانین میں اپنے لیے کوئی گنجائش نکالنا چاہتے ہیں ، تو ہم قانونی ماہرین سے مشورہ کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔ اگر ملک میں رہتے ہوئے قانون شکنی کے عواقب سے ہم خوف زدہ ہیں ، تواللہ رب العزت کی عدالت عظمی میں ترک روزہ کے عواقب وشدائد سے ہمیں ڈر کیوں نہیں لگتاہے ؟
۱۵؍مارچ ۲۰۲۴ء
اس وقت پورے عالم اسلام میں رمضان المبارک کی گہماگہمی شباب پر ہے ۔ ہر چہار جوانب سے پرکیف سماں نے مسحور کررکھا ہے ۔مساجد میں نمازیوں کی کثرت، قرآن کریم کی تلاوت میں انہماک ودلچسپی ، اوراد ووظائف کے روحانی فیوض وبرکات سے تر زبانیں ،افطارکی تیاری کے لیے بازاروں میں چہل پہل اور وقت سحر بلند ہوتے ہوئے تنبیہی اعلانات ۔ غرض یہ کہ ماہ رمضان المبارک کی ظاہری شبیہ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی ہوجاتی ہے ، جو اسے پورے بارہ مہینوں سے ممتاز کردیتی ہے ۔ اے کاش ہم اسے باطنی حیثیت سے بھی یادگاربنانے کی مخلصانہ جدوجہد کرتے توبات کچھ اور ہوتی ۔
خیال رہے کہ اسلامی شریعت کے مقررہ ضابطے بظاہرکبھی کبھی سخت محسوس ہوتے ہیں ، لیکن جب اس پر عمل کرنا دشوار ترہوجائے ، توپھر اس کی سختی غیر معمولی حدتک ختم ہوجاتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ کسی مسئلہ پر شریعت اسلامی سخت ضابطہ بناتی ہے ، تاہم کوئی صاحب جسمانی اعتبار سے یا طبی پس منظر میں اسے کماحقہ ادا کرنے سے قاصر ہیں، تووہ ضابطہ عارضی طورپر اس شخص کے حق میں ختم ہوجاتاہے ۔ اور بلاشبہ یہ سہولت رحمت الٰہی کی عکاسی بھی کرتی ہے اور انسانیت دوستی پر دلالت بھی ۔ ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ اگر ایک شخص نمازکے دوران سجدہ کرنے سے قاصر ہے ، تواب اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر نماز پڑھے اور اشارے سے سجدہ کرلے ۔ آپ محسوس کررہے ہیں کہ عام حالات میں سجدہ نماز کے فرائض میں سے ہے ، جس کے ترک کے بعد نماز کی درستگی کی کوئی سبیل نہیں ۔ فقہاءکرام کی رائے کے مطابق ایسے شخص کو اپنی نماز از سرنو پڑھنی ہوگی ۔ تاہم جب ایک مسلمان پر سجدہ کرنا دشوار تر ہوجائے ، تواب اس کے حق میں اجازت دی جارہی ہے کہ وہ اشارے سے سجدہ کرلے ۔
ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک کے ایام میں روزہ ہر عاقل بالغ مرد وزن پر فرض ہے ۔ لہذا اگر کسی وجہ شرعی سے وہ روزہ نہ رکھے ، تواسے از خود فیصلہ کرنے کی بجائے کسی مستند عالم دین سے استفسار کرناچاہیے ۔ موجودہ دور میں دیکھا یہ گیاہے کہ لوگ نہ صرف از خود اپنے لیے جواز کی صورت پیداکرلیتے ہیں ، بلکہ دوسروں پربھی اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مجھے بتایا گیا کہ خواتین عام طورپر دوران حمل روزہ رکھنے سے گریز کرتی ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح ستراسّی سال کی عمر کے بوڑھوں کے بارے میں مشہور کردیا گیا ہے کووہ روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ دے دیں ۔ یہی حال مریض کے حوالے سے رائج ہوگیا ہے ۔ ہلکے بخار یا نزلہ زکام سے متاثر شخص کو بھی مشورہ دیا جاتاہے کہ وہ روزہ چھوڑ دے ۔ یوں ہی بالغ بچے جب کسی مشکل ترین امتحان کی تیاری میں منہمک رہتے ہیں ، توگھر والے انھیں روزہ نہ رکھنےکی فہمائش کرتے ہیں ۔ یعنی قصہ مختصر یہ ہے کہ ترک روزہ کے لیے ہم نے خود ساختہ اعذار وموانع گھڑ لیے ہیں ، جب کہ فرضیت روزہ کے حوالےایک طرف غیر معمولی اجروثواب کی بشارت بھی دی گئی ہے اور دوسری طرف ترک روزہ پر وعید شدید بھی ۔ اور وعید شدید کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کبھی روزہ چھوڑنے کی نوبت آجائے ، توہم نہایت ہی توجہ کے ساتھ شریعت اسلامیہ کے سائے میںدی گئی سہولیات سے واقفیت حاصل کریں ۔ اس حوالے سے صاحب بہار شریعت صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ سفر، حمل ، بچہ کو دودھ پلانا ، مرض ، بڑھاپا، خوف ہلاک اورنقصان عقل کی وجہ سے اگرکوئی روزہ نہ رکھے توگناہگار نہیں ہے ۔ خیال رہے کہ متذکرہ اعذار ایجاز واختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، جب کہ عملی نفاذ قدرے تفصیل چاہتاہے۔یعنی حالت سفر کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ سفر کم ازکم ساڑھے سنتاون میل یا اس سے زیادہ کے لیے ہو۔ اسی طرح حمل اوربچے کو دودھ پلانے وغیرہ کے لیے شرط یہ ہے کہ کوئی ایسا مسلمان طبیب جو روزہ کی اہمیت کو اچھی طرح جانتاہو، وہ کہہ دے کہ اگر عورت دوران حمل یا بچے کو دودھ پلانے کے دوران روزہ رکھے ، تویہ اس کے لیے ضرررساں ہے ، تب اسے اجازت ہوگی کہ وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اس کی قضاکرلے ۔ اسی طرح اگر کوئی مریض ایسا ہو جو اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر یقین رکھتاہوکہ روزہ سے مرض بڑھ جائے گا، یاکوئی تجربہ کار مسلم طبیب کہہ دے کہ روزہ رکھنا اس کے لیے مضر ثابت ہوسکتاہے ، تواسے اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور صحت یاب ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزں کی قضا کرلے۔ بڑھاپے کے حوالے سے شرط یہ ہے کہ وہ اس قدر بوڑھا ہے کہ روزہ رکھنے کی سکت نہیں رکھتااورآئندہ بھی اس سے روزہ رکھنے کی توقع جاتی رہی ہے،تواسے بھی اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور فدیہ دے دے۔بلکہ فقہاءکرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر وہ بوڑھا رمضان المبارک کے موسم گرمامیں آنے کی وجہ اگر روزہ نہ رکھ سکے ، لیکن سردیوں میں روزہ رکھ لے ، تواسے چاہیے کہ وہ سردیوں میں روزوں کی قضا کرلے۔
آپ محسوس کررہے ہیں کہ رمضان المبارک کی خیرات وبرکات کے پیش نظر روزے بہ آسانی ترک نہیں کیے جاسکتے ، بلکہ لازمی طورپر اس بات کا یقین ضروری ہے کہ عارضی یا مستقل مسئلہ واقعی روزہ دار کے لیے ضرر رساں ہے ۔ اس حوالے سے مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پاک بھی سنتے چلیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے رمضان کا روزہ بغیر کسی عذر یا بیماری کے چھوڑدیا تو پھر ساری عمر بھی اگر وہ روزہ رکھے تو اُس روزہ کے ثواب کو نہیں پہنچ سکتا، جو رمضان المبارک میں اسے حاصل ہوجاتا۔ظاہرہے کہ رمضان المبارک میں روزہ اللہ رب العزت کو اس قدر عزیز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے رمضان المبار ک میں ایمان ویقین کے سائے میں روزہ رکھا، تواس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ اجر وثواب کی یہ بہتات صاف اشارہ کررہی ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت کس قدر ہے ؟ لہذا اسے ترک بھی صرف انھیں صورتوں میں کیا جاناچاہیے، جن کی اجازت شریعت اسلامیہ کے آئینے میں دی گئی ہے ۔
صاحبو! سچی بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے بے پناہ فضل وکرم سے ہمیں رمضان المبارک کی مقدس ساعتیں میسرآئی ہیں ، لہذا اسے کسی طور ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ جن پر روزے فرض ہیں ، انھیں چاہیے کہ وہ نہایت ہی پابندی کے ساتھ روزے رکھیں ، اور اگرکبھی ایسی صورت حال پیش آجائے کہ روزہ رکھنا مشکل ہورہاہو، توسب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ شرعی ضابطے کے مطابق ترک روزہ کی گنجائش ہے یا نہیں ۔ کیا یہ ہمارے معمولات میں سے نہیں ہے کہ ملکی قوانین میں اپنے لیے کوئی گنجائش نکالنا چاہتے ہیں ، تو ہم قانونی ماہرین سے مشورہ کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔ اگر ملک میں رہتے ہوئے قانون شکنی کے عواقب سے ہم خوف زدہ ہیں ، تواللہ رب العزت کی عدالت عظمی میں ترک روزہ کے عواقب وشدائد سے ہمیں ڈر کیوں نہیں لگتاہے ؟
۱۵؍مارچ ۲۰۲۴ء
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:-ڈاکٹر غلام زرقانی چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن امریکہ