Type Here to Get Search Results !

تکافل میں جمع کروائی ہوئی رقم پر زکٰوة ہوگی یا نہیں؟ تکافل کا حکم شرع کیا ہے؟ تکافل کروانا کیساہے؟

 (سوال نمبر 5116)
تکافل میں جمع کروائی ہوئی رقم پر زکٰوة ہوگی یا نہیں؟ تکافل کا حکم شرع کیا ہے؟ تکافل کروانا کیساہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
تکافل میں جمع کروائی ہوئی رقم پر زکٰوة ہوگی یا نہیں۔ تکافل کا حکم بھی ارشاد فرما دیجیے
تکافل کروانا کیسا ہے ؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد سفیان رضوی مخاطب ہوں آزاد کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
 ١/ اصل رقم پر زکات ہوگی قبضے کے بعد۔
فتاوی شامی میں ہے 
فتجب زکاتھا إذا تم نصاباً وحال الحول، لکن لا فوراً بل عند قبض أربعین درھماً من الدین القوي کقرض۔
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ۳: ۲۳۶، ۲۳۷ )
٢/ تکافل کچھ قیود و شروط کے ساتھ جائز ہے حالات حاضرہ میں اس کی ضرورت ہے۔
٣/ تکافل کروانا جائز ہے ۔
تکافل عربی زبان کا لفظ ہے جو کفالت سے نکلا ہے اور کفالت ضمانت اور دیکھ بھال کو کہتے ہیں دوسرے لفظوں میں باہم ایک دوسرے کا ضامن بننایا باہم ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا مراد ہے 'تکافل' کی بنیاد بھائی چارے، امدادِ باہمی اور 'تبرع' کے نظریے پر ہے، جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے۔
 ١ / شریعت اسلامیہ اجتماعی زندگی میں تعاون و تکافل پر بہت زور دیتی ہے لہٰذا بیمہ تعاون و تکافل کی ایک قانونی اور منظم شکل ہے۔
٢ / انسان کے مرنے کے بعد اس کے پسماندگان کی مالی امداد ہو جاتی ہے۔
٣ / حادثاتی صورت میں انسان کے سرمایہ کا تحفظ ہوتا ہے۔
٤/ بس کمپنی سے ایک شرط لگا دی جائے جو شخص دو یا تین قسطیں جمع کروا کر باقی اقساط جمع نہ کرے اس کی رقم واپس کر دی جائے البتہ اس سے اخراجات وضع کر لئے جائیں۔ 
اور بیمہ بولڈر ایک قسط ادا کرنے کے بعد کسی مرحلہ پر فوت ہو جائے تو معاہدہ کے مطابق کمپنی پوری رقم مرنے والے کے شرعی وارثوں کو ادا کرنے کی پابند ہو جیسا کہ آج کل ہے۔
اگر کمپنی مندرجہ ذیل اصول رکھے تو بہت بہتر ہے 
بیمہ کرانے والوں کو بیمہ کمپنی حصہ دار قرار دے اور ان کے سرمایہ کو حصص قرار دے اور ان کے حصص کا جس قدر اوسط منافع بنتا ہے وہ ان کو دے دیا جائے۔ البتہ کمپنی اپنا کمیشن مقرر کر کے اس کو وضع کر سکتی ہے۔ بیمہ اور انشورنس جان و زندگی کا ہو یا جائیداد و کاروبار کا، چونکہ براہ راست اس میں سود، جوا وغیرہ نہیں اور بیمہ ہولڈر کمپنی سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرتا جس میں کوئی غیر شرعی صورت پیدا ہو، پس ہمارے نزدیک یہ کاروبار اصلاً مفید اور شرعاً جائز ہے۔ رہ گیا یہ معاملہ کہ یہ کمپنیاں پریمیئر کی رقوم کو کہاں انوسٹ کرتی ہیں؟ تو ظاہر ہے کہ یہ انوسٹمنٹ زراعت، تجارت، صنعت وغیرہ جائز منصوبوں میں شرعی اصولوں کے مطابق بھی ہو سکتی ہے اور سود، جوا اور فحاشی کے شعبوں میں بھی، جو حرام ہے۔ اب جائز و ناجائز کا فرق کرنا متعلقہ کمپنیوں پر ہے۔ بیمہ ہولڈرز براہ راست کسی ناجائز کام میں ملوث نہیں۔
کما فی الفتح القدیر 
قال في فتح القدير: لا يخفى أن هذا التعليل إنما يقتضي حل مباشرة العقد إذا كانت الزيادة ينالها المسلم وقد ألزم الأصحاب في الدرس أن مرادهم في حل الربا والقمار ما إذا حصلت الزيادة للمسلم نظرا إلى العلة 
 صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں یہ بات مخفی نہیں کہ) مذکورہ)علت بیان کرنا تقاضا کرتا ہے کہ ایسا عقد کرنا اس وقت حلال ہو جب نفع اور اضافی مال مسلمان کو ملے۔ اور (ہمارے)اصحاب نے درس میں اس بات کو بیان کرنے کا التزام کیا ہے کہ فقہاء جب (مسلمان اور کافر کے درمیان) سود و قمار کو حلال کہتے ہیں تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ جب نفع و اضافی مال مسلمان کو حاصل ہو ، اس کی علت کے اعتبار سے۔(درمختار مع رد المحتار،باب الربا، ج 5، ص 186، دار الفکر، بیروت)   
مصنف بہار شریعت رحمة الله عليه بیمہ کی ایک صورت کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہاں دو صورتیں ہیں: مرجاتے ہیں تو ورثہ کو پوری وہ رقم جو معین کی گئی ہے ملتی ہے، اگرچہ کل رقم جمع نہ کی ہو اور یہ ایک صورت فائدہ کی ہے مگر دوسری صورت کہ کسی وجہ سے رقم جمع کرنا بند کردیا تو جو کچھ جمع کیا ہے وہ بھی پورا نہیں ملتا یہ صورت سراسر نقصان کی ہے اور کفار سے اس طرح پر عقد فاسد کے ذریعہ رقم حاصل کرنے میں جواز اسی وقت ہے جبکہ نفع مسلم کا ہو۔
(فتاوی امجدیہ، ج 3، ص 238، مکتبہ رضویہ، کراچی)    
ایک اور جگہ آپ ارشاد فرماتے ہیں ۔زندگی کے بیمہ کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں:بعض میں نفع نقصان دونوں ہوتے ہیں اور یہ ناجائز ہے اور بعض ایسی صورت ہے کہ نقصان نہیں ہوتا ، یہ بیمہ اگر کفار سے ہو تو جو کچھ زیادہ ملے لینا جائز ہے ورنہ نہیں۔(فتاوی امجدیہ، ج 3، ص 239، مکتبہ رضویہ، کراچی)    
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ 
لائف انشورنس کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ،
جس کمپنی سے یہ معاملہ کیاجائے اگر اس میں کوئی مسلمان بھی شریک ہے تو مطلقا حرام قطعی ہے کہ قمار ہے اور اس پر جو زیادت ہے ربا، اور دونوں حرام و سخت کبیرہ ہیں۔ اور اگر اس میں کوئی مسلمان اصلاً نہیں تو یہاں جائزہے جبکہ اس کے سبب حفظ صحت وغیرہ میں کسی معصیت پر مجبور نہ کیا جاتا ہو ۔ جواز اس لئے کہ اس میں نقصان کی شکل نہیں، اگر بیس برس تک زندہ رہا پورا روپیہ بلکہ مع زیادت ملے گا، اور پہلے مرگیا تو ورثہ کو اور زیادہ ملے گا۔
(فتاوی رضویہ، ج 23، ص 595، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
واضح رہے منافع ملنے والی صورت صرف کفار کمپنی سے جائز ہے مسلم سے نہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area