Type Here to Get Search Results !

زنا سے پیدا ہونے والا بچہ حلال ہے یا حرام ؟



زنا سے پیدا ہونے والا بچہ حلال ہے یا حرام ؟
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین، مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے ایک لڑکی سے زنا کیا اور حمل رہ گیا اب اگر زید اس سے نکاح کرے تو بچہ حلال مانا جائے گا یا حرام ؟
المستفتیہ:ام حفصہ شمسی گھوسی یوپی۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب:
اگر کوئی مرد کسی عورت سے زنا کر لے پھر وہ حاملہ ہو جائے اور اس کے بعد اس عورت سے نکاح کر لے تو اگر نکاح سے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہوا تو بچہ ثابت النسب مانا جائے گا اور اگر نکاح کی تاریخ سے چھ مہینہ سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے ۔ اور خاوند یہ اقرار کرے کہ یہ بچہ میرا ہے تو ثبوت نسب کے لئے یہ اقرار معتبر نہیں ہوگا۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے: 
"إذا زنا بامرأة ثم تزوجها فولدت منه إن جاءت به لستة عشر فصاعدا يثبت نسبه إلا ان يدعيه ولم يقل إنه من الزنا إلا ان قال أنه من الزنا فلا يثبت نسبه ولا يرث منه" اھ 
(ج:01/ ص:540 كتاب الطلاق ، الباب الخامس عشر)
فتاوی شامی میں ہے: "(قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه"(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ج:03/ص:49) پھر فتاوی عالمگیری میں ہے:”إذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بالولد لأقل من ستة أشهر منذ تزوجها لم يثبت نسبه ، وإن جاءت به لستة أشهر فصاعدا يثبت نسبه منه ، اعترف به الزوج أو سكت‘‘ 
(فتاوٰی عالمگیری ، کتاب الطلاق، باب ثبوت النسب، ج:01/ص:536)
اور فتح القدیر میں ہے :”(قوله وإذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بولد لأقل من ستة أشهر منذ يوم تزوجها لم يثبت نسبه) لأن أقل مدة الحمل ستة أشهر فلزم كونه من علوق قبل النكاح ، وإن جاءت به لأكثر منها ثبت ، ولا إشكال سواء اعترف به الزوج أو سكت، وكذا إذا جاءت به لتمام الستة بلا زيادة لاحتمال أنه تزوجها واطئا لها فوافق الإنزال النكاح ، والنسب يحتاط في إثباته"
(فتح القدير على الهداية ، کتاب الطلاق، باب ثبوت النسب، ج:04/ ص:89)
اور اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ولد الزنا کا نسب زانی سے نہیں ثابت ہوسکتا اگر چہ وہ اقرار بھی کرے حدیث صحیح میں ارشاد فرمایا "الولد للفراش و للعاهر الحجر"اھ یہ جس حدیث کا ٹکڑا ہے اس میں زانی کا اقرار بھی موجود ہے پھر بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نسب ثابت نہ فرمایا
 (فتاویٰ امجدیہ ج: 02/ ص: 292/ )
اور بہار شریعت میں ہے کہ: کسی عورت سے زنا کیا پھر اُس سے نکاح کیا اور چھ مہینے یا زائد میں بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے اور کم میں ہوا تو نہیں اگر چہ شوہر کہے کہ یہ زنا سے میر ا بیٹا ہے۔ (ج: 02/ ص: 251/ ثبوت نسب کا بیان )
واللہ عزوجل و رسولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلم بالصواب۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
کتبه:- اسیر حضور تاج الشریعہ،
تلمیذ حضور محدث کبیر احقر العباد نور محمد قادری امجدی دیناجپوری۔
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
خادم التدریس:-
مرکز اہلسنت سکندرآباد دارالعلوم نور الاسلام حشمت پیٹ سکندرآباد تلنگانہ۔
25/جمادی الاولی 1445ھ
10/دسمبر 2023ء

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area