Type Here to Get Search Results !

صاحب ترتیب کس شخص کو کہتے ہیں ؟


صاحب ترتیب کس شخص کو کہتے ہیں ؟
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
 السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
صاحبِ ترتیب کس شخص کو کہتے ہیں؟ اور صاحبِ ترتیب کی ترتیب کب ساقط ہوتی ہے؟ یعنی کوئی شخص کب صاحبِ ترتیب ہوتا ہے اور صاحبِ ترتیب نہیں رہتا؟
مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی-
سائل:- (حافظ)سید محمد ندیم رضا قادری چشتی حشمت پیٹ سکندرآباد تلنگانہ-
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب: -
صاحبِ ترتیب اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ذمہ کوئی نماز واجب اعادہ یعنی کوئی فرض نماز اس کے ذمہ نہ رہی ہو اور اگر ہو تو اس کی تعداد پانچ یا اس سے کم فرض نمازیں اس پر لازم ہوں۔ اور اگر چھ یا اس سے زائد نمازیں قضا رہی ہوں اور اس نے ان کی بعض قضا پڑھ لی ہوں یہاں تک کہ صرف پانچ یا دو نمازیں رہ گئی ہوں خواہ وہ پانچ یا اس سے کم نمازیں نئی ہوں یا پرانی، مسلسل ہوں یا متفرق، یا نئی پرانی مل کر ہوں تو وہ صاحب ترتیب شمار نہیں ہوگا۔ہاں اگر فوت شدہ سب نمازیں پڑھ لیں تو اب پھر صاحب ترتیب ہو جائے گا۔
 فتاوٰی شامی میں ہے:
"‌يسقط الترتيب بصيرورة الفوائت ستا ولو كانت متفرقة كما لو ترك صلاة صبح مثلا من ستة أيام وصلى ما بينها ناسيا للفوائت."
(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:68، ط:سعيد)
علامہ امام ابوالحسن علی بن ابو بکر المرغینانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلَوْ فَاتَتْهُ صَلَوَاتٌ رَتَّبَهَا فِي الْقَضَاءِ كَمَا وَجَبَتْ فِي الْأَصْلِ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ شُغِلَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَقَضَاهُنَّ مُرَتِّبًا ثُمَّ قَالَ صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي. إلَّا أَنْ تَزِيدَ الْفَوَائِتُ عَلَى سِتِّ صَلَوَاتٍ؛ لِأَنَّ الْفَوَائِتَ قَدْ كَثُرَتْ فَيَسْقُطُ التَّرْتِيبُ فِيمَا بَيْنَ الْفَوَائِتِ نَفْسِهَا، كَمَا سَقَطَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْوَقْتِيَّةِ، وَحَدُّ الْكَثْرَةِ أَنْ تَصِيرَ الْفَوَائِتُ سِتًّا لِخُرُوجِ وَقْتِ الصَّلَاةِ السَّادِسَةِ ، وَهُوَ الْمُرَادُ بِالْمَذْكُورِ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ وَهُوَ قَوْلُهُ : وَإِنْ فَاتَتْهُ أَكْثَرُ مِنْ صَلَاةِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ أَجْزَأَتْهُ الَّتِي بَدَأَ بِهَا؛ لِأَنَّهُ إذَا زَادَ عَلَى يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ تَصِيرُ سِتًّا وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ أَنَّهُ اعْتَبَرَ دُخُولَ وَقْتِ السَّادِسَةِ ، وَالْأَوَّلُ هُوَ الصَّحِيحُ لِأَنَّ الْكَثْرَةَ بِالدُّخُولِ فِي حَدِّ التَّكْرَارِ وَذَلِكَ فِي الْأَوَّلِ.
اور اگر کسی کی کئی نمازیں فوت ہو گئی ہوں تو قضاء کرتے وقت ان کو ترتیب وار قضاء کرے، جیسے اصل میں واجب ہوئیں۔ کیونکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ خندق کے دن چار نمازوں میں مصروف رہے تو آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو ترتیب وار قضاء کیا۔ پھر فرمایا: جیسے تم مجھے پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔ ہاں اگر فوت شدہ نمازیں چھ سے زائد ہو جائیں تو پھر ترتیب ساقط ہو جائے گی۔ جیسے فوت شدہ اور وقتی نماز کی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ حد کثرت یہ ہے کہ چھ نمازیں قضاء ہو جائیں یعنی چھٹی کا وقت نکل جائے اور یہی جامع صغیر میں ہے۔ اگر اس سے دن رات کی نمازوں سے زیادہ فوت ہو گئیں تو جائز ہو جائے گی وہ نماز جس سے ابتداء کی تھی کیونکہ جب ایک دن رات پر زیادہ ہوئیں تو چھ ہو جائیں گی۔ اور امام محمد رحمہ اللہ سے یہ بھی روایت ہے کہ چھٹی کا وقت شروع ہوتے ہی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ قولِ اوّل ہی صحیح ہے۔ کیونکہ کثرت تو حد تکرار میں داخل ہونے سے ہوتی ہے اور یہ پہلے قول پر ہوگا۔
(المرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 1: 72،73، المکتبة الاسلامیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وَيَسْقُطُ التَّرْتِيبُ عِنْدَ كَثْرَةِ الْفَوَائِتِ وَهُوَ الصَّحِيحُ... وَحَدُّ الْكَثْرَةِ أَنْ تَصِيرَ الْفَوَائِتُ سِتًّا بِخُرُوجِ وَقْتِ الصَّلَاةِ السَّادِسَةِ... التَّرْتِيبُ إذَا سَقَطَ بِكَثْرَةِ الْفَوَائِتِ ثُمَّ قَضَى بَعْضَ الْفَوَائِتِ وَبَقِيَتْ الْفَوَائِتُ أَقَلَّ مِنْ سِتَّةٍ الْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَعُودُ... وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، حَتَّى لَوْ تَرَكَ صَلَاةَ شَهْرٍ فَقَضَاهَا إلَّا صَلَاةً وَاحِدَةً ثُمَّ صَلَّى الْوَقْتِيَّةَ وَهُوَ ذَاكِرٌ لَهَا جَازَ.
فوت شدہ نمازوں کی تعداد بڑھ جانے سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے اور یہ صحیح قول ہے۔۔۔ اور کثرت کی حد یہ ہے کہ فوت شدہ نمازیں چھ ہو جائیں، جب چھٹی نماز کا وقت گزر جائے۔۔۔ جب فوت شدہ نمازوں کی کثرت سے ترتیب ساقط ہو جائے، پھر بعض کی قضا لائے اور چھ سے کم نمازیں باقی رہ جائیں تو صحیح قول کے مطابق ترتیب نہیں لوٹتی۔۔۔ اسی پر فتویٰ ہے، یہاں تک کہ اگر اس نے پورا مہینہ نماز نہیں پڑھی، پھر ایک نماز کے سوا سب نمازوں کی قضا لائے، پھر وقتی نماز پڑھ لے اور اس کو یہ قضا نماز یاد تھی، پھر بھی جائز ہے۔
(الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، ج:01/ 123، بيروت: دار الفكر۔)
بہار شریعت میں ہے: 
"جب چھ نمازیں قضا ہونے کے سبب ترتیب ساقط ہوگئی تو ان میں سے اگر بعض پڑھ لی کہ چھ سے کم رہ گئیں تو وہ ترتیب عود نہ کرے گی یعنی ان میں سے اگر دو باقی ہوں تو باوجود یاد کے وقتی نماز ہو جائے گی البتہ اگر سب قضائیں پڑھ لیں تو اب پھر صاحب ترتیب ہوگیا"
(بہار شریعت، قضا نماز کا بیان مسئلہ:30/ج:01/ح:04/ص:705)
واللہ عز وجل اعلم و رسولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلم۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
کتبہ:- اسیر حضور تاج الشریعہ، تلمیذ
 حضور محدث کبیر احقر العباد نور محمد قادری امجدی دیناجپوری۔
خادم التدریس:مرکز اہلسنت سکندرآباد، 
دارالعلوم نور الاسلام حشمت پیٹ سکندرآباد تلنگانہ۔
01/جمادی الاولی، 1445ھ
16/نومبر، 2023ء
رابطہ نمبر: 8004734923

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area