(سوال نمبر 4837)
شاداب نے اپنی بیوی سے کہا نور فاطمہ سے اب کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا ہوں نور فاطمہ کو طلاق دیتا ہوں شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
بارے میں کہ شاداب نے اس طرح کا مضمون لکھ کر بھیجا میں محمد شاداب نور محمد چمن پورہ گھاٹی میں نے نور فاطمہ سے 7سال پہلے شادی کی تھی پچھلے 4 سال سے میں کویت میں ہوں ،میں نے لاکھوں روپیہ اس درمیان میری بیوی کو کویت سے کما کر بھیجا ،میری بیوی کے اس درمیان دوسرے لڑکے سے غلط تعلق ہوئے ،میں اور میرے خاندان والوں نے کئی بار اسے سمجھایا کہ تو اس لڑکے سے اپنے غلط تعلقات توڑ دے لیکن اس میں کوءی تبدیلی نظر نہیں آئی اور میرا لاکھوں روپیہ اس نے برباد کر دیا ،اس لئے میں محمد شاداب پورے ہوش و حواس میں نور فاطمہ سے اب کوءی تعلق رکھنا نہیں چاہتا ہوں نور فاطمہ کو طلاق دیتا ہوں آج سے مجھ سے اور میرے پورے پریوار سے کوءی تعلق نہیں رہے گا ،محمد شاداب 23/8/2023 دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس مضمون سے کون سی طلاق واقع ہو گی شاداب اگر پھر سے آنے نکاح میں لانا چاہے تو کیا صورت ہو گی
سائل:- نور محمد ڈونگر پور راجستھان انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
زید کا قول نور فاطمہ سے اب کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا ہوں یہ طلاق کنایہ ہے پھر لکھا نور فاطمہ کو طلاق دیتا ہوں ان جملوں سے دو طلاق بائنہ واقع ہوئی۔
زید کی زوجہ پر دو طلاقیں بائن ہوگئیں ہیں کیونکہ صریح دوران عدت بائن سے مل کر بائن واقع ہوتی ہے۔
اور اخیر میں زید کاقول مجھ سے اور میرے پریوار سے کوئی تعلق نہیں اس سے کوئ طلاق واقع نہیں چونکہ اب محل طلاق نہیں۔طلاق بائن واقع ہوچکی ہے۔
چنانچہ علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی1004ھ اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی1088ھ لکھتے ہیں
الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الصَّرِيحَ وَ) يَلْحَقُ (الْبَائِنَ) بِشَرْطِ الْعِدَّةِ
(تنویر الابصار و شرحہ الدر المختار،کتاب الطلاق،باب الکنایات،306/3)
یعنی،صریح صریح کو اور بائن کو دوران عدت لاحق ہوتی ہے۔
اس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں
وَإِذَا لَحِقَ الصَّرِيحُ الْبَائِنَ كَانَ بَائِنًا، لِأَنَّ الْبَيْنُونَةَ السَّابِقَةَ عَلَيْهِ تَمْنَعُ الرَّجْعَةَ كَمَا فِي الْخُلَاصَةِ
(رد المحتار،کتاب الطلاق،باب الکنایات،306/3)
یعنی،اور جب صریح بائن کو لاحق ہو، تو وہ بائن ہوگی، کیونکہ سابقہ بائن اُس پر رجوع سے مانع ہوگی، جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی میں ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع كذا في العتابية
شاداب نے اپنی بیوی سے کہا نور فاطمہ سے اب کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا ہوں نور فاطمہ کو طلاق دیتا ہوں شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
بارے میں کہ شاداب نے اس طرح کا مضمون لکھ کر بھیجا میں محمد شاداب نور محمد چمن پورہ گھاٹی میں نے نور فاطمہ سے 7سال پہلے شادی کی تھی پچھلے 4 سال سے میں کویت میں ہوں ،میں نے لاکھوں روپیہ اس درمیان میری بیوی کو کویت سے کما کر بھیجا ،میری بیوی کے اس درمیان دوسرے لڑکے سے غلط تعلق ہوئے ،میں اور میرے خاندان والوں نے کئی بار اسے سمجھایا کہ تو اس لڑکے سے اپنے غلط تعلقات توڑ دے لیکن اس میں کوءی تبدیلی نظر نہیں آئی اور میرا لاکھوں روپیہ اس نے برباد کر دیا ،اس لئے میں محمد شاداب پورے ہوش و حواس میں نور فاطمہ سے اب کوءی تعلق رکھنا نہیں چاہتا ہوں نور فاطمہ کو طلاق دیتا ہوں آج سے مجھ سے اور میرے پورے پریوار سے کوءی تعلق نہیں رہے گا ،محمد شاداب 23/8/2023 دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس مضمون سے کون سی طلاق واقع ہو گی شاداب اگر پھر سے آنے نکاح میں لانا چاہے تو کیا صورت ہو گی
سائل:- نور محمد ڈونگر پور راجستھان انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
زید کا قول نور فاطمہ سے اب کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا ہوں یہ طلاق کنایہ ہے پھر لکھا نور فاطمہ کو طلاق دیتا ہوں ان جملوں سے دو طلاق بائنہ واقع ہوئی۔
زید کی زوجہ پر دو طلاقیں بائن ہوگئیں ہیں کیونکہ صریح دوران عدت بائن سے مل کر بائن واقع ہوتی ہے۔
اور اخیر میں زید کاقول مجھ سے اور میرے پریوار سے کوئی تعلق نہیں اس سے کوئ طلاق واقع نہیں چونکہ اب محل طلاق نہیں۔طلاق بائن واقع ہوچکی ہے۔
چنانچہ علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی1004ھ اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی1088ھ لکھتے ہیں
الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الصَّرِيحَ وَ) يَلْحَقُ (الْبَائِنَ) بِشَرْطِ الْعِدَّةِ
(تنویر الابصار و شرحہ الدر المختار،کتاب الطلاق،باب الکنایات،306/3)
یعنی،صریح صریح کو اور بائن کو دوران عدت لاحق ہوتی ہے۔
اس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں
وَإِذَا لَحِقَ الصَّرِيحُ الْبَائِنَ كَانَ بَائِنًا، لِأَنَّ الْبَيْنُونَةَ السَّابِقَةَ عَلَيْهِ تَمْنَعُ الرَّجْعَةَ كَمَا فِي الْخُلَاصَةِ
(رد المحتار،کتاب الطلاق،باب الکنایات،306/3)
یعنی،اور جب صریح بائن کو لاحق ہو، تو وہ بائن ہوگی، کیونکہ سابقہ بائن اُس پر رجوع سے مانع ہوگی، جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی میں ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع كذا في العتابية
(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:376، ط: دار الفكر)
یاد رہے جس طرح صریح طلاق سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، بالکل اسی طرح بائن طلاق سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،نیز طلاقِ بائن کے بعد دورانِ عدت اگر طلاقِ صریح دے دی جاۓ تو بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب ایک طلاقِ بائن دی تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ،پھر جب مزید ایک طلاق صریح دی تو اس سے دو طلاقِ بائن واقع ہوگئیں ۔
اب تجدیدِِ نکاح سے قبل میاں بیوی کا تعلق قائم کرنا یاساتھ رہناجائز نہیں ہے،اور عدت ( پہلی طلاق کے وقت سے مکمل تین حیض تک،اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی ولادت تک اور اگر حیض نہ آتا ہو تو مکمل تین مہینے) گزرنے کے بعد بیوی اپنی مرضی کے مطابق دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، البتہ اگر عدت کے بعد یا دورانِ عدت دونوں پھر سے ساتھ رہنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ تجدیدِِ نکاح کرنا ضروری ہوگا ،ایسی صورت میں آئندہ کے لیے شوہرکوصرف ایک طلاق کاحق حاصل ہوگا ،اور اگر آئندہ کبھی شوہر نےبقیہ ایک طلاق بھی دے دی تو بیوی شوہرپرحرام ہوجائے گی اور رجوع یا تجدیدِ نکاح کی گنجائش نہیں رہے گی
فتاوی شامی میں ہے
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح.... (لا) يلحق البائن (البائن).(قوله الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا (قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية. ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة."
(كتاب الطلاق، باب الكنايات، مطلب الصريح يلحق الصريح والبائن،306/3،،ط:سعيد)
مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے
(والصريح يلحق) الطلاق (الصريح) سواء كان صريحا بائنا مثل أن يقال للمدخول بها أنت طالق بائن وطالق، أو طالق بائن أو صريحا غير بائن مثل أن يقال أنت طالق وطالق وهي في العدة تطلق ثنتين لتعذر جعله إخبارا لتعينه إنشاء شرعا، وكذا لا يصدق لو قال أردت الإخبار (و) يلحق الصريح (البائن) يعني إذا أبانها، أو خالعها على مال، ثم قال لها أنت طالق، أو هذه طالق في العدة يقع عندنا؛ لحديث الخدري مسندا «المختلعة يلحقها صريح الطلاق ما دامت في العدة
یاد رہے جس طرح صریح طلاق سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، بالکل اسی طرح بائن طلاق سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،نیز طلاقِ بائن کے بعد دورانِ عدت اگر طلاقِ صریح دے دی جاۓ تو بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب ایک طلاقِ بائن دی تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ،پھر جب مزید ایک طلاق صریح دی تو اس سے دو طلاقِ بائن واقع ہوگئیں ۔
اب تجدیدِِ نکاح سے قبل میاں بیوی کا تعلق قائم کرنا یاساتھ رہناجائز نہیں ہے،اور عدت ( پہلی طلاق کے وقت سے مکمل تین حیض تک،اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی ولادت تک اور اگر حیض نہ آتا ہو تو مکمل تین مہینے) گزرنے کے بعد بیوی اپنی مرضی کے مطابق دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، البتہ اگر عدت کے بعد یا دورانِ عدت دونوں پھر سے ساتھ رہنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ تجدیدِِ نکاح کرنا ضروری ہوگا ،ایسی صورت میں آئندہ کے لیے شوہرکوصرف ایک طلاق کاحق حاصل ہوگا ،اور اگر آئندہ کبھی شوہر نےبقیہ ایک طلاق بھی دے دی تو بیوی شوہرپرحرام ہوجائے گی اور رجوع یا تجدیدِ نکاح کی گنجائش نہیں رہے گی
فتاوی شامی میں ہے
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح.... (لا) يلحق البائن (البائن).(قوله الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا (قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية. ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة."
(كتاب الطلاق، باب الكنايات، مطلب الصريح يلحق الصريح والبائن،306/3،،ط:سعيد)
مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے
(والصريح يلحق) الطلاق (الصريح) سواء كان صريحا بائنا مثل أن يقال للمدخول بها أنت طالق بائن وطالق، أو طالق بائن أو صريحا غير بائن مثل أن يقال أنت طالق وطالق وهي في العدة تطلق ثنتين لتعذر جعله إخبارا لتعينه إنشاء شرعا، وكذا لا يصدق لو قال أردت الإخبار (و) يلحق الصريح (البائن) يعني إذا أبانها، أو خالعها على مال، ثم قال لها أنت طالق، أو هذه طالق في العدة يقع عندنا؛ لحديث الخدري مسندا «المختلعة يلحقها صريح الطلاق ما دامت في العدة
(كتاب الطلاق،باب إيقاع الطلاق،406/1،ط:دار إحياء التراث العربي)
فتاوی شامی میں ہے
جب خاوند نے بیوی کو ایک بائن طلاق دی پھر اسے عدت کے اندر کہا تُو میرے اوپر حرام ہے یا آزاد ہے یا بری ہے یا جدا ہے یا الگ ہے یا ان سے ملتے جلتے کلمات اور ان سے مراد طلاق لیتا ہے تو بیوی کو کوئی طلاق نہیں ہوگی۔
إن کان الطلاق رجعياً يلحقها الکنايات لأن ملک النکاح باق فتقييده بالرجعي دليل علی أن الصريح البائن لايلحقه الکنايات.
اگر طلاق رجعی ہو تو اس سے کنایات لاحق ہو سکتے ہیں کیونکہ مِلکِ نکاح باقی ہے۔ سو رجعی کی قید دلیل ہے۔اس امر کی کہ صریح بائن کے بعد کلمات کنایہ کچھ عمل نہیں کر سکتے‘
امام زیلعی شارع ہدایہ فرماتے ہیں
طلاق بائن کا صریح کے بعد واقع ہونا تو ظاہر ہے کہ قید حکمی ہر حال میں باقی ہے ’لبقاء الاستمتاع کہ اس مطلقہ سے قربت جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
جب خاوند نے بیوی کو ایک بائن طلاق دی پھر اسے عدت کے اندر کہا تُو میرے اوپر حرام ہے یا آزاد ہے یا بری ہے یا جدا ہے یا الگ ہے یا ان سے ملتے جلتے کلمات اور ان سے مراد طلاق لیتا ہے تو بیوی کو کوئی طلاق نہیں ہوگی۔
إن کان الطلاق رجعياً يلحقها الکنايات لأن ملک النکاح باق فتقييده بالرجعي دليل علی أن الصريح البائن لايلحقه الکنايات.
اگر طلاق رجعی ہو تو اس سے کنایات لاحق ہو سکتے ہیں کیونکہ مِلکِ نکاح باقی ہے۔ سو رجعی کی قید دلیل ہے۔اس امر کی کہ صریح بائن کے بعد کلمات کنایہ کچھ عمل نہیں کر سکتے‘
امام زیلعی شارع ہدایہ فرماتے ہیں
طلاق بائن کا صریح کے بعد واقع ہونا تو ظاہر ہے کہ قید حکمی ہر حال میں باقی ہے ’لبقاء الاستمتاع کہ اس مطلقہ سے قربت جائز ہے۔
(شامي، ردالمحتار، 3: 307)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30/10/2023
30/10/2023