Type Here to Get Search Results !

کیا شرعی معذور شخص امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟

 (سوال نمبر 4836)
کیا شرعی معذور شخص امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک جامع مسجد کے امام صاحب کو ایک بیماری ہے کہ وہ جب پیشاب کرنے جاتے ہیں تو پیشاب کے بعد منی بھی خارج ہو جاتی ہے تو امام صاحب صرف استنجا لیکر ایک کپڑے سے پونچھ لیتے ہیں اور اسی کپڑے کو ہمیشہ استنجا کے بعد استعمال میں لیتے ہیں اور بغیر غسل کیے وضو بنا کر مصلی امامت پر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔کیا اس صورت میں امامت کے فرائض انجام دینا درست ہے اور کیا اس سے نماز ہو جائیگی۔؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، ہم بےحد ممنون و مشکور ہوں گے
سائل:- رفیق عالم پرولیا بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

بصحت سوال ہر پیشاب کے بعد اگر منی خارج ہوجاتی ہے تو غسل کرکے نماز پڑھائے ازیں قبل نہ اس کی نماز ہوگی نہ کسی مقتدی کی البتہ اگر
عذر شرعی ہے اور وہ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے نماز کے پورے وقت میں اس کا وضو اتنی دیر بھی نہیں رہتا کہ وہ فرض نماز ادا کر سکے، ایسا معذو اپنے مثل یا اپنے سے زائد عذر والے کی امامت کر سکتا ہے۔ کم عذ ر والے یا صحت مند کی امامت نہیں کر سکتا۔
ایسی صورت میں امام کو خود چاہیے کہ متولی کو بول دے کہ میں شرعی معذور ہوں اپ کسی امام کا انتظام کرلیں 
واضح رہے کہ منی کا قطرہ یا
سلس البول مسلسل پیشاب کے قطرے نکلنے کی وجہ سے اگر وہ شخص شرعی معذور بن جائے یعنی ایک نماز کا پورا وقت ایسے گزر جائے کہ پیشاب کے قطرے مسلسل نکلتے رہیں اور اتنی دیر بھی نہ رکیں کہ جلدی سے فرض وضو کرکے یا غسل کرکے صرف فرض نماز (جس میں فرائض و واجبات ادا کیے جائیں، سنن اور مستحبات ترک کردیے جائیں) ادا کرلی جائے اتنی مہلت بھی نہ ملے تو ایسا شخص غیر معذور صحت مند لوگوں کی امامت نہیں کرواسکتا کیونکہ امامت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ امام کی حالت مقتدیوں سے اعلیٰ ہو یا کم از کم ان کے برابر ہونی چاہیے۔
البتہ شرعی معذور کو اپنے جیسے شرعی معذور لوگوں کی امامت کروانا جائز ہے۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے 
وكونه مثله أو دونه فيها، وفي الشرائط كما بسط في البحر.
 (قوله: وكونه مثله أو دونه فيها) أي في الأركان؛ مثال الأول: اقتداء الراكع والساجد بمثله والمومئ بهما بمثله. ومثال الثاني: اقتداء المومئ بالراكع والساجد، واحترز به عن كونه أقوى حالاً منه فيها، كاقتداء الراكع والساجد بالمومئ بهما ح (قوله: وفي الشرائط) عطف على فيها: أي وكون المؤتم مثل الإمام أو دونه في الشرائط؛ مثال الأول: اقتداء مستجمع الشرائط بمثله والعاري بمثله. ومثال الثاني: اقتداء العاري بالمكتسي. واحترز به عن كونه أقوى حالاً منه فيها كاقتداء المكتسي بالعاري ح۔
(الدر المختار مع رد المحتار: (551/1)
و فیه ایضا (578/1)
(وكذا لا يصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غير حالة إفاقته وسكران) أو معتوه، ذكره الحلبي (ولا طاهر بمعذور) هذا (إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ عليه) بعده (وصح لو توضأ على الانقطاع وصلى كذلك) كاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وكاقتداء امرأة بمثلها، وصبي بمثله، ومعذور بمثله وذي عذرين بذي عذر، لا عكسه كذي انفلات ريح بذي سلس؛ لأن مع الإمام حدثاً ونجاسةً. (قوله: ومعذور بمثله إلخ) أي إن اتحد عذرهما، وإن اختلف لم يجز، كما في الزيلعي والفتح وغيرهما. وفي السراج ما نصه: ويصلي من به سلس البول خلف مثله. وأما إذا صلى خلف من به السلس وانفلات ريح لا يجوز؛ لأن الإمام صاحب عذرين، والمؤتم صاحب عذر واحد اهومثله في الجوهرة. وظاهر التعليل المذكور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العين، وإلا لكان يكفيه في التمثيل أن يقول : وأما إذا صلى خلف من به انفلات ريح، ولكان عليه أن يقول في التعليل: لاختلاف عذرهما، ولهذا قال في البحر: وظاهره أن سلس البول والجرح من قبيل المتحد، وكذا سلس البول واستطلاق البطن. اه"
(المرجع السابق)
یاد رہے کہ امامت کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ امام معذور نہ ہو یعنی معذور شخص کی امامت جائز و درست نہیں اور وہ امامت کا حقدار بھی نہیں۔
معذور کی تعریف
ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے۔
(بہار شریعت ج اول ،ح دوم، ص :٣٨٨ ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) 
در مختار ج:۱ : ۴۳۷ میں ہے
(وصاحب عذر من به سلسل بول) لا يمكنه امساكه (أو استطلاق بطن…..) …..وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (ان استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ و يصلى فيه خالياً عن الحدث
جسے سلسل بول کی شکایت ہو کہ پیشاب کو روکنے پر قادر نہ ہو، یا اسہال کا عارضہ لاحق ہو-) اسی طرح ہر وہ مواد جو بیماری کی وجہ سے خارج ہو، خواہ کان، پستان اور ناف سے ہی کیوں نہ ہو اور اس کا عذر کسی فرض نماز کے پورے وقت کا احاطہ کر لے بایں طور کہ اس پورے وقت میں حدث سے خالی اتنا بھی وقفہ نہ پاۓ جس میں وضو کر کے نماز ادا کر سکے، تو وہ شرعا معذور ہے۔ 
بہار شریعت میں ہے 
معذور اپنے مثل یا اپنے سے زائد عذر والے کی اِمامت کر سکتا ہے، کم عذر والے کی اِمامت نہیں کر سکتا اور اگر امام و مقتدی دونوں کو دو قسم کے عذر ہوں ، مثلا ایک کو ریاح کا مرض ہے، دوسرے کو قطرہ آنے کا، تو ایک دوسرے کی اِمامت نہیں کرسکتا۔
طاہر معذور کی اقتدا نہیں کرسکتا جبکہ حالت وضو میں حدث پایا گیا، یا بعد وضو وقت کے اندر طاری ہوا، اگرچہ نماز کے بعد اور اگر نہ وضو کے وقت حدث تھا، نہ ختم وقت تک اس نے عود کیا تو یہ نماز جو اس نے انقطاع پر پڑھی، اس میں تندرست اس کی اقتدا کرسکتا ہے۔
(بہار شریعت ج اول ح سوم ، ص:٥٨٨، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area