(سوال نمبر 4856)
جبرا خلع پر دستخط لینا کیسا ہے؟
••────────••⊰❤️⊱••───────••
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
جبرا خلع پر دستخط لینا کیسا ہے؟
••────────••⊰❤️⊱••───────••
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک شخص کے سالے نے زبردستی خلع نامہ میں سائن کروالیا دھمکی دے کر جب کہ شوہر اور بیوی خلع کیلۓ راضی نہیں تھے اور شوہر نے ایسی جگہ سائن کیا جہاں خلع میں سائن نہیں کیا جاتا ہے۔اور خلع کا پیپر کسی دکان سے لاکے زبردستی سائن کروایا اسکا کیا حل ہوگا کیا طلاق واقع ہوگئ؟ اب شوہر اور بیوی ساتھ میں رہنا چاہتے ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں۔
سائل:- سعید شہر کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بصحت سوال اگر کسی آدمی کو طلاق یا خلع دینے کے لیے مجبور کیا جائے تو اس کا یہ حکم ہے کہ اگر وہ آدمی زبان سے طلاق یا خلع دے دے یا لکھ دے یا لکھے ہوئے پر دستخط کردے تو وہ طلاق اور خلع واقع ہو جاتی ہے۔
البتہ اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہیں اور بیوی خلع لینے پر راضی نہیں اور اس طرح مجبور کیا کہ کسی جسمانی عضو کو نقصان ہہچائے یا جان جانے کا خوف یقینی ہو پھر جبرا خلع کہلوانے لکھوانے سے خلع واقع نہیں۔چونکہ خلع میں میاں بیوی کا متفق ہونا شرط ہے ۔
ہعنی خلع یا طلاق لیتے وقت اگر لڑکی کے گھر والے زید کو جان سے مار دینے پر قادر تھے اور انہوں نے مارپیٹ کر کے یا اذیت دیکر زید سے طلاق کے الفاظ کہلوائے ہیں یا خلع پر دستخط تو طلاق و خلع واقع نہیں ہوئی۔ زید کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ زید اور اس کی بیوی بطور میاں بیوی زندگی گزار سکتے ہیں
دوسری صورت یہ ہے کہ جبر و اکراہ کی نوعیت صرف باتوں کی حد تک تھی یعنی نہ تو وہ جان سے مار دینے پر قادر تھے اور نہ ہی انہوں کوئی مارپیٹ کی، بس تھوڑا دھمکا کر زید نے خلع کاغذ پر دستخط کردی تو خلع واقع ہوگی یعنی طلاق بائن ۔
اور یاد رہے کہ ایک مرتبہ خلع دے دینے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے،
فتاویٰ شامی میں ہے
ویقع طلا ق کل زوج بالغ عاقل ولو عبداً او مکرهاً فإن طلاقه صحیح .... وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية [فتاویٰ شامی،جلد:۳،صفحہ)
مذکورہ صورت میں عدت کے اندر یا عدت کے بعد تجدید نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں۔
سائل:- سعید شہر کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بصحت سوال اگر کسی آدمی کو طلاق یا خلع دینے کے لیے مجبور کیا جائے تو اس کا یہ حکم ہے کہ اگر وہ آدمی زبان سے طلاق یا خلع دے دے یا لکھ دے یا لکھے ہوئے پر دستخط کردے تو وہ طلاق اور خلع واقع ہو جاتی ہے۔
البتہ اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہیں اور بیوی خلع لینے پر راضی نہیں اور اس طرح مجبور کیا کہ کسی جسمانی عضو کو نقصان ہہچائے یا جان جانے کا خوف یقینی ہو پھر جبرا خلع کہلوانے لکھوانے سے خلع واقع نہیں۔چونکہ خلع میں میاں بیوی کا متفق ہونا شرط ہے ۔
ہعنی خلع یا طلاق لیتے وقت اگر لڑکی کے گھر والے زید کو جان سے مار دینے پر قادر تھے اور انہوں نے مارپیٹ کر کے یا اذیت دیکر زید سے طلاق کے الفاظ کہلوائے ہیں یا خلع پر دستخط تو طلاق و خلع واقع نہیں ہوئی۔ زید کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ زید اور اس کی بیوی بطور میاں بیوی زندگی گزار سکتے ہیں
دوسری صورت یہ ہے کہ جبر و اکراہ کی نوعیت صرف باتوں کی حد تک تھی یعنی نہ تو وہ جان سے مار دینے پر قادر تھے اور نہ ہی انہوں کوئی مارپیٹ کی، بس تھوڑا دھمکا کر زید نے خلع کاغذ پر دستخط کردی تو خلع واقع ہوگی یعنی طلاق بائن ۔
اور یاد رہے کہ ایک مرتبہ خلع دے دینے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے،
فتاویٰ شامی میں ہے
ویقع طلا ق کل زوج بالغ عاقل ولو عبداً او مکرهاً فإن طلاقه صحیح .... وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية [فتاویٰ شامی،جلد:۳،صفحہ)
مذکورہ صورت میں عدت کے اندر یا عدت کے بعد تجدید نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
01/11/2023
01/11/2023