Type Here to Get Search Results !

ٹیکس سے بچنے کے لیے غلط بل بنانا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4857)
ٹیکس سے بچنے کے لیے غلط بل بنانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
 زید کی ایک کمپنی ہے اس کمپنی میں جو بھی سامان بنتا ہے اسے مارکیٹ میں 200 روپیے بیچا جاتا ہے اور اس کا بل ٹیکس بچانے کے لیے 120/130 روپیے کا بناتے ہیں دریافت طلب امر یہ ہے کہ کمپنی مالک کا اس طرح کرنا کیسا ہے کیا یہ گورمینٹ کی چوری کہلائے گی
سائل:- مولانا محمد شاہد بسو پالنپور گجرات انڈیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں حالات حاضرہ کے پیش نظر ٹیکس دینے کی کوشش کریں ورنہ پکڑے جانے پر لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔
البتہ اگر کمائی سے زیادہ ٹیکس بھرنا ہڑتا ہو اور حکومت ظلما لے رہی ہو تو مذکورہ صورت کی گنجائش ہے ۔
یاد رہے کسی بھی ملک وbملت کے انتظامی امور چلانے اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ ان وسائل کو پورا کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ خلفاء راشدین اور ان کے بعد کے دور میں بیت المال کا ایک مستقل ومربوط نظام قائم تھا اور اس میں مختلف قسم کے اموال مثلاً خمس غنائم ،مال فئی،خراج،جزیہ وغیرہ جمع کیے جاتے تھے اور ان ذرائع آمدن کے مقابلے میں حکومتی اخراجات اور ریاست کی ذمہ داریاں اس وقت نسبتاً محدود تھیں،اس لیے یہ ذرائع آمدن اخراجات کے لیے کافی تھے اور لوگوں پر ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی لیکن آج کے دور میں جبکہ مذکورہ اسباب اور و سائل تقریباً ناپید ہوچکے ہیں اور اخراجات وذمہ داریاں،بڑھ گئی ہیں۔اس لیے ان ضروریات و اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس کا نظام قائم کیا گیا ،کیوں کہ حکومت اگر ٹیکس نہ لے تو ملک کا فلاحی نظام خطرہ میں پڑجائے گا،اس لیے امور مملکت چلانے کی خاطر لوگوں سے ٹیکس لینے کی گنجائش ہے ،تاہم اس میں ضروری ہےکہ
١/ ضرورت کی وجہ سے ٹیکس لگایا جائے یعنی حکومت کی ذمہ داریاں اور اخراجات بڑھ جانے کی وجہ سے اگر ذرائع آمدن سے ان کا پورا کرنا مشکل ہو اور ٹیکس لگانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو،تو ایسی صورت میں ٹیکس لگانے کی گنجائش ہے۔
٢/ ٹیکس کو ملک وملت کے حقیقی مصالح میں صرف کیا جائے،لہو ولعب اور حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اورآسائشوں پرصرف نہ کیا جائے۔
٣/ ٹیکس کی شرح ظالمانہ نہ ہو بلکہ ٹیکس کے بوجھ کو لوگوں میں منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا جائےاورکسی پر ظلم وزیادتی نہ ہو یعنی تمام طبقوں سے ان کی حیثیت کے مطابق ٹیکس لیا جائے۔
اگر ٹیکس میں ان شرائط کی پاسداری کی جائے ،تو پورے ٹیکس کی ادائیگی لازم ہے 
البتہ اگرٹیکس کی شرح ظالمانہ ہو تو اس طرح ظالمانہ ٹیکس سے بچنے کے لیےحیلہ اور کوئی مناسب تدبیر اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔
لہذا صورت مسئولہ کے مطابق اگر حکومت ٹیکس لا گو کرنے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرےاور ٹیکس کی شرح ظالمانہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کےلیے قابل برداشت نہ ہو ،تو اضافی ٹیکس سے بچنے کےلیے کوئی متبادل راستہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے البتہ صریح جھوٹ،دھوکہ اور فریب کی اجازت نہیں
باقی یہ بات کہ حکومت کتنی مقدار میں ٹیکس جائز وصول کررہی ہےاور کتنی ناجائز ؟ اس کے بارے میں ٹیکس کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں،ہر فرد کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے ناجائز ٹیکس لیا جارہاہے ،ہاں 
اگر کسی کو ٹیکس نظام کے بارے میں یقین ہوکہ اتنی مقدار غیر ضروری اور ناجائز ہے،تو ظلم سے بچنے کے لیے قانونی ذرائع سےاستفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں
فتح القدير میں ہے 
قال شمس الأئمة:أمّا في زماننا فأكثر النّوائب تؤخذ ظلماً فمن تمكن من دفع الظلم عن نفسه فهو خيرله
(فتح القدير،كتاب الكفالة،فصل في الضمان،ج 6ص:332،مكتبة حقانية)
فتاوی شامی میں ہے 
الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه،والمراد التعريض؛لأنّ عين الكذب حرام،قال وهوالحق قال تعالى:﴿قتل الخرّاصون ﴾(الدرالمختار،كتاب الحظر والإباحة،باب الإستبراء وغيره،ج:9ص:612،دارالكتب العلمية)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
01/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area