Type Here to Get Search Results !

عورت کا عدالت کے ذریعے خلع لینا کیسا ہے ؟

عورت کا عدالت کے ذریعے خلع لینا کیسا ہے ؟
  •┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
عورت کا عدالت کے ذریعے خلع لینا کیسا ہے ؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
خلع کسے کہتے ہیں؟ کیا صرف عورت عدالت جا کر خلع کر سکتی ہے؟
 برائے کرم مکمل رہنمائی فرمائیں۔
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
عورت کا مرد کی رضا مندی کے بغیر عدالت سے خلع لینا شرعا خلع نہیں کیونکہ رب تعالیٰ نے طلاق کی گرہ مرد کے ہاتھ میں دی ہے اور اگر اس عدالتی خلع کے ساتھ آگے نکاح کرتی ہے شرعا وہ نکاح بھی درست نہیں جو ہمبستری کریں گے وہ زنا ہو گا اور جو اولاد ہو گی وہ ولد الزنا ہوگی اور جو جو اس میں شامل ہوں گے سب گناہگار ہوں گے 
قال اللہ تعالی :-
{فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہَٖ} [البقرۃ:۲۲۹]
(تو اگر تمہیں ڈر لگے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کے حدود کو تو ان پر کچھ الزام نہیں اس میں جو عورت نے اپنے چھٹکارے کے لئے دیا)۔
 خلع کا معنی و شرط:-
خلع تو یہ ہے کہ شوہر کو جو حق و اختیار ملک نکاح سے حاصل ہوا ہو اسکو کسی مال و جائداد کے بدلے میں بیوی سے لے کر شوہر بلفظ خلع وغیرہ ختم و زائل کر دے۔
خلع میں شرط ہے عورت اسے قبول بھی کرے ۔
اگر میاں بیوی میں نا اتفاقی رہتی ہو تو سب سے پہلے میاں بیوی کے گھروالے ان میں صلح صفائی کی کوشش کریں جیسا کہ سورۂ نساء آیت 35میں ہے کہ مردو عورت دونوں کی طرف سے پنچ مقرر کیا جائے جو ان کے درمیان صلح صفائی کروادے لیکن اگر اس کے باوجود آپس میں نہ بنے اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گے تو خلع میں کوئی مضائقہ نہیں اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور جو مال طے کیا ہو عورت پر اُس کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے۔
(ہدایہ، کتاب الطلاق، باب الخلع، ۱ / ٢٦١)
خلع کی آیت حضرت جمیلہ بنت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنے شوہر حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شکایت حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں کی اور کسی طرح ان کے پاس رہنے پر راضی نہ ہوئیں تب حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے ان کو ایک باغ دیا ہے اگر یہ میرے پاس رہنا گوارا نہیں کرتیں اور مجھ سے علیحدگی چاہتی ہیں تو وہ باغ مجھے واپس کریں میں ان کو آزاد کردوں گا۔ حضرت جمیلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس بات کو منظور کر لیا چنانچہ حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے باغ لے لیا اور انہیں طلاق دے دی۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۱ / ٦٧١)
 شوہر کی رضا مندی کے بغیر نہ خلع ہو سکتا ہے نہ طلاق۔ چونکہ شریعتِ مطہرہ میں طلاق و خلع کا پورا اختیار شوہر کو ہے۔ حتیّٰ کہ بیوی دین مہر سے دوگنا مال بلکہ ہزار گنا مال بھی شوہر کو دینے پر تیا ر ہو اور کہے کہ مجھ سے اتنے مال کے بدلے میں خلع کر لو لیکن شوہر خلع کرنے پر راضی نہ ہو تو خلع نہیں ہو سکتا۔
حدیث شریف میں وارد ہے
الطلاق لمن اخذ بالساق۔
یعنی جس نے پوری ذمہ داری ہر بات کی لی ہے اسی کو طلاق کا اختیار ہے۔
 خلع میں بیوی سے کبھی بعض دَین مہر اور کبھی کل دَین مہر اور کبھی کل دَین مہر کے ساتھ ساتھ مزید روپیہ یا جائداد شوہر لیا کرتا ہے یہ زوجین کی رضا مندی پر موقوف ہے وہ خلع کرانے کے لئے جتنے پر راضی ہو جائیں ۔ پہلی صورت میں جب کہ بعض دین مہر پر خلع کیا جائے تو شوہر سے باقی دین مہر بیوی لینے کی مستحق ہے اور دوسری صورت میں دین مہر یا اسکا جزو بیوی لینے کی مستحق نہیں اور تیسری صورت میں بیوی کو دین مہر چھوڑنے کے بعد مزید روپیہ یا جائداد اپنی دینی ہوگی۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص ٤٦٤ میں ہے۔
الخُلع ازالۃ ملک النکاح ببدلٍ بلفظ الخُلع کذا فی فتح القدیر۔
لفظ خلع بول کرما ل کے بدلے میں ملک نکاح کوزائل کرنے کا نام خلع ہے۔ ایسا ہی فتح القدیر میں ہے۔
اسی کے ص ٤٤٦ میں ہے۔
ما جاز أن یکون مہرا جاز أن یکون بدلا فی الخلع کذا فی الھدایۃ۔
جوشرعاً مہر ہو سکتا ہے وہ خلع میں بدل ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے۔
در مختار مصری جلد ثانی ص ٧٦٦ و ص ٧٦٧ میں ہے۔
(ھو) … شرعا … (ازالۃ ملک النکاح) المتوقفۃ علی قبولہا بلفظ الخلع أو ما فی معناہ بما یصلِح للمہر ولا باس بہ عند الحاجۃ للشقاق بعدم الوفاق۔
اصطلاحِ شرع میں خلع ملک نکاح کے ازالہ کو کہتے ہیں ۔ یہ ازالہ عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے۔ خلع یا اس کے ہم معنیٰ الفاظ سے۔ ایسی چیز کے عو ض جو مہر بننے کی صلاحیت رکھے۔ ضرورت کے وقت اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ موافقت نہ ہونے کی صورت میں اختلاف کی وجہ سے۔
رد المحتار جلد ثانی ص ٧٦٧ میں ہے۔
و فی القہستانی عن شرح الطحاوی السنۃ إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أہلہما لیصلحوا بینھما فان لم یصطلحا جاز الطلاق والخلع اھ۔ ط و ھذا ھوالحکم المذکور فی الآیۃ۔
شرح طحطاوی سے قہستانی میں ہے۔ سنت یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف رونما ہوجائے تو دونوں میں صلح کرانے کے لئے دونوں کے رشتہ دار جمع ہوں ۔ اگر یہ دونوں صلح پر تیار نہ ہوں تو طلاق اور خلع جائز ہے۔ آیت کے اندر بھی یہی حکم مذکور ہے۔ (حبیب الفتاوی ، جلد 3 ، صفحہ 3)
واللہ ورسولہ اعلم باالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المصطفیٰ ریاست علی حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
مرکزی جامعة المدینہ فیضان مدینہ اوکاڑہ ۔
16-06-2023
03106086745

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area