مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
عربوں کی خاموشی اور فلسطینیوں کی تباہی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
(1) فلسطین میں ڈھائی ماہ سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے باوجود عرب ممالک آج تک اسرائیل سے سیاسی وتجارتی تعلقات ختم نہ کر سکے۔بہت سے عرب ممالک میں بادشاہت ہے۔ان بادشاہوں کو خطرہ ہے کہ اگر ہم نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیا تو امریکہ ہماری بادشاہت کو ختم کر کے جمہوریت لانے کی کوشش کرے گا اور ہمارے عوام کو ہمارے خلاف کر کے نیٹو کی فوج لے کر اتر پڑے گا۔ایسی صورت میں ہماری بادشاہت ختم ہو جائے گی۔خلاصہ یہ کہ عربی ممالک کے سلاطین محض اپنی بادشاہت کی حفاظت کے لئے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں اور بادشاہت ختم ہونے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہے گا،لہذا یہ ممالک ہمیشہ کے لئے بیکار ہیں۔
جن عرب ومسلم ممالک میں جمہوریت ہے،ان کے ذمہ داروں کو خطرہ ہے کہ اگر ہم نے اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی کی تو امریکی خفیہ ایجنسی ہمارے یہاں فتنہ سامانیوں کے ذریعہ ہماری حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔یعنی جمہوری ممالک کے ذمہ داران بھی اپنی حکومت بچانے کے لئے اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔الغرض جمہوری ممالک بھی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کو روکنے سے قاصر ہیں۔
کل ملک شام کی طرف سے گولان ہائٹس پر سخت حملہ کیا گیا اور اسرائیلی فوجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور آج ہی ملک شام میں شامی صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے لئے اس کے مخالفین سخت مظاہرے کر رہے ہیں۔بشار الاسد شیعہ ہے اور یہ مخالفین سنی ہیں۔یہ عالمی اصطلاح کے اعتبار سے سنی ہیں۔در حقیقت یہ وہابی لوگ ہوں گے۔برطانیہ کے جاسوس مسٹر ہمفرے نے وہابی مذہب کی بنیاد رکھی تھی،تاکہ سلطنت عثمانیہ ترکیہ کو تباہ کیا جائے۔انجام کار عربوں کی غداری کے سبب سلطنت عثمانیہ ترکیہ کا خاتمہ ہو گیا،لیکن یہ وہابیہ آج تک اسلام ومسلمانوں کی تباہی کے لئے برسر پیکار ہیں۔
بعض مسلم ممالک جو امریکہ کے خلاف ہیں،مثلا ایران وشام ویمن وغیرہ۔یہ ممالک کچھ کر سکتے ہیں،لیکن وہ بھی اپنی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔یمن نے قدم بڑھایا تو امریکہ نے ساری دنیا سے اپیل کی کہ یمن کے خلاف میدان میں اتریں اور قریبا چوالیس ممالک امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔الغرض مسلمانوں پر ظلم وجبر اسی وقت کم ہو سکتا ہے،جب مسلم ممالک متحد ہوں اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے مقابلہ آرائی کے قابل ہوں۔
(2)زمینی جنگ میں حماس کا پلہ بھاری ہے،لیکن امریکہ واسرائیل کا پلان ہے کہ عام فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے اور انسانی ضرورتوں کے سامان بھی فلسطین نہ پہنچنے دیا جائے،تاکہ بہت سے عام شہری بھوک وپیاس سے مر جائیں۔اسپتالوں کو تباہ وبرباد کر دیا جائے،تاکہ زخمیوں اور دیگر مریضوں کا علاج نہ ہو سکے اور وہ علاج ودوا نہ ملنے کے سبب ہلاک ہو جائیں اور ان سب مشکلات کو دیکھ کر حماس ہتھیار ڈال دیے اور پھر فلسطین میں ایک کٹھ پُتلی حکومت قائم کی جائے جو امریکہ واسرائیل کی غلامی کرتی رہے۔اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر مسلسل ظلم ڈھاتا رہتا ہے۔جب کٹھ پتلی حکومت ہو گی تو وہ یہودی مظالم پر خاموش رہے گی۔
(3) اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی ہے،لیکن امریکہ کی مخالفت کے سبب اس قرار داد پر ووٹنگ نہیں ہو پا رہی ہے۔19:دسمبر کو ووٹنگ ہونے والی تھی،لیکن روزانہ تاریخ آگے بڑھا دی جا رہی ہے۔اگر امریکہ جنگ بندی کے لئے راضی ہوتا تو بحر احمر میں یمن سے مقابلہ کے لئے تیاری نہیں کرتا۔
ایسی صورت میں حماس کو اپنی جنگی حکمت عملی میں تبدیلی لانی ہو گی اور زمینی جنگ میں یہودیوں سے سخت مقابلہ آرائی کرنی ہو گی۔اسرائیلی شہروں پر راکٹ ومیزائل برسانے سے اسرائیل کا بہت کم نقصان ہوتا ہے۔اسرائیلی آئرن ڈوم بہت سے میزائل وراکٹ کو تباہ کر دیتا ہے،نیز آئرن ڈوم کا سائرن بجتے ہی یہودی بنکروں میں گھس جاتے ہیں۔میزائل وراکٹ سے چند عمارتوں کو نقصان ہوتا ہے اور بہت کم لوگ ہلاک وزخمی ہوتے ہیں۔خبر ہے کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے دو آئرن ڈوم کو بھی تباہ کر دیا ہے،لیکن دوسرے آئرن ڈوم کام کر رہے ہیں۔حماس کو چاہئے کہ یہودی فوجیوں کو کثیر تعداد میں ہلاک کرے،تاکہ یہودی فوجی بھاگ کھڑے ہوں۔اسرائیل کا سب سے مضبوط فوجی دستہ گولانی بریگیڈ غزہ پٹی سے واپس جا چکا ہے۔اس بریگیڈ پر حماس کے سخت حملے ہو رہے تھے۔یہ اسرائیل کا سب سے مضبوط فوجی دستہ ہے۔
(1) فلسطین میں ڈھائی ماہ سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے باوجود عرب ممالک آج تک اسرائیل سے سیاسی وتجارتی تعلقات ختم نہ کر سکے۔بہت سے عرب ممالک میں بادشاہت ہے۔ان بادشاہوں کو خطرہ ہے کہ اگر ہم نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیا تو امریکہ ہماری بادشاہت کو ختم کر کے جمہوریت لانے کی کوشش کرے گا اور ہمارے عوام کو ہمارے خلاف کر کے نیٹو کی فوج لے کر اتر پڑے گا۔ایسی صورت میں ہماری بادشاہت ختم ہو جائے گی۔خلاصہ یہ کہ عربی ممالک کے سلاطین محض اپنی بادشاہت کی حفاظت کے لئے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں اور بادشاہت ختم ہونے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہے گا،لہذا یہ ممالک ہمیشہ کے لئے بیکار ہیں۔
جن عرب ومسلم ممالک میں جمہوریت ہے،ان کے ذمہ داروں کو خطرہ ہے کہ اگر ہم نے اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی کی تو امریکی خفیہ ایجنسی ہمارے یہاں فتنہ سامانیوں کے ذریعہ ہماری حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔یعنی جمہوری ممالک کے ذمہ داران بھی اپنی حکومت بچانے کے لئے اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔الغرض جمہوری ممالک بھی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کو روکنے سے قاصر ہیں۔
کل ملک شام کی طرف سے گولان ہائٹس پر سخت حملہ کیا گیا اور اسرائیلی فوجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور آج ہی ملک شام میں شامی صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے لئے اس کے مخالفین سخت مظاہرے کر رہے ہیں۔بشار الاسد شیعہ ہے اور یہ مخالفین سنی ہیں۔یہ عالمی اصطلاح کے اعتبار سے سنی ہیں۔در حقیقت یہ وہابی لوگ ہوں گے۔برطانیہ کے جاسوس مسٹر ہمفرے نے وہابی مذہب کی بنیاد رکھی تھی،تاکہ سلطنت عثمانیہ ترکیہ کو تباہ کیا جائے۔انجام کار عربوں کی غداری کے سبب سلطنت عثمانیہ ترکیہ کا خاتمہ ہو گیا،لیکن یہ وہابیہ آج تک اسلام ومسلمانوں کی تباہی کے لئے برسر پیکار ہیں۔
بعض مسلم ممالک جو امریکہ کے خلاف ہیں،مثلا ایران وشام ویمن وغیرہ۔یہ ممالک کچھ کر سکتے ہیں،لیکن وہ بھی اپنی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔یمن نے قدم بڑھایا تو امریکہ نے ساری دنیا سے اپیل کی کہ یمن کے خلاف میدان میں اتریں اور قریبا چوالیس ممالک امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔الغرض مسلمانوں پر ظلم وجبر اسی وقت کم ہو سکتا ہے،جب مسلم ممالک متحد ہوں اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے مقابلہ آرائی کے قابل ہوں۔
(2)زمینی جنگ میں حماس کا پلہ بھاری ہے،لیکن امریکہ واسرائیل کا پلان ہے کہ عام فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے اور انسانی ضرورتوں کے سامان بھی فلسطین نہ پہنچنے دیا جائے،تاکہ بہت سے عام شہری بھوک وپیاس سے مر جائیں۔اسپتالوں کو تباہ وبرباد کر دیا جائے،تاکہ زخمیوں اور دیگر مریضوں کا علاج نہ ہو سکے اور وہ علاج ودوا نہ ملنے کے سبب ہلاک ہو جائیں اور ان سب مشکلات کو دیکھ کر حماس ہتھیار ڈال دیے اور پھر فلسطین میں ایک کٹھ پُتلی حکومت قائم کی جائے جو امریکہ واسرائیل کی غلامی کرتی رہے۔اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر مسلسل ظلم ڈھاتا رہتا ہے۔جب کٹھ پتلی حکومت ہو گی تو وہ یہودی مظالم پر خاموش رہے گی۔
(3) اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی ہے،لیکن امریکہ کی مخالفت کے سبب اس قرار داد پر ووٹنگ نہیں ہو پا رہی ہے۔19:دسمبر کو ووٹنگ ہونے والی تھی،لیکن روزانہ تاریخ آگے بڑھا دی جا رہی ہے۔اگر امریکہ جنگ بندی کے لئے راضی ہوتا تو بحر احمر میں یمن سے مقابلہ کے لئے تیاری نہیں کرتا۔
ایسی صورت میں حماس کو اپنی جنگی حکمت عملی میں تبدیلی لانی ہو گی اور زمینی جنگ میں یہودیوں سے سخت مقابلہ آرائی کرنی ہو گی۔اسرائیلی شہروں پر راکٹ ومیزائل برسانے سے اسرائیل کا بہت کم نقصان ہوتا ہے۔اسرائیلی آئرن ڈوم بہت سے میزائل وراکٹ کو تباہ کر دیتا ہے،نیز آئرن ڈوم کا سائرن بجتے ہی یہودی بنکروں میں گھس جاتے ہیں۔میزائل وراکٹ سے چند عمارتوں کو نقصان ہوتا ہے اور بہت کم لوگ ہلاک وزخمی ہوتے ہیں۔خبر ہے کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے دو آئرن ڈوم کو بھی تباہ کر دیا ہے،لیکن دوسرے آئرن ڈوم کام کر رہے ہیں۔حماس کو چاہئے کہ یہودی فوجیوں کو کثیر تعداد میں ہلاک کرے،تاکہ یہودی فوجی بھاگ کھڑے ہوں۔اسرائیل کا سب سے مضبوط فوجی دستہ گولانی بریگیڈ غزہ پٹی سے واپس جا چکا ہے۔اس بریگیڈ پر حماس کے سخت حملے ہو رہے تھے۔یہ اسرائیل کا سب سے مضبوط فوجی دستہ ہے۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:22:دسمبر2023
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:22:دسمبر2023