Type Here to Get Search Results !

علمی مباحث میں اختلافی نوعیت

علمی مباحث میں اختلافی نوعیت
( اسلوب, آداب اور تحقیقی ذمہ داریاں )
 ازقلم : ڈاکٹرمفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی 
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا والقضا میراروڈ ممبئی
اختلاف رائے انسانی فطرت کا لازمی حصہ ہے ، خصوصاً علمی و فکری میدان میں جہاں نصوص کے فہم ، دلائل کے ترجیحی پہلو اور استنباط کے طریقوں میں تنوع پایا جاتا ہے ۔ اسلامی علمی روایت اس امر کی شاہد ہے کہ اختلاف نہ صرف رہا ہے بلکہ اسے علم کی وسعت اور فکری بالیدگی کا سبب بھی سمجھا گیا ہے ، بشرطیکہ یہ اختلاف علمی حدود ، اخلاقی اقدار اور تحقیقی دیانت کے دائرے میں ہو ۔ افسوس ! کہ عصرِ حاضر میں علمی اختلاف اکثر شخصی عناد ، لعن و طعن اور دل آزاری کا روپ دھار لیتا ہے ، جو نہ صرف علمی ماحول کو مسموم کرتا ہے بلکہ دین و علم دونوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے ۔
 *اختلاف و انتشار میں فرق* : محققین نے واضح کیا ہے کہ ہر اختلاف ، نزاع یا فساد نہیں ہوتا ۔
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اختلاف اگر اصول کے تحت ہو تو رحمت ہے ، اور اگر نفس و خواہش کے تحت ہو تو زحمت۔
            (الاعتصام)
یعنی علمی اختلاف وہ ہے جو دلائل ، قواعد اور اصولِ استدلال پر مبنی ہو ، جبکہ ذاتی اختلاف وہ ہے جو انا ، تعصب اور گروہی وابستگی سے جنم لیتا ہے ۔ اہلِ علم کا شیوہ یہ رہا ہے کہ وہ قول پر تنقید کرتے ہیں ، قائل پر حملہ نہیں کرتے ۔
 اسلاف کا اسلوبِ اختلاف:
ائمۂ سلف کے مابین فقہی ، کلامی اور تفسیری اختلافات موجود تھے ، مگر ان اختلافات میں ادب ، وقار اور متانت و سنجیدگی و خیر خواہی نمایاں تھی ۔
امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے درمیان متعدد مسائل میں اختلاف تھا ، لیکن سبھی ایک دوسرے کی علمی عظمت کے معترف تھے , ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے میں تامل نہ کرتے , ایک دوسرے کے بارے میں سوء ظن سے اجتناب کرتے - 
امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے - میری رائے درست ہے مگر اس میں خطا کا احتمال ہے ، اور مخالف کی رائے خطا ہے مگر اس میں درستگی کا احتمال ہے - 
یہ جملہ اختلافِ علمی کا سنہری اصول ہے - اسی طرح قلمی و تحریری اختلاف کے بھی کچھ بنیادی اصول ہیں , جس پر عمل ہر اہلِ قلم کے لئے لازمی و ضروری ہوتا ہے - جیسے نیت کی اصلاح - یاد رکھیں ! اہلِ علم کا جو اختلاف ہوتا ہے وہ ہمیشہ نصرتِ حق کے لیے ہوتا ہے ، نہ کہ اشخاص کو گرانے کے لیے - 
موضوع اور شخص میں فرق :
تحریر میں قول ، نظریہ یا استدلال کو ہدف بنایا جائے ، نہ کہ قائل کی نیت ، کردار یا ذاتی زندگی کو ۔
کسی عالم کے قول کو رد کرتے وقت یہ کہنا کہ یہ بات دلائل کے خلاف ہے , یہ بات علمی طور پر محلِ نظر ہے , یہ اسلوب خوب ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ شخص جاہل ہے , اس کا مقصد گمراہی پھیلانا ہے , یہ سب عالمانہ اخلاق کے منافی ہے - 
مخالف کے موقف کو صحیح طور پر نقل کرنا یہی دیانت ہے بعض اوقات اختلاف کی اصل وجہ غلط فہمی یا ناقص نقل ہوتی ہے - 
امام غزالی رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے کہ ' مخالف کے قول کو اس طرح پیش کرو کہ اگر وہ خود پڑھے تو کہے ہاں ! یہی میرا موقف ہے - یہی تحقیق کی اصل دیانت ہے اور تحریر و قلم میں دیانت ہی آپ کو محقق بناتی ہے - 
 زبان کی شگفتگی :
قرآن مجید نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون جیسے سرکش کے سامنے بھی قولِ لین کا حکم دیا ۔
تو اہلِ علم کے مابین سخت ، طنزیہ اور تحقیر آمیز زبان کس طرح جائز ہو سکتی ہے -؟ اصل میں سخت زبان حق کو بھی ناپسندیدہ بنا دیتی ہے -
 حسنِ ظن اور خیر خواہی :
اختلاف کے باوجود مخالف کے بارے میں یہ گمان رکھا جائے کہ وہ حق کا طالب ہے ، نہ کہ باطل کا داعی ۔ یہی رویہ اختلاف کو مثبت راہ بناتا ہے - 
 عصرِ حاضر میں ہماری ذمہ داری:
 آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اختلاف کو تحقیق کا ذریعہ بنایا جائے , قلم کو زخم دینے کے بجائے روشنی پھیلانے کا وسیلہ بنایا جائے , اختلافی تحریروں میں علمی حوالہ ، اصولی استدلال اور شائستہ اسلوب اختیار کیا جائے ورنہ اختلاف ، جو امت کے لیے رحمت تھا ، زحمت بن جائے گا۔
حقیقت یہی ہے کہ علمی اختلاف ناگزیر ہے ، جب اختلاف میں ادب ، دیانت ، حسنِ نیت اور شائستگی باقی رہتی ہے تو وہ علم کو زندہ رکھتا ہے ، اور جب یہ اوصاف ختم ہو جائیں تو اختلاف محض شور ، تفرقہ اور دل شکنی بن کر رہ جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے ، سننے اور قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے ، اور ہمارے قلم کو اصلاح کا ذریعہ بنائے ، نہ کہ افتراق کا ۔ آمین - بجاہ سیدالمرسلین 
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم 
ترسیل: ثنائی دارالبنات ایجوکیشنل ٹرسٹ , پوجانگر , میراروڈ ممبئی
9224455977

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area