Type Here to Get Search Results !

حضرت مفتی اعظم بہار کا اخلاق کریمانہ


حضرت مفتی اعظم بہار کا اخلاق کریمانہ
••────────••⊰❤️⊱••───────•• 
  ازقلم : حضرت مولانا مفتی محمد شاہد رضا ثنائی بچھارپوری 
  رکن اعلیٰ :- افکار اہل سنت اکیڈمی ، میراروڈ ممبئی
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
 افکار اسلام کی تر ویج و اشاعت میں اخلاقیات کا ایک بڑا کمال ہوتا ہے وہ لوگ جو اخلاقیات سے عاری ہوتے ہیں وہ کسی شعبہ میں وہ مقام نہیں حاصل کرسکتاہے جس کا وہ خود متمنی ہوتاہے انسانی عروج کامدار اخلاقیات پر ٹکا ہے اسلامی کتب میں مستقل اخلاقیات کے باب ہوتے ہیں جس سے ہمیں اس موضوع کی اہمیت کا پتا چلتا ہے یقیناً اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کو خلق عظیم کی دولت سے سرفراز فرمایا۔ ارشاد باری ہے: انک لعلیٰ خلق عظیم
 یقیناً آپ خلق عظیم کے مقام پر فائز و مرائم ہیں ۔ یہ خلق عظیم کیا ہے اللہ عزوجل کی طرف سے بندگان خدا کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے جس سے وہ ہر محاذ پر اپنی کا میابی کے جھنڈے نصب کرسکتا ہے یہی وہ خلق عظیم ہے جس کے ذریعہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے کفارو مشرکین کے دلوں کی دنیا بدل دی اور وہ کفر و شرک کے دلدل سے نکل کر اسلام کی خوشگوار وادیوں میں پناہ لینا اپنا نصیبہ سمجھا اور پھر وہ قوم جسے دنیا اَن پڑ ھ اور بدو سمجھا کرتی تھی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا ان کی زبان و بیان ، علم و حکمت ، عقل و دانائی اور طاقت و قوت کےسامنے سرنگوں ہوگئی یہ صدقہ ہے حبیب مکر م صاحب لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کو اس قوم میں پیدا فرمایا اور آپ تمام خلق خدا کی طرف نبی و رسول بناکر مبعوث کئے گئے ۔ 
امام اہل سنت رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نےحقیقت بیانی کا اظہار یوں کیا ہے ۔
  تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے 
  کسی جان منہ میں زباں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

 یہ زبان و بیان کی لطافت اور اخلاقیات کی مقناطیسیت ہی تھی کہ اسلام زمین کے کونے کونے میں پہنچ گیا اس کے لئے اصحاب نبی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اپنی جان کی قر بانیاں بھی دی ہیں جو ہمارے لئے باعث تقلید ہے کہ جب کفروشرک کی بدلیاں چھانے لگیں تو اسے کافور کرنے کے لئے جان کی قربانیاں دینی پڑے تو ہمیں چائیے کہ ہم اپنی جان کی قربانیاں دے دیں کہ یہ جان دی ہوئی اسی کی ہے ۔
  جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یوں ہےکہ حق ادانہ ہوا
 یہ چند تمہیدی کلمات تھے جو میں نے اپنے مضمون کی تقویت میں قلمبند کردی ہے ورنہ مجھے میرے استاذ گرامی قدر شیر مہاراشٹرا حضرت الحا ج الشاہ مفتی ڈاکٹر محمد علا ؤالد ین قادری رضوی دام ظلہ علینا نے مفتی اعظم بہار شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق محبوب العلما رئیس مرپا حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری دامت برکاتہم العالیہ کی شخصیت پر ایک مضمون لکھنے کا حکم دیاتھا جوحضرت مفتی اعظم بہار کے اخلاقیات پر مشتمل ہو میں نے اپنی خوش نصیبی سمجھا کہ حضرت مفتی اعظم بہار کی ذات پر چند جملے لکھ کر انہیں اپنی طرف سے خراج عقیدت پیش کروں مجھے نہیں معلوم کہ میں اس میں کتنا کا میاب ہو پاؤں گا کہ ابھی مجھے مضمون نویسی کا وہ سلیقہ نہیں جو دیگر مضامین نگار کی تحریروں میں میں نے پایا اللہ میری تحریر میں وہ جلابخشے جس کا میں متمنی ہوں ۔
 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مفتی اعظم بہار علم و فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں خصوصاً علم فقہ میں آپ کا جواب نہیں کہ ہر مسئلہ کا جواب مد لل اور مفصل دیتے ہیں ہم نےبہت سے مفتیان کرام کو دیکھا ہے کہ جب ان سے کسی سوال کے جواب میں دقت پیش آئی تو مد لل جواب تو دینے سے رہے ہاتھ سے اخلاق کا دامن بھی جاتا رہا اور اگر سائل کی طرف سے زیادہ اصرار ہوا تو انہیں جھڑک دیاگیا لیکن حضرت مفتی اعظم بہار اخلاق کے وہ دھنی شخصیت ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں آپ حسن اخلاق سے ہی کام لیتے ہیں میں انہیں جتنا جانتاہوں شاید آپ کے کسی مر یدو خلیفہ کو بھی اتنا علم نہ ہو اور اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کی کمپوزنگ کا شرف مجھ فقیر ثنائی کو ہی حاصل ہے اس لئے بھی حضرت مفتی اعظم بہار کو خوب پڑھنے کا موقع ملا اور میرے استاذ گرامی حضرت شیر مہاراشٹرا تو اپنی مخصوص مجلس میں آپ کے اخلاق کریمانہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں جس سے ہمیں انہیں جاننے کا بھرپور موقع ملا ۔اسلام و سنت کی توسیع میں ایک داعی اور مبلغ کے لئے بااخلاق اور منکسر المزاج کا ہونا انتہائی ضروری ہے جو اس دولت سے خالی ہے تو یقین جانئے کہ وہ اسلام کی توسیع میں کما حقہ وہ حق ادا نہیں کرسکے گا جس کی ذمہ داری اسے دی گئی ہے حضرت مفتی اعظم بہار کو اللہ عزوجل نے اس دولت بے بہا سے خوب نوازا ہے ۔
 ایک مرتبہ کا واقعہ ہے جسے ہم نے اپنے استا ذ گر امی قدر حضرت شیر مہا را شٹرا سے سنا کہ ایک شخص کو آپ نے اسلا م و سنت کی طرف بلایا تو وہ شخص انتہائی جری نکلا اور بر ملا یوں کہا کہ اگر پیر صاحب میرا پاؤں پکڑ کر دین کی دعوت دیں تو میں ضرور اسلام و سنت کی صحیح پیروی کے لئے خود کو پیش کردوں گا حضرت پیر صاحب مفتی اعظم بہار کے علم میں جوں ہی یہ بات آئی آپ فوراً اس شخص کے پاس حاضرآئے اور ایک مجمع عام میں شخص مذکور کا پاؤں پکڑ کر دین و سنت کی دعوت دینا شروع کردیا پھر کیا تھا وہ شخص آپ کے اس اخلاق کر یمانہ سے متأثر ہوکر ہمیشہ کے لئے خود کو پابند شرع بنالیا اور مصطفیٰ علیہ الصلوٰة والتسلیم کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لیا ۔
 یہ ہے مفتی اعظم بہار کا اخلاق کر یمانہ جو سخت سے سخت دل کو بھی اپنی طرف مائل کر لیا یہی وہ اخلاق کریمانہ ہے جس سے انسان دوسروں کے مقابل ممتاز نظر آتا ہے ۔ 
میں نے حضرت مفتی اعظم بہار کو اپنے مفاد کے لئے کبھی کسی پر غصہ کرتے نہیں دیکھا اور اگر کبھی آپ کو کسی نا گوار بات پرغصہ آگیا تو زبان کو سخت اور برے الفاظ سے محفوظ ہی رکھا ۔ آپ فرمایا کرتے ہیں کہ انسان کی اصل شناخت غصہ کے وقت ہی ہوتی ہے کہ آیا وہ اپنے مخالف پر بوقت غصہ ایسی زبان کاا ستعمال تو نہیں کیا جس سے اسے گہری تکلیف پہنچی ہو اور وہ شخص قلبی طور پر شدید زخمی ہوا ہو اگر ایسا ہوا ہے تو فوراً اپنے حریف سے معافی کا طلبگار ہونا چاہئے کہ مومن کا دل مثل کعبہ ہوتاہے ان حضرات کا بیان ہے جو آپ سے ملاقات کے لئے جایا کرتے ہیں کہ ایسا کبھی نہ ہوا ہے کہ حضرت مفتی اعظم بہار نے ہماری طرف سے سلام کا انتظار کیا ہو بلکہ جوں ہی آپ کی نظر آنے والے پر پڑتی ہے تو فوراً آپ سلام میں سبقت کرجاتے ہیں یہ عمل بھی اخلاق کا ہی حصہ ہے اگر کبھی آپ نے اپنے گھر کے خادم اور خادمہ پر غصہ کیا بھی تو بر وقت انہیں اپنی طرف سے ناراضگی کا ازالہ بھی فرمادیا ۔ یہی نہیں بلکہ آپ لوگوں کے درمیان ان کے نزاعی مسئلہ میں جب بھی فیصلہ فرمایا تو آخر میں فر یقین سے معافی کے طلبگار ہوئے اس خوف سے کہ اس فیصلہ سے فریقین میں سے کسی کو کہیں ہماری با توں سے تکلیف ہوئی ہو تو کل بروز حشر جواب دہ نہ ہونا پڑے ، آپ ہمیشہ احتیاط کا پہلو غالب رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ فراخ دل اور کشادہ ذہن ہونا چاہئے حالات کیسے بھی ہوں احکام شرع کا پاس و لحاظ بہر حال رکھنا چاہئے ۔مجھے یادہے کہ جب حضرت تاج السنہ علامہ توصیف رضا خاں بریلوی دام ظلہ علینا نے آپ کی فقاہت اور خدمت دینیہ کو دیکھتے ہوئے مفتی اعظم بہار کے لقب سے نوازا تو حاسدین کی ایک گر وہ اس کی مخالفت پر امادہ ہوگئے اس وقت آپ نے اور آپ کے خلفا ومریدین نے اسوۂ رسول کا مظاہرہ کیا اور حاسدین ہمیشہ کے لئے اپنی موت کے آغو ش میں چلے گئے اور مفتی اعظم بہار آسمان علم و فن کے ایک درخشندہ ستارہ ثابت ہوئے آج دنیا کے مختلف خطوں میں آپ کے مریدین ، معتقدین اور خلفا دین و سنت کے کام پر شب و روز مصروف بہ عمل ہیں اور آپ کا فیضان جاری و ساری ہے اور انشاء اللہ تا قیام قیامت جاری و ساری رہے گا ۔
 اہل دانش سچ ہی کہتے ہیں کہ انسان کی پہچان اس کے لباس سے نہ کرو بلکہ اس کے اچھے اخلاق سے کرو کہ ایمان کامل کی تقویت کے لئے اچھے اخلاق کا ہونا بہت ضروری ہے آج مفتی اعظم بہار جہاں اپنے بزرگوں کی دعاؤں کے طفیل اس مقام پر فائز ہیں وہیں آپ کے اچھے اخلاق کا بھی بڑا دخل ہے ۔
 حضرت مفتی اعظم بہار اپنی ایک مجلسی گفتگو میں کہتے ہیں کہ انسان اپنی ناکامی کا سہرا دو سروں پر ڈال کر ما تم کناں ہے کہ ہمیں زمانے نے اس ناکامی کی دہلیز پر لاکر کھڑ ا کیا ہوا ہے جب کہ انسان اپنی ناکامی کا ذمہ دار بھی خودہی ہوتا ہے کہ وہ حسن کردار سے جو دور ہے ۔
  اپنے کردار پہ ڈال کے پردہ اقبال ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے 
 آخر میں کسی صاحب دل کا قول نقل کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ دولت اور عہد ے انسان کو کچھ دنوں کے لئے مقامِ بلند عطا کر تے ہیں لیکن انسانیت اور حسن اخلاق انسان کو ہمیشہ بلندرکھتا ہے ۔
 حضرت مفتی اعظم بہار کہتے ہیں کہ انسان کچھ بھی پڑھ لے ، جتنا بڑا عالم ہوجائے ۔ڈگریاں جتنی حاصل کرلیں اچھے اخلاق اور اچھے کردار کے بغیر وہ بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ دینی تعلیم ہو یا دنیاوی ۔
 اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اچھے اخلا ق کےمطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔
_________(❤️)_________ 
ترسیل:- صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی ثنائی پپرادادنوی
رکن اعلیٰ : شیرمہاراشٹرا تعلیمی فاؤنڈیشن میراروڈ ممبئی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area