مسجد کے قبلہ میں بیت الخلا اور غسل خانہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟
♦•••••••••••••••••••••••••♦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مسجد کے پیچھے محراب سے دو قدم ہٹاکر بیت الخلا بنانا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی سائل:- محمد ابوالکلام خطیب وامام درہی پٹی مظفرپور بہار
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
مسجد کے باہر محراب سے کچھ دور فاصلہ پر بیت الخلا بنانا جائز ہے اور اس مسجد میں نماز بھی جائز ہے
جیسے قبر کی طرف نماز مکروہ ہے کیونکہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا مگر جب اس قبر کو چاروں طرف سے دیوار بنا دیا جائے تو اس کی طرف ہر طرح نماز جائز ہے کیونکہ یہ نماز قبر پر یا قبر کی طرف نہ رہی بلکہ ایک مکان کی دیوار کی جانب ہوئی اور اس میں حرج نہیں جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ
ان کان بین القبر والمصلی حجاب فلا تکرہ الصلواۃ یعنیں
اگر قبر اور جائے نماز کے درمیان پردہ ہوتو نماز مکروہ نہ ہوگی
اور اسی میں خلاصہ کے حوالہ سے ہے کہ
ھذا اذا لم یکن بین المصلی وھذہ المواضع حائل کا لحائط و ان کان حائطا لا تکرہ یعنی یہ اس وقت ہے جب جائے نماز اور ان مقامات کے درمیان پردہ مثلا دیوار وغیرہ حائل نہ ہو ۔اور اگر دیوار ہے تو کراہت نہیں۔
مسجد کے باہر محراب سے کچھ دور فاصلہ پر بیت الخلا بنانا جائز ہے اور اس مسجد میں نماز بھی جائز ہے
جیسے قبر کی طرف نماز مکروہ ہے کیونکہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا مگر جب اس قبر کو چاروں طرف سے دیوار بنا دیا جائے تو اس کی طرف ہر طرح نماز جائز ہے کیونکہ یہ نماز قبر پر یا قبر کی طرف نہ رہی بلکہ ایک مکان کی دیوار کی جانب ہوئی اور اس میں حرج نہیں جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ
ان کان بین القبر والمصلی حجاب فلا تکرہ الصلواۃ یعنیں
اگر قبر اور جائے نماز کے درمیان پردہ ہوتو نماز مکروہ نہ ہوگی
اور اسی میں خلاصہ کے حوالہ سے ہے کہ
ھذا اذا لم یکن بین المصلی وھذہ المواضع حائل کا لحائط و ان کان حائطا لا تکرہ یعنی یہ اس وقت ہے جب جائے نماز اور ان مقامات کے درمیان پردہ مثلا دیوار وغیرہ حائل نہ ہو ۔اور اگر دیوار ہے تو کراہت نہیں۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 8 ص 115)
اسی طرح اس بیت الخلا اور مسجد کے درمیان دیوار ہونے کی وجہ سے بیت الخلا بنانا جائز ہے اور اس مسجد میں نماز جائز ہے
لیکن خیال رہے کہ مسجدیں اسلامی شعار اور مذہبی شناخت و پہچان ہیں اور اسلامی شعار کی تعظیم و احترام شرع مطہر کو مطلوب ہے اس لئے اس بیت الخلا کو بالکل صاف ستھرا رکھنا ہوگا تاکہ مسجد کے اندر بدبو نہ آسکے کیونکہ بدبو اگر مسجد میں پہنچے تو مصلیوں اور فرشتگان الٰہیہ کی اذیت و تکلیف کا باعث بنے گا
لیکن مسجد سے دور بنانا چائیے کیونکہ
مسجد کو بو سے بچانا واجب ہے ولہذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام ۔مسجد میں دیا سلائی سکھانا حرام حتی کہ حدیث میں ارشاد ہوا
وان یمرفیہ بلحم نی
اسی طرح اس بیت الخلا اور مسجد کے درمیان دیوار ہونے کی وجہ سے بیت الخلا بنانا جائز ہے اور اس مسجد میں نماز جائز ہے
لیکن خیال رہے کہ مسجدیں اسلامی شعار اور مذہبی شناخت و پہچان ہیں اور اسلامی شعار کی تعظیم و احترام شرع مطہر کو مطلوب ہے اس لئے اس بیت الخلا کو بالکل صاف ستھرا رکھنا ہوگا تاکہ مسجد کے اندر بدبو نہ آسکے کیونکہ بدبو اگر مسجد میں پہنچے تو مصلیوں اور فرشتگان الٰہیہ کی اذیت و تکلیف کا باعث بنے گا
لیکن مسجد سے دور بنانا چائیے کیونکہ
مسجد کو بو سے بچانا واجب ہے ولہذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام ۔مسجد میں دیا سلائی سکھانا حرام حتی کہ حدیث میں ارشاد ہوا
وان یمرفیہ بلحم نی
یعنی مسجد میں کچا گوشت لے جانا جائز نہیں۔
حالانکہ کچے گوشت کی بو یعنی بدبو بہت خفیف ہے تو جہاں سے مسجد میں بو پہنچے وہاں تک ممانعت کی جائے گی (یعنی پائخانہ یا پیشاب خانہ بنانا) مسجد عام جماعت کے لئے بنائی جاتی ہے اور جماعت ہر مسلمان پر واجب ہے یہاں تک کہ ترک جماعت پر صحیح حدیث میں فرمایا ظلم ہے کفر ہے اور نفاق یہ کہ آدمی اللہ کے منادی کو پکارتا سنے اور حاضر نہ ہو حدیث شریف میں ہے کہ یعنی اگر مسجد میں جماعت کے لئے حاضر نہ ہو گے اور گھروں میں نماز پڑھو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے ایمان سے نکل جاؤگے
بایں ہمہ حدیث شریف میں ارشاد ہوا
من اکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقربن مصلانا
بایں ہمہ حدیث شریف میں ارشاد ہوا
من اکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقربن مصلانا
یعنی جو اس گندے پیڑ سے کھالے یعنی کچا پیاز یا کچا لہسن وہ ہماری مسجد کے پاس نہ آئے اور فرمایا
فان الملئکۃ تتاذی مما یتاذی منہ بنی آدمی
فان الملئکۃ تتاذی مما یتاذی منہ بنی آدمی
یعنی یہ خیال نہ کرو کہ اگر مسجد خالی ہے تو اس میں کسی بو یعنی بدبو کا داخل کرنا اس وقت جائز ہوکہ کوئی آدمی نہیں جو اس سے ایذا پائے گا ایسا نہیں بلکہ ملائکہ بھی ایذا پاتے ہیں اس سے جس سے ایذا پاتا ہے انسان ۔مسجد کو نجاست سے بچانا فرض ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید 16 ص 233)
لہذا نجاست کے پانی سے مسجد کی دیوار میں اگر اثر پہنچے تو شرعا یہ بھی حرج ہے
ان تمام عبارتوں سے واضح ہوا کہ مسجد کے باہر اتنی دوری پر پائخانہ گھر یا پیشاب خانہ بنایا جائے جس سے مسجد کے اندر خفیف بدبو بھی نہ آئے اگر قریب بنانے سے بدبو آئے تو یہ بھی ناجائز ہے
مسجد میں قبلہ کی طرف بیت الخلا بنانے کی حلت پر خاص جزیہ۔
خلاصہ و ذخیرہ و محیط کے و ہندیہ وغیرہ میں ہے
واللفظ لھاذین قال محمد آکرہ ان تکون قبلۃ المسجد الی المخرج والحمام والقبر ( الی قولہ اعنی المحیط) ھذا کلہ اذا لم یکن بین المصلی و بین ھذہ المواضع حائط او سترۃ اما اذا کان لایکرہ و بصیر الحائط فاصلا یعنی ان دونوں کی عبارت یہ ہے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں مسجد کے قبلہ کا بیت الخلا۔حمام اور قبر کی طرف ہونا مکروہ جانتا ہوں (محیط کے قول تک)
لہذا نجاست کے پانی سے مسجد کی دیوار میں اگر اثر پہنچے تو شرعا یہ بھی حرج ہے
ان تمام عبارتوں سے واضح ہوا کہ مسجد کے باہر اتنی دوری پر پائخانہ گھر یا پیشاب خانہ بنایا جائے جس سے مسجد کے اندر خفیف بدبو بھی نہ آئے اگر قریب بنانے سے بدبو آئے تو یہ بھی ناجائز ہے
مسجد میں قبلہ کی طرف بیت الخلا بنانے کی حلت پر خاص جزیہ۔
خلاصہ و ذخیرہ و محیط کے و ہندیہ وغیرہ میں ہے
واللفظ لھاذین قال محمد آکرہ ان تکون قبلۃ المسجد الی المخرج والحمام والقبر ( الی قولہ اعنی المحیط) ھذا کلہ اذا لم یکن بین المصلی و بین ھذہ المواضع حائط او سترۃ اما اذا کان لایکرہ و بصیر الحائط فاصلا یعنی ان دونوں کی عبارت یہ ہے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں مسجد کے قبلہ کا بیت الخلا۔حمام اور قبر کی طرف ہونا مکروہ جانتا ہوں (محیط کے قول تک)
یہ اس وقت ہے جب نمازی اور ان کے درمیان کوئی دیوار یا سترہ نہ ہو لیکن اگر درمیان کوئی چیز ہے تو مکروہ نہیں اب دیوار ان کے درمیان فاصلہ ہوجاے گی
(فتاوی رضویہ جلد جدید 7 ص 302 بحوالہ فتاوی ہندیہ جلد پنجم ص 320)
اس جزیہ سے یہ واضح ہے کہ مسجد کے قبلہ کی طرف بیت الخلا اور غسل خانہ بنانے کو ہمارے امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک مکروہ ہے لیکن فتویٰ اس پر ہے کہ یہ اس وقت مکروہ ہے جب دونوں کے درمیان دیوار یا سترہ نہ ہو اگر درمیان میں کوئی چیز مثلا دیوار یا سترہ ہے تو مکروہ نہیں ہے اور دوسری بات یہ بھی کہ نمازی کی نیت استقبال قبلہ ہے ۔نہ کہ بیت الخلا یا حمام اور دیوار ہونے کی وجہ سے نمازی کی نظر اس بیت الخلا پر نہ پڑے گی ۔لہذا بیت الخلا بنانا جائز ہے اور اس مسجد میں نماز بلا کراہت جائز ہے اور بہتر ہے کہ مسجد سے دور دائیں یا بائیں بنایا جائے
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
اس جزیہ سے یہ واضح ہے کہ مسجد کے قبلہ کی طرف بیت الخلا اور غسل خانہ بنانے کو ہمارے امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک مکروہ ہے لیکن فتویٰ اس پر ہے کہ یہ اس وقت مکروہ ہے جب دونوں کے درمیان دیوار یا سترہ نہ ہو اگر درمیان میں کوئی چیز مثلا دیوار یا سترہ ہے تو مکروہ نہیں ہے اور دوسری بات یہ بھی کہ نمازی کی نیت استقبال قبلہ ہے ۔نہ کہ بیت الخلا یا حمام اور دیوار ہونے کی وجہ سے نمازی کی نظر اس بیت الخلا پر نہ پڑے گی ۔لہذا بیت الخلا بنانا جائز ہے اور اس مسجد میں نماز بلا کراہت جائز ہے اور بہتر ہے کہ مسجد سے دور دائیں یا بائیں بنایا جائے
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں مفتی اعظم بہارحضرت علامہ
مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 16 جولائی 2023)
مورخہ 16 جولائی 2023)